سیرت امیر اہل سنت
با اثر شخصیت کی پُر کشش تحریریں
*مولانا عبداللہ نعیم عطّاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025
تحریر کی اہمیت:
اِنسان کے لئے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے دو طریقے صدیوں سے مقبول رہے ہیں، ایک بیان اور دوسرا تحریر۔ بیان کی اہمیت اپنی جگہ مسلَّم ہے لیکن اس سے براہِ راست فائدہ اٹھانے والے تھوڑے ہوتے ہیں کہ بیان کرنے والے کی زبان سے ادا ہونے کے بعد اس کے کلمات فضا میں بکھر جاتے ہیں، جس نے سنا اس نے سنا اور جو نہ سن سکا وہ محروم رہا! جبکہ تحریر کے فوائد کثیر اور فائدہ اٹھانے والے بہت زیادہ ہیں کہ لکھنے والے کے قلم سے جو لفظ ایک بار لکھا جاتا ہے وہ صدیوں کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے، جو چاہے جب چاہے اس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے، بلکہ یوں کہئے کہ مصنف اپنی کتاب کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور زمانے کو مسلسل فوائد پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
یوں تو قلم و کاغذ کی اہمیت ہر زمان و زبان میں ہمیشہ ہی مانی گئی ہے، لیکن بعض اہلِ قلم کے شہ پارے اپنی مثل آپ ہوتے ہیں ان کا کوئی ثانی ہوتا ہے نہ کوئی مقابل، ان کے قلم کے ذریعے منظر پر آنے والا ایک ایک لفظ اور جملہ دامنِ ادب میں کسی بوٹے سے کم نہیں ہوتا! یہ اپنے نوکِ قلم کے لئے جس کلمے کا انتخاب کرلیں وہ زبان زدِ خاص و عام ہوجاتا ہے، ان کا اسلوبِ کلام ایسا دل پزیر ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ ذوق اَش اَش کر اٹھتا ہے، اگر کوئی کم پڑھا لکھا شخص بھی ان کی تحریر پڑھے تو بات سمجھنے کے ساتھ ساتھ ذوقِ مطالعہ سے لبریز ہوجاتا ہےاور کتب بینی اس کے مشاغل کا حصہ بن جاتی ہے گویا ان صاحبانِ قلم و قِرطاس کی تحریر ”بس ایک تحریر“ نہیں بلکہ ادب کا سرچشمہ، علم کا نور، تنہائی کی ساتھی اور دلوں کو جِلا بخشنے والی ہوتی ہے اور جب ان تمام تر کمالات سے مُزیَّن ہونے کے ساتھ ساتھ صاحِبِ تحریر زہد و تقویٰ کے حُسْن سے مُزیَّن، مُصلحِ قوم اور عاشِقِ رسول بھی ہو تو اس کی تحریر میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
تحریر کا فن:
شیخِ طریقت،امیرِ اہلِ سنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رَضَوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ایسی ہی عظیمُ الشّان اور صاحِبِ قلم شخصیت کے مالک ہیں، آپ کی تحریر قیمتی مدنی پھولوں پر مشتمل ہوتی ہے جو قارئین کے لئے جاذبیت کے ساتھ ساتھ حکمت کا سرچشمہ ثابت ہوتی ہے، آپ کا اُسلوبِ تحریر اتنا سادہ اور سَہل ہوتا ہے کہ مشکل سے مشکل بات بھی ایسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر بیان فرماتے ہیں کہ کم پڑھا لکھا شخص بھی موضوع سے واقفیت کے ساتھ ساتھ بیان کردہ امور کو سمجھنے میں دِقَّت محسوس نہیں کرتا، آپ کے بیان کردہ ادبی الفاظ کو قبولِ عام حاصل ہوجاتا ہے، آپ کی تحریر میں جا بجا ایسے جملے ہوتے ہیں جو قاری کے دماغ میں جھما کا لگادیں اور بیان کردہ ہدایات پر عمل کے لئے اُبھاریں، آپ کی تحریر میں ایسی بے پایاں سلاست وروانی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا، آپ کی تحریر میں موقع کی مناسبت سے اشعار کا ذِکْر اس طرز پر ہوتا ہے کہ ماقبل کا مفہوم چند مصرعوں میں قاری کے ذہن نشین ہوجاتا ہے، آپ کی تحریر خوفِ خدا، عشقِ مصطفےٰ اور بزرگانِ دین کے ساتھ اِرادت مندی کا لاجواب سَنگم ہوتی ہے۔
اردو کو نیا پیراہن مل گیا!
