ڈراؤنا خواب

کلاس روم

ڈراؤنا خواب

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

سر بلال نے وائٹ بورڈ پر ”جواب دہی کا احساس“لکھنے کے بعد بچّوں کی طرف منہ کرتے ہوئے سبق پڑھانا شروع کیا: تو بچّو! عقیدۂ آخرت کے بارے میں ہمارا سبق چل رہا تھا تو آج کے سبق میں ہمارا ٹاپک ہے: عقیدۂ آخرت کےاثرات۔ یعنی ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ جب کوئی شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے یعنی وہ مانتا ہے کہ مرنے کے بعد حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے زندہ کیا جائے گا تو اس کی زندگی پر کیا اثرات پڑتے ہیں یا اس کے جینے کے انداز(Life Style) میں کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

عقیدۂ  آخرت کے اثرات میں سے ایک ”جواب دہی کا احساس“ ہے۔   جی معاویہ بیٹا !آپ آج کا سبق کتاب سے دیکھ کر پڑھنا شروع کریں، سبھی توجہ سے سنیں۔

محمد معاویہ ریڈنگ ختم کر چکے تو سر بلال نے سمجھانا شروع کیا: بچّو!پہلےمجھے ایک سوال کا جواب دیں کہ  آپ کلاس ٹیسٹ  اور سالانہ پیپرز وغیرہ میں اچھے نمبر لینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

تاکہ پاس ہو کر اگلی کلاس میں جا سکیں، سر کی اجازت ملنے پر اُسید رضا نے جواب دیا۔

سر بلال: اچھا! لیکن اگلی کلاس میں جانے کے لئے تو صرف پاس ہونا بھی کافی ہے جب کہ آپ تو بڑی محنت سے رات دیر تک جاگ کر تیاری کرتے ہیں تاکہ اچھے سے اچھے نمبرز حاصل کر سکیں۔

امی ابو جان کی پٹائی سے بچنے کےلئے، نعمان رضا کے جواب پر کلاس کے سبھی بچے ہنسنے لگے جب کہ سر بلال بھی مسکرا دیئے اور کہنے لگے: نعمان بیٹے نے ٹھیک جواب دیا ہے لیکن اس کو بہتر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ والدین (Parents) کی پوچھ گچھ کا خوف آپ کو محنت کر کے اچھے نمبرز لینے پر ابھارتا ہے اور سستی سے بچاتا ہے تو بچو! یونہی جب انسان کو دنیا میں کوئی کام کرتے وقت یہ خوف اور احساس ہوگا کہ اس کام کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ (Questioning) ہوگی اور میرے عمل کے مطابق اس کا اچھا یا برا بدلہ مجھے دیا جائے تو یقینا ً وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بیسیوں بار سوچے گا کہ کہیں میں غلط کام تو نہیں کر رہا۔

آپ کو ایک اہم بات بتاؤں بچو! اسکول میں اساتذہ، گھر میں والدین کا ڈر ہمیں شرارتوں اور برے کاموں سے بچا لیتا ہے لیکن ہر جگہ تو یہ دونوں ہم پر نظر نہیں رکھ سکتے ناں، جیسے آپ کلاس میں آئے، سبھی بچے بریک(Break) کی وجہ سے باہر تھے آپ کی نظر فرش پر گرے پچاس روپے پر پڑتی ہے تو ایک خیال یہ بھی آ سکتا ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہیں لہٰذا جیب میں رکھ لیتا ہوں اور چھٹی کے بعد پارٹی کروں گا لیکن بطورِ مسلمان (As a muslim) آپ سوچیں گے: نہیں! یہ روپے میرے نہیں ہیں قیامت والے دن مجھے سزا مل سکتی ہے لہٰذا یہ پیسے مجھے چھپانے نہیں چاہئیں، تو بچّو! یہی تو ہے وہ جسے میں نے لکھا تھا”جواب دہی کا احساس“

 نعمان بیٹا صبح ہو گئی ہے، سر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کلاس میں راؤنڈ بھی لگا رہے تھے، تبھی پچھلی قطاروں میں سویا ہوا  نعمان اُن کی نظروں میں آ گیا  اور سَر نے ہَولے سے اس کے کندھے کو دباتے ہوئے کہا اور نعمان ہڑبڑا کر اٹھا ۔

بیٹا جائیں منہ دھو کر آئیں تاکہ سستی دور ہو، پھر سر نے بقیہ کلاس سے کہا: لگتا ہے نعمان کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہے تھے۔

غلام مجتبیٰ بولے: سر جی مجھے بھی کبھی کبھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ یہ سن کر کلاس کے کچھ بچے ہنسنے لگے۔

سر بلال: ارے یہ ہنسنے والی بات نہیں ہے، ڈراؤنے خواب تو کسی کو بھی آ سکتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اچھے بھلے بڑی عمر والوں کو بھی ڈراؤنے خواب تنگ کرتے ہیں۔

سر ان سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ ہوگا ناں؟ محمد معاویہ  نے پوچھا۔

جی جی بیٹا، کیوں نہیں! پہلی بات تو یہ کہ رات کے کھانے کے بعد فوراً نہ سوئیں بلکہ کچھ چہل قدمی (Walk) کر لیں تاکہ کھانا ہضم ہو جائے اور بہترین حل یہ ہے کہ سوتے وقت آیۃ ُالکرسی پڑھ کر سویا کریں کیونکہ پھر ایک فرشتہ ساری رات آپ کی حفاظت کرتا رہے گا۔

تبھی کلاس روم کے دروازے کے پاس کھڑے اگلے پیریڈ کے استاد صاحب پر نظر پڑی تو سر بلال نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: اچھا تو بچّو!  کل ملیں گے، اگلے سبق کے ساتھ اِنْ شَآء اللہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share