
کلاس روم
عید کے اخروٹ
*مولانا حیدر علی مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
آج اسکول میں بچوں کا آخری دن تھا کیونکہ کل سے عید الفطر کی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں، اسی لئے معمول کے خلاف آج بچوں کے چہروں پر صبح صبح اسکول آنے کی پریشانی کے بجائے خوشی و مسرت چمک رہی تھی، سر بلال اپنا پہلا پیریڈ لینے کے لئے کلاس روم میں داخل ہوئے تو سبھی بچوں نے جوش و خروش سے استقبال کرتے ہوئے سلام کیا۔ درود شریف پڑھنے کے بعد سبھی بچے بیٹھ گئے تو معاویہ رضا کھڑے ہو کر بولے: سر جی! بچے کہہ رہے ہیں آج اسکول میں آخری دن ہے تو Lesson revision کے بجائے ہمیں اچھی باتیں بتا دیں۔
اچھا یعنی سبق میں اچھی باتیں نہیں ہوتیں؟ سر بلال نے مسکراتے ہوئے کہا تو معاویہ جھینپ کر بولے: نہیں سر! ہمارا مطلب تھا سبق کے علاوہ کچھ اور اچھی باتیں۔
سر بلال: ٹھیک ٹھیک میں سمجھ گیا تھا، عید کی تیاریاں کیسی ہیں آپ بچوں کی؟ کیا کیا گولز بنا رکھے ہیں آپ نے عید کے حوالے سے؟
اسید رضا: سر میرے تو کپڑے ابھی تک ٹیلر شاپ سے سلائی ہو کر نہیں آئے۔
ریحان: سر !اسی لئے میرے امی ابو نے ریڈی میڈ شلوار کرتا لیا ہے میرے لئے۔
نعمان: سر جی! ہم نے تو عید کے پہلے دن نانی اماں کے گھر جانا ہوتا ہے، اس بار بھی اسی کی تیاری ہو چکی ہے۔
سر بلال: ماشاء اللہ بچو! آپ تو ساری تیاریاں کئے بیٹھے ہیں بہت اچھی بات ہے، آپ کو پتا ہے دنیا میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنی خوشیوں کی تقریبات مختلف انداز سے مناتے ہیں لیکن اسلام نے جو ہمیں خوشی منانے کا سالانہ موقع دیا ہے وہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں نہ صرف خوشیاں منانے کا پیغام ہے بلکہ خوشیاں بانٹنے کا بھی پیغام ہے جبکہ میں دیکھ رہا ہوں آپ بچوں کی عید کی تیاری میں خوشیاں منانا تو شامل ہے لیکن خوشیاں بانٹنے کی طرف دھیان ہی نہیں ہے۔
معاویہ رضا: سر ہم خوشیاں کیسے بانٹ سکتے ہیں؟
سر بلال: ارے بھئی! خوشیاں بانٹنا کون سا مشکل ہے، عید کی سویاں پڑوسیوں کی طرف بھیج دیں، کسی ضرورت مند کی مدد کر دیں، آئیں آپ کو ایک بہت بڑے بزرگ کا واقعہ سناتا ہوں: حضرت سَری سَقطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ دوسری صدی ہجری کے عظیم بزرگ تھے آپ نمازِ عید کے بعد واپس لوٹ رہے تھے توایک بزرگ کو دیکھا جو روتے ہوئے بچے کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے، حضرت سری سقطی نے ان سے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی تو بزرگ کہنے لگے: میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا لیکن یہ بچہ ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ان بچو ں کے ساتھ نہ کھیلنے کی وجہ سے اس کا دل ٹوٹ گیاہے ۔میں نے بچے سے پوچھا تو اس نے بتایا: میں یتیم ہوں ، میرا باپ انتقال کر گیاہے، میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ میں اَخروٹ خرید کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں ۔
حضرت سری نے بزرگ سے اجازت لے کر بچے کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر بازار چلے گئے پہلے تو نئے کپڑے دلوائے پھر کھیلنے کے لئے اخروٹ خرید کر دئیے اور پھر کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس اسے چھوڑ آئے ۔
جب بچے کھیل کود سے تھک ہار کے گھروں کو چلے گئے تو وہی بچہ حضرت سری سقطی کے پاس دوبارہ آیا تو انہوں نے پوچھا: بتاؤبیٹا! عید کا دن کیسا گزرا؟
بچہ کہنے لگا: اے میرے محترم! آپ نے مجھے اچھے کپڑے پہنائے، مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیا، میرے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دیا، اللہ پاک آپ کا راستہ کھول دے۔
(الروض الفائق،ص185 )
بچے کی بات سن کر حضرت سیدنا سری سقطی کو اتنی زیادہ خوشی ہوئی کہ آپ فرماتے ہیں کہ میری عید کی خوشیاں دوبالا ہو گئیں۔ تو بچو! اس عید پر خوشیاں منائیں ہی نہیں بلکہ بانٹیں بھی اس سے آپ کی ہی خوشیاں دوبالا ہو جائیں گی ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی
Comments