صحابہ کرام علیہم الرضوان اولیائے کریم رحمہم اللہ السلام ،علمائے اسلام رحمہم اللہ السلام

اپنےبزرگوں کو یادرکھئے

*مولانا ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

جُمادَی الاُخریٰ اسلامی سال کا چھٹا مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام، علمائے اسلام اور اَولیائے عظام کا وصال ہوا، ان میں سے 111کا مختصر ذکر ماہنامہ فیضانِ مدینہ جُمادَی الاُخریٰ 1438ھ تا 1445ھ کے شماروں میں کیا جا چکا ہے، مزید11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:

صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان:

(1)حضرت ابوعبداللہ اسود بن سریع سعدی تمیمی رضی اللہُ عنہ زمانَۂ جاہلیت میں شاعر تھے، اسلام لائے اور چار غزوات میں شریک ہوئے، آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اورآپ نے جامع مسجد بصرہ میں سب سے پہلے اپنے بیان میں واقعات سنانے کا آغاز فرمایا۔ مشہور تابعین حضرت حسن بصری، حضرت احنف بن قیس اور حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرہ نے آپ سے احادیث مبارکہ روایت کی ہیں۔ آپ جنگ جمل (جُمادَی الاُخریٰ 36ھ) میں شہید ہوئے۔ ([i])

(2)حضرت حنظل بن ضرارحصین رضی اللہُ عنہ نے زمانۂ جاہلیت پایا، پھر اسلام لائے۔ آپ نے طویل عمر پائی، انہوں نے جب جنگ جمل میں شرکت کی تو سو سال کے تھے، آپ جنگ جمل (جُمادَی الاُخریٰ 36ھ) میں ثابت قدم رہے اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ فقیہ و تابعی حضرت حمید بن عبدالرحمٰن حمیری بصری نے آپ سے روایت کی ہے۔([ii])

اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم:

(3)امام ابوالحسن علی نقی ہادی عسکری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت رجب214ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ مفتیِ اسلام، متقی و پارسا تھے، کئی عُلما نے آپ سے استفادہ کیا، آپ 20سال اور 9ماہ سامراء میں مقیم رہے، آپ ہمت و شجاعت، فصاحت و بلاغت، علمیت و روحانیت اور ذہانت و فطانت سے مالا مال تھے۔25یا 26جُمادَی الاُخریٰ 254ھ کو سامراء میں آپ نے وصال فرمایا، آپ کے فرزندوں میں حضرت امام حسن عسکری، حضرت سیّد جعفر توّاب، سید جعفر مُبرقع، ابوشرف حسن، سیّد حسین، سیّد زیادہ،سیّد علی امام، سیّد محمد، سیّد یحییٰ کے اسما ذکر کئے گئے ہیں۔([iii])

(4)محبوبِ رحمٰن حضرت مولانا شاہ ابوالغوث گرم دیوان فاروقی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت ربیع الآخر 1100ھ کو بھیرہ (نزد ولیدپور، ضلع مؤ، یوپی، ہند) میں ہوئی اور 25جُمادَی الاُخریٰ 1178ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک لہرا (دھاواں شریف، غازی پور، یوپی، ہند) میں مرجع خاص و عام ہے، آپ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ، عالمِ دین، شیخِ طریقت، حضرت سیّد فتح محمد چشتی الٰہ آبادی کے خلیفہ اور صاحبِ کرامت تھے۔([iv])

(5)شیخ العالم حضرت سیّد منورعلی شاہ عمردراز الٰہ آبادی بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ کا نسب دو واسطوں (شیخ عبداللہ اور شیخ عثمان) کے ذریعے شیخ الشیوخ حضرت جنیدبغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے مل جاتا ہے، آپ کی ولادت 11رمضان 491ھ کو ہوئی۔ آپ مرید اور خادم خاص حضور غوث اعظم ہیں اور نسبی طور پر پیر زادے بھی۔ 42سال بارگاہ غوثیہ بغداد میں رہے۔وصالِ غوث پاک کے بعد آپ حضرت سیّد کبیرالدین شاہ دولہ احمد آبادی کی صحبت میں 16سال رہے اور انہیں کے ساتھ ہند تشریف لائے، شاہ دولہ نے ان کی تربیت فرمائی اور587ھ میں خلافت سے نواز کر الٰہ آباد روانہ فرما دیا۔ آپ نے 708 سال کی طویل عمر پاکر 4جُمادَی الاُخریٰ 1199ھ کو وصال فرمایا۔ تدفین محلہ ہمت گنج (چھوٹا بغداد)، الٰہ آباد، یوپی، ہند میں ہوئی۔([v])

علمائے اسلام رحِمہمُ اللہ السَّلام:

(6)شیخ الاسلام حضرت ابواسحاق ابراہیم فیروزآبادی شیرازی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 393ھ میں فیروزآباد(صوبہ فارس) ایران میں ہوئی اور21جُمادَی الاُخریٰ 476ھ کو بغداد میں وصال فرمایا، تدفین باب ابرز بغداد عراق میں ہوئی۔ آپ فقہ شافعی کے مجتہد، امیرُالمؤمنین فی الفقہ، مصنف کتب کثیرہ، اخلاقِ حسنہ سے متصف، فصاحت و بلاغت کے جامع اور مدرس مدرسہ نظامیہ بغداد تھے۔ النكت فی المسائل المختلف آپ کی علمی یادگار ہے۔([vi])

