عالمِ برزخ کا بیان

عالمِ برزخ کا بیان

دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں [1]، مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے[2]، اور یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو[3]، برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔[4]

عقیدہ(۱): ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی[5]، جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اُس وقت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام قبضِ روح کے لیے آتے ہیں [6]

اور اُس شخص کے دہنے بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے دہنے بائیں عذاب کے۔ [7] اُس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں ، اس لیے کہ حکم ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہو گئیں ۔[8]

عقیدہ (۲):مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں ، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں ، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ[9] یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں ۔[10]

عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر[11] ، بعض کی چاہِ زمزم شریف[12] میں [13]، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان[14]، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک[15]اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں [16] میں [17]، اور بعض کی اعلٰی عِلّیین[18] میں [19] مگر کہیں ہوں ، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں [20]، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں ، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ’’ایک طائر پہلے قفص[21] میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔‘‘[22] ائمۂ کرام فرماتے ہیں:

’’إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِِِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ ۔‘‘ [23]

’’بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں ۔‘‘

حدیث میں فرمایا:

((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ۔))[24]

’’جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔‘‘

شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں [25] : ’’روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔‘‘ [26]

کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ[27]، یا قبر پر رہتی ہیں ، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے[28]، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک[29]، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین[30] میں [31]، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں ، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں ، کہ قید ہیں ۔

عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگَوَن کہتے ہیں ، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔[32]

عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں ، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔[33]

عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔[34]

عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں ، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے[35] ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں ۔[36]

عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے[37]، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں [38]، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں [39]، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ[40]، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی[41]، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں [42]، اور اُن کے مُہیب[43]بال سر سے پاؤں تک[44]، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے[45]، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے[46]، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں[47] ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں ۔[48]

پہلا سوال: ((مَنْ رَّبُّکَ؟))

’’تیرا رب کو ن ہے؟‘‘

دوسرا سوال: ((مَا دِیْنُکَ؟))

’’تیرا دین کیا ہے؟‘‘

تیسرا سوال: ((مَا کُنْتَ تَقُولُ فِيْ ھَذَا الرَّجُلِ؟))

’’ان کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟‘‘

مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا:

((رَبِّيَ اللہُ۔))

’’میرا رب اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) ہے۔‘‘

اور دوسرے کا جواب دے گا :

((دِیْنِيَ الإِسْلاَمُ۔))

’’میرا دین اسلام ہے۔‘‘

تیسرے سوال کا جواب دے گا:

((ھُوَ رَسُوْلُ اللہِ صلّی اللہ تعالٰی علیْہ وَسلَّم۔))

’’وہ تو رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ہیں ۔‘‘

وہ کہیں گے، تجھے کس نے بتایا؟ کہے گا: میں نے اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ [49] بعض روایتوں میں آیا ہے، کہ سوال کا جواب پا کر کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ تُو یہی کہے گا[50]، اُس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اور جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ جنت کی نسیم اور خوشبو اُس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی، وہاں تک اُس کی قبر کشادہ کردی جائے گی[51] اور اُس سے کہا جائے گا کہ تو سو جیسے دُولہا سوتا ہے۔[52] یہ خواص کے لیے عموماً ہے اور عوام میں اُن کے لیے جن کو وہ چاہے، ورنہ وسعتِ قبر حسبِ مراتب مختلف ہے[53] ، بعض کیلئے ستّر ستّر ہاتھ لمبی چوڑی[54]، بعض کے لیے جتنی وہ چاہے زیادہ[55]، حتیٰ کہ جہاں تک نگاہ پہنچے[56] ، اور عُصاۃ[57] میں بعض پر عذاب بھی ہو گا ان کی معصیت کے لائق[58] ، پھر اُس کے پیرانِ عظام یا مذہب کے امام یا اور اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب وہ چاہے گا ،نجات پائیں گے[59] ، اور بعض نے کہا کہ مؤمن عاصی پر عذابِ قبر شبِ جمعہ آنے تک ہے، اس کے آتے ہی اٹھا لیا جائے گا[60]، واﷲتَعَالٰی اعلم۔

ہاں ! یہ حدیث سے ثابت ہے کہ جو مسلمان شبِ جمعہ یا روزِ جمعہ یا رمضانِ مبارک کے کسی دن رات میں مرے گا، سوالِ نکیرین و عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔[61] اور یہ جو ارشاد ہوا کہ اُس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دیں گے، یہ یوں ہو گا کے پہلے اُس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے، جس کی لپٹ اور جلن اور گرم ہوا اور سخت بدبو آئے گی اور معاً[62] بند کر دیں گے، اُس کے بعد دہنی طرف سے جنت کی کھڑکی کھولیں گے اور اُس سے کہا جائے گا کہ اگر تُو اِن سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیرے واسطے وہ تھی اور اب یہ ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدر جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی۔ اور منافق کے لیے اس کا عکس ہوگا، پہلے جنت کی کھڑکی کھولیں گے کہ اس کی خوشبو، ٹھنڈک، راحت، نعمت کی جھلک دیکھے گا اور معاً بند کر دیں گے اور دوزخ کی کھڑکی کھول دیں گے، تاکہ اُس پر اس بلائے عظیم کے ساتھ حسرتِ عظیم بھی ہو[63] ، کہ حضور اقدس صلی اﷲ تَعَالٰی علیہ وسلم کو نہ مان کر، یا اُن کی شانِ رفیع میں ادنیٰ گستاخی کرکے کیسی نعمت کھوئی اور کیسی آفت پائی! اور اگر مُردہ منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں یہ کہے گا:

((ھَاہْ ھَاہْ لَا أَدْرِِي۔))

’’افسوس! مجھے توکچھ معلوم نہیں ۔‘‘

((کُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئاً فأقوْلُ۔))

’’میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔‘‘

اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: کہ یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور آگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اُس ہتوڑے سے اُس کو مارتے رہیں گے۔[64] نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے[65]، نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اُس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکوں کے اعمالِ حَسَنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر اُنس دیں گے۔

عقیدہ(۹): عذابِ قبر حق ہے[66]۔اور یوہیں تنعیمِ قبر حق ہے[67]، اور دونوں جسم وروح دونوں پر ہیں [68]، جیسا کہ اوپر گزرا۔ جسم اگرچہ گل جائے، جل جائے، خاک ہو جائے، مگر اُس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے، وہ مُوردِ عذاب وثواب ہوں گے[69] اور اُنھیں پر روزِ قیامت دوبارہ ترکیبِ جسم فرمائی جائے گی، وہ کچھ ایسے باریک اجزا ہیں ریڑھ کی ہڈی میں جس کو ’’عَجبُ الذَّنب‘‘ کہتے ہیں ، کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں ، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے، وہی تُخمِ جسم ہیں ۔ ولہٰذا روزِ قیامت روحوں کا اِعادہ [70]اُسی جسم میں ہوگا، نہ جسمِ دیگر میں ،بالائی زائد اجزا کا گھٹنا، بڑھنا، جسم کو نہیں بدلتا، جیسا: بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا ہو جاتاہے، قوی ہیکل جوان بیماری میں گھل کر کتنا حقیر رہ جاتا ہے، پھر نیا گوشت پوست آکر مثلِ سابق ہوجاتا ہے، اِن تبدیلیوں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شخص بدل گیا۔ یوہیں روزِ قیامت کا عَود ہے[71]، وہی گوشت اور ہڈیاں کہ خاک یا راکھ ہوگئے ہوں ، اُن کے ذرّے کہیں بھی منتشر ہو گئے ہوں ، رب عَزَّوَجَلَّ انھیں جمع فرما کر اُس پہلی ہیئت پر لا کر اُنھیں پہلے اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں ، ترکیب دے گا اور ہر رُوح کو اُسی جسمِ سابق میں بھیجے گا، اِس کا نام حشر ہے[72]، عذاب وتنعیمِ قبر کا اِنکار وہی کرے گا، جو گمراہ ہے۔[73]

