محبت،رحمت اور شفقت

شرح حدیث رسول

محبت،رحمت اور شفقت!

*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

مسلم شریف میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكىٰ مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعىٰ لَهٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى۔

ترجمہ: مؤمنوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ محبت، رحمت اور شفقت کرنے میں جسم کی طرح ہے، جب اس کا ایک حصہ بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بےخوابی اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔([i])

شرحِ حدیث

(1)اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کامل ایمان والوں کی مثال ایک جسم سے دی گئی جو فہم کے زیادہ قریب ہے اور اس میں غیرمحسوس چیز کو واضح کرنے کے لئے محسوس چیز کی مثال دی گئی ہے۔([ii]) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے کئی فرامین میں مثالیں دےکر مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کی نوعیت کو سمجھایا ہے، جیسے ارشاد فرمایا: (۱)اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضاً یعنی مؤمن مؤمن کے لئے عمارت کی مثل ہے، جس کا بعض حصہ بعض کو مضبوط رکھتا ہے۔([iii]) (۲)اَلْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ، اِنِ اشْتَكَى عَيْنُهٗ اشْتَكَى كُلُّهُ، وَاِنِ اشْتَكىٰ رَاسُهٗ اشْتَكىٰ كُلُّهٗ یعنی مسلمان ایک مرد کی طرح ہیں، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔([iv])

(2)آپس کی محبت، رحمت اور شفقت کےبارے میں حضرت علامہ مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ’’فیضُ القدیر‘‘میں نقل کرتے ہیں: ان تینوں کے معانی اگرچہ ایک جیسے ہیں لیکن ان کے درمیان باریک سافرق ہے۔ چنانچہ تَرَاحُم سے مراد یہ ہےکہ ایک دوسرے پر رحم اخوت ِ اسلامی کی بنیاد پر ہو نہ کہ کسی اور سبب سے۔ تَوَادسے مراد ایک دوسرے سے ملنا جو محبت کو بڑھاتا ہے جیسے ایک دوسرے کو تحفہ دینا اور تَعَاطُفکا مطلب ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔([v])

(3)جسم کے ایک عضو کے بیمار ہونے کی صورت میں تکلیف سارے جسم کو پہنچتی ہے چنانچہ بے خوابی اور بخار میں جسم کے بقیہ حصے اس کے ساتھ اسی طرح شریک ہوجاتے ہیں جس طرح حالتِ صحت میں آسانی میں شامل ہوتے تھے۔([vi])

خلاصہ یہ ہوا کہ جیسے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو وہ سارے جسم میں سرایت کر جاتی ہے اس طرح مسلمان بھی ایک بدن کی طرح ہیں، اس لئے جب کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے تو باقی مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کا دکھ بانٹیں اور اس سے یہ تکلیف دور کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔([vii])

بُزرگانِ دین کا مبارک انداز

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت سے محبت و شفقت کا اظہار یوں فرمایا: میری اور میری اُمّت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو حَشَرات ُالارض (زمینی کیڑے) اور پروانے اس آگ میں گِرنے لگے۔میں تم لوگوں کو کمر سے پکڑ کر روک رہا ہوں اور تم اس آگ میں دھڑا دھڑ گِررہے ہو۔([viii])

میرے اعمال کا بدلہ تو جہنَّم ہی تھا

میں تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا([ix])

قراٰنِ کریم میں ہے:

(مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ)

ترجمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔([x])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی ایک دوسر ے پر محبّت و مہربانی کرنے والے ایسے کہ جیسے باپ بیٹے میں ہواور یہ محبّت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مؤمن دوسرے کو دیکھے تو فرطِ محبّت سے مصافحہ و معانقہ کرے۔([xi])

مواخاتِ مدینہ کو دیکھ لیجئےکہ جب مہاجر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم مکۂ مکرمہ وغیرہ سے مدینہ پاک آئے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مہاجرین و انصار میں عقدِ مواخات یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا کہ فلاں مہاجر فلاں انصار کا بھائی اور فلاں فلاں کا، تَب انصار نے عرض کیا کہ ہمارے باغ ہمارے بھائی مہاجرین میں اس طرح تقسیم فرمادیجئے کہ ہر انصار کے باغ میں اس کے مہاجر بھائی کا آدھا حصہ ہو،یہ تھی وہ بے مثال مہمان نوازی جس کی مثال آسمان نے نہ دیکھی ہوگی۔

