مَوزَوں پر مسح کرنے کے مسائل
جو شخص موزہ پہنے ہوئے ہو وہ اگر وُضو میں بجائے پاؤں دھونے کے مسح کرے جائز ہے اور بہتر پاؤں دھونا ہے بشرطیکہ مسح جائز سمجھے۔ اور اس کے جواز میں بکثرت حدیثیں آئی ہیں جو قریب قریب تواتر کے ہیں، اسی لیے امام کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں جو اس کو جائز نہ جانے اس کے کافر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ امام شیخ الاسلام فرماتے ہیں جو اسے جائز نہ مانے گمراہ ہے۔ ہمارے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے اہلسنّت و جماعت کی علامت دریافت کی گئی فرمایا:
تَفْضِیْلُ الشَّیْخَیْنِ وَحُبُّ الْخَتْنَیْنِ وَمَسْحُ الْخُفَّیْنِ
یعنی حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق و امیر المومنین فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْھُمَا کو تمام صحابہ سے بزرگ جاننا اور امیر المومنین عثمانِ غنی و امیر المومنین علی مرتضی رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْھُمَا سے محبت رکھنا اور مَوزوں پر مسح کرنا۔ [1] اور ان تینوں باتوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ حضرت کوفہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں رافضیوں ہی کی کثرت تھی تو وہی علامات ارشاد فرمائیں جو ان کا رد ہیں۔ اس روایت کے یہ معنی نہیں کہ صرف ان تین باتوں کا پایا جانا سُنّی ہونے کے لیے کافی ہے۔ علامت شے میں پائی جاتی ہے، شے لازمِ علامت نہیں ہوتی جیسے حدیثِ صحیح بُخاری شریف میں وہابیہ کی علامت فرمائی:۔ (( سِیْمَا ھُمُ التَّحْلِیْقُ)) ان کی علامت سر منڈانا ہے۔ [2] اس کے یہ معنی نہیں کہ سر منڈانا ہی وہابی ہونے کے لیے کافی ہے اور امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ میرے دل میں اس کے جواز پر کچھ خدشہ نہیں کہ اس میں چالیس صحابہ سے مجھ کو حدیثیں پہنچیں۔ [3]
مسئلہ ۱ : جس پر غُسل فرض ہے وہ مَوزوں پر مسح نہیں کرسکتا۔[4]
مسئلہ ۲ : عورتیں بھی مسح کر سکتی ہیں [5] مسح کرنے کے لیے چند شرطیں ہیں:
(۱) موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں اس سے زِیادہ ہونے کی ضرورت نہیں اورا گردوایک اُنگل کم ہو جب بھی مسح درست ہے، ایڑی نہ کھلی ہو۔
(۲) پاؤں سے چپٹا ہو، کہ اس کو پہن کر آسانی کے ساتھ خوب چل پھر سکیں۔
(۳) چمڑے کا ہو یا صرف تَلا چمڑے کا اور باقی کسی اور دبیز چیز کا جیسے کرمچ وغیرہ۔
مسئلہ ۳ : ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔ [6]
(۴) وُضو کرکے پہنا ہویعنی پہننے کے بعد اور حدث سے پہلے ایک ایسا وقت ہو کہ اس وقت میں وہ شخص با وُضو ہو خواہ پورا وُضو کرکے پہنے یا صرف پاؤں دھو کر پہنے بعد میں وُضو پورا کر لیا۔
مسئلہ ۴: اگر پاؤں دھو کر موزے پہن لیے اور حدث سے پہلے مونھ ہاتھ دھو لیے اور سر کا مسح کر لیا تو بھی مسح جائز ہے اور اگر صرف پاؤں دھو کر پہنے اور بعد پہننے کے وُضو پورا نہ کیا اور حدث ہو گیا تو اب وُضو کرتے وقت مسح جائز نہیں۔
مسئلہ ۵: بے وُضو موزہ پہن کر پانی میں چلا کہ پاؤں دُھل گئے اب اگر حدث سے پیشتر باقی اعضائے وُضو دھو لیے اور سر کا مسح کر لیا تو مسح جائز ہے ورنہ نہیں۔ [7]
مسئلہ ۶: وُضو کرکے ایک ہی پاؤں میں موزہ پہنااوردوسرا نہ پہنا ،یہاں تک کہ حدث ہوا تو اس ایک پر بھی مسح جائز نہیں دونوں پاؤں کا دھونا فرض ہے۔
مسئلہ ۷: تیمم کرکے موزے پہنے گئے تو مسح جائز نہیں۔ [8]
مسئلہ ۸: معذور کو صرف اس ایک وقت کے اندر مسح جائز ہے جس وقت میں پہنا ہو۔ ہاں اگر پہننے کے بعد اور حدث سے پہلے عذر جاتا رہا تو اس کے لیے وہ مدت ہے جو تندرست کے لیے ہے۔
