اُونٹ کی زکاۃ کا بیان
صحیحین میں ابو سعید خدری رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی، رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں: ''پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں۔'' [1] اور اس کی زکاۃ میں تفصیل صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں ہے، جو انس رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی۔ [2]
مسئلہ ۱: پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ واجب نہیں اور جب پانچ یا پانچ سے زیادہ ہوں، مگر پچیس ۲۵ سے کم ہوں تو ہر پانچ میں ایک بکری واجب ہے یعنی پانچ ہوں تو ایک بکری، دس ۱۰ ہوں تو دو ۲ ، وعلیٰ ہذا القیاس۔[3] (عامہ کتب)
مسئلہ ۲: زکاۃ میں جو بکری دی جائے وہ سال بھر سے کم کی نہ ہو بکری دیں یا بکرا اس کا اختیار ہے۔ [4] (ردالمحتار وغیرہ)
مسئلہ ۳: دو نصابوں کے درمیان میں جو ہوں وہ عفو ہیں یعنی اُن کی کچھ زکاۃ نہیں، مثلاً سات آٹھ ہوں، جب بھی وہی ایک بکری ہے۔ [5] (درمختار)
مسئلہ ۴: پچیس ۲۵ اونٹ ہوں تو ایک بنت مخاض یعنی اونٹ کا بچہ مادہ جو ایک سال کا ہو چکا، دوسری برس میں ہو۔ پینتیس ۳۵ تک یہی حکم ہے یعنی وہی بنت مخاض دیں گے۔ چھتیس ۳۶ سے پینتالیس ۴۵ تک میں ایک بنت لبون یعنی اونٹ کا مادہ بچہ جو دو سال کا ہو چکا اور تیسری برس میں ہے۔ چھیالیس ۴۶ سے ساٹھ ۶۰ تک میں حِقّہ یعنی اونٹنی جو تین برس کی ہو چکی چوتھی میں ہو۔ اکسٹھ ۶۱ سے پچھتر ۷۵ تک جذعہ یعنی چار سال کی اونٹنی جو پانچویں میں ہو۔ چھہتر ۷۶ سے نوے ۹۰ تک میں دو بنت لبون۔ اکانوے ۹۱ سے ایک سو بیس ۱۲۰ تک میں دو حِقّہ۔ اس کے بعد ایک سو پینتالیس ۱۴۵ تک دو حِقّہ اور ہر پانچ میں ایک بکری، مثلاً ایک سو پچیس ۱۲۵ میں دو حِقّہ ایک بکری اور ایک سو تیس ۱۳۰ میں دو حِقّہ دو بکریاں،[6] وعلیٰ ہذا القیاس [7] ۔ پھر ایک سو پچاس ۱۵۰ میں تین حِقّہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ان میں ویسا ہی کریں جیسا شروع میں کیا تھا یعنی ہر پانچ میں ایک بکری اور پچیس ۲۵ میں بنت مخاض، چھتیس ۳۶ میں بنت لبون، یہ ایک سو چھیاسی ۱۸۶ بلکہ ایک سو پچانوے ۱۹۵ تک کا حکم ہوگیا یعنی اتنے میں تین حِقّہ اور ایک بنتِ لبون۔ پھر ایک سو چھیانوے ۱۹۶ سے دو سو ۲۰۰ تک چار حِقّہ اور یہ بھی اختیار ہے کہ پانچ بنت لبون دے دیں۔ پھر دو سو ۲۰۰ کے بعد وہی طریقہ برتیں، جو ایک سو پچاس ۱۵۰ کے بعد ہے یعنی ہر پانچ میں ایک بکری، پچیس ۲۵ میں بنت مخاض، چھتیس ۳۶ میں بنت لبون۔ پھر دو سو چھیالیس ۲۴۶ سے دو سو پچاس ۲۵۰ تک پانچ حِقّہ وعلیٰ ہذا القیاس۔[8](عامہ کتب)
مسئلہ ۵: اونٹ کی زکاۃ میں جس موقع پر ایک یا دو یا تین یا چار سال کا اونٹ کا بچہ دیا جاتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ مادہ ہو، نَر دیں تو مادہ کی قیمت کا ہو ورنہ نہیں لیا جائے گا۔[9](درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۸۹۳تا ۸۹۵)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''صحیح مسلم''، کتاب الزکاۃ، باب لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ، الحدیث:۹۷۹، ص۴۸۷.
[2] ۔۔۔۔۔۔''صحیح البخاری''، کتاب باب من بلغت عندۃ صدقۃ ۔۔۔الخ ، الحدیث۱۴۵۳ ،۱۴۰۴، ج۱ص،۴۹.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثاني في صدقۃ السوائم، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۷۷.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب نصاب الابل، ج۳، ص۲۳۸.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب نصاب الابل، ج۳، ص۲۳۸.
[6] ۔۔۔۔۔۔ مزید آسانی کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیجئے: اونٹ کا نصاب
تعداد جن پر زکاۃ واجب ہے شرح زکاۃ
۵ سے ۹ تک ایک بکری
۱۰ سے ۱۴ تک دوبکریاں
۱۵ سے ۱۹ تک تین بکریاں
۲۰ سے ۲۴ تک چار بکریاں
۲۵ سے ۳۵ تک ایک سال کی اونٹنی
۳۶ سے ۴۵ تک دو سال کی اونٹنی
۴۶ سے ۶۰ تک تین سال کی اونٹنی
۶۱ سے ۷۵ تک چار سال کی اونٹنی
۷۶ سے ۹۰ تک دو دو سال کی دو اونٹنیاں
۹۱ سے ۱۲۰ تک تین، تین سال کی دو اونٹنیاں
[7] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک سو پینتیس ۱۳۵ میں دو حقّہ تین بکریاں، ایک سو چالیس ۱۴۰ میں دو حقّہ چار بکریاں اور ایک سو پینتالیس ۱۴۵ میں دو حقّہ اور ایک بنتِ مخاض۔
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''تبیین الحقائق''، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ السوائم، ج۲، ص۳۴. و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب نصاب الابل، ج۳، ص۲۳۸ ۔ ۲۴۰،وغیرہما.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب نصاب الابل، ج۳، ص۲۴۰.
Comments