قراٰنی تعلیمات
کامیابی کا قراٰنی مفہوم
*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
دنیا کا ہر ذی عقل و شعور فرد کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن کامیابی کا پیمانہ اور معیار ہر کسی کا الگ ہے۔ کوئی کاروبار کے خوب چمک جانے کو کامیابی کہتا ہے تو کوئی اچھی تنخواہ والی نوکری مل جانے پر خود کو کامیاب شمار کرتاہے۔ کسی کی کامیابی کا معیار مہنگے علاقے میں گھر بنالینا ہوتا ہے تو کسی کی نظر میں کامیابی مزید وسعت رکھتی ہے۔ جبکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے حق ہے کہ ہم قراٰنِ کریم اور رسولِ عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کی روشنی میں کامیابی کا معیار جانیں اور سمجھیں۔ قراٰنِ کریم میں کامیابی ”فلاح، فَوْز، نجات اور اجر و ثواب“ وغیرہ ملنے کو قرار دیا گیا ہے۔ کئی آیات میں ایک ہی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے جس سے کامیابی کے بیان کردہ معانی کی تاکید و تعیین مزید واضح ہوجاتی ہے۔ آئیے! ذیل میں قراٰنی آیات کی روشنی میں کامیابی کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھتے ہیں:
اللہ کی رضا و خوشنودی ملنا
حقیقی کامیابی یہ ہے کہ خالق و مالک ربّ العزّت راضی ہو اور بندے اللہ کے انعام و فضل پر خوش، ایسوں کو ربِّ کریم جنّتی باغات عطا فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری اور وہ ان کا ہمیشہ کا ٹھکانا ہوں گے۔([i])
عذاب پھیر دیاجائے
اصل اور کھلی کامیابی یہی ہے کہ اللہ ربُّ العزّت بندے پر رحم فرمائے اور اس سے قیامت کے دن عذاب پھیر دیا جائے۔([ii])
حقیقی مراد کو پہنچنے والے
قراٰنِ کریم نے حقیقی کامیاب اور مراد کو پہنچنے والے ان کو فرمایا ہے جنہیں اللہ نے جنّت کے باغوں اور اپنی بڑی رضا کا وعدہ دیا ہے۔([iii])
جن کے لئے بھلائیاں لکھ دی گئیں
کامیاب وہ ہیں جن کے اعمالِ حسنہ کو قبولیت دے کر ان کے لئے بھلائیاں لکھ دیں اور ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے ان کا ٹھکانا ہوں گی۔([iv])
کامیابی کا اصل مقام جنّت ہے
کامیابی یہ ہے کہ بندہ کامیابی کی جگہ و مقام پر پہنچ جائے اور قراٰنِ کریم نے کامیابی کا مقام جنّت کو فرمایا ہے جس میں باغات ہیں، انگور ہیں، اہلِ جنّت کے لئے خادمائیں اور حوریں اور پاکیزہ شراب کے چھلکتے جام ہیں، ہر طرح کے شوروغل سے پاک ماحول اور ربِّ کریم کا خاص انعام و عطا ہے۔([v])
اللہ کی حدود کا پابند رہنے والے وہ لوگ جو اللہ کریم اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ایسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچی نہریں جاری ہیں، ہمیشہ اُن میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔([vi])
عذاب و غم سے نجات
عذاب کے چھونے اور ہر طرح کے غم سے محفوظ رہتے ہوئے نجات کی جگہ یعنی جنّت میں پہنچنا ہی اصل کامیابی ہے۔([vii])
کامیاب افراد کی شخصی تعیین
شخصی تعیین کے ساتھ دیکھا جائے تو اصل کامیاب مہاجر و انصار صحابَۂ کرام اور ان کی اتباع کرنے والے تابعینِ کرام ہیں کیونکہ ان کو اللہ کریم نے رضا کا مژدہ سنایا اور ان کے لئے ہمیشہ کے جنّتی باغات تیار ہیں۔([viii])
اللہ کا جنّت کے بدلے جانوں کا سودا
دنیا دار سمجھتے ہیں کہ شاید زندہ رہنا اور لمبی زندگی ہونا کامیابی ہے نہیں ہرگز نہیں بلکہ حقیقی کامیاب تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے اپنی جانوں کا جنّت کے بدلے سودا کرلیا اور وہ راہِ خدا میں مرنے مارنے کے لئے تیار ہوگئے۔([ix])
دنیوی کامیابی، ایمان و تقویٰ کی دولت ملنا
اُخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اسے کامیاب قرار دیا گیا ہے جسے ایمان اور تقویٰ کی دولت ملی، ایسوں ہی کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔([x])
نیکیوں کی توفیق ملنا
کامیابی کا ایک پہلو یہ ہے کہ بندے کو اللہ کریم کی طرف سے نیکیوں کی توفیق ملے، چنانچہ اللہ و رسول کی اطاعت ہی اصل کامیابی بنتی ہے۔([xi])
گناہوں کی سزا سے بچایا جانا
میدانِ حشر میں گناہوں کی شامت سے بچایا جانا دراصل اللہ کی رحمت ملنا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔([xii])
آگ کے عذاب سے بچایا جانا
کامیاب ترین لوگ تو وہی ہیں جنہیں ربِّ کریم نے آگ کے عذاب سے بچایا۔([xiii])
رحمتِ الٰہی میں داخل ہونا
کھلی اور واضح کامیابی یہی ہے کہ رب تعالیٰ بندے کو اپنی رحمت میں داخل کردے۔([xiv])
گناہوں کی مغفرت
بارگاہِ ربُّ العزّت میں اصلی معیارِ کامیابی یہ ہے کہ بندے کے گناہ بخشے جائیں اور داخلہ جنّت نصیب ہو۔([xv])
