(7)… محبتِ دنیا
محبت دنیا کی تعریف:
’’دنیا کی وہ محبت جو اُخروی نقصان کا باعث ہو (قابل مذمت اور بری ہے)۔‘‘[1] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۱)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:( اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۲۰)) (پ۲۷، الحدید: ۲۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی مارنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا اس مینھ کی طرح جس کا اگایا سبزہ کسانوں کو بھایا پھر سوکھا کہ تو اسے زرد دیکھے پھر روندن ہو گیا اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا اور دنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کا مال۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۱)
حدیث مبارکہ، دنیاسےمحبت کرنے والوں کی مذمت:
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ خوشبو دار ہے: ’’چھ چیزیں عمل کو ضائع کر دیتی ہیں: (۱) مخلوق کے عیوب کی ٹوہ میں لگے رہنا (۲) دل کی سختی (۳) دنیاکی محبت (۴) حیاکی کمی (۵) لمبی امید اور (۶) حد سے زیادہ ظلم۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۱،۷۲)
محبت دنیا کے بارےمیں تنبیہ:
دنیا کی وہ محبت جو اُخروی نقصان کا باعث ہو شرعاً مذموم وقابل مذمت ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۲)
دُنیا کا معنٰی:
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ۸۶۸صَفحات پر مشتمل کتاب ’’اِصلاحِ اعمال‘‘ (جلداوّل) صَفْحَہ۱۲۸ تا ۱۲۹ پر ہے:’’دُنیاکالغوی معنٰی ہے: ’’قریب‘‘اور دُنیاکو دُنیااِس لئے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے یا اس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہِشات ولذّات کے سبب دل کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۵)
دُنیا کیا ہے؟
حضرتِ سیِّدُنا علّامہ بدرُ الدّین عَینی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بخاری شریف کی شَرح ’’عُمدۃُ القاری ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’دارِآخِرت سے پہلے تمام مخلوق دُنیا ہے۔‘‘[3] پس اِس اعتبارسے سونا چاندی اور اُن سے خریدی جانے والی تمام ضَروری وغیر ضَروری اَشیا دنیامیں داخِل ہیں۔[4](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۶)
دنیا دارکی تعریف:
’’جب بندہ آخِرت کی بہتری کی غَرَض سے دنیا میں سے کچھ لے گا تو اُسے دنیا دار نہیں کہیں گے بلکہ اس کے حق میں دنیا آخِرت کی کھیتی ہوگی اور اگر ذاتی خواہِش اور حصولِ لذّت کے طور پر یہ چیزیں حاصل کرتا ہے تو وہ دُنیا دار ہے۔‘‘[5](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۸)
ابلیس کی بیٹی:
حضرت سیِّدُنا علی خوَّاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’دنیا ابلیسِ لعین (یعنی لعنتی شیطان ) کی بیٹی ہے اور اس (یعنی دنیا) سے محبت کرنے والا ہر شخص اُس کی بیٹی کا خاوَند ہے،ابلیس اپنی بیٹی کی وجہ سے اُس دنیا دار شخص کے پاس آتا جاتا رہتا ہے، لہٰذا میرے بھائی! اگر تم شیطان سے محفوظ رَہناچاہتے ہو تو اُس کی بیٹی(یعنی دنیا) سے رشتہ قائم نہ کرو۔‘‘[6] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۷۸،۷۹)
محبت دنیاکا علاج:
دنیا کی محبت دل سے کم کرنے کا علاج یہ ہے کہ دنیا کی ان حقیقتوں کو پیش نظر رکھےکہ (۱)دنیا سائے کی طرح ہےاور سائے سے دھوکہ کھانا حماقت ہے۔ (۲) دنیا خواب کی طرح ہےاور خوابوں سے محبت کرنا دانش مند ی نہیں۔ (۳)دنیا ظاہری زیب و زینت سے آراستہ بدصورت بوڑھی عورت کی طرح ہےلہٰذا دنیا کی اس اصلیت کو جاننے لینے کے بعد دنیا کا پیچھا کرنے والے کو ندامت و پشیمانی ہی ہوتی ہے۔یہ خرابی پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی بھی دنیا کی ظاہری خوب صورتی کو دل میں جگہ نہ دے۔(۴)دنیا میں انسان کی حیثیت اس سوار کی طرح ہر جو درخت کی چھاؤں میں کچھ دیرآرام کرنے کے بعداسے وہیں چھوڑ کر اپنا سفر شروع کردیتا ہے۔دنیا کو اس نظر سے دیکھنے والے کا دل کبھی بھی دنیا کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا۔(۵)دنیا سانپ کی طر ح ہے جو چھونے میں نرم و ملائم ہے لیکن اس کا زہرجان لیواہوتاہے۔کیا عارضی نفع کے لیے دائمی تکلیف کو اپنا لینا دانائی ہے؟ (۶)جس طر ح پانی میں چلنے والے کے قدم سوکھے نہیں رہ سکتے اسی طرح دنیا سےالفت رکھنے والامصیبت و آفت سے چھٹکار ا نہیں پاسکتا اور آخرکار دنیوی محبت کی دیمک دل سے عبادت کی لذت و مٹھاس کوآہستہ آہستہ ختم کردیتی ہے۔(۷)طالب دنیا کی مثال سمند ر کے پانی سے پیاس بجھانے والے جیسی ہے،جس قدروہ پانی پیتا ہے اتنا ہی پیاس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(۸)جس طرح عمدہ اور لذیذ غذا کا انجام غلاظت اور گندگی ہے اسی طرح خوش نما دنیا کا انجام بھی تکلیف دہ موت پر ختم ہوتا ہے۔(۹)دنیا لوگوں کو دھوکا دیتی ہے اور ایمان کمز ور کرتی ہے۔(۱۰)دنیا میں حد سے زیادہ مشغولیت ،آخرت سے غافل ہونے کا سبب ہے۔(۱۱)دنیا ایک مہمان خانہ ہے لہٰذا اس میں پر سکون رہنے کے لیے خود کو مسافر رکھنا ضروری ہے ،اگر دنیا کو مستقل ٹھکانہ سمجھ کر اس سے دل لگا بیٹھے تو جدائی کے وقت بہت زیادہ غم اور تکلیف کا سامناہوتا ہے۔[7] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۸۳تا۸۵)
[1] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین،کتاب ذم الدنیا،بیان ذم الدنیا،ج۳،ص۲۴۹۔
[2] ۔۔۔۔کنزالعمال، کتاب المواعظ، قسم الاقوال، الفصل السادس، ج۱۶،ص۳۶، حدیث: ۴۴۰۱۶۔
[3] ۔۔۔۔عُمدۃُ القاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان۔۔۔الخ، ج۱، ص۵۲۔
[4] ۔۔۔۔الحدیقۃ الندیۃ، ان الدنیا فانیۃ، ج۱ ،ص۱۷۔
[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، کتاب ذم الدنیا، بیان حقیقۃ الدنیا۔۔۔الخ، ج۳، ص۲۷۲۔
[6] ۔۔۔۔الحدیقۃ الندیۃ، ان الدنیا فانیۃ، ج۱، ص۱۹۔
[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،ج۳،ص۶۵۳تا۶۶۶ماخوذا۔
Comments