اس طرح کی ہزاروں مثالیں بُزرگانِ دین کی زندگی میں مل جائیں گی۔

درسِ حدیث

حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تمام فرامینِ مقدسّہ میں ہمارے لئے دنیا وآخرت کی بھلائیاں پوشیدہ ہیں۔ اس حدیثِ پاک میں بھی ہم مسلمانوں کو اتحاد،امداد باہمی اور خیرخواہی کا درس ایک مثال کے ذریعے دیا گیا ہے۔اس سے رہنمائی لےکر عمل کرنے پر ہم اپنی سماجی، معاشرتی، خانگی اور معاشی زندگی کو بہتر سے بہتر بناسکتے ہیں۔جیسے:

(1)دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کا کھانا پینا، رہن سہن، رنگ،نسل اور بولی جانے والی زبانیں اگرچہ مختلف ہیں لیکن یہ سب  ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمّدٌ رَّسُولُ اللہ‘‘ پر ایمان رکھنے والے اور آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمتی اور غلام ہیں! اس لئے ایمان والوں میں ایسی محبت، رحمت، شفقت ہونی چاہئےکہ اگر کسی مسلمان پر کوئی مشکل آجائےیا وہ تکلیف اور رنج وغم میں مبتلا ہوجائے تو باقی مسلمان اس کی مشکل اور تکلیف کا سوچ کر بےقرار ہوجائیں، انہیں ایسا محسوس ہو کہ یہ مصیبت ہم پر آئی ہے پھر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس کی مدد کرنےکی کوشش کریں۔

(2)خیال رہے کہ مسلمانوں کاآپس کا تعاون جائز اور باعثِ ثواب معاملات میں ہونا چاہئے نہ کہ ناجائز معاملات میں! قراٰن ِ پاک میں ہے:

(وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- )

ترجمۂ کنزالایمان :اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔([xii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(3)آپس کی محبت بڑھانے کے کئی طریقے ہیں مثلاًکسی کے آنےپر مجلس میں جگہ کشادہ کردینا،وہ کچھ کہے تو اس کی بات کاٹنے کے بجائے غور سے سننا،اس کی جائز خوشی پر اظہارِ خوشی کرنا،ہر ملنے والے کو مناسب توجہ دینا نہ کہ نو لفٹ کا بورڈ دِکھادیا جائے، حسبِ موقع مسکرانا تاکہ دوسرے کا دل خوش ہو، اس کے علاوہ آپس میں سلام کو عام کرنے سے بھی محبت بڑھتی ہے،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: تم اس وقت تک جَنَّت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک ایک دوسرے سے مَحَبَّت نہ کرو۔پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو مَحَبَّت پیدا کرے؟ آپس میں سلام کو عام کرو۔ ([xiii])

(4)ہماری محبت،رحم دلی اور شفقت و نرمی کے اوّلین مستحق والدین،اہلِ خانہ اور قریبی رشتہ دار ہیں، ہمیں چاہئے کہ ان سے بھلائی کا سلوک کریں،ان کی ضرورتیں پوری کریں، انہیں عزت واکرام دیں،ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں مگر ان پر رحم دلی کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی جہنم کی آگ سے بچانےکے لئے نیکیاں کرنے، گناہوں سے بچنے،علمِ دین سیکھنےکی ترغیب دیں تاکہ وہ رحمتِ الٰہی کے مستحق بنیں اور جہنم کی آگ سے بچیں، قراٰن پاک میں ہے :

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ)

ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کواس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔([xiv])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(5)اپنی محبت، رحمت اور شفقت کا محور اپنی فیملی کو ہی نہ بنایا جائے،اس کے حقدار دیگر مسلمان بھی ہیں چنانچہ غریب مسلمانوں کی مدد کی جائے! چھوٹوں پر شفقت اور بوڑھوں کا احترام کیا جائے، پڑوسیوں سے حسنِ سلوک رکھا جائے جن کے حقوق کی تاکید حدیثوں میں آئی ہے،اسی طرح یتیم بچّوں کی کفالت اور ان پر شفقت و نرمی کرنی چاہئے کہ اس پر ثواب کی بشارتیں دی گئی ہیں۔

