مُحَاسَبَۂ نفس

(6)مُحَاسَبَۂ نفس(فکرِمدینہ)

محاسبۂ نفس کی تعریف:

محاسبہ کا لغوی معنی حساب لینا، حساب کرناہے اور مختلف اعمال کرنے سے پہلے یا کرنے کے بعد ان میں نیکی وبدی اور کمی بیشی کے بارے میں اپنی ذات میں غور وفکر کرنا اور پھر بہتری کے لیے تدابیر اختیار کرنا محاسبۂ نفس کہلاتا ہے۔حجۃ الاسلام امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اَعمال کی کثرت اور مقدار میں زیادتی اور نقصان کی معرفت کے لیے جو غور کیا جاتا ہے اسے محاسبہ کہتے ہیں، لہٰذا اگر بندہ اپنے دن بھر کے اعمال کو سامنے رکھے تاکہ اسے(نیک اعمال کی) کمی بیشی (کم یا زیادہ ہونے)کا علم ہوتو یہ بھی محاسبہ ہے۔‘‘[1](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۷)

اَعمال سے قبل اور بعد محاسبہ کی نفیس وضاحت:

حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں کہ مؤمن کے دل میں اچانک کوئی پسندیدہ خیال پیدا ہوتا ہے تو مؤمن کہتا ہے: ’’خدا کی قسم! تو مجھے بہت پسند ہے، تو میری ضرورت بھی ہے، لیکن افسوس! تیرے اور میرے درمیان ایک رُکاوٹ ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر مؤمن اس پسندیدہ خیال کو ترک کردیتا ہے، اسی کا نام عمل سے پہلے محاسبہ ہے۔ پھر فرمایا کہ بعض اوقات مؤمن سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو وہ نفس کو مخاطب کرکے کہتا ہے: ’’تونے کیا سوچ کر ایسا کیا؟‘‘ خدا کی قسم! ایسی خطا میں میرا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ خدا کی قسم! آئندہ میں اِنْ شَآءَ اللّٰہعَزَّوَجَلکبھی ایسی خطا نہیں کروں گا۔‘‘[2](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۷)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِرشاد فرماتا ہے:( وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ(۲))(پ۲۹، القیامۃ: ۲)ترجمۂ کنزالایمان:’’اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے۔‘‘ اس آیت مبارکہ کے تحت حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : ’’مؤمن ہمیشہ نفس کو جھڑکتا رہتا ہے کہ تونے فلاں بات کیا سوچ کر کہی؟ فلاں کھانا تونے کس لیے کھایا؟ فلاں مشروب تونے کس لیے نوش کیا؟ جبکہ کافر زندگی بسر کرتا رہتا ہے لیکن کبھی اپنے نفس کو نہیں جھڑکتا (یعنی اس کا محاسبہ نہیں کرتا)۔‘‘ [3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۸، ۵۹)

(حدیث مبارکہ)سمجھدار کون؟

سروَرِ عالم ،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا : ’’سمجھ دار وہ شخص ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور آخرت کی بہتری کے لئے نیکیاں کرے اور عاجزوہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تَعَالٰی سے آخرت کے اِنعام کی امید رکھے۔‘‘[4](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۹)

محاسبۂ نفس کا حکم:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نقل فرماتے ہیں: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہر عقل مند شخص پر لازم ہے کہ وہ نفس کے محاسبہ سے غافل نہ ہو اور نفس کی حرکات وسکنات اور لذات وخیالات پر سختی کرے کیونکہ زندگی کا ہر سانس اَنمول ہیرا ہے جس سے ہمیشہ باقی رہنے والی نعمت (یعنی جنت) خریدی جاسکتی ہے تو اِن سانسوں کو ضائع کرنا یا ہلاکت والے کاموں میں صَرف کرنا بہت سنگین اور بڑا نقصان ہے جو سمجھدار شخص کا شیوہ نہیں۔‘‘[5](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۹)

محاسبہ کرنے اور اس کا ذہن بنانے کے بارہ (12)طریقے:

(1) محاسبۂ نفس کی معرفت حاصل کیجئے:کہ جب تک کسی چیز کی معلومات نہ ہوں اس چیز تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے، جب محاسبۂ نفس کی معرفت ومعلومات حاصل ہوں گی تو محاسبۂ نفس کرنا بہت آسان ہوجائے گا، اس کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیکی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد۵، صفحہ۳۱۱سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(2)خوف خدا کے واقعات ملاحظہ کیجئے: کہ بندہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کے خوفِ خدا سے بھرپور واقعات کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا یہ مدنی ذہن بنتا ہے کہ وہ لوگ نیک پرہیزگار ہونے کے باوجود اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اتنا ڈرتے تھے، میں تو بہت ہی گنہگار ہوں مجھے تو ربّ تَعَالٰی سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے یوں رحمت الٰہی سے اسے محاسبۂ نفس نصیب ہو جائے گا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّ وَجَل، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کے خوفِ خدا سے متعلق واقعات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’خوفِ خدا‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(3)بزرگانِ دِین کے محاسبہ کے واقعات کا مطالعہ کیجئے:حضرت سیدنا ابوطلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بارے میں مروی ہے کہ کسی پرندے نے ان کی توجہ نماز سے ہٹا کر باغ کی جانب مبذول کروادی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے غوروفکر کیا اور اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بطورِ کفارہ اپنا باغ راہ خدا میں صدقہ کردیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے لکڑیوں کا ایک گٹھا اٹھایا تو کسی نے کہا: ’’اے ابویوسف! آپ کے بیٹے اور غلام اس کام کے لیے کافی تھے۔‘‘ فرمایا: ’’میں نفس کا امتحان لینا چاہتا تھا کہ کہیں وہ انکار تو نہیں کرتا۔‘‘سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہرات کے وقت پاؤں پر درہ مار کرنفس سے پوچھتے: ’’آج تونے کیا عمل کیا؟‘‘[6]

