(20)…مکروفریب
مکروفریب کی تعریف:
’’وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا باطنی اِرادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو مکر کہلاتا ہے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۶۳)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(۳۰)) (پ۳، آل عمران: ۵۴) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مَکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کر لیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں اور وہ اپنا سا مَکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’اس میں اس واقعہ کا بیان ہے جو حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے ذکر فرمایا کہ کُفّارِ قریش دارالندوہ (کمیٹی گھر) میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے اور ابلیسِ لعین ایک بُڈھے کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں شیخِ نجد ہوں ، مجھے تمہارے اس اجتماع کی اطلاع ہوئی تو میں آیا مجھ سے تم کچھ نہ چھپانا ، میں تمہارا رفیق ہوں اور اس معاملہ میں بہتر رائے سے تمہاری مدد کروں گا ، انہوں نے اس کو شامل کرلیا اور سیدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متعلق رائے زنی شروع ہوئی ، ابوالبختری نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کو پکڑ کر ایک مکان میں قید کردو اور مضبوط بندشوں سے باندھ دو ، دروازہ بند کر دو ، صرف ایک سوراخ چھوڑ دو جس سے کبھی کبھی کھانا پانی دیا جائے اور وہیں وہ ہلاک ہو کر رہ جائیں۔ اس پر شیطانِ لعین جو شیخِ نجدی بنا ہوا تھا بہت ناخوش ہوا اور کہا نہایت ناقص رائے ہے ، یہ خبر مشہور ہوگی اور ان کے اصحاب آئیں گے اور تم سے مقابلہ کریں گے اور ان کو تمہارے ہاتھ سے چُھڑا لیں گے ۔ لوگوں نے کہا شیخِ نجدی ٹھیک کہتا ہے پھر ہشام بن عمرو کھڑا ہوااس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان کو (یعنی محمد صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو) اونٹ پر سوار کرکے اپنے شہر سے نکال دو پھر وہ جوکچھ بھی کریں اس سے تمہیں کچھ ضَرر نہیں۔ ابلیس نے اس رائے کو بھی ناپسند کیا اور کہا جس شخص نے تمہارے ہوش اُڑا دیئے اور تمہارے دانشمندوں کو حیران بنادیا اس کو تم دوسروں کی طر ف بھیجتے ہو ، تم نے اس کی شیریں کلامی ، سیف زبانی ، دل کشی نہیں دیکھی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو وہ دوسری قوم کے قلوب تسخیر کرکے ان لوگوں کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے ۔ اہلِ مجمع نے کہا شیخِ نجدی کی رائے ٹھیک ہے اس پر ابوجہل کھڑا ہوا اور اس نے یہ رائے دی کہ قریش کے ہر ہر خاندان سے ایک ایک عالی نسب جوان منتخب کیا جائے اور ان کو تیز تلوار یں دی جائیں ، وہ سب یکبارگی حضرت پر حملہ آور ہو کر قتل کردیں تو بنی ہاشم قریش کے تمام قبائل سے نہ لڑ سکیں گے ۔ غایت یہ ہے کہ خون کا معاوضہ دینا پڑے وہ دے دیا جائے گا ۔ ابلیسِ لعین نے اس تجویز کوپسند کیا اور ابوجہل کی بہت تعریف کی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا ۔ حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے سیدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ گزارش کیا اور عرض کیا کہ حضور اپنی خواب گاہ میں شب کو نہ رہیں ، اللہ تعالٰی نے اِذن دیا ہے مدینہ طیبہ کا عزم فرمائیں۔ حضور نے علی مرتضیٰ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)کو شب میں اپنی خواب گاہ میں رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہماری چادر شریف اوڑھو تمہیں کوئی ناگواربات پیش نہ آئے گی اور حضور دولت سرائے اقدس سے باہر تشریف لائے اور ایک مشتِ خاک دستِ مبارک میں لی اور آیت:(اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا) پڑھ کر محاصَرہ کرنے والوں پر ماری ، سب کی آنکھوں اور سروں پر پہنچی ، سب اندھے ہوگئے اور حضور کو نہ دیکھ سکے اور حضور مع ابوبکر صدیق کے غارِ ثور میں تشریف لے گئے اور حضرت علی مرتضٰی کو لوگوں کو امانتیں پہنچانے کے لئے مکّۂ مکرّمہ میں چھوڑا ۔ مشرکین رات بھر سیدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دولت سرائے کا پہرہ دیتے رہے ، صبح کو جب قتل کے ارادہ سے حملہ آور ہوئے تو دیکھا کہ حضرت علی ہیں ، ان سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دریافت کیا گیا کہ کہاں ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہمیں معلوم نہیں تو تلاش کے لئے نکلے جب غار پر پہنچے تو مکڑی کے جالے دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر اس میں داخل ہوتے تو یہ جالے باقی نہ رہتے ۔ حضور اس غار میں تین روز ٹھہرے پھر مدینہ طیبہ روانہ ہوئے ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۶۳تا۱۶۶)
حدیث مبارکہ، مکروفریب کرنے والاملعون ہے:
امیر المومنین حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۶۶)
مکروفریب کا حکم:
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۲۰۷ صفحات پر مشتمل کتاب ’’جہنم کے خطرات‘‘ صفحہ ۱۷۱ پر ہے: ’’ مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکہ بازی اور دغا بازی کرنا قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۶۶،۱۶۷)
مکریعنی فریب کے چاراسباب وعلاج:
(1)…مکر وفریب کا پہلا اور سب سے بڑا سبب حرص ہے کہ بندہ مال ودولت یا کسی دنیوی شے حصول کی حرص کے سبب مکر وفریب کرتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب مال کی مذمت پر غور کرے، یہ مدنی ذہن بنائے کہ یہ مال فانی ہے اور فانی شے کے لیے کسی کو دھوکہ دے کر ایک گناہ اپنے سر لے لینا عقل مندی نہیں بلکہ حماقت ہے۔
(2)… مکر وفریب کا دوسر اسبب جہالت ہے کہ بندہ مکرو فریب کے غیر شرعی ہونے، اس کے وبال اور آفات سے نابلد ہوتا ہے اس لیے وہ مکر سے کام لیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مکر کے متعلق شرعی احکام اور اس کے دنیوی واُخروی نقصانات سیکھے اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی کوشش کرے۔
(3)… مکر وفریب کا تیسرا سبب قلت خشیت ہے کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف دل میں نہ ہو تو بندہ بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے بھی باز نہیں آتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا کرے، قبر وحشر کے عذابات کو یادکرے اور اپنا مدنی ذہن بنائے کہ آج دنیا میں کوئی چھوٹی سی بھی تکلیف پہنچے تو درد سے بلبلا اٹھتے ہیں کل بروزِ قیامت رب عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضگی کی صورت میں جہنم کا دردناک عذاب کیسے برداشت کریں گے؟
(4)… مکر وفریب کا چوتھا سبب احترام مسلم نہ ہونا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں احترامِ مسلم پیدا کرے، اس موذی مرض سے نجات کی دعا کرے اور اپنا یہ مدنی ذہن بنائے اب مسلمانوں کے ساتھ مکر کرکے ان کو نقصان پہنچانے کے بجائے انہیں فائدہ پہنچا کر ’’خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ یعنی لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو ان کو نفع پہنچائے۔‘‘ کا مصداق بننے کی کوشش کروں گا۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۶۹،۱۷۰)
[1] ۔۔۔۔ فیض القدیر، ج۶، ص۳۵۸۔
[2] ۔۔۔۔ ترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی الخیانۃوالغش، ج۳، ص۳۷۸، حدیث:۱۹۴۸۔
Comments