عقائد متعلّقہ نبوت

عقائد متعلّقۂ نبوت

مسلمان کے لیے جس طرح ذات و صفات کا جاننا ضروری ہے، کہ کسی ضروری کا انکار یا محال کا اثبات اسے کافر نہ کر دے، اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نبی کے لیے کیاجائز ہے اور کیا واجب اور کیا محال، کہ واجب کا انکار اور محال کا اقرار موجب کُفر ہے اور بہت ممکن ہے کہ آدمی نادانی سے خلاف عقیدہ رکھے یا خلاف بات زبان سے نکالے اور ہلاک ہو جائے۔

عقیدہ (۱): نبی اُس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تَعَالٰی نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو [1] اور رسول بشر ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ملائکہ میں بھی رسول ہیں ۔ [2]

عقیدہ (۲): انبیا سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔ [3]

عقیدہ (۳): اللہ عَزَّوَجَل پر نبی کا بھیجنا واجب نہیں ، اُس نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے۔ [4] عقیدہ (۴): نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے، خواہ فرشتہ کی معرفت ہو یا بلا واسطہ۔[5]

عقیدہ (۵): بہت سے نبیوں پر اللہ تَعَالٰی نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں ، اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں : ’’تورات‘‘ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’زبور‘‘ حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’اِنجیل‘‘ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’قرآنِ عظیم‘‘ کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر۔[6] کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے لیے اس میں ثواب زائد ہے، ورنہ اللہ (عزوجلایک، اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل ومفضول کی گنجائش نہیں ۔[7]

عقیدہ (۶): سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اللہ ہیں ، اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے[8] ، مگر یہ بات البتہ ہوئی کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اللہ تَعَالٰی نے اُمّت کے سپرد کی تھی، اُن سے اُس کا حفظ نہ ہوسکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں ویسا باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تحریفیں کر دیں ، یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھا دیا۔ [9]

لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کتاب کے مطابق ہے، ہم اُس کی تصدیق کریں گے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تحر یفات سے ہے اور اگر موافقت، مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب، بلکہ یوں کہیں کہ:

’’ اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔‘‘

’’اللہ (عَزَّوَجَلاور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔‘‘ [10]

عقیدہ (۷): چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہے، لہٰذا قرآنِ عظیم کی حفاظت اللہ عَزَّوَجَل نے اپنے ذِمّہ رکھی، فرماتا ہے:

[اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)] [11]

’’بے شک ہم نے قرآن اُتارا اور بے شک ہم اُس کے ضرور نگہبان ہیں ۔‘‘

لہٰذا اس میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بیشی محال ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے، کہ اس نے اُس آیت کا انکار کیا جو ہم نے ابھی لکھی۔[12]

عقیدہ (۸): قرآنِ مجید، کتابُ اللہ ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے کہ خود اعلان کے ساتھ کہہ رہا ہے:

{ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۳)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(۲۴)[13]

’’اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے سب سے خاص بندے ( محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر اُتاری کوئی شک ہو تو اُس کی مثل کوئی چھوٹی سی سُورت کہہ لاؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کوبلالو اگر تم سچے ہو تو اگر ایسا نہ کرسکو اور ہم کہے دیتے ہیں ہرگز ایسا نہ کر سکو گے تو اُس آگ سے ڈروجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

لہٰذا کافروں نے اس کے مقابلہ میں جی توڑ کوششیں کیں ، مگر اس کی مثل ایک سطر نہ بنا سکے نہ بناسکیں ۔[14]

مسئلہ : اگلی کتابیں انبیا ہی کو زبانی یاد ہوتیں [15]، قرآنِ عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہّ بچہّ یاد کر لیتا ہے۔ [16]

عقیدہ (۹): قرآنِ عظیم کی سات قرائتیں سب سے زیادہ مشہور اور متواتر ہیں [17]، ان میں مَعَا ذَاللہ کہیں اختلافِ معنی نہیں [18]، وہ سب حق ہیں ، اس میں اُمّت کے لیے آسانی یہ ہے کہ جس کے لیے جو قراء ت آسان ہو وہ پڑھے[19] اور حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو قراء ت رائج ہے عوام کے سامنے وہی پڑھی جائے، جیسے ہمارے ملک میں قرا ء تِ عاصم بروایتِ حفص، کہ لوگ ناواقفی سے انکار کریں گے اور وہ مَعَا ذَاللہ کلمۂ کفر ہوگا۔ [20]

عقیدہ (۱۰): قرآنِ مجید نے اگلی کتابوں کے بہت سے احکام منسو خ کر دیے۔[21] یو ہیں قرآنِ مجید کی بعض آیتوں نے بعض آیت کو منسوخ کر دیا۔[22]

عقیدہ (۱۱): نَسخْ کا مطلب یہ ہے کہ بعض احکام کسی خاص وقت تک کے لیے ہوتے ہیں ، مگر یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ یہ حکم فلاں وقت تک کے لیے ہے، جب میعاد پوری ہوجاتی ہے تو دوسرا حکم نازل ہوتا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلا حکم اُٹھا دیا گیا اور حقیقۃً دیکھا جائے تو اُس کے وقت کا ختم ہو جانا بتایا گیا۔[23] منسوخ کے معنی بعض لوگ باطل ہونا کہتے ہیں ، یہ بہت سخت بات ہے، احکامِ الٰہیہ سب حق ہیں ، وہاں باطل کی رسائی کہاں ۔۔۔!

عقیدہ (۱۲): قرآن کی بعض باتیں مُحکَم ہیں کہ ہماری سمجھ میں آتی ہیں اور بعض متشابہ کہ اُن کا پورا مطلب اللہ اور اللہ کے حبیب (عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمکے سوا کوئی نہیں جانتا، متشابہ کی تلاش اور اُس کے معنی کی کِنْکاش وہی کرتا ہے جس کے دل میں کجی[24] ہو۔[25]

عقیدہ (۱۳): وحیٔ نبوت، انبیا کے لیے خاص ہے [26] ، جو اسے کسی غیرِ نبی کے لیے مانے کافر ہے۔[27] نبی کو خواب میں جو چیز بتائی جائے وہ بھی وحی ہے، اُس کے جھوٹے ہونے کا احتمال نہیں ۔[28] ولی کے دل میں بعض وقت سوتے یا جاگتے میں کوئی بات اِلقا ہوتی ہے، اُس کو اِلہام کہتے ہیں [29] اور وحیٔ شیطانی کہ اِلقا من جانبِ شیطان ہو، یہ کاہن، ساحر اور دیگر کفّار وفسّاق کے لیے ہوتی ہے۔[30]

عقیدہ (۱۴): نبوّت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و رِیاضت کے ذریعہ سے حاصل کرسکے[31]، بلکہ محض عطائے الٰہی ہے، کہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے دیتا ہے، ہاں ! دیتا اُسی کو ہے جسے اس منصبِ عظیم کے قابل بناتا ہے، جو قبلِ حصولِ نبوّت تمام

اخلاق رذیلہ سے پاک، اور تمام اخلاق فاضلہ سے مزین ہو کر جملہ مدارجِ ولایت طے کر چکتا ہے اور اپنے نسب و جسم و قول وفعل وحرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے منزّہ ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے[32]، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصّہ تک نہیں پہنچ سکتی۔[33]

{ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-}[34]

[ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۱)[35]

اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصبِ نبوّت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔ [36]

عقیدہ (۱۵): جو شخص نبی سے نبوّت کا زوال جائز جانے کافر ہے۔ [37]

عقیدہ (۱۶): نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے[38] اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔[39] اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمتِ انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے[40]،بخلاف ائمہ[41] و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَل اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں ، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں ۔[42]

عقیدہ (۱۷): انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام شرک و کفر اور ہرایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے کذب و خیانت و جہل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ[43] سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں قبلِ نبوت اور بعد ِنبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمّدِ صغائر سے بھی قبلِ نبوّت اور بعدِ نبوّت معصوم ہیں ۔[44]

عقیدہ (۱۸): اللہ تَعَالی نے انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام پر بندوں کے لیے جتنے احکام نازل فرمائے اُنھوں نے وہ سب پہنچا دیے، جو یہ کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپا رکھا، تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے نہ پہنچایا، کافر ہے۔ [45]

عقیدہ (۱۹): احکامِ تبلیغیہ میں انبیا سے سہو و نسیان محال ہے۔[46]

عقیدہ (۲۰): اُن کے جسم کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے تنفّر ہوتا ہے، پاک ہونا ضروری ہے۔[47]

عقیدہ(۲۱): اللہ عَزَّوَجَل نے انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کو اپنے غیوب پر اطلاع دی [48]، زمین و آسمان کا ہر ذرّہ ہر نبی کے پیشِ نظر ہے[49]، مگر یہ علمِ غیب کہ ان کو ہے اللہ (عَزَّوَجَلکے دیے سے ہے، لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا اور علمِ عطائی اللہ عَزَّوَجَل کےلیے محال ہے، کہ اُس کی کوئی صفت، کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہوسکتا، بلکہ ذاتی ہے۔ [50] جو لوگ انبیا بلکہ سیّد الانبیا صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وعلیہم وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں ، وہ قرآنِ عظیم کی اس آیت کے مصداق ہیں :

{ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ- }[51]

یعنی: ’’قرآنِ عظیم کی بعض باتیں مانتے ہیں اور بعض کے ساتھ کُفر کرتے ہیں ۔‘‘

کہ آیتِ نفی دیکھتے ہیں اور اُن آیتوں سے جن میں انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام کو علومِ غیب عطا کیا جانا بیان کیا گیا ہے، انکار کرتے ہیں ، حالانکہ نفی واِثبات دونوں حق ہیں ، کہ نفی علمِ ذاتی کی ہے کہ یہ خاصۂ اُلوہیت ہے، اِثبات عطائی کا ہے کہ یہ انبیا ہی کی شایانِ شان ہے اور مُنافیٔ اُلوہیت ہے اور یہ کہنا کہ ہر ذرّہ کا علم نبی کے لیے مانا جائے تو خالق و مخلوق کی مساوات لازم آئے گی، باطل محض ہے،کہ مساوات تو جب لازم آئے کہ اللہ عَزَّوَجَل کیلئے بھی اتنا ہی علم ثابت کیا جائے اور یہ نہ کہے گا مگر کافر، ذرّاتِ عالَم متناہی ہیں اور اُس کا علم غیرِ متناہی، ورنہ جہل لازم آئے گا اور یہ محال، کہ خدا جہل سے پاک، نیز ذاتی و عطائی کا فرق بیان کرنے پر بھی مساوات کا الزام دینا صراحۃً ایمان و اسلام کے خلاف ہے، کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے مساوات ہو جایا کرے تو لازم کہ ممکن و واجب وجود میں معاذاللہ مساوی ہو جائیں ، کہ ممکن بھی موجود ہے اور واجب بھی موجود اور وجود میں مساوی کہنا صریح کُفر کھلا شرک ہے۔[52] انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں ۔۔۔؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے۔[53]

اولیا کو بھی علمِ غیب عطائی ہوتا ہے، مگر بواسطہ انبیا کے۔ [54]

عقیدہ (۲۲): انبیائے کرام، تمام مخلوق یہاں تک کہ رُسُلِ ملائکہ سے افضل ہیں ۔ [55] ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو، کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے، کافر ہے۔ [56]

عقیدہ (۲۳): نبی کی تعظیم فرضِ عین بلکہ اصلِ تمام فرائض ہے۔ [57] کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب، کفر ہے۔ [58]

عقیدہ (۲۴): حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے ہمارے حضور سیّد عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک اللہ تَعَالٰی نے بہت سے نبی بھیجے، بعض کا صریح ذکر قرآنِ مجید میں ہے اور بعض کا نہیں [59]، جن کے اسمائے طیّبہ بالتصریح قرآنِ مجید میں ہیں ، وہ یہ ہیں:

حضرت آدم[60] عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت نوح [61]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ابراہیم [62]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت اسماعیل [63]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت اسحاق[64]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت یعقوب [65]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت یوسف [66]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت موسیٰ [67]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ہارون [68]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت شعیب [69]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت لُوط [70]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ہُود [71]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت داود [72]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت سلیمان[73]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ایّوب[74]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت زکریا [75]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت یحیٰی[76]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت عیسیٰ [77]عَلَیْہِ السَّلَام حضرت الیاس [78]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت الیسع [79]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت یونس[80]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ادریس [81]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت ذوالکفل [82]عَلَیْہِ السَّلَام ، حضرت صالح [83]عَلَیْہِ السَّلَام ، [حضرت عزیر[84]عَلَیْہِ السَّلَام ]، حضور سیّد المرسلین محمد رسول اللہ [85]صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔

عقیدہ (۲۵): حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تَعَالی نے بے ماں باپ کے مٹی سے پیدا کیا [86] اور اپنا خلیفہ کیا [87] اور تمام اسما ومسمّیات [88] کا علم دیا [89] ، ملائکہ کو حکم دیا کہ ان کو سجدہ کریں ، سب نے سجدہ کیا، شیطان (کہ از قسمِ جِن تھا [90] ، مگر بہت بڑا عابد زاہد تھا، یہاں تک کہ گروہِ ملائکہ میں اُس کا شمار تھا [91] ) بانکار پیش آیا، ہمیشہ کے لیے مردود ہوا۔ [92]

عقیدہ (۲۶): حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے پہلے انسان کا وجود نہ تھا، بلکہ سب انسان اُن ہی کی اولاد ہیں ، اسی و جہ سے انسان کو آدمی کہتے ہیں ، یعنی اولادِ آدم اور حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو ابو البشر کہتے ہیں ، یعنی سب انسانوں کے باپ۔ [93]

عقیدہ (۲۷): سب میں پہلے نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہوئے [94] اور سب میں پہلے رسول جو کُفّار پر بھیجے گئے حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ہیں [95] ، اُنھوں نے ساڑھے نو سو برس ہدایت فرمائی[96] ، اُن کے زمانہ کے کفّار بہت سخت تھے، ہر قسم کی تکلیفیں پہنچاتے، استہزا کرتے، اتنے عرصہ میں گنتی کے لوگ مسلمان ہوئے، باقیوں کو جب ملاحظہ فرمایا کہ ہرگز اصلاح پذیر نہیں ، ہٹ دھرمی اور کُفر سے باز نہ آئیں گے، مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور اُن کے ہلاک کی دُعا کی، طوفان آیا اور ساری زمین ڈوب گئی، صرف وہ گنتی کے مسلمان اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا جو کشتی میں لے لیا گیا تھا، بچ گئے۔[97]

عقیدہ (۲۸): انبیا کی کوئی تعداد معیّن کرنا جائز نہیں ، کہ خبریں اِس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معیّن پر ایمان رکھنے میں نبی کو نبوّت سے خارج ماننے، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے[98] اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں ، لہٰذا یہ اعتقاد چاہیے کہ اللہ (عزوجل) کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔

عقیدہ (۲۹): نبیوں کے مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیّدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں [99]، حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا[100]، اِن حضرات کو مرسلین اُولو العزم[101] کہتے ہیں [102] اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مرسلینِ انس و مَلَک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔ جس طرح حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام رسولوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں ، بلا تشبیہ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ میں حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل۔[103]

عقیدہ (۳۰): تمام انبیا، اللہ عَزَّوَجَل کے حضور عظیم وجاہت و عزت والے ہیں [104]، ان کو اللہ تَعَالی کے نزدیک معاذاللہ چوہڑے چمار کی مثل کہنا[105] کُھلی گستاخی اور کلمۂ کفر ہے۔

عقیدہ (۳۱): نبی کے دعویٔ نبوّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی اپنے صدق کا علانیہ دعویٰ فرماکر محالاتِ عادیہ کے ظاہر کرنے کا ذمّہ لیتا اور منکروں کو اُس کے مثل کی طرف بلاتا ہے، اللہ عَزَّوَجَل اُس کے دعویٰ کے مطابق امرِ محالِ عادی ظاہر فرما دیتا ہے اور منکرین سب عاجز رہتے ہیں اسی کو معجزہ کہتے ہیں [106]، جیسے حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا ناقہ[107]، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے عصا کا سانپ ہو جانا[108] اور یدِ بیضا[109] اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا مُردوں کو جِلا دینا اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینا [110] اور ہمارے حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزے تو بہت ہیں۔[111]

عقیدہ (۳۲): جو شخص نبی نہ ہو اور نبوّت کا دعویٰ کرے، وہ دعویٰ کرکے کوئی محالِ عادی اپنے دعوے کے مطابق ظاہر نہیں کرسکتا، ورنہ سچے جھوٹے میں فرق نہ رہے گا۔[112]

فائدہ: نبی سے جو بات خلافِ عادت قبلِ نبوّت ظاہر ہو، اُس کو اِرہاص کہتے ہیں اور ولی سے جو ایسی بات صادر ہو، اس کو کرامت کہتے ہیں اور عام مومنین سے جو صادر ہو، اُسے معونت کہتے ہیں اور بیباک فجّار یا کفّار سے جو اُن کے موافق ظاہر ہو، اُس کو اِستِدراج کہتے ہیں اور اُن کے خلاف ظاہر ہو تو اِہانت ہے۔[113]

عقیدہ (۳۳): انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی اپنی قبروں میں اُسی طرح بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں ، جیسے دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں [114]، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں ، تصدیقِ وعدۂ الٰہیہ کے لیے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی، پھر بدستور زندہ ہوگئے ، اُن کی حیات، حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے [115]، فلہذا شہید کا ترکہ تقسیم ہوگا، اُس کی بی بی بعدِ عدت نکاح کرسکتی ہے[116]،

بخلاف انبیا کے، کہ وہاں یہ جائز نہیں ۔[117] یہاں تک جو عقائد بیان ہوئے، اُن میں تمام انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام شریک ہیں ، اب بعض وہ اُمور جو نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے خصائص میں ہیں ، بیان کیے جاتے ہیں ۔

عقیدہ (۳۴): اور انبیا کی بعثت خاص کسی ایک قوم کی طرف ہوئی [118]، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمام مخلوق انسان وجن، بلکہ ملائکہ، حیوانات، جمادات، سب کی طرف مبعوث ہوئے [119]، جس طرح انسان کے ذمّہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت فرض ہے۔[120] یوہیں ہر مخلوق پر حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری ضروری۔[121]

عقیدہ (۳۵): حضورِ ا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ملائکہ و انس و جن و حُور و غلمان و حیوانات و جمادات، غرض تمام عالَم کے لیے رحمت ہیں [122] اور مسلمانوں پر تو نہایت ہی مہربان۔ [123]

عقیدہ (۳۶): حضور، خاتم النبییّن ہیں [124]، یعنی اللہ عَزَّوَجَل نے سلسلۂ نبوّت حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ختم کر دیا ، کہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا[125]، جو حضور (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے زمانہ میں یا حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کسی کو نبوّت ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔[126]

عقیدہ (۳۷): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ افضل جمیع مخلوقِ الٰہی ہیں [127]، کہ اوروں کو فرداً فرداًجو کمالات عطا ہوئے حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں وہ سب جمع کر دیے گئے[128]اور اِن کے علاوہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں [129]،بلکہ اوروں کو جو کچھ مِلا حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل میں ، بلکہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے ملا، بلکہ کمال اس لیے کمال ہوا کہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت ہے اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے رب کے کرم سے اپنے نفسِ ذات میں کامل و اکمل ہیں ، حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کمال کسی وصف سے نہیں ، بلکہ اس وصف کا کمال ہے کہ کامل کی صفت بن کر خود کمال و کامل و مکمّل ہو گیا، کہ جس میں پایا جائے اس کو کامل بنا دے۔[130]

عقیدہ (۳۸): مُحال ہے کہ کوئی حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مثل ہو[131]، جو کسی صفت ِخاصّہ میں کسی کو حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) کا مثل بتائے،گمراہ ہے یا کافر۔

عقیدہ (۳۹): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ عَزَّوَجَل نے مرتبۂ محبوبیتِ کبریٰ سے سرفراز فرمایا ، کہ تمام خَلق جُویائے رضائے مولا ہے [132] اور اللہ عَزَّوَجَل طالبِ رضائے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔[133]

ع خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد [’’حدائق بخشش‘‘، ص۴۹]۔

عقیدہ (۴۰): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خصائص سے معراج ہے، کہ مسجد ِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک[134] اور وہاں سے ساتوں آسمان [135] اور کُرسی و عرش تک، بلکہ بالائے عرش [136] رات کے ایک خفیف حصّہ میں مع جسم تشریف لے گئے[137]

اور وہ قربِ خاص حاصل ہوا کہ کسی بشر و مَلَک کو کبھی نہ حاصل ہوا نہ ہو [138]، اور جمالِ الٰہی بچشمِ سر دیکھا[139] اور کلامِ الٰہی بلاواسطہ سنا [140] اور تمام ملکوت السمٰوات والارض کو بالتفصیل ذرّہ ذرّہ ملاحظہ فرمایا ۔[141]

عقیدہ (۴۱): تمام مخلوق اوّلین وآخرین حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیاز مند ہے[142]، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام۔[143]

عقیدہ (۴۲): قیامت کے دن مرتبۂ شفاعتِ کبریٰ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خصائص سے ہے کہ جب تک حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فتحِ بابِ شفاعت نہ فرمائیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہو گی[144]، بلکہ حقیقۃً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں شفاعت لائیں گے [145] اور اللہ عَزَّوَجَل کے حضور مخلوقات میں صرف حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شفیع ہیں [146]اور یہ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مطیع، عاصی سب کے لیے ہے، کہ وہ انتظارِ حساب جو سخت جانگزا ہوگا، جس کے لیے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنم میں پھینک دیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے، اِس بلا سے چھٹکارا کفّار کو بھی حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت ملے گا، جس پر اوّلین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے[147] اور شفاعت کے اور اقسام بھی ہیں ، مثلاً بہتوں کو بلاحساب جنت میں داخل فرمائیں گے،جن میں چار اَرَب نوے کروڑ کی تعداد معلوم ہے، اِس سے بہت زائد اور ہیں ، جو اللہ و رسول (عزوجل و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم میں ہیں [148]، بہُتیرے وہ ہوں گے جن کا حساب ہوچکا ہے اور مستحقِ جہنم ہوچکے، اُن کو جہنم سے بچائیں گے[149] اور بعضوں کی شفاعت فرما کر جہنم سے نکالیں گے[150] اور بعضوں کے درجات بلند فرمائیں گے[151] اور بعضوں سے تخفیفِ عذاب فرمائیں گے۔ [152]

عقیدہ (۴۳): ہر قسم کی شفاعت حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے ثابت ہے۔ شفاعت بالو جاہۃ، شفاعت بالمحبۃ، شفاعت بالاذن، اِن میں سے کسی کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے۔ [153]

عقیدہ (۴۴): منصبِ شفاعت حضور کو دیا جاچکا، حضور فرماتے ہیں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ((أُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ)) [154]، اور ان کا رب فرماتا ہے:

{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-}[155]