(4) اپنے آپ کو بے باک اور جری ہونے سے بچائیے:کہ یہ چیزبندے کو تکبر وسرکشی پر مجبور کردیتی ہے اور بندہ کبھی بھی اپنا محاسبہ نہیں کر پاتا۔ عموماً دین کا علم نہ ہونا بے باک اور جری ہونے پر اُبھارتا ہے لہٰذا بندے کو چاہیے کہ علمائے اہلسنت ومفتیانِ عظام سے رابطے میں رہے، ہر معاملے میں ان سے شرعی رہنمائی حاصل کرے، دینی علوم حاصل کرنے کے لیے دینی کتب ورسائل کا مطالعہ کرے، اسلامی عقائد ، نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وروز مرہ کے کثیر معاملات کے مختلف مسائل جاننے کے لیے ’’بہارِشریعت‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(5)حسابِ قیامت کو یاد کیجئے:کہ آج اگر میں نے دنیا میں اپنا محاسبہ کرکے نیک اَعمال کرنے اور برے اَعمال سے بچنے کی کوشش نہ کی تو کل بروزِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں کیسے حساب دوں گا؟ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے نفس کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور وزن کیے جانے سے پہلے اپنے عمل کا خود وزن کرو اور بہت بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘[7] حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں: ’’دنیا میں نفس کا محاسبہ کرنے والوں کا حساب آخرت میں آسان ہوگا جبکہ محاسبہ نہ کرنے والوں کا حساب بروز قیامت سخت ہوگا۔‘‘[8]

(6) ہر کام کے کرنے سے قبل غور کیجئے: کہ یہ اچھے اور برے عمل کو پرکھنے کے لیے ایک بہترین محاسبہ ہے، ایک شخص نے رسول اکرم شاہ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے انجام میں غور وفکر کرلو، اگر انجام اچھا ہو تو اسے کرلو اور اگر برا ہو تو نہ کرو۔‘‘[9]

(7)محاسبۂ نفس کے لیے وقت مقرر کرلیجئے:محاسبۂ نفس کی عادت بنانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے وقت مقرر کرلیا جائے، کیونکہ جس کام کے لیے کوئی وقت مقرر کرلیا جائے تو اسے کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

(8) ہر صبح اور رات محاسبۂ نفس کیجئے:صبح اس طرح محاسبہ کیجئے:’’اے نفس! یاد رکھ میری تمام جمع پونجی یہی زندگی ہے اگر یہ ضائع ہوگئی تو میرا تمام مال ضائع ہوجائے گا اور مجھے اخروی تجارت اور اس کے نفع سے محروم ہونا پڑے گا، اے نفس! تو یہ سمجھ کہ تجھے موت آگئی تھی لیکن تجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا گیا ہے لہٰذا اسے غنیمت جان اور آج کسی گناہ میں مشغول نہ ہونا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اطاعت میں گزارنا۔‘‘ رات کو سونے سے قبل دن بَھر کیے جانے والے تمام اَعمال پر غوروفکر کیجئے کہ آج میں نے کون کون سے نیک اعمال کیے؟ نیز نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر کون کون سے گناہ کیے؟ پھرنیک اعمال میں کمی ہو تو نفس سے اس بات کا عہد لیجئے کہ اب اِن نیک اَعمال میں اضافہ کروں گا، اسی طرح اگر گناہ کیے ہیں تو اُن سے سچی پکی توبہ کیجئے، ہوسکے تو صلاۃ التوبہ بھی ادا کیجئے، پھر نفس سے اس بات کا عہد لیجئے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

(9) محاسبہ کرنے کے فوائد،نہ کرنے کے نقصانات پر نظر رکھیے: اپنا یوں مدنی ذہن بنائیے کہ میرے ربّ عَزَّوَجَلَّسے کچھ پوشیدہ نہیں، عنقریب مجھ سے حساب ہوگا، مجھے تمام خیالات ولمحات کا بھی حساب دیناہے، بہتر یہی ہے کہ میں اپنی ہر سانس وحرکت اور ہر لحظہ ولمحہ نفس پر کڑی نظر رکھوں کیونکہ جس نے حساب وکتاب سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرلیا بروز قیامت اس کا حساب آسان ہوگا اور سوال کے قت وہ جواب دے سکے گا نیز اس کا انجام وٹھکانہ بھی اچھا ہوگا اور جو آدمی اپنا محاسبہ نہیں کرتا اسے حشر کے میدان میں زیادہ دیر رکنا پڑسکتا ہے نیز اس کی برائیاں اسے غضب ورُسوائی میں مبتلا کردیں گی۔