امیرِ اہلِ سنّت کی تحریر کا میدان اردو زبان ہے جس کی شائستگی، شوکَتِ الفاظ اور مضامین کی چاشنی اپنی مثال آپ ہے لیکن جب اس کی ادائیگی و الفاظ کو آپ کے لہجے کا پیراہن نصیب ہوا تو اردو کا یہ چہرہ نئی انگ کے ساتھ جلوہ افروز ہوا جس کی تابانیوں سے عوام کے ساتھ ساتھ خواص نے بھی روشنی حاصل کی۔ عام طور پر صاحبانِ قلم اپنی قلم کاری و نثر نگاری کے ذریعے کسی بھی مضمون، کہانی، خط یا داستان کو اپنی علمیت کے اظہار کا ذریعہ بناتے اور تکلفات کو تحریر کا حُسْن سمجھتے ہیں حالانکہ ان سے تحریر الجھ کر رہ جاتی اور نثر مشکلات اور پیچیدگیوں کا روپ دھار لیتی ہیں جس کی وجہ سے قاری اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا اور تحریر کو مکمل پڑھے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہے! لیکن آپ نے اپنی تحریر میں ان تکلفات کا ارتکاب نہیں فرمایا بلکہ قارئین کی ذہنی و علمی سطح کو اس خوبصورتی سے ملحوظ رکھا کہ پڑھنے والا بآسانی بات کو سمجھ جاتا ہے اور آپ کا کلام سطحیت سے بھی پاک رہتا ہے۔
اردو زبان کی ایک خوبی اور حضرتِ عطّار کا نباہ!
جس زبان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی گنجائش نہ ہو وہ یکسانیت کا شکار ہوکر جامِد ہوجاتی ہے! صرف وہی زبان زندہ رہتی ہے جو زمانے کے تقاضوں اور زندگی کی ضروریات کے ساتھ تبدیلی کی طرف مائل رہے۔ چونکہ امیرِ اہلِ سنّت کی تحریر اردو زبان میں ہوتی ہے اور یہ خوبی آپ میں بدرجَۂ اتم مکمل طور پر پائی جاتی ہے لہٰذا آپ نے اس خوبی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ادوار میں اپنی تحریر کو گونا گوں تبدیلیوں میں ڈھالا ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لئے درج ذیل مختلف اقتباسات اور تبصرے ملاحظہ کیجئے۔ چنانچہ آپ کی زندگی کا سب سے پہلا رسالہ ” تذکرۂ امام احمد رضا“ کے اُس ایڈیشن کا پیش لفظ ملاحظہ کیجئے جو آپ نے 47 سال پہلے تحریر فرمایا:
یہ امر مُسَلَّم ہے کہ قوموں کا ارتقاء اور استحکام سلف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرکے ان کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوکر ہی حاصل ہوسکتا ہے، ملت کے نونہال اسلام کے جلیل القدر فرزندوں کی سیرت سے آشنا ہوکر ہی نیا وَلْوَلَہ عزم و ہمت اور کامیابی کا راستہ حاصل کر سکتے ہیں۔ وا حَسْرَتا! آج ہم نے اکابر کے کار ناموں کو یَکْسَر بُھلا دیا ہے۔ کاش! ہم اپنے اسلاف کی پاکیزہ سیرت و کردار کو اپنے لیے مشعل راہ بناتے بر خلاف اس کے آج مسلمان مغربی تہذیب و تَمَدُّن کو اپناکر ضَلالت کے عمیق گڑھے میں گِرتا جارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کے نقْشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سیِّدِ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ([i])