’’مغفرت چاہو اپنے خاصوں کے گناہوں اور عام مؤمنین و مؤمنات کے گناہوں کی۔‘‘

شفاعت اور کس کا نام ہے۔۔۔؟ ’’اَللّٰھُمَّ ارْزُقْـنَا شَفَاعَۃَ حَبِیْبِکَ الْکَرِیْمِ۔‘‘

{ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹)}[156]

شفاعت کے بعض احوال، نیز دیگر خصائص جو قیامت کے دن ظاہر ہوں گے، احوالِ آخرت میں اِنْ شَاء اللہ تَعَالٰی بیان ہوں گے۔

عقیدہ (۴۵): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت مدار ِایمان،بلکہ ایمان اِسی محبت ہی کا نام ہے، جب تک حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت ماں باپ اولاد اور تمام جہان سے زیادہ نہ ہو آدمی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ [157]

عقیدہ (۴۶): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت عین طاعتِ الٰہی ہے، طاعتِ الٰہی بے طاعتِ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ناممکن ہے[158]، یہاں تک کہ آدمی اگر فرض نماز میں ہو اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے یاد فرمائیں ، فوراً جواب دے اور حاضرِ خدمت ہو[159] اوریہ شخص کتنی ہی دیر تک حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کرے، بدستور نماز میں ہے، اِس سے نماز میں کوئی خلل نہیں ۔[160]

عقیدہ (۴۷): حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم یعنی اعتقادِ عظمت جزو ِایمان و رکنِ ایمان ہے[161] اور فعلِ تعظیم بعد ایمان ہر فرض سے مقدّم ہے، اِس کی اہمیت کاپتا اس حدیث سے چلتا ہے کہ غزوۂ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے نمازِ عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرّم اللہ تَعَالٰی وجہہ کے زانو پر سرِ مبارک رکھ کر آرام فرمایا، مولیٰ علی نے نمازِ عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اِس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خوابِ مبارک میں خلل آئے، زانو نہ ہٹایا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا، جب چشمِ اقدس کھلی مولیٰ علی نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم دیا، ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا، مولیٰ علی نے نماز ادا کی پھر ڈوب گیا[162]، اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز اور وہ بھی صلوٰۃِ وُسطیٰ نمازِ عصر [163] مولیٰ علی نے حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند پر قربان کر دی، کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )ہی کے صدقہ میں ملیں ۔ دوسری حدیث اسکی تائید میں یہ ہے کہ غارِ ثور میں پہلے صدیقِ اکبر رضی اللہ تَعَالٰی عنہ گئے، اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اُس کے سوراخ بند کر دیے، ایک سوراخ باقی رہ گیا، اُس میں پاؤں کا انگوٹھا رکھ دیا، پھر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بلایا، تشریف لے گئے اور اُن کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر آرام فرمایا، اُس غارمیں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اُس نے اپنا سَر صدیقِ اکبر کے پاؤں پر مَلا، انھوں نے اِس خیال سے کہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا، آخر اُس نے پاؤں میں کاٹ لیا، جب صدیقِ اکبر کے آنسو چہرۂ انور پر گرے، چشمِ مبارک کھلی، عرضِ حال کیا، حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعابِ دہن لگا دیا فوراً آرام ہوگیا ، ہر سال وہ زہر عَود کرتا، بار۲ ۱ ہ برس بعد اُسی سے شہادت پائی۔ [164]

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اَصلُ الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے[165]

عقیدہ (۴۸): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر جس طرح اُس وقت تھی کہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرماتھے، اب بھی اُسی طرح فرضِ اعظم ہے[166]، جب حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر آئے توبکمالِ خشوع و خضوع و انکسار بادب سُنے[167] ، اور نامِ پاک سُنتے ہی درود شریف پڑھنا واجب ہے۔ [168]

’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلٰـنَا مُحَمَّدٍ مَّعْدِنِ الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَاٰلہِ الْکِرَامِ وَصَحْبِہِ الْعظَامِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ‘‘

اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ بکثرت ذکر کرے [169] اور درود شریف کی کثرت کرےاور نامِ پاک لکھے تو اُس کے بعد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  لکھے، بعض لوگ براہِ اختصار صلعم یا ؐلکھتے ہیں ، یہ محض ناجائز وحرام ہے[170] اور محبت کی یہ بھی علامت ہے کہ آل و اَصحاب ، مہاجرین و انصار و جمیع متعلقین و متوسلین سے محبت رکھے اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں سے عداوت رکھے[171]، اگرچہ وہ اپنا باپ یا بیٹا یا بھائی یا کُنبہ کے کیوں نہ ہوں [172] اور جو ایسا نہ کرے وہ اِس دعویٰ میں جھوٹا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ صحابۂ کرام نے حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں اپنے سب عزیزوں ، قریبوں ، باپ، بھائیوں اور وطن کو چھوڑا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ و رسول (عزوجل و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی محبت ہو اور اُن کے دشمنوں سے بھی اُلفت۔۔۔! ایک کو اختیار کر کہ ضِدَّین[173] جمع نہیں ہو سکتیں ، چاہے جنت کی راہ چل یا جہنم کو جا۔ نیز علامتِ محبت یہ ہےکہ شانِ اقدس میں جو الفاظ استعمال کیے جائیں ادب میں ڈوبے ہوئے ہوں ، کوئی ایسا لفظ جس میں کم تعظیمی کی بُو بھی ہو، کبھی زبان پر نہ لائے، اگر حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پکارے تو نامِ پاک کے ساتھ ندا نہ کرے، کہ یہ جائز نہیں ، بلکہ یوں کہے:

’’ یَا نَبِيَّ اللہِ! یَا رَسُوْلَ اللہ! یَا حَبِیْبَ اللہِ! ‘‘[174]

اگر مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو تو روضۂ شریف کے سامنے چارہاتھ کے فاصلہ سے دست بستہ جیسے نماز میں کھڑا ہوتا ہے، کھڑا ہو کر سر جھکا ئے ہوئے صلاۃ و سلام عرض کرے، بہُت قریب نہ جائے، نہ اِدھر اُدھر دیکھے[175] اور خبردار۔۔۔! خبردار۔۔۔!آواز کبھی بلند نہ کرنا ، کہ عمر بھر کا سارا کِیا دھرا اَکارت جائے [176] اور محبت کی یہ نشانی بھی ہے کہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اقوال و افعال و احوال لوگوں سے دریافت کرے اور اُن کی پیروی کرے۔ [177]

عقیدہ (۴۹): حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی قول و فعل و عمل و حالت کو جو بہ نظرِ حقارت دیکھے کافر ہے۔[178]

عقیدہ (۵۰): حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللہ عَزَّوَجَل کے نائبِ مطلق ہیں [179] ، تمام جہان حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کے تحتِ تصرّف [180]کر دیا گیا[181]، جو چاہیں کریں ، جسے جو چاہیں دیں ، جس سے جو چاہیں واپس لیں [182]، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں [183]، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں [184]، تمام آدمیوں کےمالک ہیں [185]،جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت[186] سے محروم رہے[187]، تمام زمین اُن کی مِلک ہے[188]، تمام جنت اُن کیجاگیر ہے[189]، ملکوت السمٰواتِ والارض حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیر ِفرمان[190]،جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں [191]، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں [192]، دنیا و آخرت حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عطا کا ایک حصہ ہے[193]، احکامِ تشریعیہ[194] حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں کر دیے گئے، کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں [195]اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔[196]

عقیدہ (۵۱): سب سے پہلے مرتبۂ نبوّت حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ملا۔[197] روزِ میثاق تمام انبیا سے حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا[198] اور اِسی شرط پر یہ منصبِ اعظم اُن کو دیا گیا۔[199] حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبی الانبیا ہیں اور تمام انبیا حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمّتی، سب نے اپنے اپنے عہدِکریم میں حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نیابت میں کام کیا[200]، اللہ عَزَّوَجَل نے حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نُور سے تمام عالَم کو منوّر فرمایا[201]،بایں معنی ہر جگہ حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہیں ۔ ؎

کالشمس في وسط السماءِ ونُورُھا

یغشي البلاد مشارقاً ومغارباً[202]

مگر کورِ باطن کا کیا علاج ؎

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم

چشمۂ آفتاب را چہ گناہ[203]

مسئلۂ ضروریہ: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں ، انکا ذکر تلاوتِ قرآن و روایتِ حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اوروں کو اُن سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال۔۔۔! مولٰی عَزَّوَجَلَّ اُن کا مالک ہے، جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے، وہ اُس کے پیارے بندے ہیں ، اپنے رب کے لیے جس قدرچاہیں تواضع فرمائیں ، دوسرا اُن کلمات کو سند نہیں بناسکتا [204] اور خود اُن کا اطلاق کرے تو مردودِ بارگاہ ہو، پھر اُنکے یہ افعال جن کو زَلَّت و لغزش سے تعبیر کیا جائےہزارہا حِکَم و مَصالح پر مبنی، ہزارہا فوائد و برکات کی مُثمِر[205] ہوتی ہیں ، ایک لغزشِ اَبِیْنَا آدم علیہ الصلاۃ والسلام[206] کو دیکھیے، اگر وہ نہ ہوتی، جنت سے نہ اترتے، دنیا آباد نہ ہوتی، نہ کتابیں اُترتیں ، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثُوبات [207] کے دروازے بند رہتے، اُن سب کا فتحِ باب ایک لغزشِ آدم کا نتیجۂ بارکہ و ثمرۂ طیّبہ ہے۔ بالجملہ انبیا عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی لغزش، مَن و تُو کس شمار میں ہیں ، صدیقین کی حَسَنَات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ’’حَسَنَاتُ الأبْرَارِ سَیّاٰتُ الْمُقَرَّبِیْنَ۔‘‘ [208] (بہارِشریعت،حصہ اول،جلد۱صفحہ۲۸تا۸۹)


[1] … في ’’شرح المقاصد‘‘، المبحث الأوّل في تعریف النبي والرسول: (النبي إنسان بعثہ اللّٰہ لتبلیغ ما أوحي إلیہ) ج۳، ص۲۶۸۔

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، الباب الثاني في النبوّات، ص۱۰۵: (المشہور: أنّ النبي من أوحي إلیہ بشرع، وإن أمر بالتبلیغ أیضا فرسول

[2] … { وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-} پ۱۲، ہود: ۶۹۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، پ۱۲، ہود: تحت الآیۃ ۶۹: (قال أبو جعفر: یقول تعالی ذکرہ:{ وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَا من الملائکۃ وہم فیما ذکر،کانوا جبریل وملکین آخرین، وقیل:إنّ الملکین الآخرین کانا میکائیل وإسرافیل معہ ج۷، ص۶۷۔ { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا } پ۲۲، فاطر: ا۔

في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۷، الجزء الرابع عشر، ص۲۳۳، تحت الآیۃ: { جَاعِلِ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا } الرسل منہم جبریل ومیکائیل وإسرافیل وملک الموت، صلی اللّٰہ علیہم أجمعین

[3] … { وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ} پ۱۳، یوسف: ۱۰۹۔

في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، پ۱۲، یوسف، تحت ہذہ الآیۃ: (قال الحسن: لم یبعث اللّٰہ نبیا من أہل البادیۃ قط، ولا من النساء، ولا من الجن) ج۵، الجزء التاسع، ص۱۹۳۔

[4] … في ’’شرح المقاصد‘‘، المقصد السادس، المبحث الأول في تعریف النبي والرسول، ج۳، ص۲۶۸: (النبي إنسان بعثہ اللّٰہ لتبلیغ ما أوحي إلیہ،…والبعثۃ لتضمّنہا مصالح لا تحصی لطف من اللّٰہ تعالی ورحمۃ یختص بہا من یشاء من عبادہ من غیر وجوب علیہ وفي ’’المعتمد المستند‘‘، ص۹۸: قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن: (لا یجب علی اللّٰہ سبحانہ بعث الرسل

[5] … { وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱) } پ۲۵، الشوری: ۵۱۔في ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۰۶:(قال السنوسي في ’’شرح الجزائریۃ‘‘: مرجع النبوۃ عند أہل الحقّ إلی اصطفاء اللّٰہ تعالی عبدًا من عبادہ بالوحي إلیہ، فالنبوۃ اختصاص بسماع وحي من اللّٰہ بواسطۃ الملک أو دونہوفي ’’نسیم الریاض‘‘، القسم الأول في تعظیم العلی الأعلی لقدر النبي صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، ج۳، ص۳۴۴: (’’والإعلام‘‘ من اللّٰہ تعالی ’’بخواص النبوۃ‘‘ أي: ما یختص بالنبوۃ الشاملۃ للرسالۃ کالعصمۃ والوحي بواسطۃ الملک، أو بدونہا۔

[6] … في ’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۶۳: (’’ولہ کتب أنزلہا علی رسلہ‘‘، حق سبحانہ وتعالی را کتابہا ست کہ بر بعضی پیغمبران فرستادہ دیگر آن را بمتابعتوازمیان کتابہا نیز چہار کتاب اعظم واشہر است،، ’’منہا التوراۃ‘‘ یکی زان کتابہ ای آسمانی توریت است کہ بر موسی علیہ السلام منزل شدہ، ’’والزبور‘‘ دیگر زبور است کہ بر داؤد علیہ السلام نزول یافتہ، ’’والإنجیل‘‘ کہ بر عیسی علیہ السلام فرو دآمدہ…، ’’والقرآن العظیم‘‘ زبدہ وخلاصۂ جمیع کتب سماوی قرآن مجید وفرقان عظیم است کہ بر سید رسل وخاتم الأنبیاء علیہ من الصلاۃ افضلہا والتحیات اکملہا ملتقطاً۔

یعنی: حق تبارک وتعالی کی کتابیں ہیں جن کو اس نے اپنے بعض رسولوں پر نازل فرمایا اور دوسروں کو ان کی پیروی کا حکم دیا، ان میں سے چار کتابیں بڑی اور بہت مشہورہیں ، ان میں سے ایک تورات ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی۔ دوسری زبور ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی، تیسری انجیل ہے جو حضرت عیسی عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی، اور چوتھی قرآن مجید فرقان عظیم ہے جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہے اور سب سے افضل رسول خاتم الانبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم پر نازل ہوئی۔

[7] … في ’’تفسیر الخازن‘‘، پ۳، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۵: (من أجاز تفضیل بعض القرآن علی بعض من العلماء والمتکلمین قالوا: ہذا التفضیل راجع إلی عظم أجر القاریٔ أو جزیل ثوابہ وقول: إنّ ہذہ الآیۃ أو ہذہ السورۃ أعظم أو أفضل بمعنی أنّ الثواب المتعلق بہا أکثر وہذا ہو المختار ج۱، ص۱۹۵۔

وفي’’النبراس‘‘، بیان الکتب المنزلۃ، ص ۲۹۱:(أنّ القرآن کلام واحد أي: في درجۃ واحدۃ من الفضیلۃ (لا یتصوّر فیہ تفضیل من حیث إنّہ کلام اللّٰہ سبحانہ؛ لأنّ ہذا الشرف یعمّ الآیات والسور کلّہا (ثم باعتبار القراء ۃ والکتابۃ یجوز أن یکون بعض الصور أفضل کما ورد في الحدیث، وحقیقۃ التفضیل أنّ قراء تہ أفضل لما أنّہ أنفع) من حیث کثرۃ الثواب والنجات من المکروہات ملتقطاً۔

8في ’’تفسیر الخازن‘‘، پ۳، البقرۃ: ۲۸۵،ج۱، ص۲۲۵: (الإیمان بکتبہ فہو أن یؤمن بأنّ الکتب المنزلۃ من عند اللّٰہ ہي وحي اللّٰہ إلی رسلہ، وأنّہا حق وصدق من عند اللّٰہ بغیر شک ولا ارتیاب

في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۱، ص۹۴:({ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى } یعني التوراۃ { وَ عِیْسٰى } یعني الإنجیل{ وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ- } والمعنی آمنّا أیضاً بالتوراۃ والإنجیل والکتب التي أوتي جمیع النبیین وصدّقنا أنّ ذلک کلّہ حق وہدی ونور وأنّ الجمیع من عند اللّٰہ

[9] … { اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) } پ۱۴، الحجر:۹۔

في’’تفسیر الخازن‘‘، تحت الآیۃ: ({وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) } الضمیر في: { لَهٗ} یرجع إلی الذکر یعني، وإنّا للذکر الذي أنزلناہ علی محمد لحافظون یعني من الزیادۃ فیہ، والنقص منہ والتغییر والتبدیل والتحریف، فالقرآن العظیم محفوظ من ہذہ الأشیاء کلّہا لا یقدر أحد من جمیع الخلق من الجن والإنس أن یزید فیہ، أو ینقص منہ حرفاً واحداً أو کلمۃً واحدۃً، وہذا مختصّ بالقرآن العظیم بخلاف سائر الکتب المنزلۃ فإنّہ قد دخل علی بعضہا التحریف والتبدیل والزیادۃ والنقصان ولما تولی اللّٰہ عزوجل حفظ ہذا الکتاب بقي مصوناً علی الأبد محروساً من الزیادۃ والنقصان ج۳، ص۹۵۔

[10] … { وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﳓ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(۴۶)} پ۲۱، العنکبوت: ۴۶۔

في ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، ج۶، ص۲۵۶، تحت ہذہ الآیۃ: (أن أبا نَمْلَۃَ الأنصاري أخبرہ، أنہ بینما ہو جالس عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جاء ہ رجل من الیہود، فقال: یا محمد، ہل تتکلم ہذہ الجنازۃ؟ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((اللّٰہ أعلم))، قال الیہودي: أنا أشہد أنّہا تتکلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إذا حدثکم أہل الکتاب فلا تصدقوہم ولا تکذبوہم، وقولوا: آمنا باللّٰہ وکتبہ ورسلہ، فإن کان حقًّا لم تکذبوہم، وإن کان باطلاً لم تصدقوہم)))۔

في ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التفسیر، باب { وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا  الحدیث: ۴۴۸۵، ج۳، ص۱۶۹:

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان أہل الکتاب یقرء ون التوراۃ بالعبرانیۃ ویفسرونہا بالعربیۃ لأہل الإسلام، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لا تصدقوا أہل الکتاب ولا تکذبوہم وقولوا: { وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا }))۔

و’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول، الحدیث: ۱۵۵، ج۱، ص۵۱۔

في ’’المرقاۃ‘‘ للقاریٔ، ج۱، ص۳۹۱، تحت ہذا الحدیث: (قال رسول اللّٰہ: ((لا تصدقوا)) أي: فیما لم یتبین لکم صدقہ لاحتمال أن یکون کذباً وہو الظاہر أنّ أحوالہم ((أہل الکتاب)) أي: الیہود والنصاری؛ لأنہم حرّفوا کتابہم ((ولا تکذبوہم)) أي: فیما حدثوا من التوراۃ والإنجیل ولم یتبین لکم کذبہ لاحتمال أن یکون صدقاً وإن کان نادراً؛ لأنّ الکذوب قد یصدق وفیہ إشارۃ إلی التوقف فیما أشکل من الأمور والعلوم۔

[11] … پ۱۴، الحجر: ۹۔

[12] … في ’’منح الروض الأزہر‘‘، فصل في القراء ۃ والصلاۃ، ص۱۶۷:(من جحد القرآن، أي:کلّہ أو سورۃ منہ أو آیۃ، قلت: وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ، أو زعم أنّہا لیست من کلام اللّٰہ تعالی کفر، یعني: إذا کان کونہ من القرآن مجمعاً علیہ مثل البسملۃ في سورۃ النمل، بخلاف البسملۃ في أوائل السور، فإنّہا لیست من القرآن عند المالکیۃ علی خلاف الشافعیۃ، وعند المحققین من الحنفیۃ أنّہا آیۃ مستقلۃ أنزلت للفصل في ’’الشفا‘‘، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، الجزء الثاني، ص۲۸۹: (وکذلک کافر من أنکر القرآن أو حرفاً منہ أو غیّر شیئاً منہ أو زاد فیہ ملخصاً۔’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۵۹۔۲۶۲۔

[13] … پ۱، البقرۃ: ۲۳۔۲۴۔

[14] … في’’النبراس‘‘، الدلائل علی نبوۃ خاتم الأنبیاء علیہ السلام، ص۲۷۵:(فإنّ اللّٰہ تعالی دعاہم أوّلاً لمعارضۃ جمیعہ حیث قال:{ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ } ثم قال:{ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ} ثم قال:{ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪- فعجزوا عن الکل (مع تہالکہم علی ذلک) أي: حرصہم علی المعارضۃ

[15] … في ’’تفسیر روح البیان‘‘، پ۲۱، العنکبوت، تحت الآیۃ ۴۹: (قال الکاشفي: یعني: کونہ محفوظاً في الصدور من خصائص القرآن؛ لأنّ من تقدم کانوا لا یقرؤون کتبہم إلاّ نظراً، فإذا أطبقوہا لم یعرفوا منہا شیئًا سوی الأنبیائ) ج۶، ص۴۸۱۔

[16] … { وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠(۴۰) } پ۲۷، القمر:۱۷۔

في ’’تفسیرالخازن‘‘، ج۴، ص۲۰۴، تحت الآیۃ:{ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ } أي: سہّلنا القرآن { لِلذِّكْرِ }أي: لیتذکر ویعتبر بہ، قال سعید بن جبیر: یسرناہ للحفظ والقراء ۃ ولیس شيء من کتب اللّٰہ تعالی یقرأ کلّہ ظاہراً إلاّ القرآن، { فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠} أي: متعظ بمواعظہ، وفیہ الحث علی تعلیم القرآن والاشتغال بہ؛ لأنّہ قد یسّرہ اللّٰہ وسہلہ علی من یشاء من عبادہ بحیث یسہل حفظہ للصغیر والکبیر والعربي والعجمي وغیرہم

اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘میں فرماتے ہیں : کچھ عجب نہیں کہ مولیٰ عزوجل بعض نعمتیں بعض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو عطافرمائے اگلی امتوں میں نبی کے سوا کسی کو نہ ملتی ہوں مگر اس امت مرحومہ کے لیے انہیں عام فرمادے جیسے: کتاب اللہ کا حافظ ہونا کہ اممِ سابقہ میں خاصۂ انبیاء علیہم الصلاۃ والثناء تھا اس امت کے لیے رب عَزَّوَجَل نے قرآن کریم حفظ کیلئے آسان فرمادیا کہ دس دس برس کے بچے حافظ ہوتے ہیں اور ہمارے مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فضل ظاہر کہ انکی امت کو وہ ملا جو صرف انبیاء کو ملا کرتا تھا علیہ وعلیہم افضل الصلاۃ والثناء واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۵، ص۶۷۔

17عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، لکلّ آیۃ منہا ظہر وبطن، ولکل حد مطلع))۔’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب العلم، الحدیث:۲۳۸، ج۱، ص۱۱۳۔

في’’المرقاۃ‘‘، ج۱، ص۴۹۹، تحت ہذا الحدیث: (قال ابن حجر: الجملۃ الأولی جاء ت من روایۃ أحد وعشرین صحابیًا، ومن ثم نص أبو عبید علی أنّہا متواترۃ أي: معنیً