عقیدہ (۱۰): مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔[74]

مسئلہ : انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیائے کرام وعلمائے دین وشہدا وحافظانِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصب محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغر ق رکھتے ہیں ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی[75]۔جو شخص انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مرکے مٹی میں مل گئے[76] ،گمراہ ، بددین ، خبیث ، مرتکب توہین ہے ۔(بہارِشریعت،حصہ اول،جلد۱،صفحہ۹۸تا۱۱۵)


[1] { وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰)}، پ۱۸، المؤمنون:۱۰۰۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج۹، ص۲۴۴، تحت الآیۃ: (أخبرنا عُبید قال: سمعت الضحاک یقول: البرزخ: ما بین الدنیا والآخرۃ في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۶، ص۱۱۳، تحت الآیۃ: (والبرزخ ما بین الدنیا والآخرۃ من وقت الموت إلی البعث، فمن مات فقد دخل في البرزخ

[2] في ’’الفتوحات المکیۃ‘‘، الباب الثالث والستون في معرفۃ بقاء الناس۔۔۔ إلخ، ج۱، ص۶۸۶ : (وکلّ إنسان في البرزخ مرہون بکسبہ محبوس في صور أعمالہ إلی أن یبعث یوم القیامۃ من تلک الصور في النشأۃ الآخرۃ واللّٰہ یقول الحق وہو یہدي السبیل و’’ملفوظات‘‘، حصہ۴، ص۱۵۵۔

[3] اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ’’علماء فرماتے ہیں : دنیا کو برزخ سے وہی نسبت ہے جو رحم مادر کو دنیا سے، پھر برزخ کو آخرت سے یہی نسبت ہے جو دنیا کو برزخ سے‘‘۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۷۰۷۔

[4] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّما القبر روضۃ من ریاض الجنۃ أو حفرۃ من حفر النار))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ، باب حدیث:

أکثروا من ذکر ہادم اللذات، الحدیث: ۲۴۶۸، ج۴، ص۲۰۹۔

[5] { وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠(۱۱)}۔ پ۲۸، المنفقون: ۱۱۔

{ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)}۔پ۱۴، النحل:۶۱۔ پ۲۸، المنفقون: ۱۱۔

في’’تفسیر الخازن‘‘، ج۳، ص ۱۲۸، تحت ہذہ الآیۃ: (یعني: لا یؤخرون ساعۃ عن الأجل الذي جعلہ اللّٰہ لہم ولا ینقصون عنہ وفي مقام آخر، پ۱۳، الرعد، ج۳، ص۷۰: (قولہ تعالی: { فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)}۔، فدلّ ذلک علی أنّ الآجال لا تزید ولا تنقص

[6] { قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۠(۱۱)} ۔ پ۲۱، السجد ۃ :۱۱۔

في ’’تفسیر البغوي‘‘، ج۳، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ({قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ } یقبض أرواحکم { مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ }، أي: وکل بقبض أرواحکم وہوعزراءیل

7 عن البراء بن عازب قال [وفیہ] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ العبد المؤمن إذا کان في انقطاع من الدنیا وإقبال من الآخرۃ نزل إلیہ ملاءکۃ من السماء بیض الوجوہ کأنّ وجوہہم الشمس معہم کفن من أکفان الجنۃ وحنوط من حنوط الجنۃ حتی یجلسوا منہ مد البصر ثم یجيء ملک الموت علیہ السلام حتی یجلس عند رأسہ فیقول: أیتہا النفس الطیبۃ! اخرجي إلی مغفرۃ من اللہ ورضوان قال: فتخرج تسیل کما تسیل القطرۃ من في السقاء فیأخذہا فإذا أخذہا لم یدعوہا في یدہ طرفۃ عین حتی یأخذوہا فیجعلوہا في ذلک الکفن وفي ذلک الحنوط ویخرج منہا کأطیب نفحۃ مسک وجدت علی وجہ الأرض قال: فیصعدون بہا فلا یمرون یعني بہا علی ملإ من الملاءکۃ إلاّ قالوا: ما ہذا الروح الطیب؟ فیقولون: فلان بن فلان بأحسن أسماءہ التي کانوا یسمونہ بہا في الدنیا حتی ینتہوا بہا إلی السماء الدنیا فیستفتحون لہ فیفتح لہم فیشیعہ من کل سماء مقربوہا إلی السماء التي تلیہا حتی ینتہی بہ إلی السماء السابعۃ فیقول اللّٰہ عز وجل: اکتبوا کتاب عبدي في علیین وأعیدوہ إلی الأرض فإنّي منہا خلقتہم وفیہا أعیدہم ومنہا أخرجہم تارۃ أخری، قال: فتعاد روحہ في جسدہ فیأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ربي اللہ، فیقولان لہ: ما دینک؟ فیقول: دیني الإسلام فیقولان لہ: ما ہذا الرجل الذی بعث فیکم فیقول: ہو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیقولان لہ: وما علمک؟ فیقول: قرأت کتاب اللّٰہ فآمنت بہ وصدقت فینادي مناد في السماء أن صدق عبدي فافرشوہ من الجنۃ وألبسوہ من الجنۃ وافتحوا لہ بابا إلی الجنۃ قال: فیأتیہ من روحہا وطیبہا ویفسح لہ في قبرہ مد بصرہ قال: ویأتیہ رجل حسن الوجہ حسن الثیاب طیب الریح فیقول: أبشر بالذي یسرک ہذا یومک الذي کنت توعد فیقول لہ: من أنت فوجہک الوجہ یجيء بالخیر؟ فیقول: أنا عملک الصالح فیقول: رب أقم الساعۃ حتی أرجع إلی أہلي ومالي، قال: وإنّ العبد الکافر إذا کان في انقطاع من الدنیا وإقبال من الآخرۃ نزل إلیہ من السماء ملاءکۃ سود الوجوہ معہم المسوح فیجلسون منہ مد البصر ثم یجيء ملک الموت حتی یجلس عند رأسہ فیقول: أیتہا النفس الخبیثۃ اخرجي إلی سخط من اللہ وغضب، قال فتفرق في جسدہ فینتزعہا کما ینتزع السفود من الصوف المبلول فیأخذہا فإذا أخذہا لم یدعوہا في یدہ طرفۃ عین حتی یجعلوہا في تلک المسوح ویخرج منہا کأنتن ریح جیفۃ وجدت علی وجہ الأرض فیصعدون بہا فلا یمرون بہا علی ملإ من الملاءکۃ إلاّ قالوا: ما ہذا الروح الخبیث؟ فیقولون: فلان بن فلان بأقبح أسماءہ التي کان یسمی بہا في الدنیا حتی ینتہی بہ إلی السماء الدنیا فیستفتح لہ فلا یفتح لہ ثم قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: { لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-}، فیقول اللّٰہ عز وجل: اکتبوا کتابہ في سجین في الأرض السفلی فتطرح روحہ طرحا ثم قرأ: { وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ(۳۱)}، فتعاد روحہ في جسدہ ویأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ہاہ ہاہ الفاتحہ ط لا أدري فیقولان لہ: ما دینک؟ فیقول: ہاہ ہاہ لا أدري فیقولان لہ: ما ہذا الرجل الذي بعث فیکم؟ فیقول: ہاہ ہاہ لا أدري فینادي مناد من السماء أن کذب فافرشوا لہ من النار وافتحوا لہ بابا إلی النار فیأتیہ من حرہا وسمومہا ویضیق علیہ قبرہ حتی تختلف فیہ أضلاعہ ویأتیہ رجل قبیح الوجہ قبیح الثیاب منتن الریح فیقول: أبشر بالذي، یسوء ک ہذا یومک الذي کنت توعد فیقول: من أنت فوجہک الوجہ یجيء بالشر فیقول: أنا عملک الخبیث فیقول: رب لا تقم الساعۃ))۔ ’’المسند‘‘، للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث:۱۸۵۵۹، ج۶، ص۴۱۳۔۴۱۴۔