کامیابی کی قراٰنی منظرکشی
کامیابی کی ایک قراٰنی منظرکشی یہ ہے کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے آگے اور دائیں جانب نور ہوگا اور انہیں جنّتی باغات میں ہمیشہ ہمیشہ کے قیام کی خوشخبری ہے۔([xvi])
ایمان و عملِ صالح کا قبول ہونا
ایمان و عملِ صالح کا قبول ہونا اور پھر رحمتِ الٰہی سے جنّتی باغات عطا ہونا قراٰن کا معیارِ کامیابی ہے، صرف کامیابی ہی نہیں بلکہ بڑی کامیابی ہے۔([xvii])
راہِ خدا میں کی گئی کوششیں قبول ہوجانا
کامیابی کا ایک معیار یہ ہے کہ بندے کے اعمال و قربانیاں اور راہِ خدا میں کی گئی کوششیں قبول ہوجائیں اور بندے کو بارگاہِ الٰہی میں مقامِ مقبولیت ملے، ایسے لوگوں کا اللہ کے یہاں بڑا درجہ ہوتاہے۔([xviii])
حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کے اعمال قبول ہوجائیں اور اللہ کریم اسے کامیاب لوگوں میں رکھے۔([xix])
صرف اہلِ جنّت ہی کامیاب ہیں
اہلِ جنّت اور اہلِ دوزخ کسی صورت برابر نہیں، اور کامیابی سے ہمکنا ر ہونے والے تو صرف اہلِ جنّت ہی ہیں۔([xx])
ان آیاتِ کریمہ کے مفہوم پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کامیابی کے لئے ”فلاح اور فوز وغیرہ“ کا جو لفظ قراٰنِ کریم میں آیا ہے وہ صرف دنیوی کامیابی کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسی کامیابی ہے جس کا اختتام کسی خسارے، نقصان اور عذاب و سزا پر نہ ہو بلکہ اس کا آخری انجام عذاب سے نجات اور جنّت میں داخلے پر ہو۔
الغرض کامیابی کےلئے دنیا کی زندگی میں بندہ کس قدر مال و دولت، امن و امان، صحت و تندرستی، اہل و عیال وغیرہ کے ساتھ خوش و شادمان رہا اس کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اصل اعتبار اللہ و رسول کی رضا اور داخلۂ جنّت ہے۔
اللہ پاک کے ہزاروں نہیں لاکھوں نیک بندے ایسے گزرے اور آج بھی ہیں کہ جو دنیوی زندگی میں بیماریوں، پریشانیوں، قرضوں، تنگ دستیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن اللہ کریم نے ان کے لئے حقیقی کامیابی کا مژدہ سنایا ہے۔
انسان نے جب دنیوی مال و دولت کی آمدن، جاہ و حشمت اور عہدہ ومنصب کو کامیابی کا پیمانہ قرار دیا تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئے۔ انسان اپنی تخلیق کا قراٰنی مقصد (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶))([xxi]) بھول گیا۔ شریعت و اخلاق وغیرہ جو چیز بھی دنیوی ترقی کے ناجائز ذرائع کی راہ میں حائل ہو ئی اسے توڑنے اور بدلنے لگا، دینی قیودات و ممنوعات کے جواز کے راستے نکالنے لگا، اخلاق و انسانیت کے نئے نئے پیمانے بنانے لگا، آزادی اور مساوات کا مفہوم بدل کر سود، فحاشی، ملکوں پر قبضے، قوموں کا خون اور نسلوں کی تباہی کو عام کرنے لگا۔ قراٰن کی تعلیم اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت طیبہ کا درس دینے والوں کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ گرداننے لگا۔ نماز کی پابندی کا کہنے والوں کو شخصی آزادی اور ترقی کے خلاف شمار کرنے لگا۔ الغرض یہ سب شاخسانے کامیابی کا حقیقی معنیٰ نہ سمجھنے کے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھئے کہ قراٰنِ کریم ہمیں یہ نہیں کہتا کہ ہم دنیا سے ہر طرح سے بےربط ہوجائیں اور سب کچھ کافروں کے لئے چھوڑ دیں۔ ایسا ہرگز نہیں، قراٰنِ کریم نے تو ہمیں یہ دُعا سکھائی ہے کہ دنیا کی بھی بھلائی عطا ہو اور آخرت کی بھی:
(رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱))
ترجَمۂ کنزالایمان:اے ربّ ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔([xxii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اسی طرح رزقِ حلال کمانے اور دنیا سے ضرورت کے مطابق لینے یعنی معاش کا حکم بھی دیا ہے([xxiii])
(وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول۔([xxiv])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
خلاصہ یہ نکلا کہ اگرچہ دنیاوی معاملات اور مال و دولت بھی زندگی کا حصہ اور ضرورتِ زندگی تو ہیں مگر مقصودِ حیات نہیں اور نہ ہی کامیابی کی علامت وضمانت ہیں۔ مقصودِ حیات ”ہدایت“ ہے اور کامیابی کی علامت و ضمانت ”نجات“ ہے۔ اسی لئے قراٰنِ مجید نے فرما دیا:
(فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ )
ترجَمۂ کنزالایمان: جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا۔([xxv])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اللہ پاک ہمیں قراٰنی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments