وُضو کے متفرق مسائل

وُضو کے متفرق مسائل

مسئلہ ۵۱: اگر وُضو نہ ہو تو نماز اور سجدہ تلاوت اور نمازِجنازہ اور قرآنِ عظیم چُھونے کے لیے وُضو کرنا فرض ہے۔ [1]

مسئلہ ۵۲: طواف کے لیے وُضو واجب ہے۔ [2]

مسئلہ ۵۳: غسلِ جَنابت سے پہلے اور جُنب کو کھانے، پینے، سونے اور اذان و اقامت اور خطبہ جمعہ و عیدَین اور روضہ مبارکہ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی زیارت اور وُقوفِ عرفہ اور صَفا و مَروہ کے درمیان سَعی کے لیے وُضو کر لینا سنّت ہے۔

مسئلہ ۵۴: سونے کے لیے اور سونے کے بعد اور میت کے نہلانے یا اٹھانے کے بعد اور جِماع سے پہلے اور جب غصہ آجائے اس وقت اور زبانی قرآنِ عظیم پڑھنے کے لیے اور حدیث اور علمِ دین پڑھنے پڑھانے اور علاوہ جمعہ و عیدین باقی خطبوں کے لیے اور کتبِ دِینیہ چھونے کے لیے اور بعد ستر غلیظ چھونے اور جھوٹ بولنے ، گالی دینے، فحش لفظ نکالنے، کافر سے بدن چھو جانے، صلیب یا بُت چھونے، کوڑھی یا سپید داغ والے سے مس کرنے، بغل کھجانے سے جب کہ اس میں بدبو ہو، غیبت کرنے، قہقہہ لگانے، لغو اشعار پڑھنے اور اونٹ کا گوشت کھانے، کسی عورت کے بدن سے اپنا بدن بے حائل مس ہو جانے سے اور باوُضو شخص کے نماز پڑھنے کے لیے ان سب صورتوں میں وُضو مستحب ہے۔ [3]

مسئلہ ۵۵: جب وُضو جاتا رہے وُضو کرلینا مستحب ہے۔ [4]

مسئلہ ۵۶: نابالغ پر وُضو فرض نہیں [5] مگر ان سے وُضو کرانا چاہیئے تاکہ عادت ہو اور وُضو کرنا آجائے اور مسائلِ وُضو سے آگاہ ہو جائیں۔

مسئلہ ۵۷: لوٹے کی ٹُونٹی نہ ایسی تنگ ہو کہ پانی بدقّت گرے، نہ اتنی فراخ کہ حاجت سے زیادہ گرے بلکہ متوسط ہو۔ [6]

مسئلہ ۵۸: چُلّو میں پانی لیتے وقت خیال رکھیں کہ پانی نہ گرے کہ اِسراف ہو گا۔ ایسا ہی جس کام کے لیے چُلّو میں پانی لیں اُس کا اندازہ رکھیں ضرورت سے زیادہ نہ لیں مثلاً ناک میں پانی ڈالنے کے لیے آدھا چُلّو کافی ہے تو پورا چُلّو نہ لے کہاِسراف ہوگا۔[7]

مسئلہ ۵۹: ہاتھ، پاؤں، سینہ ،پُشت پر بال ہوں تو ہرتال وغیرہ سے صاف کر ڈالے یا تَرَشْوالے، نہیں تو پانی زیادہ خرچ ہو گا۔[8]

فائدہ: ولہان ایک شیطان کا نام ہے جو وُضو میں وسوسہ ڈالتا ہے اس کے وسوسہ سے بچنے کی بہترین تدابیر یہ ہیں:

(۱) رجوع الی اللہ و

(۲) اَعُوْذُ بِاللہِ

(۳) وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ و

(۴) سورہ ناس، اور

(۵) اٰمَنْتُ بِاللہ وَ رَسُوْلِہٖ، اور

(۶) ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُج وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٍ، اور

(۷) سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْخَلَّاقِ اِنْ یَّشَأ یُذْہِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ لا وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْزٍ ط

پڑھنا کہ وسوسہ جڑ سے کٹ جائے گا اور

(۸) وسوسہ کا بالکل خیال نہ کرنابلکہ اس کے خلاف کرنا بھی دافعِ وسوسہ ہے۔[9] (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۰۱تا ۳۰۳)


....[1] ''نور الإیضاح''، کتاب الطہارۃ، فصل: الوضوء علی ثلاثۃ أقسام، ص۱۸.

....[2] ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص۲۰۵. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث، ج۱، ص۹.

....[3] ''نورالإیضاح''، کتاب الطہارۃ، فصل: الوضوء علی ثلاثۃ أقسام، ص۱۹.و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۷۱۵۔۷۲۴.

....[4] ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث، ج۱، ص۹.

....[5] ''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في اعتبارات المرکب التام، ج۱، ص۲۰۲.

....[6] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۷۶۵.

....[7] ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۷۶۵.

....[8] المرجع السابق، ص۷۶۹.

....[9] المرجع السابق، ص۷۷۰.

Share