
دار الافتاء اہل سنت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء
(1)کیاحجِ تمتع کرنے والا حج کا احرام باندھنے کے لئے آٹھ ذوالحجہ کا انتظار کرے گا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں پاکستان سے حج تمتع کرنے آیا ہوں، عمرہ کر کے احرام کھول دیا ہےاور ابھی مکہ ہی میں مقیم ہوں،معلوم یہ کرنا ہے کہ حج کا احرام باندھنے کے لئے آٹھ ذوالحجہ تک انتظار کرنا ہوگا یا اس سے پہلے بھی حج کا احرام باندھ سکتا ہوں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حجِ تمتع کرنے والا عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول کر مکہ ہی میں موجود ہو، تو اس کے لئے حج کا احرام حدودِ حرم ہی سے باندھنا ضروری ہےاورحج کا احرام آٹھ ذوالحجہ ہی کو باندھنا ضروری نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی باندھا جا سکتا ہے بلکہ جس شخص کو اطمینان ہو کہ وہ احرام کی پابندیاں نبھا لے گا، تو اب اس کے لئے آٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنا کئی اعتبار سے افضل ہے۔
اولاً: حدیثِ پاک میں فرمایا : جس کا ارادہ حج کا ہو، تو اس میں جلدی کرے اور حدیث میں تعجیل کا حکم دینا کم سے کم استحباب پر محمول ہوگا۔
ثانیاً: آٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنا بدن پر زیادہ شاق ہے کہ احرام باندھنے کے بعد ممنوعاتِ احرام سے خود کو بچانے کی خوب سعی و کوشش کی جاتی ہے اور اس میں یقیناً مشقت ہے اور حدیث میں فرمایا افضل عمل وہی ہے جس میں مشقت زیادہ ہو۔
ثالثاً: حج اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اور آٹھ تاریخ سے پہلے احرام باندھ لینے کی صورت میں عبادت کی طرف جلدی اور عبادت میں رغبت کا اظہار ہے۔
رابعاً:احرام خود ایک عبادت ہے اورآٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنے کی صورت میں جتنے دن پہلے احرام باندھا جائے اتنے ہی دن ایامِ عبادت میں گزریں گے۔
سننِ ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”من أراد الحج فليتعجل “یعنی جس کا ارادہ حج کا ہو، تو وہ اس میں جلدی کرے۔
(ابو داؤد،ص226، حدیث: 1332- الجوھرۃ النیرۃ، 1/396- البنایۃ شرح الھدایۃ، 4/212-فتاوی رضویہ،10/743، 744)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احرام کس میقات سے باندھا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجو عمرے یا حج فرمایا تھا، توکس میقات سےاحرام باندھا تھا ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہجرت کے بعد ایک حج اور چار عمروں کا احرام باندھا۔ تین عمروں کے احرام کی نیت تو علیحدہ سے کی تھی، اور حج کے موقع پر چونکہ حج قران کرتے ہوئے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، تو یوں کل ایک حج اور چار عمروں کے احرام کی نیت فرمائی۔
البتہ جن تین مواقع پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صرف عمرے کے احرام کی نیت فرمائی ان میں سے ایک موقع ایسا تھا جس میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عمرے کا احرام تو باندھ لیا تھا، لیکن کفارِ مکہ کے روکنے کی وجہ سے صلح حدیبیہ والا معاہدہ طے پایا، اور اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عمرہ ادا کیے بغیر احرام کھول دیا۔ اور معاہدے کے موافق آئندہ سال اس عمرے کی قضا فرمائی۔ حدیبیہ والے سال اگر چہ عمرہ ادا نہیں ہوا لیکن چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمرے کی نیت فرما چکے تھے اور نیت پر ثواب حاصل ہوجاتا ہے، لہٰذا اس اعتبار سے اسے بھی ایک عمرہ شمار کرکے، احادیث و اقوال صحابہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمروں کی تعداد چار بیان کی گئی ہے۔ یعنی چار عمروں میں سے یہ عمرہ، حکمی عمرہ ہے، باقی تین عمرے حقیقی عمرے ہیں۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حج اور حج والے عمرے سمیت تین عمروں کے احرام کی نیت مدینہ شریف کی میقات یعنی ذو الحلیفہ سے کی، جبکہ ایک عمرہ کے احرام کی نیت جعرانہ کے مقام سے فرمائی۔
(بخاری،2/597-بخاری،1/208)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کی تو اب کس طرح کی بکری صدقہ کرنا ہوگی؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی پر قربانی لازم تھی اور اس نے نہ کی یہاں تک کہ قربانی کے ایام گزر گئے تو اب بعض فتاویٰ میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ”ایک متوسط بکری کی قیمت صدقہ کریں گے“ جبکہ بعض میں یہ ہوتا کہ ہے ایک بکری کی قیمت صدقہ کریں گے تو سوال یہ ہے کہ کیا متوسط بکری کی قیمت ادا کرنے سے ہی واجب ادا ہوگا یا کوئی سی بھی ایسی بکری جو قربانی کے لائق ہو،اس کی قیمت ادا کردیں اگرچہ وہ متوسط سے کم درجے کی ہو تو واجب ادا ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس پرقربانی کرنا لازم تھا اور قربانی نہیں کی تو اب اس پر بکری کی قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہےکس طرح کی بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے؟اس بارے میں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ چاہے تو ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے جو قربانی کے لائق ہو اور چاہے تو متوسط درجے کی بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ واجب دونوں سے ہی ادا ہوجائے گا، متوسط درجے کی بکری کی قیمت لازمی نہیں ہے، قربانی کے لائق بکری کی قیمت صدقہ کرنا بھی کفایت کرے گا۔امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ اور صاحب بہار شریعت صدرالشریعہ علامہ مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ نے بھی متوسط کی قید کے بغیر ہی اس مسئلے کو ذکرفرمایا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اوسط بکری کی قیمت زیادہ ہوگی کفایت والی بکری سے، لہٰذا اوسط کو اختیار کرنا زیادہ اچھا ہے۔بلکہ اوسط سے بڑھ کر کوئی مزید اچھی بکری کی قیمت صدقہ کرے تو مزید بہتر ہےکہ اللہ کی رضا کے لئے صدقہ میں بہتر سے بہتر چیز کا انتخاب عمدہ نیکی ہے۔
(ردالمحتار،9/533- منحۃ الخالق، 4/126- فتاوی رضویہ،20/361-بہارشریعت،3/338)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments