
آخری نبی کا پیارا معجزہ
دانت سلامت رہے
* مولانا سید عمران اختر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
حضرت بُجَیر بن بَجْرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں اس لشکر میں تھا جس پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو لیڈر بنا کر دُومَۃُ الجَنْدَل([1])کے عیسائی حکمران اُکَیْدِرْ بن عبد الملک کی گرفتاری کے لئے روانہ کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا تھا کہ اُکیدر کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہو تو اسے قتل مت کرنا بلکہ میرے سامنے پیش کرنا، یہ کوئی میدانی مقابلہ تو تھا نہیں جہاں سَیْفُ اللہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جیسے ماہر سپہ سالار نے اپنی تلوار اور جنگی تدبیر کے جوہر دکھانے تھے بلکہ بڑے شہر کے بیچوں بیچ سے وہاں کے بادشاہ کو اس کے محل سے گرفتار کرنا تھا جو آسان کام نہیں کچھ اسی طرح کی تشویش حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہوئی تو انہوں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے اس تشویش کا اظہار کیا، غیبوں پر خبردار، دوعالَم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ فرما کر ان کی الجھن دور کردی کہ تم اسے گائے کا شکار کرتے پاؤ گے تو اسے پکڑ لینا،چنانچہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ چل دئیے اور وہاں پہنچ کر اُکیدر کے قلعے پر نظر رکھنے لگے، وہ چاندنی رات تھی، قلعہ تک کا سارا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا، خدا کی قدرت دیکھئے کہ اچانک ایک گائے کہیں سے آپہنچی اور قلعہ کے دروازے سے اپنے سینگ رگڑ نے لگی، اس وقت اکید ر اپنی زوجہ کے ساتھ قلعہ کی فصیل پر موجود تھا اس کی زوجہ نے اوپر سے گائے کو دیکھ لیا اور اُکیدر کو بتادیا، وہ اپنے بھائی حسان اور غلاموں کے ساتھ فوری طور پر گائے کا شکار کرنے کے لئے باہر آگیا، حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تو پہلے ہی اس وقت کی تاک میں تھے، چنانچہ آپ نے اپنے لشکر کے ساتھ فوراً انہیں گھیر لیا، اُس کا بھائی آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے کام میں رکاوٹ بنا اور مقابلہ کرنے لگا تو مارا گیا، البتہ اُکیدر کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم کے مطابق زندہ پکڑ کر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت بجیر بن بجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس رات بڑی حیرت ہوئی تھی کہ کس طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بات حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ اچانک محل کے پاس گائے آنکلی اور پھر اس کے شکار کے لئے اُکیدر کو باہر آنا پڑا چنانچہ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس پہنچے تو حضرت بجیر بن بجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تعریف میں یہ شعر پیش کیا:
تَبَارَکَ سَائِقُ الْبَقَرَاتِ اِنِّیْ
رَاَیْتُ اللہ یَہْدِی کُلَّ ھَاد
فَمَنْ یَکُ عَائِدًا عَنْ ذِیْ تَبُوْک
فَاِنَّا قَدْ اُمِرْنَا بِالْجِہَاد
ترجمہ:اللہ پاک بابرکت ہے جو گایوں کو چلانے والا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ اللہ پاک ہدایت دینے والوں کی راہنمائی فرماتا ہے۔(یعنی چونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کی ہدایت فرماتے ہیں تو اللہ پاک غیبی باتیں بتا کر آپ کی راہنمائی فرماتاہے)
جب ہمیں جہاد کا حکم مل گیا تو بھلا کون تبوک سے واپس جا سکتا ہے۔
نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (اشعار سے خوش ہوکر) فرمایا: لَا يَفْضُض اللهُ فَاكَ یعنی اللہ پاک تمہارے دانت سلامت رکھے، دعائے نبوی کی معجزانہ شان دیکھئے کہ عمر کے نوے سال گزرنے کے باوجود ان کی کوئی داڑھ یا دانت گرنا تو دور کی بات ہلا بھی نہیں۔([2])
اسی طرح کا معاملہ ایک اور صحابی حضرت نابغہ جَعْدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ بھی پیش آیا، انہوں نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں نعتِ مصطفےٰ پر مشتمل اشعار سُنائے تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اشعار کی تعریف فرماتے ہوئے انہیں بھی دانتوں کے سلامت رہنے کی دعا دی چنانچہ انہیں بھی دعائے نبوی کی برکتوں سے خوب حصہ ملا، راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نابغہ جعدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ ان کے دانت تمام لوگوں میں خوبصورت ترین تھے، اگر ان کا کوئی دانت گر بھی جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نکل آتا تھا حالانکہ ان کی عمر اچھی خاصی تھی۔ ایک روایت میں ہے دعائے نبوی کی برکت سے حضرت نابغہ ایک سو بیس سال تک زندہ رہے مگر نہ کوئی دانت گرا اور نہ ہلا، ان کے دانت برف کے اولوں کی مانند روشن و چمکدار تھے۔([3])
ان واقعات میں حضرت بُجَیر بن بَجْرہ اور حضرت نابغہ رضی اللہ عنہما کے دانتوں کا بڑھاپے میں بھی مضبوط و برقرار رہنا حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حیرت انگیز معجزہ ہے، اتنی عمر میں عموماً دانت گر ہی جاتے ہیں اور اگر کچھ باقی بھی رہیں تو بہت کمزور اور میلے کچیلے ہوتے ہیں لہٰذا 90 بلکہ 120 سال کی عمر میں بھی تمام دانتوں کا مضبوط، خوبصورت اور چمک دار رہنا واقعی حیرتناک ہے۔ معجزۂ نبوی والے ان واقعات میں چند باتیں سبق آموز ہیں:
٭بزرگ اگر کسی کام کا کہیں تو اگرچہ وہ کام مشکل ہو مگر سعادت سمجھ کر جی جان سے قبول کرنا چاہئے۔
٭مشکلوں سے گھبرا جانا بزدلی جبکہ مشکلوں کا سامنا کرنا بہادری ہے۔
٭کسی کی طرف سے دئیے جانے والے کسی اہم کام کی ذمہ داری قبول کرتے وقت اس کام میں کوئی مشکل یا الجھن محسوس ہو تو اسی وقت کام سونپنے والے سے اپنی الجھن بیان کردینی چاہئے تاکہ وہ الجھن دور کردے یا کام کسی اور کو سونپنا چاہے تو اسے سونپ دے۔
٭جب بھی کسی کا کوئی کام اپنے ذمہ لیں تو کام دینے والے کی خصوصی ہدایات و تجاویز اور اس کی مرضی کے مطابق ہی کام پورا کریں۔
٭حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف و نعت پڑھنا صحابۂ کرام کا معمول رہا ہے۔
٭کسی کی اچھی بات کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا ادائے مصطفےٰ ہے۔
٭اگر کوئی ہماری جائز تعریف کرے تو ہمیں شکریہ کے طور پر اسے دُعا دینی چاہئے ۔
اللہ پاک کی عطا سے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم علمِ غیب جانتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments