مَکہ مکرمہ کی تاریخ و خصائص

تاریخ    کے اوراق

مکہ مکرمہ  کی تاریخ و خصائص

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025

مکۂ معظمہ كو جہاں بیتُ  اللہ شریف یعنی خانہ کعبہ سے نسبت ہے وہیں اسے محبوبِ ربّ العزّت  صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کے کثیر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی ولادت گاہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، مکہ  مکرمہ کے کچھ فضائل کا ذکر گذشتہ ماہ کے مضمون میں ہوا، یہاں مکۃ المکرمہ کا کچھ تاریخی اور جغرافیائی    جائزہ اور  اہم خصائص کا ذکر کیا جاتاہے:

تاریخ کے اعتبار سے مکّۂ مکرمہ بہت قدیم ہے، امام فخرالدّین رازی’’تفسیر کبیر‘‘میں فرماتے ہیں: خالقِ کائنات نے مکّہ ٔمکرمہ کی سرزمین باقی زمین سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمائی اور اس کے چار رکن یعنی ستون ساتویں زمین تک گہرائی میں رکھے۔ ([1])

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی  اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’ اللہ پاک نے ہر چیز کی پیدائش سے پہلے پانی پیدا فرمایا اور پانی کو ہوا پر ٹھہرایا۔ پانی سے بخارات اُڑتے رہتے تھے۔“حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ’’  اللہ نے ہوا بھیجی، جس سے پانی میں ہل چل ہوئی۔ اس حرکت سے  اللہ پاک نے بیتُ  اللہ والی جگہ پر ایک ٹیلہ پیدا فرما دیا اور وہاں فرشتوں نے بیتُ المعمور کی سیدھ میں بیتُ  اللہ شریف کی تعمیر کی۔([2])

نام اور محل وقوع: قراٰن و حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں مکہ مکرمہ کے  کثیر نام بیان ہوئے ہیں اور کسی بھی چیز کے معظم ناموں کی کثرت اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ چند مشہور نام یہ ہیں: مكہ،بكہ،اُمُّ القُرٰى،مَعَاد،البلد،اَلْبَلَدُ الْاَمِیْن۔

مکۃ المکرمہ مشرق میں ”جبل ابوقُبَیْس“ اورمغرب میں ”جبلِ قُعَیْقِعَان“ دوبڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اوراس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اورر یتلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیاہے۔([3])

مکہ کیسے آباد ہوا؟:مکہ مکرمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں سے آباد ہوا۔جب حضرت اسماعیل علیہ السلام  کی ولادت ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  اللہ پاک کا حکم پاکر حضرت اسماعیل علیہ السلام  اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی  اللہ عنہا کو اُس جگہ چھوڑ آئے جہاں اب مکہ مکرمہ ہے۔ حضرت ہاجرہ نے اس سنسان جگہ پر چھوڑ جانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: یہ  اللہ پاک کا حکم ہے۔ حضرت ہاجرہ اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ یہیں رہتی رہیں جب مشکیزے کا پانی ختم ہوا تو پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے سات چکر لگائے اسی دوران  اللہ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام  کی ایڑی کے قریب پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا جس سے ماں بیٹے کا گزر بسر ہونے لگا۔ قبیلہ جُرْہُم کے لوگ قریب سے گزرے انہوں نے پانی کا چشمہ دیکھا تو وہ بھی یہیں آباد ہوگئے۔ یوں مکہ مکرمہ میں آبادی ہوگئی۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام  بالغ ہوئے تو قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہوگیا۔

تعمیرِخانہ کعبہ: حضرت ابراہیم حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام  کو غیر آباد جگہ پر چھوڑنے کے بعد وقتاً فوقتاً خبرلینے کے لئے تشریف لاتے رہے،جب تیسری بار تشریف لائے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام  سے ملاقات ہوئی تو ان سے فرمایا: اے اسماعیل!  تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں۔ بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے فرمایا: رب نے مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام  نے عرض کیا کہ میں اس کے لئے تیار ہوں۔ پھر دونوں باپ بیٹے نے تعمیرِ کعبہ کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام  دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام  انہیں پتھر لالاکر دیتے تھے۔([4])

چونکہ قومِ نوح پر عذاب آنے کے بعد خانہ کعبہ کے آثار بھی غائب ہوگئے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے نئے سرے سے تعمیر فرمائی۔

مکہ میں دعائے ابراہیمی کے اثرات:حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام  نے اپنی آل کو مکہ شریف میں ٹھہراتے وقت اور تعمیر ِکعبہ کے دوران کچھ دعائیں کیں، جن میں یہ دعائیں بھی شامل تھیں:

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں  ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب  اور پختہ علم سکھائے  اور انہیں خوب ستھرا فرمادے  بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔([5])

(رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ(۳۷) )

ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ اے میرے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں  کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں  پھلوں  سے رزق عطا فرماتاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں۔([6])

ان دعاؤں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے  اللہ پاک کی بارگاہ سےتین چیزیں طلب کیں۔ایک یہ کہ ”یارب! اپنے ان یعنی اہلِ مکہ میں ایک  رسول کو مبعوث فرما“،  دوسری یہ کہ ”لوگوں کے دل اولادِ ابراہیم کی طرف مائل ہوں“ اور تیسری یہ کہ اولادِ ابراہیم کو پھلوں کی روزی خوب ملے۔

 اللہ پاک نے یہ تینوں دعائیں ایسی قبول فرمائیں کہ اہلِ مکہ کو اپنا پیارا محبوب، آخری نبی محمدِ عربی صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عطا فرمایا، حضورِ اکرم صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بھی فرمان ہے کہ ” اَنَا دَعْوَةُ اَبِى اِبْرَاهِيْمَ“ یعنی میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دُعا (کا ثمر)  ہوں۔([7])

لوگوں کے دل مکہ کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ آج کروڑوں مسلمان مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے رات دن تڑپتے ہیں اور طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔

 تیسری دعا کی قبولیت ایسی ظاہر ہوئی کہ مکۂ مکرمہ کے بازاروں میں نہ صرف موسمی پھلوں اور سبزیوں کی کثرت ہے بلکہ بے موسمی اور غیرعلاقائی پھلوں اور سبزیوں کی بھی بہتات ہے، بلکہ دنیا کا ہر پھل یہاں دستیاب ہے۔ زائرین  مکہ و مدینہ کی ایک تعداد تو ان پھلوں کی خوبصورتی، ذائقے اور سائز دیکھ کر ہی حیران ہوجاتی ہے۔

تعمیرِ خانہ کعبہ کا مختصر تاریخی جائزہ: شارح بخاری علّامہ  احمد بن محمد قَسْطَلانی رحمۃُ  اللہ علیہ نےتعمیرِ خانہ کعبہ کی تاریخی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ خانہ ٔ کعبہ کی تعمیر 10 مرتبہ ہوئی۔([8]) پہلی تعمیر فِرِشتوں نےکی، دوسری تعمیر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام  نے،تیسری تعمیر حضرت شیث علیہ السلام  نے، چوتھی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے، پانچویں تعمیر قوم عمالقہ نے، چھٹی تعمیر قبیلہ جُرْہُم نے، ساتویں تعمیر حضرت قُصَی بن کِلاب نے، آٹھویں تعمیر مکۂ مُکرّمہ کے معزز قبیلے قریش نے، نویں تعمیر حضرت عبد اللہ  بن زبیر رضی  اللہ  عنہما نے حطیم کو شامل کر کے بنیادِ ابراہیمی پر نئے سِرے سے تعمیر کی، دسویں تعمیر حَجّاج بن یوسف(جو کہ ایک ظالم حکمران تھا) نے کی۔

مکہ مکرمہ کے خصائص: (1)(کعبہ شریف )سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اس کی طرف نماز پڑھی (2)(کعبہ)تمام لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا جبکہ بیتُ المقدس مخصو ص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا (3) کعبہ شریف  کا حج فرض کیا گیا (4)حج ہمیشہ صرف کعبے کا ہوا، بیتُ المقدس قبلہ ضرور رہا ہے، لیکن کبھی اس کا حج نہ ہوا (5)کعبہ شریف کو امن کا مقام قرار دیا گیا ہے(6)کعبہ شریف میں بہت سی نشانیاں رکھی گئیں جن میں ایک مقامِ ابراہیم ہے(7)پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتےاور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے  آتے ہیں تو اِدھر اُدھر ہٹ جاتے ہیں (8)جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں، اِسی سے اُنہیں شِفا ہوتی ہے(9)وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں اِیذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کُتّے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے (10)لوگوں کے دل کعبۂ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں(11)ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں۔([9])

مکہ میں دعا قبول ہونے کے مقامات:(1)مَطاف(2) مُلتَزَم (3)مستجار(4)بیتُ  اللہ کے اَندر(5)میزابِ رَحمت کے نیچے (6)حطیم(7)حَجرِاَسوَد(8)رُکنِ یَمانی خصوصاً جب دَورانِ طواف وہاں سے گزر ہو(9)مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے (10)زَم زَم کے کنویں کے قریب(11)صَفا (12)مروہ (13)مسعی خصوصاً سبز میلوں کے درمیان(14)عَرَفات خصوصاً موقِفِ نبیِّ پاک صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک (15)مزدلفہ خصوصاً مشعرُ الحرام (16)مِنٰی۔([10])

مکہ ٔ مکرمہ کے اہم تاریخی واقعات:مکہ مکرمہ کی تاریخ، اسلامی دنیا کی سب سے اہم تاریخوں میں شامل ہے، اور یہاں کئی اہم اور تاریخی واقعات پیش آئے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے تاریخی واقعات میں کچھ اہم واقعات یہ ہیں:(1)واقعہ عامُ الفیل: یمن کا ایک عیسائی بادشاہ تھا جس نے کعبہ پر حملہ کرنے کے لئے ہاتھیوں کی فوج بھیجی لیکن  اللہ نے لشکر کو ہاتھیوں سمیت تباہ کردیا۔(2) ولادتِ مصطفےٰ: نبیِّ پاک صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت 12 ربیع الاول کو مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ یومِ ولادتِ مصطفےٰ اسلامی دنیا کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آپ صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت سے ہی انسانیت کو ہدایت کا نور عطا ہوا۔ (3)وحی کا آغاز:نبیِّ پاک صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پہلی وحی غارِ حراء (جبل النور) میں نازل ہوئی۔ یہ مکہ کی تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے۔(4) مکہ سے مدینہ ہجرت: جب مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ ہوگئی اور قریش کی جانب سے ظلم و ستم بڑھ گئے تو  اللہ کے حکم سے ہجرت کا آغاز ہوا۔ (5) صلح حدیبیہ:6 ہجری میں نبیِّ پاک صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قریش کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔(6)فتحِ مکہ:8 ہجری  میں رسولِ کریم صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قیادت میں مسلمانوں نے مکۂ مکرمہ کو فتح کیا۔

مکۂ مکرمہ کے اہم مقامات:مکۂ مکرمہ، اسلامی دنیا کا سب سے اہم اور مقدس شہر ہے، اور یہاں متعدد تاریخی مقامات ہیں جو مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔(1) کعبہ: کعبہ اسلام کے مقدس ترین مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ (2) مسجد الحرام: یہ مکہ مکرمہ کا مرکزی مقام ہے، اور یہاں کعبہ واقع ہے۔ (3)مقام ابراہیم:یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام  کعبہ کی تعمیر کے دوران کھڑے ہوئے۔(4) جبلِ نور:یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر موجود حرا نامی مشہور غار میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ (5)میدانِ عرفات:یہ مکۂ مکرمہ سے کچھ دوری پر واقع ایک میدان ہے۔ (6)مِنیٰ: یہ وہ مقام ہے جہاں رمی جمار کے عمل کے دوران لوگ جمع ہوتے ہیں۔ (7)چشمہ زم زم: یہ کعبہ کے قریب ایک مقدس چشمہ ہے جس سے  حضرت اسماعیل علیہ السلام  اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی  اللہ عنہا کی بہت یادیں وابستہ ہیں۔ (8)مسجد قبا:یہ مکۂ مکرمہ کے قریب واقع ہے جس کو تاریخ میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ (9) جبلِ ثور:یہ وہ پہاڑ ہے جہاں آقا کریم صلَّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی  اللہ عنہ نےسفرِ ہجرت میں آرام فرمایا تھا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])تفسیر کبیر،پ4، اٰل عمرٰن،تحت الآیۃ:96، 3/296

([2])مصنّف عبدالرّزاق،5/90،حدیث:9089

([3])معجم البلدان،1/74،تحفۃ النظار فی غرائب الامصار،ص95

([4])دیکھئے: بخاری،2/427، حدیث:3365

([5])پ1،البقرۃ:129

([6])پ13،ابراہیم:37

([7])طبقات ابن سعد،1/118

([8])ارشاد الساری، 4/103 تحت الحدیث: 1582

([9])صراط الجنان،2/16،15 ملتقطاً

([10])فضائلِ دعا،ص128 تا 138


Share