[8] { فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ(۸۴)فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَاؕ-سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖۚ-وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠(۸۵)}۔پ۲۴، المؤمن:۸۴۔۸۵۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج۱۱، ص۸۳، تحت الآیۃ: (یقول تعالی ذکرہ: فلم یک ینفعہم تصدیقہم في الدنیا بتوحید اللّٰہ عند معاینۃ عقابہ قد نزل، وعذابہ قد حل؛ لأنّہم صدقوا حین لا ینفع التصدیق مصدقا، إذ کان قد مضی حکم اللّٰہ في السابق من علمہ، أن من تاب بعد نزول العذاب من اللہ علی تکذیبہ لم تنفعہ توبتہ

[9] بالکل۔

[10] في’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۰۰۔۱۰۱: (’’وإعادۃ الروح‘‘ أي: ردّہا أو تعلقہا ’’إلی العبد‘‘ أي: جسدہ بجمیع أجزاءہ أو بعضہا مجتمعۃ أو متفرقۃ ’’في قبرہ حق‘‘، والواو لمجرد الجمعیۃ فلا ینافي أنّ السؤال بعد إعادۃ الروح وکمال الحال واعلم: أنّ أہل الحق اتفقوا علی أنّ اللہ تعالیٰ یخلق في المیت نوع حیاۃ في القبر قدر ما یتألم أو یتلذذ ملتقطاً۔وفي ’’شرح العقاءد النسفیۃ‘‘، مبحث عذاب القبر، ص۱۰۱: (أنّہ یجوزأن یخلق اللّٰہ تعالی في جمیع الأجزاء أو في بعضھا نوعا من الحیوۃ قدر ما یدرک ألم العذ اب أو لذۃ التنعیم وھذا لا یستلزم إعادۃ الروح إلی بدنہ ولا أن یتحرک ویضطرب أو یری أثر العذاب علیہ حتی أنّ الغریق في الماء والمأکول في بطون الحیوانات والمصلوب في الھواء یعذب وإن لم نطلع علیہ

[11] عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ الرجل لیعرض علیہ مقعدہ من الجنۃ والنار غدوۃ وعشیۃ في قبرہ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۶۲۔۲۶۳۔

[12] یعنی زمزم شریف کے کنویں ۔

[13] عن علي قال: ((أرواح المؤمنین في بئر زمزم))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۷۔

[14] عن المغیرۃ بن عبد الرحمن قال: (إنّ الروح إذا خرج من الجسد کان بین السماء والأرض حتی یرجع إلی جسدہ

’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۶۔

[15] عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أنّہ عزی أسماء بابنہا عبد اللّٰہ بن الزبیر وجثتہ مصلوبۃ، فقال: (لا تحزني فإنّ الأرواح عند اللّٰہ في السماء، وإنّما ہذہ جثۃ وفي روایۃ: عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ أرواح المؤمنین في السماء السابعۃ ینظرون إلی منازلہم في الجنۃ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۵۔

[16] … قندیل کی جمع، ایک قسم کا فانوس جس میں چراغ جلا کر لٹکاتے ہیں ۔ (’’فیروز اللغات‘‘، ص۱۰۲۲)۔

[17] عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لمّا أصیب إخوانکم بأُحد جعل اللّٰہ أرواحہم في جوف طیر خضر ترد أنہار الجنۃ تأکل من ثمارہا وتأوي إلی قنادیل من ذہب معلقۃ في ظل العرش))۔ ’’سنن أبي داود، کتاب الجہاد، باب في فضل الشہادۃ، الحدیث: ۲۵۲۰، ج۳، ص۲۲۔

عن ابن مسعود قال: ((إنّ أرواح الشہداء في أجواف طیر خضر في قنادیل تحت العرش تسرح في الجنۃ حیث شاء ت ثم ترجع إلی قنادیلہا))۔’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۱۔

[18] جنت کے نہایت ہی بلند وبالا مکانات میں ۔

[19] في ’’شرح مسلم‘‘ للنووي: ج۲، ص۲۸۶:. ((الرفیق الأعلی)) الصحیح الذي علیہ الجمہور أنّ المراد بالرفیق الأعلی الأنبیاء الساکنون أعلی علیین = وفي ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۴۹: قال الحافظ ابن رجب في أحوال القبور في ذکر محل الموتی في البرزخ: أمّا الأنبیاء علیہم السلام فلا شک أنّ أرواحہم عند اللہ في أعلی علیین، وقد ثبت في الصحیح أنّ آخر کلمۃ تکلم بہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند موتہ أنّہ قال:((اللہم الرفیق الأعلی))۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ،ج۹، ص۶۵۸۔

[20] في’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، مطلب: أرواح الأنبیاء فيأعلی علیین وأرواح الشھداء إلخ ،ص۱۴۔۱۵: (عن مجاھد أنّھا تکون علی القبورسبعۃ أیام من یوم دفن لاتفارقہ أي: ثم تفارقہ بعد ذلک، ولاینافیہ سنیۃ السلام علی القبورلأنّہ لایدل علی استقرار الأرواح علی أفنیتھا داءماً لأنّہ یسلم علی قبورالأنبیاء والشھداء وأرواحھم في أعلی علیین ولکن لھا مع ذلک اتصال سریع بالبدن لایعلم کنھہ إلاّ اللّٰہ تعالی۔ وأخرج ابن أبي الدنیا عن مالک ((بلغني أنّ الأرواح مرسلۃ تذہب حیث شاء ت)) وحدیث:((ما من أحد یمر بقبر أخیہ المؤمن کان یعرفہ في الدنیا فیسلم علیہ إلاّ عرفہ وردّ علیہ السلام))۔

