معمولاتِ اہلسنّت
آسان و سَہل اُردو میں ’’معمولاتِ اہلسنّت‘‘ کو جوکہ بلاشبہ مستحسن و باعثِ خیر و برکت اعمال ہیں ان کے متعلق پُرمغز معلومات کو دلائل و حوالہ جات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے تاکہ لوگ معمولاتِ اہلِ سنت کو واضح دلائل کی روشنی میں بخوبی جان سکیں اور جائز و مستحسن بات کو غلط فہمی و کم علمی کی بناء پر ناجائز و حرام نہ کہیں۔اوراس طرح کے بے جا اعتراضات کرنے والے بہک جانے والے افراد کے دامِ فریب میں نہ آئیں۔(بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنّت، ص ۴ تا۵) معمولاتِ اہلسنّت سے متعلق حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں:
فاروقِ اعظم کا حکمت سےبھرپورجواب:
حضرت سیِّدُنا اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اُنہیں رمضان المبارک میں تراویح کی جماعت قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ النَّاسَ يَصُوْمُوْنَ النَّهَارَ وَلَا يُحْسِنُوْنَ اَنْ يَقْرَاُوْا فَلَوْ قَرَاْتَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ یعنی لوگ دن کو روزہ تو اچھی طرح رکھ لیتے ہیں لیکن رات کو تراویح میں قرآن اَحسن انداز میں نہیں پڑھ پاتے کیا ہی اچھا ہو کہ تراویح کی جماعت قائم کرکے تم اِن کو قرآن سناؤ۔‘‘حضرت سیِّدُنا ابی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: ’’يَا اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ هٰذَا شَىْءٌ لَمْ يَكُنْ یعنی اے امیر المؤمنین! یہ چیز پہلے تو نہیں تھی۔‘‘امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ’’قَدْ عَلِمْتُ وَلٰكِنَّهُ حَسَنٌ مجھے معلوم ہے کہ تراویح کی جماعت پہلے نہیں تھی لیکن یہ ایک اچھا فعل ہے۔‘‘ لہٰذا حضرت سیِّدُنا ابی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائی۔( کنز العمال، کتاب الصلاۃ، صلاۃ التراویح، الجزء: ۸، ج۴، ص۱۹۲، حدیث: ۲۳۴۶۶)
علم وحکمت کے مدنی پھول:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا حدیث پاک سے علم وحکمت کے بے شمار مدنی پھول حاصل ہوئے:
(1)…تراویح کی جماعت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور سے پہلے نہیں ہوتی تھی ، یہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہی مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے قائم فرمائی۔
(2)…فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دور میں بھی تراویح کی بیس رکعت ہی ادا کی جاتی تھیں۔
(3)…ہر وہ کام جس کا وجود پہلے نہ ہو مگر مسلمانوں کے نزدیک وہ اچھا ہوتو اسے کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث پاک میں حضرت سیِّدُنا اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اس سوال کہ ’’تراویح کی جماعت پہلے تو نہ تھی‘‘کے جواب میں سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایاکہ ’’مجھے اس بات کا علم ہے کہ تراویح کی جماعت پہلے نہ تھی لیکن تراویح کی جماعت ایک اچھا فعل ہے لہٰذا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
(4)…سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ایک اُصول بیان فرمادیا کہ ہر وہ کام جس کا وجود پہلے نہ ہو مگر مسلمانوں کی نظر میں وہ اچھا ہوتواُسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ سیِّدُنا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’فَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُونَ قَبِيحًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ قَبِيحٌیعنی وہ کام جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ہاں بھی برا ہے۔‘‘( معجم کبیر، عبد اللہ بن مسعود، ج۹، ص۱۱۲، حدیث: ۸۵۸۳)
(5)…امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے ’’تراویح کی جماعت قائم کرنے‘‘جیسے مبارک عمل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اگرچہ کوئی کام رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے نہ کیا ہو لیکن اگر وہ اچھا کام ہے تواسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کئی بدمذہب و گمراہ فرقوں کا معمولات اہلسنت جیسے اذان وغیرہ مختلف مواقع پر درودوسلام پڑھنا، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے نام نامی اسم گرامی پر انگوٹھے چومنا، محافل وجلوس میلاد ، اعراس بزرگان دین ، نذرونیاز، بزرگان دین کے مزارات پر حاضری وغیرہ پر یہ اعتراض کرناکہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تو یہ کام نہ کیا ؟ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے تراویح کی جماعت پر اِجماع سے مردود ہوگیا کہ اَحکام شرعیہ کو سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ودیگر صحابۂ کرام سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
(فیضانِ فاروقِ اعظم، ج۲، ص ۶۵تا۶۷)
شيخِ طريقت امير اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الياس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِيَہ فرماتے ہیں: معمولاتِ اہلسنّت ہماری پہچان ہے لہٰذا ان کی بجا آوَری میں کوتاہی نہ فرمایئے۔ مَثَلاً
(الف) ربیعُ النُّور شریف میں دھوم دھام سے جشنِ وِلادت منائیے، اپنے مکان اور دُکان وغیرہ پر ابتِدائی ۱۲ دن چَراغاں اور سارا مہینہ ( گاڑیوں پر بھی) سبز سبز پرچم لہرائیے ۔ اپنی مسجِد اور مَحَلّے وغیرہ کو بھی بَرقی قُمقُموں اور سبز سبز پرچموں سے خوب سجائیے، شب ِ وِلادت ( ربیعُ النُّور شریف کی ۱۲ ویں رات) اجتِماعِ ذِکر و نعت میں گزارنے کے بعد ہاتھوں میں سبز پرچم اُٹھائے کھڑے ہو کر عَین صبحِ صادِق کے وقت صلٰوۃ وسلام پڑھتے ہوئے صبحِ بہاراں کا استِقبال کیجئے، ۱۲ ربیعُ النُّور شریف یعنی عیدِ مِیلادُ النَّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دن مرحبا کی دھومیں مچاتا ہوا جُلوسِ مِیلاد نکالئے۔
( ب) عیدِ مِعراجُ النَّبی عَلٰی صَاحِبِہَا الصّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ ایّامِ خُلَفَائے راشِدین عَلَیْہِمُ الرَّضْوَان۔ سالانہ گیارھویں شریف اور یومِ رضاؔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلے میں ۲۵ صَفَر المُظفَّر کو اجتماعِ ذِکر و نعت کا اِنعِقاد فرمایئے۔
(ج) اَعراس کے مواقِع پر مَزاراتِ اولیاء رَحِمَھُمُ اللہُ تَعالٰی سے مُلحِقَہ مساجِد میں مَدَنی قافِلے ٹھہرائیے، اپنے جَدوَل کے مطابِق وہاں زائرین میں نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچائیے اور صاحِبِ عُرس کی خوب بَرَکتیں لوٹیے۔(دعوتِ اسلامی کا تعارف، ص ۵۳ تا ۵۴)
Comments