(۵) نہ حالت جنابت میں پہنا نہ بعد پہننے کے جنب ہوا ہو۔
مسئلہ ۹: جنب نے جنابت کا تیمم کیااور وُضو کرکے موزہ پہنا تو مسح کر سکتا ہے مگرجب جنابت کا تیمم جاتا رہا تو اب مسح جائز نہیں۔[9]
مسئلہ ۱۰: جنب نے غُسل کیا مگر تھوڑا سا بدن خشک رہ گیا اور موزے پہن لیے اور قبل حدث کے اس جگہ کو دھوڈالا تو مسح جائز ہے اور اگر وہ جگہ اعضائے وُضو میں دھونے سے رہ گئی تھی اور قبل دھونے کے حدث ہوا تو مسح جائز نہیں۔ [10]
(۶) مدّت کے اندر ہو اور اس کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات ہے اور مسافر کے واسطے تین دن اور تین راتیں۔[11]
مسئلہ ۱۱: موزہ پہننے کے بعد پہلی مرتبہ جو حدث ہوا اس وقت سے اس کا شمار ہے مثلاً صبح کے وقت موزہ پہنا اور ظہر کے وقت پہلی بار حدث ہوا تو مقیم دوسرے دن کی ظہر تک مسح کرے اور مسافر چوتھے دن کی ظہر تک۔ [12]
مسئلہ ۱۲: مقیم کو ایک دن رات پورا نہ ہوا تھا کہ سفر کیا تو اب ابتدائے حدث سے تین دن، تین راتوں تک مسح کر سکتا ہے اور مسافر نے اقامت کی نیت کرلی تو اگر ایک دن رات پورا کر چکا ہے مسح جاتا رہا اور پاؤں دھونا فرض ہو گیا۔ اور نماز میں تھا تو نماز جاتی رہی اور اگر چوبیس گھنٹے پورے نہ ہوئے تو جتنا باقی ہے پورا کرلے۔
(۷) کوئی موزہ پاؤں کی چھوٹی تین انگلیوں کے برابر پھٹا نہ ہو یعنی چلنے میں تین اُنگل بدن ظاہر نہ ہوتا ہو اور اگر تین انگل پھٹا ہو اور بدن تین اُنگل سے کم دکھائی دیتا ہے تو مسح جائز ہے اور اگر دونوں تین تین اُنگل سے کم پھٹے ہوں اور مجموعہ تین اُنگل یا زِیادہ ہے تو بھی مسح ہو سکتا ہے۔ سلائی کھل جائے جب بھی یہی حکم ہے کہ ہر ایک میں تین انگل سے کم ہے تو جائز ورنہ نہیں۔ [13]
مسئلہ ۱۳: موزہ پھٹ گیا یا سِیون کھل گئی اور ویسے پہنے رہنے کی حالت میں تین انگل پاؤں ظاہر نہیں ہوتا مگر چلنے میں تین انگل دکھائی دے تو اس پر مسح جائز نہیں۔ [14]
مسئلہ ۱۴: ایسی جگہ پھٹا یا سیون کھلی کہ انگلیاں خود دکھائی دیں،تو چھوٹی بڑی کا اعتبار نہیں بلکہ تین انگلیاں ظاہر ہوں۔ [15]
مسئلہ ۱۵: ایک موزہ چند جگہ کم سے کم اتنا پھٹ گیا ہو کہ اس میں سو تالی جاسکے اور ان سب کا مجموعہ تین انگل سے کم ہے تو مسح جائز ہے ورنہ نہیں۔ [16]
مسئلہ ۱۶: ٹخنے سے اوپر کتنا ہی پھٹا ہو اس کا اعتبار نہیں۔ [17](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۶۳ تا ۳۶۶)
[1] ۔۔۔۔۔۔''غنیۃ المتملي''، فصل في المسح علی الخفین، ص۱۰۴.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب التوحید، باب قراء ۃ الفاجر... إلخ، الحدیث: ۷۵۶۲، ج۴، ص۵۹۹.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي''، فصل في المسح علی الخفین، ص۱۰۴.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱، ص۴۹۵.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الثاني، ج۱، ص۳۶.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۴، ص۳۴۵.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۳.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۳.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۳.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۳.
[11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[13] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[14] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[15] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۴.
[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الطہارۃ، الباب الخامس في المسح علی الخفین، الفصل الأول، ج۱، ص۳۴.
Comments