اس اقتباس میں الفاظ کی جامعیت اور دقیق معنویت گزرے کل کی مانند واضح ہے اور بیشتر کتب کے پُرانے ایڈیشنز میں یہی اسلوب و انداز نظر آتا ہے لیکن مُروْرِ زمانہ کے باعث لوگوں کی ذہنی و علمی سطح کمزور ہوتی چلی گئی اور ایک تعداد اردو پڑھنے لکھنے سےدور ہونے لگی تو آپ نے اندازِ تحریر میں تبدیلی کی اور ہر دَور کے افراد کے ساتھ یگانگی برقرار رکھنے کے لئے آسان سے آسان کلمات کا اِلتزام کرنا شروع فرمایا، نیز اردو کے وہ کلمات جن کا مطلب ہر شخص نہیں سمجھ سکتا ان کے لئے لفظ کا معنیٰ اور ضرورتاً انگریزی کلمات کا اضافہ کرنے لگے تاکہ ہر سطح کا شخص اس سے مستفید ہوسکے اور آپ کے کتب و رسائل اردو کی بقا کا سبب بنیں۔ تقریباً نصف صدی کے بعد آپ کی تحریر کتنی عام فہم اور سہل ہوچکی ہے اس کے لئے آپ کی نماز کے موضوع پر شائع ہونے والی ضخیم کتاب ”فیضانِ نماز“ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
نماز میں جس طرح مصیبتوں کا علاج ہے اِسی طرح اِس میں بیماریوں کا بھی علاج ہے،خود طبیبوں کواِعتراف ہے کہ وُضو کرنے والا شخص دماغی اَمراض میں بہت کم مبتلا ہوتا ہے، نمازی جُنون(یعنی پاگل پن) اور تِلّی (Spleen)کی بیماریوں سے اکثر محفوظ رہتا ہے، نماز پڑھنے کے لئے دن میں کئی بار وُضو کرنے سے اعضا دُھلتے رہتے ہیں اورنمازی کپڑے بھی پاک صاف رکھتا ہے، اس لئے گندگیوں اور ناپاکیوں سے حفاظت رہتی ہے اور ظاہر ہے کہ گندگی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ ([ii])
قارئین کی ذہنی سطح کا لحاظ:
امیرِ اہلِ سنّت جہاں قارئین کی علمی و ذہنی سطح کا لحاظ فرماتے ہیں وہیں کلمات کے درست تَلَفُّظ اور ان کے مکمل خد و خال بھی عوام تک پہنچانے کا التزام کرتے ہیں تاکہ کم پڑھا لکھا طبقہ اپنے تلفظ کی درستی کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے املا کی بناوٹ بھی پہچان سکے یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی تحریر میں بغرضِ تبلیغ و اشاعت مشکل و فصیح کلمہ ذِکْر کرکے نہ صرف اس کا معنیٰ لکھتے ہیں بلکہ تلفظ بھی تحریر فرماتے ہیں جس کا اہتمام آپ سے پہلے کسی قلم کار کی تحریر میں نظر نہیں آتا، چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
ایسا شخص کہ جس کی پَیروی کی جاتی ہو وہ لوگوں کو رغبت دلانے کی نیّت سے ایسا عمل ظاہِر کر سکتا ہے جب کہ اِس اظہار میں رِیا کی آمیزش (آ۔مے۔زِش)نہ ہو۔اِس طرح اِخلاص کے ساتھ عمل کے اظہار سے وہ ثوابِ عظیم کا حقدار ہے۔([iii])
کثیر گناہ ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے براہ ِ راست دوسروں کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے،مَثَلًااگرکوئی شخص چوری کا گناہ کرے گا تو اُس شخص کا نقصان ہوگا جس کی چیز چُرائی جائے گی،بِالکل یِہی مُعاملہ ڈاکہ ڈالنے،اَسلحہ(اَس۔لِ۔حَہ) دکھا کر موبائل فون وغیرہ چھین لینے والوں کا ہے۔([iv])
بیدار مغز شخصیت:
اچھی تحریر کو مَعْرِضِ وجود میں لانے کی کوشش تکلّف کی راہ پر چلنے سے کم نہیں لیکن مُحَرِّر کو جب اپنے کلام کی سند کے لئے کسی معتمد حوالے کی ضرورت پیش ہو تو یہ تکلّف کے ساتھ ساتھ پُر خَطَر بھی ہوجاتی ہے کیونکہ مُحَرِّر چاہتا ہے کہ اس کے کلام کے لئے ایسا حوالہ ملے جو سَنَد بھی بن سکے اور اس کی عبارت (یعنی تحریر/مضمون) مُحَرِّر کی عبارت سے ادبی مُوافَقت بھی رکھتی ہو تاکہ عبارت کا تسلسل متأثر نہ ہو، اگر اسے مطلوبہ عبارت مِل