(10)اچھی باتوں کی سوچ اور بری باتوں پر ندامت اختیار کریں: کہ اس طرح اچھی باتوں پر عمل کی ترغیب اور بُری باتوں کو چھوڑنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:’’بھلائی میں غوروفکر کرنا اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور برائی پر نادم ہونا برائی چھوڑنے پر ابھارتا ہے۔‘‘[10]

(11)مشاہدات سے عبرت حاصل کیجئے:دن بھر ہماری نظروں سے کئی مناظر گزرتے ہیں، ہم کئی مشاہدات کرتے ہیں، اگر اِ ن‏مشاہدات سے عبر ت حاصل کرنے کا ذہن بن جائے تو محاسبہ کرنے میں کافی آسانی ہوجائے گی۔مثلاً کوئی حادثہ دیکھ کر یہ سوچیں کہ خدانخواستہ اگر حادثہ میرے ساتھ پیش آجاتا تو میرا کیا بنتا؟ کیا میں نے قبر میں جانے کی تیاری کرلی تھی؟ کیا میں نے اپنے آپ کو حساب وکتاب کے لیے تیار کرلیا تھا؟ حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی گفتگو میں اکثر ایک شعر سے مثال دیا کرتے تھے جس کا ترجمہ یوں ہے کہ ’’جب اِنسان غوروفکر کرتا ہے تو اسے ہر شے سے عبرت حاصل ہوتی ہے ۔‘‘[11]

(12)محاسبہ کی عادت بنانے کے لیےمشق کیجیے:‏مشق کا مطلب ہے ایک کام کو باربار کرنا اور جب کسی کام کو باربار کیا جاتا ہے تو وہ قرار پکڑ جاتا ہے، اُس پر استقامت نصیب ہوجاتی ہے۔کبھی کبھار علیحدگی میں آنکھیں بند کرکے اپنے روز مرہ کے معمولات کے محاسبہ کی یوں مشق کیجیے: ’’بھولے سے یا جان بوجھ کر صادر ہونے والے گناہوں کو یاد کیجئے کہ کل صبح سے لے کر اب تک جس اَنداز سے میں اپنا وَقت گزارچکا ہوں، کیا یہ اندازایک مسلمان کو زیب دیتا ہے ؟افسوس!نماز فجر باجماعت ادا کرنے میں سستی کی رسولُ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی میٹھی میٹھی سنت داڑھی بھی منڈائی والدین کی بے ادبی کی، ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آیادن بھر بدنگاہی کی جھوٹ، دھوکہ دہی اور خیانت کرکے مال کمایا مال کمانے میں اتنا مصروف رہا کہ دیگر نمازوں کا بھی خیال نہ رہاآوارہ دوستوں کی مجلس میں بیٹھ کر غیبت، چغلی، حسد، تکبر، بدگمانی جیسے باطنی امراض کا شکار ہوا فلمیں ڈرامے، گانے باجے بھی سنے الغرض یوں سارا وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نافرمانی میں گزار دیا۔اے نادان!تُو کب تک اسی مَنْحوس طرزِ زندگی کواپنائے رکھے گا؟کیا روزانہ یُونہی تیرے نامۂ اعمال میں گُناہوں کی تعداد بڑھتی رہے گی؟کیا تجھے نیکیوں کی بالکل حاجَت نہیں؟کیا تجھ میں دَوْزَخ کے شدید ترین عذابات برداشت کرنے کی ہمت و طاقت ہے؟کیا تُو جنت سے محرومی کا دُکھ برداشت‏کر پائے گا؟یاد رکھ! اگراب بھی تُوخوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوا تو اچانک موت کی سختیاں تجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیں گی، لیکن اَفسوس ! اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، پچھتانے کے سِوا کچھ حاصل نہ ہو گا ، لہٰذا اپنی اس قیمتی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے خدائے احکم الحاکمین عَزَّ وَجَلکی اطاعت اور مؤمنین پر رحم وکرم فرمانے والے رسولِ کریم رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنتوں کی اتباع میں لگ جا، تجھے دنیا وآخرت کی بھلائیاں نصیب ہوں گی۔

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۶۰تا۶۵)


[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۵، ص۳۱۹۔

[2] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۳۴۹۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۳۵۰۔

[4] ۔۔۔۔ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب:۲۵، ۴ / ۲۰۷، حدیث: ۲۴۶۷۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۵، ص۳۱۵۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۳۴۸، ۳۴۹۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۳۲۱۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۳۴۹۔

[9] ۔۔۔۔الزھد لابن المبارک، باب التخصیص علی طاعۃ اللہ، ص۱۴، حدیث: ۴۱۔

[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۴۱۲۔

[11] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج ۵، ص ۴۱۰۔

Share