(7)علامہ نواب خاں افغانی نقشبندی مہاجرمکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش ضلع پشاور کے علاقے لَونی میں تقریباً1229ھ میں ہوئی، عربی و فارسی کتب کی تعلیم وہیں حاصل کی، پھر لکھنؤ اور رامپور آگئے، علومِ منطق و فلسفہ مجاہدِ جنگِ آزادی علّامہ فضلِ حق خیرآبادی سے حاصل کئے، دہلی میں دورۂ حدیث شریف کیا، فنِ طب کی تحصیل حکیم امام الدین دہلوی سے کی، فراغت کے بعد لکھنؤ میں مطب قائم کیا، اس میں شہرت حاصل ہوئی اور ولی عہد ریاست رامپور نواب کلب علی کے استاذ مقرر ہوئے۔ بھوپال میں مطب کرتے رہے۔ آخرکار مکہ معظمہ ہجرت کرگئے، وہاں حفظِ قراٰن کی سعادت حاصل کی اور وہاں مطب قائم کیا، اہلِ ہندکے اصرار کے باوجود واپس نہ آئے۔ خواجہ علّامہ احمد سعید مجددی مہاجر مدنی سے بیعت کا شرف پایا، شیخ ابراہیم رشیدی خضروی سے خلافت حاصل کی۔ جُمادَی الاُخریٰ 1309ھ کو مکہ مکرمہ میں وصال فرمایا اور یہیں تدفین ہوئی۔([vii])

(8)شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین مجددی رامپوری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1274ھ میں ہوئی اور وصال 22جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں ہوا۔ آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہر، صدر مدرس دارُالعلوم منظرِاسلام بریلی شریف، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔([viii])

(9)استاذُالعلماء حضرت مولانا کاظم علی عزیزی مصباحی بستوی رحمۃُ اللہِ علیہ فاضل الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، ہند، ذہین و فطین مدرس، جید عالمِ دین، کثیر المطالعہ، ہر دل عزیز اور پرہیزگار و متقی تھے۔ آپ کی پیدائش 1350ھ موضع دیوریا، خلیل آباد بستی، یوپی، ہند کے دینی خاندان میں ہوئی۔ مختلف دارُالعلوم میں تقریباً 37سال تدریس فرماکر 9جُمادَی الاُخریٰ 1412ھ کو وصال فرمایا، تدفین ناریل واڑی قبرستان بمبئی، ہند میں کی گئی۔([ix])

 (10)مجاہد تحریک عقیدۂ ختمِ نبوت حضرت مولانا سیّد محمد علی رضوی حسنی الوری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1332ھ کو الور، راجستھان، ہند میں ہوئی اور 11جُمادَی الاُخریٰ 1429ھ کو حیدرآباد سندھ میں وصال فرمایا، تدفین درگاہ حضرت عبدالوہاب شاہ جیلانی میں کی گئی۔ آپ جید عالمِ دین، فاضل دارُالعلوم حِزبُ الاحناف لاہور، مرید و خلیفہ حجۃ الاسلام، لاہور، دہلی اور حیدرآباد کی مساجد کے امام و خطیب، بانی جامع مسجد نور محلہ پنجرہ پول حیدرآباد، ممبر قومی اسمبلی اور شیخِ تصوف دارُالعلوم احسنُ البرکات حیدرآباد تھے۔ آپ کو شبیہ غوثِ اعظم سیّد علی حسین اشرفی اور شہزادۂ غوثُ الوریٰ حضرت سیّد طاہر علاؤ الدین گیلانی نے بھی خلافت عطا فرمائی۔ ([x])

(11)حضرت علّامہ مفتی محمد علیمُ الدین نقشبندی مجددی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1361ھ کو ہوئی اور 17جُمادَی الاُخریٰ 1440ھ کو وصال فرمایا۔آپ اہلِ سنّت کے ثقہ عالمِ دین اور دارُالعلوم سلطانیہ کالادے شریف جہلم سٹی کے مدرس تھے، آپ نے تدریس کے ساتھ کئی قلمی کام بھی کئے ہیں، آپ کی سبل الہدیٰ والرشاد مترجم، سیرتِ سیّدُالانبیاء مترجم سمیت دس کتب شائع ہوچکی ہیں، آپ مؤرخ و مفسر حضرت علّامہ مفتی جلالُ الدّین قادری (بانی جامعہ اسلامیہ کھاریاں ضلع گجرات، پنجاب) کے شاگرد اور چھوٹے بھائی ہیں۔([xi])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)



([i])معرفۃ الصحابہ لابی نعیم، 1/255

([ii])الاصابہ،2/155

([iii])تاریخ بغداد، 12/56-اہل بیت کے امام، ص372تا416

([iv])تذکرہ علمائے بھیرہ ولید پور، ص63تا68

([v])سوانح حیات منور علی شاہ، ص6تا10، 29، 30

([vi])سیر اعلام النبلاء، 14/7تا12

([vii])تذکرہ کاملان رامپور،ص422تا424

([viii])ممتاز علمائے فرنگی محل لکھنؤ، ص417تا419

([ix])تذکرہ علامہ عبدالرؤف بلیاوی، ص 113تا120

([x])حیات امام المحدثین، ص38، 39

([xi])فتاویٰ دیداریہ،ص16، 17، کتبۂ تربت


Share