جائے تو ٹھیک ورنہ وہ اس کو اپنے کلام کے موافق کرنے کے لئے بعض تکلفات اور وضاحتی عبارات کا سہارا لیتا ہے جو یقیناً بیدار مغز شخص کا ہی کام ہے! مُصلحِ قوم امیرِ اہلِ سنّت تحریر کے اس پہلو پر کمال کی مہارت رکھتے ہیں اور منقولہ عبارات کو اس خوبصورتی سے اپنے اسلوب میں ڈھالتے ہیں کہ تسلسل بھی برقرار رہتا ہے اور منقولہ عبارت سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آپ کی نقل کردہ عبارات و تسہیلات کے نمونے ملاحظہ ہو:
حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: دنیا کی زندگی میں (جاگتے میں) اللہ پاک کا دیدارِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے خاص ہے اور آخرت میں ہر سُنِّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقِع۔رہا قَلبی (یعنی دل میں) دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہمُ السّلام بلکہ اولیا کے لئے بھی حاصل ہے۔ ہمارے امامِ اعظم(ابوحنیفہ ) رضی اللہُ عنہ کو خواب میں سو بار زیارت ہوئی۔(مزید فرماتے ہیں:) اُس (یعنی اللہ پاک) کا دیدار بِلاکَیْف ہے، یعنی دیکھیں گے اور (مگر)یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے! جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصِلہ مَسافت (Distance) کا ہوتا ہے، نزدیک یا دُور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت (Direction) میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دَہنے (Right)یا بائیں (Left)، آگے یا پیچھے، اُس ( یعنی ربِّ کریم) کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔پھر رَہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ ’’کیونکر“ کو یہاں دَخل نہیں، اِن شآءَ اللہ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس (طرح)کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خُدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رَسا(یعنی پہنچتی) نہیں،اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ (یعنی گھیرا) کرے، یہ محال(یعنی ناممکن) ہے۔([v])
تحریر کا ایک خوبصورت پہلو:
سَلاست و روانی کسی بھی نثر کی جان ہوا کرتی ہے اور جب اس کو نظم کا لہجہ مِل جائے تو قارئین کا لُطْف دوبالا ہوجاتا ہے ہم وزن کلمات، مُقَفّٰی و مُسَجَّع جملے اور اِستعارات کا برمحل استعمال ہار میں پروئے ہوئے موتیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اردو زبان کو خوبصورت سے خوبصورت ترین بنانے والی شخصیت کی تحریر میں یہ وصف بھی بدر جَۂ اَتَم (مکمل طور پر) پایا جاتا ہے۔ اس خصوصیت پر مشتمل اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
کھانے کِھلانے،پینے پِلانے، رکھنے اُٹھانے، دھونے پکانے، پڑھنے پڑھانے، چلنے (گاڑی وغیرہ)چلانے،اُٹھنے اٹھانے،بیٹھنے بٹھانے، بتّی جلانے، پنکھا چلانے، دسترخوان بچھانے بڑھانے، بچھونا لپیٹنے بچھانے، دکان کھولنے بڑھانے، تالا کھولنے لگانے، تیل ڈالنے عطرلگانے، بیان کرنے، نعت شریف سنانے، جوتی پہننے، عمامہ سجانے، دروازہ کھولنے بند فرمانے، اَلَغَرَض ہر جائز کام کے شروع میں (جبکہ کوئی مانِعِ شَرْعی نہ ہو) بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنے کی عادت بنا کر اِس کی برکتیں لُوٹنا عین سَعادت ہے۔([vi])