(6)ایک دوسرے کی تکلیفوں،پریشانیوں اور صدموں کے بارے میں جاننے کے لئے بقدرِ ضرورت رابطہ رہنا بہت ضروری ہے تاکہ کسی مسلمان کی پریشانی کم یا ختم کرنے کی تدبیریں کی جاسکیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے جدید دور میں بھی ہماے درمیان رابطے کا بہت فقدان ہے، مثلاً: ٭ایک ہی بلڈنگ یا گلی میں رہنےوالے بعض لوگ ایک دوسرے کا نام تک نہیں جانتے، حالات جاننا تو دُور کی بات ہے ٭باپ کے پاس اپنی اولاد کو دینے کے لئے وقت نہیں تاکہ اسے معلوم ہوان کی خواہشیں، الجھنیں اور ذہنی پریشانیاں کیا کیا ہیں؟ وہ تو بس ان کے لئے  پیسہ کمانے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتاہے ٭ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹس کی پریشانیاں سننےکو تیار نہیں اسے تو صرف سبق سننے یا کلاس کی حاضری پوری کرنے سے غرض ہے ٭ آفس میں باس/ ایڈمن کو اپنے ایمپلائز کی مالی پریشانیوں کو کم کرنے سے دلچسپی عموماً نہیں ہوتی اسے تو صرف کام، کام اور کام چاہئے۔

(7)جن کا آپس میں رابطہ ہوتا ہے، انہیں بغض و کینہ، حسد، تکبر، شماتت،بدگمانی،سنگ دلی، غیبت، تہمت جیسی بُری اور مذموم صفات سے بچنا ضروری ہے اور نرمی، ہمدردی، دلجوئی، خیرخواہی، غم گساری،عیب پوشی اور ایثار جیسی صفات اپنے کردار کا حصہ بنائیں۔پھر دیکھئے گا کہ ہماری سوشل لائف کیسی آسان،عافیت والی اور خوشیوں بھری ہوتی ہے ! اِن شآءَ اللہ

(8)اپنا محاسبہ کیجئے کہ کیا ہمارے لفظ،لہجہ اور رویہ محبت کرنے والوں کا سا ہے ؟اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ بھلائی کا زمانہ نہیں رہا،جب مجھ سے کوئی حسنِ سلوک نہیں کرتا تو میں کیوں کروں؟ میں تبدیل ہوبھی جاؤں تو کیا فرق پڑے گا؟ یاد رکھئے فرد سے معاشرہ بنتا ہے، اگر ہر ایک خود کو بہتر کرنا شروع کردے تو اِن شآءَ اللہ یہ معاشرہ تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا۔ اس لئے آپ انانیت کا شکار نہ ہوں بلکہ لوگوں سے وہی حسنِ سلوک کرنا شروع کردیں جو آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں،ایک حدیث میں ہے :تم لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جسے اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جسے اپنے لئے ناپسند کرتے ہو اسے لوگوں کے لئے ناپسند کرو۔([xv])

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])مسلم، ص1071، حدیث:6586

([ii])فیض القدیر،5/656،تحت الحدیث:8155

([iii])بخاری،2/127،حدیث: 2446

([iv])مسلم، ص1071، حدیث:6589

([v])فیض القدیر،5/656،تحت الحدیث:8155

([vi])مرقاۃ المفاتیح،8/685،تحت الحدیث:4953

([vii])مرقاۃ المفاتیح،8/685،تحت الحدیث:4953

([viii])مسلم، ص965، حدیث: 5955

([ix])سامان بخشش،ص72

([x])پ26،الفتح:29

([xi])جلالین،ص426،الفتح، تحت الآیۃ:29-خزائن العرفان،ص946

([xii])پ 7،المائدۃ:2

([xiii])مسلم،ص51،حدیث:194

([xiv])پ 28، التحریم : 6

([xv])مسند احمد،8/266،حدیث:22191


Share