وفي ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۴۴: (أرواح المؤمنین في علیین، وأرواح الکفار في سجین، ولکل روح بجسدہا اتصال معنوي لا یشبہ الاتصال في الحیاۃ الدنیا بل أشبہ شيء بہ حال الناءم، وإن کان ہو أشد من حال الناءم اتصالا

[21] یعنی ایک پرندہ پہلے پنجرہ۔

[22] عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: (إنّ الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن، وإنّما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان في سجن، فأخرج منہ فجعل یتقلب في الأرض، ویتفسح فیہا

’’کتاب الزہد‘‘، لابن مبارک، باب في طلب الحلال، الحدیث: ۵۹۷، ص۲۱۱،

و’’شرح الصدور‘‘، باب فضل الموت، ص۱۳۔

[23] ’’فیض القدیر‘‘ شرح ’’الجامع الصغیر‘‘، حرف الصاد، تحت الحدیث: ۵۰۱۶، ج۴، ص۲۶۳۔ بألفاظ متقاربۃ۔

[24] ’’شرح الصدور‘‘، باب فضل الموت، ص۱۳۔

و’’المصنف‘‘ لابن أبي شیبۃ، کتاب الزھد، کلام عبد اللّٰہ بن عمرو، الحدیث : ۱۰، ج۸، ص۱۸۹۔

[25] … ’’فتاوی رضویہ ‘‘، ج ۲۹ ، ص۵۴۵، بحوالہ ٔ ’’فتاوی عزیزیہ ‘‘۔

[26] یعنی روح کے لیے کوئی جگہ دور یا نزدیک نہیں ،بلکہ سب جگہ برابر ہے۔

[27] ہندئوں کے مردے جلانے کی جگہ۔

[28] عن عبد اللّٰہ ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: ((إنّ أرواح الکفار تجمع ببرہوت سبخۃ بحضرموت، وأرواح المؤمنین بالجابیۃ، برہوت بالیمن، والجابیۃ بالشام وفي روایۃ: عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: ((خیر وادي الناس وادي مکۃ وشر وادي الناس وادي الأحقاف واد بحضرموت یقال لہ: برہوت فیہ أرواح الکفار))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۶۔۲۳۷۔

[29] عن ابن عمرو قال: ((أرواح الکافرین في الأرض السابعۃ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۴۔

[30] جہنم کی ایک وادی کا نام۔

[31] عن ضمرۃ بن حبیب مرسلا قال: سئل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن أرواح الکفار؟ قال: ((محبوسۃ في سجین))۔

’’شرح الصدور‘‘، ص۲۳۲۔

[32] وفي ’’النبراس‘‘، باب البعث حق، ص۲۱۳: (التناسخ ھو انتقال الروح من جسم إلی جسم آخر وقد اتفق الفلاسفۃ وأھل السنۃ علی بطلانہ، وقال بحقیقتہ قوم من الضلال، فزعم بعضہم أنّ کل روح ینتقل في ماءۃ ألف وأربعۃ وثمانین

من الأبدان، وجوّز بعضہم تعلقہ بأبدان البہاءم بل الأشجار والأحجار علی حسب جزاء الأعمال السیئۃ، وقد حکم أہل الحق بکفر القاءلین بالتناسخ، والمحققون علی أنّ التکفیر لإنکارھم البعث

وفي ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب السیر، باب التاسع في أحکام المرتدین، ج۲، ص۲۶۴: (ویجب إکفار الروافض في قولھم برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلہ إلی الاءمۃ

وفي ’’الحدیقۃ الند یۃ‘‘ شرح ’’الطریقۃ المحمدیۃ‘‘، ج۱، ص۳۰۴۔۳۰۵: (ویجب إکفار الروافض في قولھم برجع الأموات) بعد موتھم (إلی الدنیا) أیضا (و) قولھم (بتناسخ الأرواح) أي: انتقالھا من جسد إلی جسد علی الأبد

33 في ’’شرح الصدور‘‘، باب فضل الموت، ص۱۲: (قال العلماء: الموت لیس بعد م محض ولا فناء صرف وإنّما ھو انقطاع تعلق الروح بالبدن، ومفارقۃ وحیلولۃ بینھما، وتبدل حال، وانتقال من دار إلی دار، وأخرج الطبراني في ’’الکبیر‘‘، والحاکم في ’’المستد رک‘‘ عن عمر بن عبد العزیز أنّہ قال: (إنّما خلقتم للأبد والبقاء، ولکنّکم تنقلون من دار إلی د ار ملتقطاً۔

وفي مقام آخر: باب مقر الأرواح، ص۳۲۴: (ذہب أہل الملل من المسلمین وغیرہم إلی: أنّ الروح تبقي بعد موت البدن، وخالف فیہ الفلاسفۃ، دلیلنا قولہ تعالی: { كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ- }، والذاءق لا بد أن یبقی بعد المذوق، وما تقدم في ہذا الکتاب من الآیات والآحادیث في بقاءہا وتصرفہا وتنعیمہا وتعذیبہا إلی غیر ذلک

و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۶۵۷، ۷۴۳۔۷۴۴، ۸۴۳، ج۲۹، ص۱۰۳۔

[34] عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إذا وضعت الجنازۃ فاحتملھا الرجال علی أعناقھم، فإن کانت صالحۃ قالت: قدموني قدموني، وإن کانت غیر صالحۃ قالت: یا ویلھا أین یذھبون بھا؟ یسمع صوتھا کل شيء إلاّ الإنسان ولو سمعھا الإنسان لصعق))۔’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجناءز، باب کلام المیت علی الجنازۃ، الحدیث: ۱۳۸۰، ج۱، ص۴۶۵۔

وفي ’’شرح الصدور‘‘، باب معرفۃ المیت من یغسلہ، ص۹۶: (وأخرج ابن أبيالدنیا في القبور، عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((ما من میت یوضع علی سریرہ فیخطی بہ ثلاث خطوات إلاّ تکلم بکلام یسمعہ من شاء اللّٰہ إلاّ الثقلین الإنس والجن، یقول: یا أخوتاہ، ویا حملۃ نعشاہ لا تغرنکم الدنیا کما غرتني، ولا یلعبن بکم الزمان کما لعب بي، خلفت ما ترکت لورثي، والدیان یوم القیامۃ یخاصمني ویحاسبني، وأنتم تشیعوني وتدعوني))۔

[35] في’’شرح الصد ور‘‘، ذکر تخفیف ضمۃ القبرعلی المؤمن، ص۳۴۵: عن سعید بن المسیب،أنّ عاءشۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہا قالت: یارسول اللّٰہ !إنّک منذ حدثتني بصوت منکر ونکیر، وضغطۃ القبر لیس ینفعني شيئ، قال:((یاعاءشۃ!إنّ صوت منکر ونکیر في أسماع المؤمنین کالإثمد في العین، وضغطۃ القبرعلی المؤمن کالأم الشفیقۃ یشکو إلیھا ابنھا الصداع، فتغمز رأسہ غمزاً رفیقاً، ولکن یاعاءشۃ ویل للشاکین في اللّٰہ کیف یضغطون في قبورھم کضغطۃ الصخرۃ علی البیضۃ))۔