رضائے الٰہی پانے، دل میں خوفِ خدا جگانے، ایمان کی حِفاظت کی کُڑھن بڑھانے، موت کا تصوُّر جَمانے، خود کو عذابِ قبر و جہنّم سے ڈرانے، گناہوں کی عادت مِٹانے،اپنے آپ کو سنّتوں کا پابند بنانے، دل میں عشقِ رسول کی شَمع جَلانے اور جنّت الفردوس میں مکّی مَدَنی مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس پانے کا شوق بڑھانے کے لئے تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے،ہرماہ کم از کم تین دن کے لئے عاشقانِ رسول کے ہمراہ مدنی قافلے میں سنّتوں بھرا سفر کرتے رہئے اور فکرِ مدینہ کے ذریعے روزانہ مدنی انعامات کا رسالہ پُر کر کے ہر مدنی ماہ کی ابتدائی دس تاریخ کے اندر اندر اپنے ذِمّے دار کو جَمع کرواتے رہئے۔([vii])
مُسلمانوں کی خَستہ حالی آپ کے سامنے ہے،کیا بےعملی کے سَیلاب اور مسجدوں کی ویرانی دیکھ کر آپ کا دل نہیں جَلتا؟ آہ! مغربی فیشن کی یلغار، فِرنگی تہذیب کی طُومار، بے حیائیوں سے بھر پور پروگرام دیکھنے کے لئے گھر گھر رکھے ہوئے ٹی وی اور وی سی آر، قدم قدم پرگناہوں کی بھرمار، ہائے!مسلمانوں کا بگڑا ہوا کردار! یہ سب باتیں مُسلمانوں کی خیر خواہی اور آخرت کی بہتری کے طلب گار مسلمان کے لئے بے حد کَرب و اضطراب کا باعث ہیں۔([viii])
نام ہی تو تعارف ہوتا ہے:
جس طرح اچھا نام شخصیت کا تعارف ہوتا ہے اسی طرح اچھا نام کتاب کا بھی تعارف ہوتا ہے، ہر شخص کتاب کا نام پڑھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے، اگر کتاب کا نام ہی تجسس پیدا نہ کرے تو اس کو پڑھنے والوں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے، امیر اَہلِ سنت کی یہ حکمت ہے کہ آپ اپنے کتب و رسائل کے نام لوگوں کی نفسیات کے مطابق رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سے استفادہ کرسکیں۔ آپ کے چند رسائل کے نام یہ ہیں:
*اشکوں کی برسات *چڑیا اور اندھا سانپ *مدینے کی مچھلی *بھیانک اونٹ *انمول ہیرے *پُر اسرار بھکاری *کفن چوروں کے انکشافات *خوفناک جادو گر *جنات کا باد شاہ، وغیرہ
پُرخُلُوص شخصیت:
علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی حامل شخصیت کی تحریر بے ریا اور پُر خلوص ہوتی ہے، ان کی تحریر کی خوبصورتی تَصنُّعات کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاحِ امت کے دَرْد کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ اپنا کلام داد و تحسین وصول کرنے کے لئے نہیں بلکہ قوم و مِلَّت کی فلاح و بہبود کے لئے تحریر کرتے ہیں جو بیشتر انسانوں کی دنیا و آخرت سنوارنے اور علم بکھیرنے کا باعث بنتا ہے۔
اللہ ربُّ العزت ہمیں ان کے جذبَۂ اصلاحِ اُمَّت اور دین کی ترویج و اشاعت کی لگن سے حصہ نصیب فرمائے اور ان کے عطاکردہ گراں قدر علمی تحفوں سے کما حَقُّہٗ مستفید ہونے کی سعادت بخشے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ درسی کتب اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، کراچی
Comments