(3)…شکر
شکر کی تعریف:
’’شکر کی حقیقت نعمت کا تصور اور اُس کا اظہار ہے، جبکہ ناشکری نعمت کو بھول جانا اور اس کو چُھپاناہے۔‘‘[1]تفسیر صراط الجنان میں ہے: ’’شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے اِحسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اَعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کرنا۔‘‘[2] خوشحالی میں شکر کرنے والا شاکر ہے جب کہ مصیبت میں شکر کرنے والا شکور ہے۔عطاء (یعنی دینے) پر شکر کرنےوالا شاکر ہے جبکہ منع (یعنی نہ دینے)پر شکر کرنے والا شکور ہے۔[3](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۳۴)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))(پ۱۳، ابراھیم: ۷)ترجمۂ کنزالایمان: ’’ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے ۔ شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصوّر اور اس کا اظہار کرے اور حقیقت شکر یہ ہے کہمُنْعِم (یعنی نعمت دینے والے)کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اِعتراف کرے اور نفس کو اس کا خُوگر بنائے ۔ یہاں ایک باریکی ہے وہ یہ کہ بندہ جب اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم و اِحسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تَعَالٰی کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ مقام بہت برتر (اونچا)ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ مُنْعِم کی محبت یہاں تک غالب ہو کہ قلب کو نعمتوں کی طرف التفات باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا ہے ۔ اللہ تَعَالٰی اپنے فضل سے ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) [4](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۳۴،۳۵)
(حدیث مبارکہ)دنیا وآخرت کی بھلائیاں:
حضرتِ سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حسنِ اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ جسے چار چیزیں مل گئیں اسے دنیاوآخرت کی بھلائی مل گئی: (۱)شکر کرنے والادل (۲)ذکر کرنے والی زبان (۳) آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور (۴)اپنے آپ اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔‘‘[5](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۳۵)
شکر کے مختلف اَحکام:
(۱)’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے۔‘‘(یعنی دِل واِعتقاد میں اللہ کی طرف نعمت کی نسبت کرے اور نافرمانی میں خرچ نہ کرے۔)[6]اِنعاماتِ الٰہیہ (اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں) پر شکر ادا کرنا مؤمنین کا طریقہ اور ان کی ناشکری کرنا کفار و منافقین کا طریقہ ہے۔شکر ادا کرنا رِضائے الٰہی اور جنت میں لے جانے والا کام ہے جبکہ ناشکری کرنا ربّ تَعَالٰی کی ناراضی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
(۲)انبیاء کرام پرجوانعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لانا (متعدد صورتوں میں)مسنون (یعنی سنت) ہے اگر کفار بھی قائم کرتے ہوں جب بھی اس کو چھوڑا نہ جائے گاجیسا کہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو حضرت سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرعون سے نجات دلائی، وہ اس کے شکرانے میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور فرمایا: ’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی فتح کی خوشی منانے اور اس کی شکر گزاری کرنے کے ہم یہود سے زیادہ حق دار ہیں ۔ ‘‘[7]
(۳)جس روز اللہ تَعَالٰی کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا ، شکرالٰہی بجا لانا طریقۂ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سیدعالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکی تشریف آوری اللہ تَعَالٰی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے، اس لئے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرالٰہی بجا لانا اور اظہارِ فرح اور سرور (خوشی)کرنا مستحسن (اچھا)و محمود (قابل تعریف)اور اللہکے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔[8](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۳۵، ۳۶)
شکر کی عادت اپنانے کے سات (7)طریقے:
(1)شکر کےفضائل وواقعات کا مطالعہ کیجیے:کہ فضائل پڑھنے سے شکر کرنے کا مدنی ذہن بنے گا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مبارک فرامین سہارا دیں گے اور بندہ شکر کی طرف مائل ہوگا اور شکر سے متعلق واقعات پڑھنے سے یہ ذہن بنے گا کہ دنیا میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کئی ایسے نیک بندے بھی ہیں جن پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹو ٹے لیکن اس کے باوجود ان کی زبا ن پر ناشکری کا ایک کلمہ بھی نہ آیا، انہوں نے ہرحال میں ربّ تَعَالٰی کا شکر ہی ادا کیا۔ شکر کے فضائل پڑھنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ ’’شکر کے فضائل ‘‘ اور امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلدچہارم، صفحہ ۲۳۹سے مطالعہ بہت مفید ہے۔
(2)اپنے سے کم تروادنیٰ پر نظر کیجئے:مثلاً: یوں غور کیجئے کہ ہمارے پاس رہنے کے لیے اپنا مکان ہے مگر کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اپنا مکان نہیں، بلکہ بعضوں کے پاس تو مکان ہی نہیں، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ان کے شب وروز بسر ہورہے ہیں، ہمیں صبح دوپہر شام تین وقت کا پرتکلف کھانا میسر ہےمگر کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں، ہمارے لیے میٹھے مشروبات موجود ہیںمگر کئی لوگوں کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ امید ہے اس طرح ربّ تَعَالٰی کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کرنے کا مدنی ذہن بنے گا۔
(3)ربّ تَعَالٰی کی نعمتوں پر غور کیجئے:کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے بے شمار مخلوقات کو پیدا فرمایا لیکن ہمیں اَشرف المخلوقات پیدا فرمایا، پھر مسلمان پیدا فرمایا، نبی آخر الزماں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اُمت میں پیدا فرمایا، ہوا کی نعمت عطا فرمائی، پانی کی نعمت عطا فرمائی، دھوپ کی نعمت عطا فرمائی، اپنے جسم میں غور کیجئے کہ دیکھنے کے لیے دو آنکھیں عطا فرمائیں، سننے کے لیے دو کان عطا فرمائے، پکڑنے اور چھونے کے لیے دو ہاتھ عطا فرمائے، سونگھنے کے لیے ناک عطا فرمائی، چلنے کے لیے پاؤں عطا فرمائے، کھانے کے لیے منہ عطا فرمایا، پھر سخت چیزیں چبانے کے لیے دانت عطا فرمائے، الغرض ربّ تَعَالٰی کی نعمتوں کا شمار نہیں مگر جتنی بھی نعمتوں میں غور کریں گے اتنا ہی بارگاہ الٰہی میں شکر بجالانے کا مدنی ذہن بنتا ہی جائے گا۔نعمتوں کی مختلف اَقسام اور ان کے تفصیلی بیان کے لیے احیاء العلوم، جلد۴ سے شکر کے باب کا مطالعہ کیجئے۔
(4)نعمتوں کے زوال کا خوف کیجئے:کیونکہ نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے تو ان میں اضافہ ہوتاہے اور اگر ان کی ناشکری کی جائے تو وہ نعمتیں چھینی جاسکتی ہیں، جب بندے کو نعمتوں کے زوال کا خوف ہو گا تو خود بخود اس کا ذہن نعمتوں کے شکر کی طرف مائل ہوگا کہ کہیں میری پاس موجود نعمت زائل نہ ہوجائے۔ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’نعمتیں وحشی جانوروں کی طرح ہیں، انہیں شکر کے ذریعے قید میں رکھو۔‘‘[9]
(5)شکرگزاروں کی صحبت اِختیار کیجیے :کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جو بندہ جیسی صحبت اختیار کرتا ہے وہ ویسا ہی بن جاتا ہے، ناشکروں کی صحبت اختیار کریں گے تو ناشکری کی عادت پڑجائے گی اور اللہ عَزَّ وَجَل کے شکرگزار بندوں کی صحبت اختیار کریں گے تو شکر ادا کرنے والے بن جائیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَل
(6)مختلف اَعضاء سے شکر ادا کیجئے: دل کے ساتھ اس طرح کہ بھلائی کا ارادہ کیجئے، زبان کے ساتھ اس طرح کہ شکر کا اظہار کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد کیجئے اور اعضاء کے ساتھ اس طرح کہ اس نعمت کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے استعمال میں لائیے اور اس کی نافرمانی والے کاموں میں اس سے مدد نہ لیجئے۔ آنکھوں کے شکر میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان کا جو بھی عیب دیکھیں اسے چھپائیں، کانوں کا شکر یہ ہے کہ کسی کا عیب سن لیں تو اُسے چھپائیں، اپنی زبان کو بھی ہر وقت شکر الٰہی سے تر رکھیں۔اعضاء کے شکر میں صرف مثالیں ذکر کی ہیں ورنہ شکر کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں۔
(7)مصیبتوں پر بھی شکر کیجئے: کہ بندہ جب مصیبتوں پر شکر کی عادت بنالے گا تو خود بخود نعمتوں پر بھی شکر بجالائے گا، مصیبتوں پر شکر کے امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے پانچ پہلو بیان فرمائے ہیں: ہر مصیبت اور بیماری کے بارے میں یہ تصور کرے کہ اس سے بھی بڑھ کر بیماری اور مصیبت موجود ہے اگراللہ عَزَّ وَجَلَّ اس میں اضافہ فرما دے تو کیا میں روک سکتا ہوں، اسے دور کرسکتا ہوں؟ ہرگز نہیں! پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ہے کہ اس نے بڑی مصیبت وبیماری نہیں بھیجی۔یہ تصور کرکے شکر ادا کرے کہ ہوسکتا ہے اس مصیبت کے بدلے کوئی دینی مصیبت دور کردی گئی ہو۔ایک شخص نے سیدنا سہل بن عبداللہ تستری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے کہا: ’’چور میرے گھر میں داخل ہو اور سامان لے کر چلا گیا۔‘‘ فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرو اگر شیطان تمہارے دل میں داخل ہو کر ایمان لوٹ لیتا تو کیا کرتے؟‘‘یہ تصور کرے کہ ہوسکتا ہے کوئی اخروی سزا دنیا میں ہی دے دی گئی ہو اور یہ بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ جسے کسی عمل کی دنیا میں سزا دے دی گئی تو اب اسے اس عمل کی آخرت میں سزا نہیں ملے گی، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’بندہ اگر کوئی گناہ کرے پھر اسے دنیا میں کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچ جائے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے دوبارہ سزا نہیں دے گا۔‘‘1 یہ مصیبت وتکلیف تو بندے کے لیے لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی تھی جو لازماً اس کو پہنچنی تھی، جب دنیا میں پہنچ چکی اور اس کے بعض یا کل سے فراغت اور راحت حاصل کرلی تو یہ بھی اس کے حق میں نعمت ہے لہٰذا اس پر شکر ادا کرے۔ جس طرح دوا مریض کے لیے ناپسندیدہ ہوتی ہے مگر اس کے حق میں مفید ہوتی ہے اسی طرح مؤمن کو پہنچنے والی تکلیف بھی ناپسندیدہ ہوتی ہے لیکن اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے لہٰذا اس پر شکر ادا کرے، مہلک(ہلاک کرنے والے) گناہوں کی بنیاد دنیا کی محبت ہے اور دنیا سے دل کا اُچاٹ ہوجانا اُخروی نجات کا باعث ہے، تکلیفوں مصیبتوں کی وجہ سے بندے کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوجاتا ہے تو یہ بذاتِ خود ایک نعمت ہے لہٰذا اِس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔[10](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۴۱تا۴۴)
[1] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۸، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۔
[2] ۔۔۔۔تفسیر صراط الجنان، پ۱، الفاتحہ: تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۴۳۔
[3] ۔۔۔۔ التوقيف على مهمات التعاريف ،ص۲۰۷۔
[4] ۔۔۔۔ خزائن العرفان، پ۱۳، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷۔
[5] ۔۔۔۔ معجم اوسط، ۵ / ۲۴۴، حدیث: ۷۲۱۲۔
[6] ۔۔۔۔ خزائن العرفان، پ۲، البقرہ، تحت الآیۃ: ۱۷۲۔
[7] ۔۔۔۔ خزائن العرفان، پ۱، البقرہ، تحت الآیۃ: ۵۰ماخوذا۔
[8] ۔۔۔۔ خزائن العرفان، پ۷، المائدہ، تحت الآیۃ: ۱۱۴۔
[9] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۳۷۳۔
[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۳۷۷ تا ۳۸۲ملخصا۔
Comments