وأخرج ابن أبي الدنیا عن محمد التیمي قال: کان یقال إنّ ضمۃ القبر إنّما أصلھا أنّھا أُمُّھم ومنھا خلقوا، فغابوا عنھا الغیبۃ الطویلۃ، فلمّا رد إلیھا أولادھا ضمتھم ضم الوالدۃ الشفیقۃ الذي غاب عنھا ولدھا، ثم قدم علیھا، فمن کان للّٰہ مطیعاً ضمتہ برفق ورأفۃ، ومن کان للّٰہ عاصیا ضمتہ بعنف سخطاً منھا علیہ

وفي ’’منح الروض الأزھر‘‘ للقاریٔ‘‘، ضغطۃ القبر وعذاب القبر، ص۱۰۱: (وضغطۃ القبر) أي: تضییقہ (حق) حتی للمؤمن الکامل لحدیث: ((لو کان أحد نجا منہا لنجا سعد بن معاذ الذي اہتز عرش الرحمن لموتہ)) وہي أخذ أرض القبر وضیقہ أوّلا علیہ، ثم اللّٰہ سبحانہ یفسح ویوسع المکان مدّ نظرہ إلیہ، قیل: وضغطتہ بالنسبۃ إلی المؤمن علی ہیئۃ معانقۃ الأم الشفیقۃ إذا قدم علیہا ولدہا من السفرۃ العمیقۃ

(فائدہ) في ’’فیض القدیر‘‘، ج۵، ص۴۲۴، تحت الحدیث: ۷۴۹۳: (قد أفاد الخبر أنّ ضغطۃ القبر لا ینجو منہا أحد صالح ولا غیرہ لکن خصّ منہ الأنبیاء کما ذکرہ المؤلف في ’’الخصاءص‘‘ وفي ’’تذکرۃ القرطبي‘‘: یستثني فاطمۃ بنت أسد ببرکۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم)۔ وفي ’’النبراس‘‘، ص۲۰۹۔

[36] عن أنس بن مالک قال: ((وأمّا الکافر والمنافق فیقال لہ: ما کنت تقول في ہذا الرجل؟ فیقول: لا أدري کنت أقول ما یقول الناس، فیقال لہ: لا دریت ولا تلیت، ثم یضرب بمطراق من حدید ضربۃ بین أذنیہ، فیصیح صیحۃ فیسمعہا من یلیہ غیر الثقلین))، وقال بعضہم: ((یضیق علیہ قبرہ حتی تختلف أضلاعہ))۔’’المسند‘‘ للإمام أحمدبن حنبل، الحدیث: ۱۲۲۷۳،ج۴، ص ۲۵۳۔

وفي روایۃ: (( وإذا دفن العبد الفاجر أو الکافر، قال لہ القبر: لامرحبا ولا أہلاً، أما إن کنت لأبغض من یمشي علی ظہري إليّ فإذ ولّیتُک الیوم وصرت إليّ فستری صنیعي بک، قال: فیلتئم علیہ حتی یلتقي علیہ وتختلف أضلاعہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأصابعہ فأدخل بعضہا في جوف بعض))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ، الحدیث: ۲۴۶۸، ج۴، ص۲۰۸۔وفي روایۃ: ((وإن کان منافقاً۔۔۔۔۔ فیقال للأرض: التئمي علیہ فتلتئم علیہ، فتختلف أضلاعہ))۔ ملتقطاً۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۸۔

[37] عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ العبد إذا وضع في قبرہ وتولَّی عنہ أصحابہ، وإنّہ لیسمع قرع نعالھم))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۳۷۴، ج۱، ص۴۶۳۔

[38] ((ثم أتاک منکر ونکیر۔۔۔۔ یحفران الأرض بأنیابہما۔۔۔ إلخ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۲۔

و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۸۶، ج۱، ص۹۹۔

[39] في’’إحیاء العلوم‘‘، ج۱، ص۱۲۷:(سوال منکر ونکیر وہما شخصان مہیبان ہاءلان۔۔۔ إلخ

[40] ((ثم أتاک منکر ونکیر أسودان۔۔۔ إلخ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۲، و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۸۶، ج۱، ص۹۹۔

[41] ((أتاہ ملکان أسودان أزرقان۔۔۔ إلخ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، باب ما جاء في عذاب القبر، ج۲، ص۳۳۷، الحدیث: ۱۰۷۳۔

[42] ((أعینہما مثل قدور النحاس۔۔۔ إلخ))۔ ’’المعجم الأوسط‘‘ للطبراني، الحدیث: ۴۶۲۹، ج۳، ص۲۹۲۔

[43] خوفناک۔

[44] ((یجران أشعارہما))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۲، و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۸۶، ج۱، ص۹۹۔

وفي روایۃ: الحدیث: ۸۵، ص۹۸: ((قد سدلا شعورہما))۔

[45] ((وأنیابہما مثل صیاصي البقر))۔ ’’المعجم الأوسط‘‘ للطبراني‘‘، الحدیث: ۴۶۲۹، ج۳، ص۲۹۲۔

[46] ((یحثان الأرض بأنیابہما۔۔۔ إلخ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۷۔

[47] ((یقال لأحدہما: المنکر والآخر النکیر))۔’’سنن الترمذي‘‘، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث:۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۷۔

[48] ((فأجلساک فزعا فتلتلاک وتوہلاک))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۲۔

و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۸۶، ج۱، ص۹۹۔

[49] ((ویأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ربي اللّٰہ، فیقولان لہ: ما دینک؟ فیقول: دیني الإسلام، فیقولان لہ: ما ھذا الرجل الذي بعث فیکم؟ قال: فیقول: ھو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیقولان: وما یدریک؟ فیقول: قرأت کتاب اللّٰہ فآمنت بہ وصدقت))۔ ’’سنن أبي داود‘‘، کتاب السنۃ، باب في المسألۃ في القبر۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۴۷۵۳، ج۴، ص۲۶۶۔ وفي روایۃ: ((أتاہ ملکان فیقعدان فیقولان: ما کنت تقول في ھذا الرجل لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ فأمّا المؤمن فیقول: أشھد أنّہ عبد اللّٰہ ورسولہ))۔ ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب الجناءز، باب ماجاء فيعذاب القبر، الحدیث : ۱۳۷۴، ج۱، ص۴۶۳۔

[50] وفي روایۃ: ((فیقولان: ماکنت تقول في ھذا الرجل؟ فیقول ما کان یقول: ھو عبد اللّٰہ ورسولہ، أشھد أنّ لا إلہ إلاّ اللّٰہ وأنّ محمداً عبدہ ورسولہ، فیقولان: قد کنا نعلم أنّک تقول ھذا))۔ ’’سنن الترمذي‘‘ کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذ اب القبر، الحدیث: ۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۷۔

[51] ((فینادي مناد في السماء: أن صدق عبدي فأفرشوہ من الجنۃ وألبسوہ من الجنۃ وافتحوا لہ بابا إلی الجنۃ، قال: فیأتیہ من روحھا وطیبھا، ویفسح لہ في قبرہ مدّ بصرہ))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۸۵۵۹، ج۶، ص۴۱۳۔۴۱۴۔

