اسلاف کے قلم سے
حقوقُ العباد کی اہمیت
علامہ سید محمود احمد رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
اسلام کامل اور مکمل دین ہے اور اس کی ہمہ گیری کا یہ عالَم ہے کہ یہ حیاتِ انسانی کے ہر شعبہ پر حاوی (غالب)ہے۔ حضور سرورِ عالم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عملی زندگی کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں۔ انہیں بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق حقوقُ اللہ سے ہے، یعنی بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے اور اس باب میں ان کے فرائض کیا ہیں؟ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق حقوقُ العباد سے ہے، جس میں اس امر پرروشنی ڈالی گئی ہے کہ بندوں پر دوسرے بندوں کے اور عام مخلوقات کے کیا حقوق ہیں اور اس دنیا میں جب ایک انسان کا دوسرے انسان یا کسی بھی مخلوق سے واسطہ اور معاملہ پڑتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا کیا رویہ ہونا چاہئے اور اس باب میں اللہ کے احکام کیا ہیں۔ یہاں یہ خصوصی طور پر قابلِ ذکر بھی ہے اور غورو فکر کی مستحق بھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی یا تقصیر (کمی)ہو جائے تو وہ غفور اور رحیم ہے۔ اگر چاہے تو اپنے حقوق کو خود معاف فرمادے، لیکن اگر ایک بندہ کسی بندہ کی حق تلفی کرتا ہے یا ظلم و زیادتی کرتا ہے تو اس کی معافی اور اس سے نجات و سبکدوشی (آزادی)کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے یوں مقرر فرمایا: یا تو حقدار کا حق ادا کر دیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔
اگر ان دونوں میں سے کوئی بات اس دنیا میں نہ ہو سکی تو آخرت میں لازماً اس کا خمیازہ (بدلہ)بھگتنا ہوگا۔ حقوق العباد کی اہمیت اور اس معاملہ میں کوتاہی کی سنگینیت (سختی)کا اندازہ حضورسرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: جس کسی نے اپنے کسی بھائی پر ظلم و زیادتی کی ہو۔ اس کی آبروریزی کی ہو یا کسی اور معاملہ میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اس کو چاہئے کہ آج ہی اور اسی زندگی میں اس سے معاملہ صاف کر لے۔ آخرت کے اس دن کے آنے سے پہلے جب اس کے پاس ادا کرنے کے لئے دینار و درہم کچھ بھی نہ ہوگا۔ اگر اس کے پاس اعمال صالحہ ہوں گے تو اس کے ظلم کے بقدر مظلوم کو دلا دیئے جائیں گے اور اگر وہ نیکیوں سے بھی خالی ہاتھ ہو گا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاد دیئے جائیں گے۔ ([i])
بیہقی کی حدیث میں آپ کا ارشاد ہے: گناہوں کی ایک فہرست وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ انصاف کے بغیر نہ چھوڑے گا۔ وہ بندوں کے باہمی مظالم اور حق تلفیاں زیا دتیاں ہیں۔ ان کا بدلہ ضرور د لایا جائے گا۔([ii])
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ)
اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم کرتا ہے۔([iii])
سورۂ النسآءمیں فرمایا:
(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-)
بیشک اللہ تعالیٰ تم کوحکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کردو۔ ([iv])
ان دونوں آیتوں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں ہر قسم کے معاملات خواہ ان کا تعلق معاش و مال سے ہو یا باہمی نزاعات سے، جیسے تجارت، قرض، ہبہ، وصیت، قضا، شہادت، وکالت اور محنت ومزدوری ان معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے اور امانت و دیانت کا دامن تھامے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح امانت کا تعلق صرف مالی اشیاء ہی سے نہیں ہے۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ قانونی، اخلاقی اور مالی امانت تک وسیع ہے۔ اگر کسی کا بھید (راز)آپ کو معلوم ہے تو اسے چھپانا اور اسے رسوائی سے بچانا بھی امانت ہے۔ کسی مجلس میں آپ نے دوسروں کے متعلق باتیں سُن لیں تو اسے اسی مجلس تک محدود رکھنا اور دوسروں تک پہنچا کہ فتنہ و فساد کھڑا کرنے کا باعث نہ بننا بھی امانت ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا ملازم ہے تو اسے نوکری کی شرائط کے مطابق اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا اور اسے انجام دینا بھی امانت ہے۔
قرآن مجید میں اچھے مزدور کی تعریف ”اَلْقَوِىُّ الْاَمِیْن“ کے الفاظ سے بیان کی گئی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مزدور میں دو صفات کا ہونا ضروری ہے۔ اول یہ کہ وہ قوی ہو یعنی جس کام کے کرنے کی اس نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کام کو کر سکے۔دوسرے امین ہو یعنی کام کرنے میں امانت و دیانت کا دامن تھامے رکھے۔ اور پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض کو ادا کرے۔ آج کے دور میں مزدور اور کارخانہ دار (کمپنی کے مالک)کی کشمکش جس خطرناک موڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مزدور حضرات اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور کام کے بغیر زیادہ سے زیادہ معاوضہ اور مراعات (رعایتیں)حاصل کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور کارخانہ دار مزدور کو اس کی پوری مزدوری ادا کرنے میں حیل و حجت کرتے ہیں اور شرائطِ ملازمت کا لحاظ و پاس نہیں کرتے۔
حالانکہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزدور کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔([v])
اور بخاری شریف کی حدیث میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں گا۔ یعنی ان سے مطالبہ کروں گا۔ ایک وہ جس نے میرا نام لے کر معاہدہ کیا۔ پھر اس عہد کو توڑ دیا۔ دوسرا وہ جس نے آزاد کو بیچا اور اس کا ثمن کھایا۔ تیسراوہ جس نے مزدور رکھا اور اس سے پورا کام لیا اور اس کی مزدوری نہیں دی۔([vi])
بہر حال معاشرہ میں توازن و اعتدال کے قیام اور طبقاتی کشمکش کے مکمل استیصال (جڑ سے اُکھیڑنے)کے لیے یہ ضروری ہے کہ مزدور اور کارخانہ دار دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول نے جو ہدایات دی ہیں ان پر پوری دیانتداری کے ساتھ عمل کریں۔([vii])
Comments