علم فقہ

علم وفقہ کی تعریف اوراس کے فضائل

تاجدار مدینہ ،سرورِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ وَّمُسْلِمَۃٍ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب المقدمۃ،باب فضل العلماء،الحدیث:۲۲۴،ج۱،ص۱۴۶.المقاصد الحسنۃ،تحت الحدیث:۶۶۰،ص۲۸۲) ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے ۔

اے عزیز طالب علم!تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ : ہر مسلمان پر تمام علوم کا حاصل کرنا فرض نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان پر ان امور کے متعلق دینی معلومات حاصل کرنا فرض ہے جن سے اس کا واسطہ پڑتاہے ، اسی وجہ سے تو کہا جاتاہے :

اَفْضَلُ الْعِلْمِ عِلْمُ الْحَالِ وَاَفْضَلُ الْعَمَلِ حِفْظُ الْحَالِ۔

ترجمہ: افضل ترین علم موجودہ درپیش امور سے آگاہی حاصل کرنا ہے اورافضل ترین عمل اپنے احوال کی حفاظت کرنا ہے ۔

پس ایک مسلمان پر ان علوم کا جاننا بہت ضروری ہے جن کی ضرورت اس کو اپنی زندگی میں پڑتی ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔

ایک مسلمان کے ليے پہلا فرض تو نماز ہی ہے ۔ لہذا ہر مسلمان پر نماز کے متعلق اتنی معلومات کا جاننا فرض ہے کہ جن سے اس کا فرض ادا ہوسکے اوراتنی معلومات کا حاصل کرنا واجب ہے جن کی آگاہی سے وہ واجبات نماز کو اداکرسکے کیونکہ ضابطہ یہ ہے کہ وہ معلومات جو ادائیگی فرض کا سبب بنے ان کو حاصل کرنافرض ہے اور وہ معلومات جو ادائیگی واجب کا ذریعہ بنے ان کو حاصل کرنا واجب ہے ۔ اسی طرح روزے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا معاملہ ہے نیز اگر صاحب مال ہے تو زکوٰۃ کا بھی یہی ضابطہ ہے اوراگر کوئی تاجر ہے تو مسائلِ خریدوفروخت جاننے کے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ اتنی معلومات کا جاننا فرض ہے جن سے فرض ادا ہوسکے اوراتنی معلومات کا حاصل کرنا واجب ہے کہ جن سے واجب ادا ہوسکے ۔

ایک مرتبہ امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا کہ آپ ’’زہد‘‘کے عنوان پر کوئی کتاب تصنیف کیوں نہیں فرماتے ؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا : میں توخریدوفروخت کے مسائل سے متعلق ایک کتاب تصنیف کرچکاہوں۔

مطلب یہ ہے کہ زاہد وہی ہے جو کہ تجارت کرتے وقت اپنے آپ کو مکروہات وشبہات سے بچائے اوراسی طرح تمام معاملات اورصنعت وحرفت میں مکروہات وشبہات سے بچنا ہی تو زہد ہے ۔ جب ایک شخص کسی کام میں مشغول ہوجاتاہے تو اس پر اتنے علم کا حاصل کرنا فرض ہوجاتاہے کہ جس کے ذریعے وہ اس فعل میں حرام کے ارتکاب سے بچ سکے ۔ نیز ظاہری معاملات کی طرح ہی باطنی احوال یعنی توکل ، توبہ ، خوف خدا عَزَّوَجَلَّ ، رضاء الٰہی عَزَّوَجَلَّ وغیرہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حکم ہے ۔ کیونکہ بندے کو مذکورہ قلبی امور سے بھی ہر وقت واسطہ پڑتارہتاہے ۔ لہذا اس پر احوال قلب سے متعلق معلومات کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے ۔

علم جس طرح تقوی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اسی طرح باقی اوصاف مثلاً سخاوت ، بخل ، بزدلی ، بہادری، تکبر ، عاجزی ، عفّت ، کنجوسی اور اسراف وغیرہاکی پہچان اوران میں تمیز کرنے کا ذریعہ بھی علم ہی ہے ۔مذکور اخلا ق میں سے تکبر ،بخل ، بزدلی اوراسراف حرام وممنوع ہیں لہذا ان اشیاء کے مثبت اورمنفی پہلوؤں سے آگاہی پر ہی ان اشیاء سے بچا جاسکتاہے ۔ پس ہر انسان پر ان اشیاء کے متعلق علم حاصل کرنا فرض ہے ۔

وہ اشیاء جن سے کبھی کبھار واسطہ پڑتاہے ان کے متعلق آگاہی حاصل کرنا فرض کفایہ ہے ۔اگر ایک شہر کے بعض افراد نے ان سے متعلق علم حاصل کرلیا تو باقی افراد سے فرض ساقط ہوجاتا ہے اوراگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی ان سے متعلق علم حاصل نہیں کیا تو تمام شہر والے گنہگار ہوں گے ، پس حاکم وقت پر واجب ہے کہ وہ شہر کے لوگوں کو ان اشیاء سے متعلق علم حاصل کرنے کا حکم دے اورانہیں اس پر مجبورکرے۔