[52] ((فیقولان: نم کنومۃ العروس))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۸۔ وفي ’’النبراس‘‘، ص۲۰۸: (’’فیقولان لہ: نم کنومۃ العروس‘‘ بفتح العین جدید العہد بالنکاح ویطلق علی الزوج والزوجۃ)۔

[53] ((فیوسع لہ في قبرہ، ویفرج لہ فیہ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۵۔ و’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، الحدیث: ۹۱۴۵، ج۹، ص۲۳۳۔

[54] قال قتادۃ: ((وذکر لنا أنّہ یفسح لہ في قبرہ سبعون ذراعاً))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجنۃ۔۔۔إلخ، باب عرض مقعد المیت۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۸۷۰، ص۱۵۳۵۔ وفي روایۃ: ((ثم یفسح لہ في قبرہ سبعون ذراعا في سبعین))۔’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۷۔۳۳۸ ۔وفي ’’النبراس‘‘، ص۲۰۸: (’’سبعون ذراعاً في سبعین‘‘ أي: طولاً وعرضاً)۔

[55] ((فیفسح لہ في قبرہ ما شاء، فیری مکانہ من الجنۃ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۶، و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۱۹۸، ج۱، ص۲۲۸۔

[56] ((فیوسع لہ في قبرہ مدّ بصرہ))۔ ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۲۶۔ و’’إثبات عذاب القبر‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۳۲، ج۱، ص۳۹۔

[57] عاصی کی جمع، یعنی گنہگار وں ، نافرمانوں ۔

[58] في ’’شرح العقاءد النسفیۃ‘‘، ص۹۹: (عذاب القبر للکافرین ولبعض عصاۃ المؤمنین ثابت ملخصاً وملتقطاً۔

[59] في ’’المیزان الکبری‘‘، ج۱، ص۹ مقدمۃ الکتاب: (جمیع الاءمۃ المجتہدین یشفعون في أتباعہم ویلاحظونہم في شداءدہم في الدنیا والبرزخ ویوم القیامۃ حتی یجاوز الصراط ومقام آخر، ج۱، ص۵۳: (قد ذکرنا في کتاب الأجوبۃ عن اءمّۃ الفقہاء والصوفیۃ کلّہم یشفعون في مقلدیہم ویلاحظون أحدہم عند طلوع روحہ وعند سؤال منکر ونکیر لہ وعند النشر والحشر والحساب والمیزان والصراط، ولا یغفلون عنہم في موقف من المواقف بحوالہ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۷۶۹۔

[60] في ’’منح الروض الأزہر شرح فقہ الأکبر‘‘، ص۱۰۲: (قال القونوي: إنّ المؤمن إن کان مطیعاً لا یکون لہ عذاب القبر ویکون لہ ضغطۃ فیجد ہول ذلک وخوفہ،… قال القونوي: وإن کان عاصیاً یکون لہ عذاب القبر وضغطۃ القبر، لکن ینقطع عنہ عذاب القبر یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ۔۔۔)، ملخصاً وملتقطاً۔ وانظر: ’’حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي‘‘، ص۵۲۴۔

[61] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((من مات یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ وقي فتنۃ القبر))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۷۰۷۰، ج۲، ص۶۸۴۔وعن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلاّ وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الجنائز، باب ما جاء فیمن مات یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۰۷۶، ج۲، ص۳۳۹۔و’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۶۵۹۳، ج۲، ص۵۷۵۔ وفي ’’حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي‘‘، ص ۵۲۴: (وإن مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ یکون لہ العذاب ساعۃ واحدۃ وضغطۃ ثم ینقطع عنہ العذاب وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۸۴: (والأصح أنّ الأنبیاء لا یسألون، وقد ورد أنّ بعض صالحي الأمۃ کالشھید والمرابط یوما ولیلۃ في سبیل اللّٰہ یأمن فتنۃ القبر، فالأنبیاء علیہم السلام أولی بذلک، وفي ’’المعتمد المستند‘‘: (والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتھا أوفي رمضان وغیرھم ممّن وردت لھم الأحادیث ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۶۵۹۔

[62] فوراً۔

[63] عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۔۔۔ ((فیقال: افتحوا لہ بابا إلی النار، فیفتح لہ باب إلی النار، فیقال: ہذا کان منزلک لو عصیت اللّٰہ عز وجل، فیزداد غبطۃ وسرورا، ویقال لہ: افتحوا لہ بابا إلی الجنۃ، فیفتح لہ، فیقال: ہذا منزلک وما أعدّ اللّٰہ لک، فیزداد غبطۃ وسرورا،۔۔۔ وأمّا الکافر۔۔۔، فیقال: افتحوا لہ بابا إلی الجنۃ، فیفتح لہ باب إلی الجنۃ، فیقال لہ: ہذا کان منزلک وما أعدّ اللّٰہ لک لو أنت أطعتہ، فیزداد حسرۃ وثبورا، ثم یقال لہ: افتحوا لہ بابا إلی النار، فیفتح لہ بابا إلیہا، فیقال لہ: ہذا منزلک وما أعدّ اللّٰہ لک، فیزداد حسرۃ وثبورا))، ملتقطاً۔’’المعجم الأوسط‘‘، الحدیث: ۲۶۳۰، ج۲، ص۹۲۔ و’’شرح الصدور‘‘، ص۱۳۳۔

[64] ((وإن کان منافقاً قال: لا أدري کنت أسمع الناس یقولون شیئاً، فکنت أقولہ۔۔۔إلخ))۔ ’’صحیح ابن حبان‘‘، الحدیث: ۳۱۰۷، ج۴، ص۴۸۔وفي روایۃ: ((وإن کان منافقاً قال: سمعت الناس یقولون فقلت مثلہ، لا أدري۔۔۔إلخ))۔’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۰۷۳، ج۲، ص۳۳۸۔وفي روایۃ: قال: ((وإن الکافر فذکر موتہ، قال: وتعاد روحہ في جسدہ ویأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري، فیقولان لہ: ما دینک؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري فیقولان لہ: ما ھذا الرجل الذي بعث فیکم؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري، فینادي مناد من السماء أن کذب فأفرشوہ من النار وألبسوہ من النار وافتحوا لہ باباً إلی النار قال: فیأتیہ من حرھا وسمومھا۔۔۔ زاد في حدیث جریر قال: ثم یقیض لہ أعمی أبکم معہ مرزبۃ من حدید لو ضرب بھا جبل لصار تراباً قال: فیضربہ بھا ضربۃ یسمعھا ما بین المشرق والمغرب إلاّ الثقلین فیصیر تراباً۔۔۔ إلخ))، ملتقطاً۔’’سنن أبي داود‘‘، کتاب السنۃ، باب في المسألۃ في القبر وعذ اب القبر، الحدیث: ۴۷۵۳، ج۴، ص۳۱۶۔

