
احکامِ شریعت کی حکمتیں
دین و مذہب کی ضرورت و اہمیت(قسط 1)
*مولانا ابرار اختر القادری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء
انسان بھی چونکہ بنیادی طور پر ایک حیوان ہی ہے اور اس کو بھی دیگر جانوروں کی طرح زندہ رہنے کے لئے لوازماتِ حیات یعنی خوراک، ہوا، پانی اور نیند کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ حیوانات میں بھی وہی احساسات پائے جاتے ہیں جو انسانوں میں پائے جاتے ہیں یعنی وہ بھی غم اور خوشی کے جذبات کے علاوہ دشمنوں سے خوف اور دوستوں سے محبت کا اظہار کرتے اور اپنی بقا و حفاظت کے لئے مختلف اقدامات کرتے، سماجی تعلقات کو سمجھتے اور ان کا خیال بھی رکھتے ہیں یعنی خاندانوں اور گروہوں میں رہتے ہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ البتہ! انسان کو جو چیز دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی اور اس کے سر پر اشرف المخلوقات ہونے کا تاج سجاتی ہے وہ ہے:
انسان کا عقل و شعور، زبان و ابلاغ اور اخلاقیات و تخلیقی صلاحیتوں سے مزین ہونا۔ اگر کوئی انسان ان اوصاف سے مزین نہ ہو تو اس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ انسان اشرف المخلوقات کا تاج سجائے رکھنے کے لئے ایسے نظامِ زندگی کا از حد محتاج ہے جو اسے انسان بنائے رکھے اور حیوان بننے سے روکے، لہٰذا اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں دو طرح کے لوگ آباد ہیں، ایک وہ جو یہ مانتے ہیں کہ انسان خود بخود کسی ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور دوسرے وہ جو یہ مانتے ہیں کہ انسان اپنے اختیار سے پیدا ہوا ہے نہ کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے، بلکہ اسے ایک ایسی ہستی نے پیدا کیا اور اسے عقل و شعور وغیرہ صلاحیتیں عطا فرمائیں کہ جس نے دیگر مظاہر کائنات کو بھی پیدا فرمایا ہے اور جس طرح اس ہستی نے نظامِ کائنات کو ایک مربوط نظام میں باندھ رکھا ہے اسی نے انسان کو بھی یونہی نہیں چھوڑ دیا کہ اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہے زندگی گزارے، بلکہ اسے زندگی گزارنے کا ایک مضبوط لائحہ عمل بھی عطا فرمایا ہے کہ جسے دین و مذہب کہا جاتا ہے۔
دین کا لغوی معنیٰ راستہ، عقیدہ و عمل کا طریقہ، اطاعت اور جزا ہے، جبکہ مذہب کا لغوی معنیٰ بھی راستہ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے، یوں دین اور مذہب اگرچہ دو الگ الگ لفظ ہیں مگر دونوں کا معنیٰ ایک ہی ہے، لہٰذا یوں دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں، وہ بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں: ان میں سے ایک قسم سماوی یعنی اللہ پاک کی طرف سے نازل کردہ مذاہب کی ہے مثلاً یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ جبکہ دیگر مذاہب انسانی سوچ و فکر کی پیداوار ہیں۔ اس وقت دنیا کی ایک غالب اکثریت کسی نہ کسی مذہب کی پیروکار ہے۔ لہٰذا بغور جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کئی وجوہ کی بنا پر دین و مذہب ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے جس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دین و مذہب کے انسانی ضرورت ہونے کی وجوہات
دین و مذہب ایک فطری ضرورت:
دین و مذہب انسان کی ایک فطری ضرورت ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمیشہ سے انسان ایک ایسی بالا تر اور مافوق الفطرت طاقت رکھنے والی ہستی کو مانتا آیا ہے کہ جو اس کی بنیادی انسانی ضروریات و حاجات کی تکمیل وغیرہ کی ضامن ہو اور یوں آج تک تمام دنیا کا کسی باطل چیز پر جمع ہو جانا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان میں کسی نے حق کو پا لیا تو کوئی خطا پر رہا۔
نیز دین و مذہب انسان کی ایک ایسی فطری ضرورت ہے جس کا تعلق اس کی موت کے بعد کی زندگی سے بھی ہے، کیونکہ دیگر فطری چیزوں یعنی لوازماتِ زندگی کی طرح یہ انسان کی موت کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کے فوت ہو جانے پر اس کے دین سے تعلق یا عدم تعلق کی بنیاد پر نتائج کا سامنا کرنے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین انسان کی دنیا ہی کے لئے ایک بنیادی ضرورت نہیں بلکہ اس کی آخرت کے لئے بھی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ چنانچہ
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین و مذہب اگر واقعی انسان کی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کی اسے دنیا و آخرت میں حاجت ہے تو کیا اس اہم اور بنیادی ضرورت کی اہمیت کا ذکر قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! ہمارے دین نے جہاں زندگی گزارنے کے طریقے اور اصول بتائے ہیں تو وہیں اس دین کی اہمیت و ضرورت کو بھی خوب بیان کیا ہے،جیسا کہ سورۂ روم ، آیت30 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
(فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ- )
ترجَمۂ کنز العرفان: (یہ)اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت (ہے) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا اللہ کے بنائے ہوئے میں تبدیلی نہ کرنا، یہی سیدھا دین ہے ۔
اس آیت کے تحت صراط الجنان میں ہے:
اس آیت میں فطرت سے مراد دین ِاسلام ہے اور معنیٰ یہ ہے کہ الله پاک نے مخلوق کو ایمان پر پیدا کیا، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔
(بخاری، 1/457، حدیث:1358)
یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتا ہے جو الله پاک نے ان سے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ فرما کر لیا ہے، تو دنیا میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے اگرچہ بعد میں وہ الله پاک کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائے۔
بعض مفسرین کے نزدیک فطرت سے مراد خِلقَت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ پاک نے لوگوں کو توحید اور دینِ اسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان اس دین سے منہ موڑ سکتا ہے نہ اس کا انکار کر سکتا ہے، کیونکہ یہ دین ہر اعتبار سے عقلِ سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے اور لوگوں میں سے جو گمراہ ہو گا وہ جنّوں اور انسانوں کے شیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہو گا۔
(خازن،3/ 463، الروم، تحت الآیۃ:30)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، پھر اس بچے کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
(مسلم، ص1096، حدیث:6761)
افسوس! جو لوگ دین سےبیزار ہیں ان کی اکثریت دین کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ نہیں، جیسا کہ سورہ روم کی مذکورہ آیت میں اللہ پاک نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
(وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗۙ(۳۰) )
ترجَمۂ کنزُ الایمان: مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔
ایسے لوگوں کے دین سے دور ہونے کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی کشش میں اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی پابندی کو قبول نہیں کرتے، جبکہ دین تو ہے ہی پابندی کا نام، جس میں حرام و حلال ہر شے واضح ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ خواتین دعوتِ اسلامی (ویب ایڈیشن))
Comments