علم کی ضرورت اوراہمیت کو بیان کرنے کیلئے ایک مثال دی جاتی ہے کہ وہ علم جس سے ہر وقت واسطہ پڑتاہے اسکی مثال غذا کی طرح ہے لہذا جس طرح ایک انسان کیلئے غذا لازمی جزء ہے اسی طرح اس علم کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اوروہ علم جس سے کبھی کبھار واسطہ پڑتاہے اسکی مثال دوا کی سی ہے کہ صرف حالت مرض ہی میں دوا کی ضرورت پڑتی ہے لہذا چند ایسے افراد کا ہونا ضروری ہے جو علم طب سے آگاہی رکھتے ہوں پس اسی طرح وہ علم جس سے کبھی کبھار واسطہ پڑتا ہے اس علم کو جاننے والے چند افراد کا ہونا ضروری ہے ۔ اورعلم نجوم کی مثال مرض کی طرح ہے لہذا اس کا سیکھنا(بغیر کسی غرض صحیح کے) حرام ہے کیونکہ اس کا سیکھنا کوئی نفع و نقصان نہیں دے سکتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قضاء وقدر سے فرار کسی صور ت ممکن نہیں ۔

ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور ذکر ودعا ء، تلاوت قرآن اور صدقہ دینے میں لگا رہے جو کہ دافع بلا ہے اوراللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی طلب کرتا رہے اوردنیا وآخرت کیلئے عافیت کا طلبگار رہے تاکہ اللہ تعالٰی اسے بلاؤں اورآفات سے محفوظ رکھے کیونکہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ :

مَنْ رُزِقَ الدُّعَاءَ ، لَمْ یُحْرَمِ الْاِجَابَۃَ

ترجمہ: جسے دعا کی توفیق ہوئی تو وہ قبولیت سے ہرگز محروم نہ کیا جائے گا۔

لیکن اگر تقدیر میں کسی مصیبت کا پہنچنا لکھا ہے تو ضرورپہنچے گی، البتہ دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس میں تخفیف فرمادے گا اور اسے صبر کی توفیق عطا کریگا۔

ہاں اگر کوئی شخص اتنی مقدار میں علم نجوم کو سیکھنا چاہے کہ جس کے ذریعے قبلہ اوراوقاتِ صلوۃکی معرفت سے آگاہی ہوسکے تو جائز ہے ۔

علم طب کا سیکھنا بھی جائز ہے کیونکہ دوسرے اسباب ضروریہ کی طرح یہ بھی ایک سبب ہے او ردیگر ضروری اسباب کی طرح اس کا سیکھنا بھی جائز ہے ۔ خود سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے علاج ومعالجہ کرنا ثابت ہے ۔ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے حکایت بیان کی گئی ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : سیکھنے کے قابل تو دوہی علم ہیں ۔

پہلا علم فقہ ، احوال دینیہ کی پہچان کیلئے اوردوسرا علم طب ، بدنِ انسانی کی پہچان کیلئے ، ان کے علاوہ جو دوسرے علوم ہیں وہ تو مجلس کا توشہ ہیں ۔

علم کی تعریف:

اَمَّا تَفْسِیْرُ الْعِلْمِ : فَھُوَ صِفَۃٌ یَتَجَلَّی بِہَا لِمَنْ قَامَتْ ھِیَ بِہِ الْمَذْکُوْرُکَمَا ھُوَ۔

ترجمہ: علم ایک ایسی صفت ہے کہ جس میں یہ صفت پائی جائے اس پرہر وہ چیز جسے یہ سیکھنا اورجاننا چاہتاہے اپنی حقیقت کے مطابق عیاں ہوجائے ۔

فقہ کی تعریف:

اَلْفِقْہُ : مَعْرِفَۃُ دَقَائِقِ الْعِلْمِ مَعَ نَوْعٍ عِلَاجٍ۔

ترجمہ: علم کی باریکیوں کو مختلف مشقوں سے جاننے کا نام فقہ ہے ۔

امام اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

اَلْفِقْہُ : مَعْرِفَۃُ النَّفْسِ مَالَھَا وَمَا عَلَیْھَا۔

ترجمہ: نفس کا اپنے نفع ونقصان کو پہچان لینے کا نام فقہ ہے ۔

نیز فرمایا کہ تحصیل علم کا مقصد تو اس پر عمل کرنا ہے اورعمل دنیا کو آخرت کیلئے ترک کردینے کا نام ہے ۔پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر نہ رہے اوروہ چیزیں جو اسے دنیا وآخرت میں نفع یا نقصان دے سکتی ہیں ان کے معاملہ میں ذرہ بھر غفلت نہ کرے پس جو چیزیں اسے دنیا وآخرت میں فائدہ دے سکتی ہیں ان کو اپنائے اورجو چیزیں اسے دنیا وآخرت میں نقصان دے سکتی ہیں ان سے اجتناب کرے کیونکہ یہ نہ ہوکہ یہ علم ہی اس پر بروز قیامت حجت بن جائے اور اس سبب سے اس پر عذاب میں اورزیادتی ہوجائے ۔

نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ سُخْطِہِ وَعِقَابِہِ

(ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس کے غضب اور اس کی پکڑ سے پناہ طلب کرتے ہیں)

علم کے فضائل ومناقب میں بہت سی آیات اوراحادیثِ صحیحہ مشہور ہ واردہیں ہم طوالت کے خوف سے ان کو ذکر کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔(راہِ علم،ص ۱۳ تا ۲۰)

Share