[65] عن أبي ھریرۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((… أتدرون فیما أنزلت ھذہ الآیۃ: { فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)} أتدرون ما المعیشۃ الضنکۃ قالوا: اللّٰہ ورسولہ أعلم قال: عذاب الکافر في قبرہ، والذي نفسي بیدہ أنّہ یسلط علیہ تسعۃ وتسعون تنینا، أتدرون ما التنین؟ سبعون حیۃ لکل حیۃ سبع رؤوس یلسعونہ ویخدشونہ إلی یوم القیامۃ))۔’’صحیح ابن حبان‘‘، کتاب الجناءز۔۔۔ إلخ، فصل في أحوال المیت في قبرہ، الحدیث: ۳۱۱۲، ج۴، ص۵۰۔

[66] { اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاۚ-} پ۲۴ ، المؤمن: ۴۶۔

في ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۹، ص۵۲۱: ( احتجّ أصحابنا بہذہ الآیۃ علی إثبات عذاب القبر قالوا: الآیۃ تقتضي عرض النار علیہم غدواً وعشیاً ، ولیس المراد منہ یوم القیامۃ۔۔۔ إلخ((عذاب القبر حق))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجناءز، باب ما جاء في عذاب القبر، الحدیث: ۱۳۷۲، ج۱، ص۴۶۳۔

وفي روایۃ: عن عاءشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أیہا الناس استعیذوا باللّٰہ من عذاب القبر فإنّ عذاب القبر حق))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۴۵۷۴، ج۹، ص۳۶۳۔وفي روایۃ: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّما القبر روضۃ من ریاض الجنۃ أو حفرۃ من حفر النار))۔’’ سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ، الحدیث: ۲۴۶۸، ج۴، ص۲۰۹۔

[67] في ’’شرح العقاءد النسفیۃ‘‘، مبحث عذاب القبر، ص۹۹: (عذاب القبر للکافرین ولبعض عصاۃ المؤمنین، خص البعض؛ لأنّ منھم من لا یرید اللّٰہ تعالٰی تعذیبہ فلا یعذب، وتنعیم أھل الطاعۃ في القبر بما یعلمہ اللّٰہ تعالی ویریدہ ثابت ملتقطاً۔

وفي ’’فقہ الأکبر‘‘، ص۱۰۱: (ضغطۃ القبر حق، وعذابہ حق کاءن للکفار کلہم ولبعض المسلمین

وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۰۱، تحت العبارۃ: (وعذابہ) أي: إیلامہ (حق کاءن للکفار کلہم) أجمعین (ولبعض المسلمین) أي: عصاۃ المسلمین کما في نسخۃ، وکذا تنعیم بعض المؤمنین حق، فقد ورد : ((إن القبر روضۃ من ریاض الجنۃ أو حفرۃ من حفر النیران)) رواہ الترمذي والطبراني رحمہما اللّٰہ

[68] { اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاۚ-وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ- اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ(۴۶)} پ۲۴، المؤمن: ۴۶۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۸، ص۱۹۱، تحت الآیۃ: (محل العذاب والنعیم أي: في القبر ہو الروح والبدن جمیعاً باتفاق أہل السنۃ

في ’’شرح الصدور‘‘، ص۱۸۱: (قال العلماء: عذاب القبر محلہ الروح والبدن جمیعاً باتفاق أہل السنۃ وکذا القول في النعیم ملتقطاً۔ وفي ’’المعتمد المستند‘‘، ص۱۸۲: (أنّ التنعیم والعذاب کلاھما للروح والبدن جمیعاً

و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۶۵۸۔ و۸۵۱۔

[69] یعنی عذاب و ثواب اِنہیں پر وارد ہوگا۔

[70] یعنی لوٹ کر آنا ۔

[71] یعنی لوٹ کر آناہے۔

[72] عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((ویبلی کل شيء من الإنسان إلاّ عجب ذنبہ فیہ یرکب الخلق))۔’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التفسیر، باب ونفخ في الصور۔۔۔إلخ، الحدیث: ۴۸۱۴، ج۳، ص۳۱۶۔ وفي ’’فتح الباري‘‘، کتاب التفسیر، ج۸، ص۴۷۵۔۴۷۶، تحت الحدیث: (قولہ: ’’ویبلی کل شيء من الإنسان إلاّ عجب ذنبہ، فیہ یرکب الخلق‘‘، في روایۃ مسلم: ((لیس من الإنسان شيء إلاّ یبلی إلاّ عظماً واحداً))، وعن أبي ہریرۃ بلفظ: ((کل ابن آدم یأکلہ التراب إلاّ عجب الذنب، منہ خلق ومنہ یرکب))، وعن أبي ہریرۃ قال: ((إنّ في الإنسان عظما لا تأکلہ الأرض أبداً، فیہ یرکب یوم القیامۃ))، قالوا: أيّ عظم ہو؟ قال: ((عجب الذنب))، وفيحدیث أبي سعید عند الحاکم وأبي یعلی: قیل: یا رسول اللّٰہ ما عجب الذنب؟ قال: ((مثل حبۃ خردل))، والعجب بفتح المہملۃ وسکون الجیم بعدہا موحدۃ ویقال لہ: ((عجم)) بالمیم أیضا عوض الباء، وہو عظم لطیف في أصل الصلب، وہو رأس العصعص، وہو مکان رأس الذنب من ذوات الأربع۔ وفي حدیث أبي سعید الخدري عند ابن أبي الدنیا وأبي داود والحاکم مرفوعا: ((إنّہ مثل حبۃ الخردل))۔ وفي ’’شرح العقاءد النسفیۃ‘‘، مبحث عذاب القبر والبعث، ص۱۰۲۔۱۰۳: (والبعث وھو أن یبعث اللّٰہ تعالٰی الموتی من القبور بأن یجمع أجزاء ھم الأصلیۃ ویعید الأرواح إلیھا حق لقولہ تعالی: { ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ(۱۶)} وقولہ تعالی: { قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ- } إلی غیر ذلک من النصوص القاطعۃ الناطقۃ بحشر الأجساد

[73] في ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، ج۱، ص۳۰۳: (من أنکر عذاب القبر فھو مبتدع و’’بریقۃ محمودیۃ‘‘، ج۲، ص۵۶۔

[74] وفي ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، ج۱، ص۲۶۶۔۲۶۷: (وعذ اب القبر) قید القبر جری علی الغالب أو قبرکل إنسان بحسبہ، وقال العلماء: عذاب القبر ھو عذاب البرزخ أضیف إلی القبر؛ لأنّہ الغالب وإلاّ فکل میت أراد اللّٰہ تعالی تعذیبہ نالہ ما أراد اللّٰہ بہ قبر أو لم یقبر ولو صلب أو غرق في بحر أو أکلتہ الدواب أو حرق حتی صار رماداً، وذري في الریح (وتنعیم أھل الطاعۃ) من المؤمنین (فیہ) أي: القبر یعني کاءن ذلک فیہ (بما) أي: بالوصف الذي (یعلمہ اللّٰہ تعالٰی ویریدہ) للعبد المؤمن کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((القبر روضۃ من ریاض الجنۃ أو حفرۃ من حفر النیران)) وکما تقدم في عذاب القبر یقال في نعیمہ سواء قبر العبد أو لم یقبر حتی لو صلب أو غرق في بحر أو أکلتہ الدواب أو حرق۔۔۔إلخ

وفي ’’شرح العقاءد النسفیۃ‘‘، مبحث عذاب القبر والبعث، ص۱۰۱: (حتی أنّ الغریق في الماء والمأکول في بطون الحیوانات والمصلوب في الھواء یعذب وإن لم نطلع علیہ

