تَمَلُّقْ

(26)تَمَلُّقْ(چاپلوسی)

تَمَلُّقْ (چاپلوسی) کی تعریف:

’’اپنے سے بلند رتبہ شخصیت یا صاحب منصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنےکے لیےعاجزی وانکساری کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا تملق یعنی چاپلوسی کہلاتا ہے۔‘‘[1] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۳،۱۹۴)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۱۱))(پ۱، البقرۃ: ۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اُن سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ کُفّار سے میل جول ، ان کی خاطر دین میں مُداہنت اور اہلِ باطل کے ساتھ تَمَلُّق و چاپلوسی اور ان کی خوشی کے لئے صُلحِ کُل بن جانا اور اظہارِ حق سے باز رہنا شانِ منافق اور حرام ہے ، اسی کو منافقین کا فساد فرمایا گیا ۔ آج کل بہت لوگوں نے یہ شیوہ کر لیا ہے کہ جس جلسہ میں گئے ویسے ہی ہو گئے ، اسلام میں اس کی ممانعت ہے ظاہر و باطن کا یکساں نہ ہونا بڑا عیب ہے ۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۴)

حدیث مبارکہ، چاپلوسی کے سبب غیرت اور دین جاتا رہا:

حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی غنی (یعنی مالدار)کے لیے عاجزی اختیار کی اور اپنے آپ کو اس کی تعظیم اور مال ودولت کی لالچ کے لیے بچھا دیا تو ایسے شخص کی غیرت کے تین حصے اور اس کے دین کا ایک حصہ جاتا رہا۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۴،۱۹۵)

تملق (چاپلوسی) کے بارے میں تنبیہ:

چاپلوسی اورخوشامد کرنا ایک مذموم ، مہلک اور غیر اخلاقی فعل ہے ، بسا اوقات چاپلوسی اور خوشامد ہلاکت میں ڈالنے والے دیگر کئی گناہوں جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، بدگمانی وغیرہ میں مبتلا کردیتی ہے جو حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ البتہ علم دین حاصل کر نے کیلئے اگر خوشامد کی ضرورت پیش آئے تو طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد اورطالب علم اسلامی بھائیوں کی خوشامد کرے تاکہ ان سے علمی طور پرمستفید ہواجاسکے ۔ایسی خوشامد اور چاپلوسی شرع میں ممنوع نہیں۔ چنانچہ اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’خوشامد کرنا مؤمن کے اخلاق میں سے نہیں ہے مگر علم حاصل کرنے کے لئے خوشامد کر سکتا ہے۔‘‘[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۵)

تملق (چاپلوسی )کے اسباب و علاج :

(1)…جب انسان کی طبیعت آرام پسندہوجائے اور محنت کی عادت یکسر ختم ہوجائے تو بندہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے چاپلوسی کی سیڑھی استعمال کرتا ہے۔اس کاعلاج یہ ہے کہ بندہ خود کو محنت کا عادی بنائے تاکہ چاپلوسی کے بجائےاس کی محنت کو کامیابی کی سندسمجھاجائے۔

(2)…تملق کا ایک سبب شہرت کی طلب ہے لہٰذا بندہ طلب شہرت کے نقصانات کو اپنےپیش نظر رکھے۔

(3)…بعض افر ا دکی طبیعت فسادی ہوتی ہے،لہٰذا وہ اپنی طبیعت کےہاتھوں مجبور ہوکر تملق کی راہ اختیار کرتے ہیں اور جب ان کے اس برے فعل کی نشاندہی کی جائے تو اسے یہ لوگ اصلاح کا نام دیتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے یہ سوال کرے:’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ شر وفساد پھیلانے والے کو سخت ناپسند کرتا ہےکہیں اپنی اس شرانگیزی اور فسادی طبیعت کے سبب میں رحمت الٰہی سے محروم نہ کردیا جاؤں ؟‘‘

(4)…بعض افراد اپنی ترقی کے لیے دیگر افراد کو دوسروں کی نظروں میں نیچے گرانا لازمی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے چغل خوری کی راہ اختیار کرتے ہیں لہٰذا چغل خوری کی عادت تملق کا بہت بڑا سبب ہےاس کا علاج یہ ہے کہ بندہ چغل خوری کےدُنیوی اور اُخروی نقصانات اپنے پیش نظر رکھے۔

(5)…دوسر وں کو اذیت دینے اور نقصان پہچانے کی غر ض سےتملق کاحربہ استعمال کیا جاتا ہےاس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات میں خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرےاور آخرت کے مواخذے کو اپنے پیش نظر رکھے ۔

(6)…بعض افر اد تملق کو ذاتی خامیوں کے لیے پر دہ سمجھتے ہیں اوراپنی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے تملق میں ہی اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذاتی خامیوں کو دور کرنے کے لیے دیانت دار انہ کوشش کرے اوراپنی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچائے۔

(7)…بعض افراد بغض وکینہ کے سبب کسی کو بھی نقصان پہچانا چاہتے ہیں تو اُس کی چاپلوسی شروع کردیتے ہیں تاکہ اس جال میں پھنس کر وہ شخص خودپسندی وغیرہ جیسی آفات میں مبتلا ہوجائے اورکبھی ترقی نہ کرسکے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے سینے کو مسلمانوں کے کینے سے پاک کرے ، احترام مسلم کا جذبہ بیدار کرے اور مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے درست اور مفید مشور ہ دے۔

(8)…بعض اوقات صاحب منصب حضرات کی ہم نشینی بھی اس مہلک مرض میں مبتلا کردیتی ہے،اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بقدر ضرورت ہی صاحب منصب افراد سے تعلق رکھے اور بے جاملاقات سے پرہیز کرے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۷،۱۹۸)


[1] ۔۔۔۔ بریقۃ محمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیہ،الثانی عشر من آفات القلب۔۔الخ ،فی بحث التواضع والتملق، ج۲،ص۲۳۵۔

[2] ۔۔۔۔ شعب الایمان، باب فی حسن الخلق، ج۶، ص۲۹۸، حدیث: ۸۲۳۲۔

[3] ۔۔۔۔ شعب الایمان ،باب فی حفظ اللسان،ج۴،ص۲۲۴، حدیث: ۴۸۶۳۔

Share

Comments


Security Code