وفي ’’النبراس‘‘، مبحث عذاب القبر وثوابہ، ص۲۱۰: (ولا یستلزم أن یتحرک ویضطرب) من الألم (أو یری أثر العذاب علیہ) من إحراق أو ضرب (حتی أنّ الغریق في الماء أو المأکول في بطون الحیوانات أو المصلوب في الھواء یعذب وإن لم نطلع علیہ) جواب عن الإشکال للمعتزلۃ، وحاصلہ أنّا لا نری المیت معذبا فالحکم بعذابہ سفسطۃ لا سیما في ثلثۃ أشخاص أحدھم الغریق؛ لأنّ الإحراق في الماء البارد غیر معقول، الثاني من أکلہ السباع إذ لو عذب بالاحتراق بطونھا، الثالث المصلوب لا یزال فيالھواء یراہ ویشھدہ الناظرون بلا سؤال وضیق مکان وعذاب، وحاصل الجواب: إنّ اللّٰہ تعالٰی علی کل شيء قدیر، وإنّا لا ند رک إلاّ ما خلق اللّٰہ سبحانہ إدراکہ فینا فیجوز أن یستر ھذہ الأحوال عن حواسنا کما کان جبریل علیہ السلام ینزل علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویکلمہ ولا یشعر الحاضرون بذلک وکما أنّ صاحب السکتۃ حيّ ولا ید رک حیٰوتہ

75 { وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴)} پ۲، البقرۃ: ۱۵۴۔

{ وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)} پ۴، آل عمران: ۱۶۹۔

عن أبي الدرداء قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أکثروا الصلاۃ علي یوم الجمعۃ، فإنّہ مشھود تشھدہ الملاءکۃ، فإنّ أحداً لن یصلي علي إلاّ عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منھا، قال قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إنّ اللّٰہ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام، فنبي اللّٰہ حي یرزق))۔’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب الجناءز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱۔

{ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْۚ- } پ۲۶، ق:۴۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۹، ص۱۰۴، تحت الآیۃ: (في الحدیث: ((کل ابن آدم یبلی إلاّ عجب الذنب، فمنہ خلق وفیہ یرکب))، والعجب بفتح العین وسکون الجیم أصل الذنب ومؤخر کل شيء وہو ہہنا عظم لا جوف لہ قدر ذرۃ أو خردلۃ یبقی من البدن ولا یبلی، فإذا أراد اللّٰہ الإعادۃ رکب علی ذلک العظم ساءر البدن وأحیاہ، أي: غیر أبدان الأنبیاء والصدیقین والشہدآء فإنّہا لا تبلی ولا تتفسخ إلی یوم القیامۃ علی ما نص بہ الأخبار الصحیحۃوأیضاً في ’’روح البیان‘‘، ج۳، ص۴۳۹: قال الإمام الإسماعیل حقي رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ: (أجساد الأنبیاء والأولیاء والشہداء لا تبلی ولا تتغیر لما أنّ اللّٰہ تعالی قد نفی أبدانہم من العفونۃ الموجبۃ للتفسخ وبرکۃ الروح المقدس إلی البدن کالإکسیر

عن أبي سعید قال: دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مصلاّہ، فرأی الناس کأنّہم یکتشرون، قال: ((أما إنکم لو أکثرتم ذکر ہاذم اللذات لشغلکم عما أری الموت فأکثروا من ذکر ہاذم اللذات الموت فإنّہ لم یأت علی القبر یوم إلاّ تکلّم فیہ، فیقول: أنا بیت الغربۃ وأنا بیت الوحدۃ وأنا بیت التراب وأنا بیت الدود۔۔۔إلخ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ والرقاءق والورع۔۔۔إلخ، الحدیث: ۲۴۶۸، ج۴، ص۲۰۸۔

’’والمشکاۃ‘‘، کتاب الرقاق، الحدیث: ۵۳۵۲، ج۲، ص۲۷۲۔۲۷۳۔

في ’’المرقاۃ‘‘، ج۹، ص۲۱۳، تحت الحدیث، وتحت اللفظ: (’’وأنا بیت الدود‘‘: قیل: یتولد الدود من العفونۃ وتأکل الأعضاء، ثم یأکل بعضہا بعضاً إلی أن تبقی دودۃ واحدۃ فتموت جوعاً، واستثنی الأنبیاء والشھداء والأولیاء والعلماء من ذلک، فقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ اللّٰہ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء))۔ وقال تعالی في حق الشہداء: { وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)}والعلماء العاملون المعبر عنہم بالأولیاء مدادہم أفضل من دماء الشہداء

وفي ’’شرح الصدور‘‘، باب نتن المیت وبلاء جسدہ۔۔۔ إلخ، ص۳۱۷۔۳۱۸: عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إذا مات حامل القرآن أوحی اللّٰہ إلی الأرض أن لا تأکلي لحمہ، فتقول الأرض: أي رب! کیف آکل لحمہ وکلامک في جوفہ؟))۔ وعن قتادۃ قال: (بلغني أنّ الأرض لا تسلط علی جسد الذي لم یعمل خطیئۃ

(محمد بن سلیمان الجزولي) السملالي الشریف الحسني الشاذلي، صاحب ’’دلائل الخیرات‘‘ رضي اللّٰہ عنہ، دخل الخلوۃ للعبادۃ نحو أربعۃ عشر عاماً، ثم خرج للانتفاع بہ، فأخذ في تربیۃ المریدین، وتاب علی یدہ خلق کثیر، وانتشر ذکرہ في الآفاق، وظہرت لہ الخوارق العظیمۃ والکرامات الجسمیۃ والمناقب الفخیمۃ، واجتمع عندہ من المریدین أکثر من اثني عشر ألفاً، ومن کراماتہ رضي اللّٰہ عنہ: أنّہ بعد وفاتہ بسبع وسبعین سنۃ نقلوہ من قبرہ في بلاد ’’السوس‘‘ إلی ’’مراکش‘‘، فوجدوہ کہیئتہ یوم دفن ولم تعد علیہ الأرض ولم یغیر طول الزمان من أحوالہ شیئاً، وأثر الحلق من شعر رأسہ ولحیتہ ظاہر کحالہ یوم موتہ، إذ کان قریب عہد بالحلق، ووضع بعض الحاضرین أصبعہ علی وجہہ حاصراً بہا فحصر الدم عما تحتہا، فلما رفع أصبعہ رجع الدم کما یقع ذلک في الحي۔ وقبرہ بمراکش علیہ جلالۃ عظیمۃ، والناس یزدحمون علیہ، ویکثرون من قراء ۃ دلائل الخیرات عندہ۔ وثبت أنّ راءحۃ المسک توجد من قبرہ من کثرۃ صلاتہ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وکانت وفاتہ سنۃ ۸۷۰ رضي اللّٰہ عنہ۔ ’’جامع کرامات الأولیاء‘‘، ج۱، ص۲۷۶۔ انظر للتفصیل: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۹، ص۱۲۸۔

76جیسا کہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب میں کہا، تفصیل کیلئے دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ نمبر ۲۱۷۔

Share