[18] … في ’’فیض القدیر‘‘، ج۲، ص۶۹۲، تحت الحدیث:۲۵۱۲: ((إنّ ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف)) أي: سبع لغات أوسبعۃ أوجہ من المعاني المتفقۃ بألفاظ مختلفۃ أو غیر ذلک

[19] … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ)) ملتقطاً۔’’صحیح مسلم‘‘، باب بیان أنّ القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۸۱۸، ص۴۰۸۔

[20] … في ’’الدر‘‘، کتاب الصلاۃ، فصل في القرآۃ، ج۲، ص۳۲۰: (ویجوز بالروایات السبع، لکنّ الأولی أن لا یقرأ بالغریبۃ عند العوام صیانۃ لدینہم وفي ’’رد المحتار‘‘ تحت قولہ: (بالغریبۃ) أي: بالروایات الغریبۃ والإمالات؛ لأنّ بعض السفہاء یقولون ما لا یعلمون فیقعون في الإثم والشقاء، ولا ینبغي للأئمۃ أن یحملوا العوام علی ما فیہ نقصان دینہم، ولا یقرأ عندہم مثل قراء ۃ أبي جعفر وابن عامر وعلي بن حمزۃ الکسائي صیانۃ لدینہم فلعلّہم یستخفون أو یضحکون وإن کان کل القراء ات والروایات صحیحۃ فصیحۃ، ومشایخنا اختاروا قراء ۃ أبي عمرو وحفص عن عاصم وانظر: ’’التتارخانیۃ‘‘، ج۱، ص۴۵۵۔

[21] … { اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-} ۲، البقرۃ: ۱۸۷]۔

في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۱، ص۲۴۱، تحت الآیۃ: (قولہ تعالی: { اُحِلَّ لَكُمْ } لفظ: { اُحِلَّ } یقتضي أنّہ کان محرّماً قبل ذلک ثم نسخ، روی أبو داود عن ابن أبي لیلی قال: وحدثنا أصحابنا قال: وکان الرجل إذا أفطر فنام قبل أن یأکل لم یأکل حتی یصبح، قال: فجاء عمر فأراد امرأتہ فقالت: إنّي قد نمت، فظنّ أنّہا تعتل فأتاہا، فجاء رجل من الأنصار فأراد طعاماً فقالوا: حتی نسخن لک شیئاً فنام، فلما أصبحوا أنزلت ہذہ الآیۃ، وفیہا: { اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-

[22] … { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) ۲۸، المجادلۃ: ۱۲]۔

في ’’روح البیان‘‘، المجادلۃ، تحت الآیۃ، الجزء الثامن والعشرون، ج۹، ص۴۰۵: (والآیۃ نزلت حین أکثر الناس علیہ السؤال حتی أسأموہ وأملوہ فأمرہم اللّٰہ بتقدیم الصدقۃ عند المناجاۃ فکف کثیر من الناس، أمّا الفقیر فلعسرتہ، وأمّا الغني فلشحہ وفي ہذا الأمر تعظیم الرسول ونفع الفقرآء والزجر عن الإفراط في السؤال والتمییز بین المخلص والمنافق ومحب الآخرۃ ومحب الدنیا واختلف في أنّہ للندب أو للوجوب لکنّہ نسخ بقولہ تعالی: { ءَاَشْفَقْتُمْ } الآیۃ۔۔۔ إلخ وفي ’’روح المعاني‘‘، الجزء الثامن والعشرین، ج۱۴، ص۳۱۴۔۳۱۵۔

{ وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-} ۲، البقرۃ: ۲۳۴]۔

في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۲، ص۱۳۳، تحت الآیۃ: (وأکثر العلماء علی أنّ ہذہ الآیۃ ناسخۃ لقولہ عز وجل: {وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ۚۖ-وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍۚ- } لأنّ الناس أقاموا برہۃ من الإسلام إذا توفی الرجل وخلف امرأتہ حاملا أوصی لہا زوجہا بنفقۃ سنۃ وبالسکنی ما لم تخرج فتتزوج، ثم نسخ ذلک بأربعۃ أشہر وعشر، وبالمیراث

[23] … قال الإمام أحمد رضا في ’’المعتمد المستند‘‘، ص۵۵: (والمطلق یکون في علم اللّٰہ مؤبداً أو مقیداً، وہذا الأخیر ہو الذي یأتیہ النسخ فیظنّ أنّ الحکم تبدل؛ لأنّ المطلق یکون ظاہرہ التأبید حتی سبق إلی بعض الخواطر أنّ النسخ رفع الحکم وإنّما ہو بیان مدتہ عندنا وعند المحققین في ’’تفسیر الصاوي‘‘،

البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ج۱، ص۹۸: النسخ : بیان انتھاء حکم التعبد۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فتاویٰ رضویہ ، ج۱۴، ص۱۵۶میں فرماتے ہیں : ’’نسخ کے یہی معنی ہیں کہ اگلے حکم کی مدت پوری ہوگئی‘‘ ۔

انظر للتفصیل: ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ للسیوطي، النوع ۴۷ في ناسخہ ومنسوخہ، ج۲، ص۳۲۶۔

24… ٹیڑھا پن۔

[25] … { هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﳕ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۷)} پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۷۔

في ’’نور الأنوار‘‘، ص۹۷: (أنّ المراد بہ (أي: بالمتشابہ) حق وإن لم نعلمہ قبل یوم القیامۃ، وأمّا بعد القیامۃ فیصیر مکشوفاً لکل أحد إن شاء اللّٰہ تعالیٰ، وہذا في حق الأمۃ، وأمّا في حق النبي علیہ السلام فکان معلومًا وإلاّ تبطل فائدۃ التخاطب ویصیر التخاطب بالمہمل کالتکلم بالزنجي مع العربي وہذا عندنا وفي ’’شرح الحسامي‘‘، ص۲۱: (فالمتشابہ کرجل فقد عن الناس حتی انقطع أثرہ وانقضی جیرانہ وأقرانہ، (وحکمہ التوقف فیہ أبدًا) في حقنا، لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلم المتشابہات کما صرح بہ فخر الإسلام في ’’أصولہ‘‘۔انظر للتفصیل والدلائل: ’’انباء الحي‘‘، ص۵۰۔

[26] … في ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۰۵: (الوحي قسمان: وحي نبوۃ، ویختص بہ الأنبیاء دون غیرہم

[27] … في ’’الشفا‘‘، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، الجزء ۲، ص۲۸۵: (من ادّعی النبوۃ لنفسہ أو جوّز اکتسابہا والبلوغ بصفاء القلب إلی مرتبتہا کالفلاسفۃ وغلاۃ المتصوفۃ، وکذلک من ادّعی منہم أنّہ یوحی إلیہ وإن لم یدع النبوۃ فہؤلاء کلّہم کفار مکذبون للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لأنّہ أخبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنّہ خاتم النبیین لا نبي بعدہ ملتقطاً۔

[28] … { اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(۴)} پ۱۲، یوسف:۴۔ في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت الآیۃ، عن ابن عباس في قولہ: ({اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(۴) قال: کانت رؤیا الأنبیاء وحیًا ج۷، ص۱۴۸۔

{ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) پ۲۳، الصافات:۱۰۲۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت الآیۃ: عن قتادۃ، قولہ: ({یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ } قال: رؤیا الأنبیاء حق إذا رأوا في المنام شیئا فعلوہ وعن عبید بن عمیر، قال: (رؤیا الأنبیاء وحيٌ، ثم تلا ہذہ الآیۃ:{ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ ج۱۰، ص۵۰۷۔

29في’’المرقاۃ‘‘، کتاب العلم،ج۱،ص۴۴۵:(والإلہام لغۃ: الإبلاغ، وہو علم حق یقذفہ اللّٰہ من الغیب في قلوب عبادہ

[30] … { وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ-} پ۸، الأنعام: ۱۱۲۔ في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج۵، ص۳۱۴، تحت الآیۃ: (أمّا قولہ: { یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ- فإنّہ یعني أنّہ یلقي الملقي منہم القولَ، الذي زیّنہ وحسَّنہ بالباطل إلی صاحبہ، لیغترّ بہ من سمعہ، فیضلّ عن سبیل اللّٰہوعن السدي في قولہ: { یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ- قال: للإنسان شیطان، وللجنّي شیطان، فیلقَی شیطان الإنس شیطان الجن، فیوحي بعضہم إلی بعض زخرف القول غرورًا

{ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ(۲۲۱) تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)} پ۱۹، الشعراء: ۲۲۱۔۲۲۲۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت الآیۃ، عن قتادۃ، في قولہ: { كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ} قال: ہم الکہنۃ تسترق الجن السمع، ثم یأتون بہ إلی أولیائہم من الإنسج۹، ص۴۸۷۔.

في ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، تحت الآیۃ:{ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ } أي: أخبرکم{ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ(۲۲۱) تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)} أي: کذوب في قولہ وہو الأفاک (الأثیم) وہو الفاجر في أفعالہ۔فہذا ہو الذي تنزل علیہ الشیاطین من الکہان وما جری مجراہم من الکذبۃ الفسقۃ، فإنّ الشیاطین أیضاً کذبۃ فسقۃ ج۶، ص۱۵۵۔

[31] … في ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۰۷: (النبوۃ لیست کسبیۃ

وفي ’’الیواقیت والجواہر‘‘، ص۲۲۴: (لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل إلیہا بالنسک والریا ضات کما ظنّہ جماعۃ من الحمقی، فإنّ اللّٰہ تعالی حکی عن الرسل بقولہ: { قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ- پ ۱۳، ابراہیم:۱۱، فالنبوۃ إذن محض فضل اللّٰہ تعالی ملتقطاً۔

[32] … في ’’المسایرۃ‘‘ و’’المسامرۃ‘‘، شروط النبوۃ، ص۲۲۶: (شرط النبوۃ: الذکورۃ وکونہ أکمل أہل زمانہ عقلا وخلقا و) أکملہم (فطنۃ وقوۃ رأي والسلامۃ من دناء ۃ الآبائ) ومن (غمز الأمہات و) السلامۃ من (القسوۃ والعیوب المنفرۃ) منہم (کالبرص والجذام و) من (قلۃ المروء ۃ کالأکل علی الطریق، و) من (دناء ۃ الصناعۃ کالحجامۃ۔۔۔ إلخ) ملتقطاً۔

في ’’شرح المقاصد‘‘، المبحث السادس، ج۳، ص۳۱۷: (النبوۃ مشروطۃ بالذکورۃ، وکمال العقل، وقوۃ الرأي، والسلامۃ عن المنفرات کزنا الآبائ، وعھر الأمہات والفظاظۃ، ومثل البرص، والجذام، والحِرَف الدنیئۃ، وکل ما یخل بالمروء ۃ وحکمۃ البعثۃ ونحو ذلک انظر للتفصیل: ’’المعتقد المنتقد‘‘، باب: وہا أنا أذکر ما یجب لہم علیہم السلام، ص۱۱۰۔۱۱۷۔

[33] … عن وہب بن منبہ، قال:قرأت واحدا وسبعین کتابا فوجدت في جمیعہا أنّ اللّٰہ عز وجل لم یعط جمیع الناس من بدء الدنیا إلی انقضائہا من العقل في جنب عقل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلاّ کحبۃ رمل من بین رمال جمیع الدنیا، وأنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرجح الناس عقلاً وأفضلہم رأیاً رواہ أبو نعیم في’’الحلیۃ‘‘، ج۴، ص۲۹۔۳۰، الحدیث: ۴۶۵۲۔

[34] … ترجمۂ کنز الایمان: اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔ پ۸، الأنعام: ۱۲۴۔

[35] … ترجمۂ کنز الایمان: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ پ۲۷، الحدید: ۲۱۔

[36] في ’’المعتقد المنتقد‘‘، مسئلۃ: النبوۃ لیست کسبیۃ۔۔۔ إلخ، ص۱۰۷: (النبوۃ لیست کسبیۃ، قال التورفشتي في ’’المعتمد‘‘: اعتقاد حصول النبوۃ بالکسب کفر ملتقطاً۔ في ’’الیواقیت والجواہر‘‘،ص۲۲۴:(وقد أفتی المالکیۃ وغیرہم بکفر من قال:إنّ النبوۃ مکتسبۃ، واللّٰہ تعالی أعلم

[37] في ’’المعتقد المنتقد‘‘، مسئلۃ: من جوّز زوال النبوۃ من نبي۔۔۔ إلخ، ص۱۰۹: (من جوز زوال النبوۃ من نبي فإنّہ یصیر کافراً، کذا في ’’التمہید‘‘)۔

[38] … وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۵۶: (الأنبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کلّہم منزہون) أي: معصومون، ملتقطاً۔

وفي ’’شرح النووي‘‘، ج۱، ص۱۰۸: (ذہب جماعۃ من أہل التحقیق والنظر من الفقہاء والمتکلمین من أئمتنا إلی عصمتہم من الصغائر کعصمتہم من الکبائر)

[39] … في’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۱۰: (فمنہ العصمۃ: وہي من خصائص النبوۃ علی مذہب أہل الحق

في’’الحبائک في أخبار الملائک‘‘، ص۸۲: (أجمع المسلمون علی أنّ الملائکۃ مؤمنون فضلائ، واتفق أئمۃ المسلمین أنّ حکم المرسلین منہم حکم النبیین سوائً في العصمۃ ممّا ذکرنا عصمتہم منہ، وأنّہم في حقوق الأنبیاء والتبلیغ إلیہم کالأنبیاء مع الأمم واختلفوا في غیر المرسلین منہم فذہبت طائفۃ إلی عصمۃ جمیعہم عن المعاصي واحتجوا بقولہ تعالی:

{ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) وبقولہ: { وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌۙ(۱۶۴) وَّ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَۚ (۱۶۵)وَ اِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ(۱۶۶) وبقولہ: { وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ(۱۹) یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ(۲۰)}… ونحوہ من السمعیّات، وذہبت طائفۃ إلی أنّ ہذا خصوص للمرسلین منہم والمقربین…، والصواب عصمۃ جمیعہم وتنزیہ نصابہم الرفیع عن جمیع ما یحطّ من رتبتہم ومنزلتہم عن جلیل مقدارہم ملتقطاً۔ و’’الشفا‘‘، فصل في القول في عصمۃ الملائکۃ،ج۲، ص۱۷۴۔۱۷۵۔

وفي’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۲: (وملائکتہ) بأنّہم عباد مکرمون لایسبقونہ بالقول وہم بأمرہ یعملون، وأنّہم معصومون ولا یعصون اللّٰہ

وفي’’النبراس‘‘، ص۲۸۷: (والملائکۃ عباد اللّٰہ تَعَالٰی العاملون بأمرہ) یرید أنّہم معصومون وقد اختلف في عصمتہم فالمختار أنّہم معصومون عن کل معصیۃ۔وفي ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘ شرح ’’الطریقۃ المحمدیۃ‘‘، ج۱، ص۲۹۰:

(’’أنّ الملائکۃ‘‘ الذین ہم عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وہم بأمرہ یعملون) لا یعملون قط ما لم یأمرہم بہ قالہ البیضاوي (لا یوصفون) أي: الملائکۃ علیہم السلام (بمعصیۃ) صغیرۃ ولا کبیرۃ؛ لأنّہم کالأنبیاء معصومون

وفي ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۴، ص۱۸۷: (بشر میں انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے سوا کوئی معصوم نہیں )۔

[40] … انظر للتفصیل: ’’نسیم الریاض في شرح شفاء القاضي عیاض‘‘، الباب الأوّل فیما یجب للأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، ویمتنع أو یصح من الأحوال۔۔۔ إلخ، فصل في عصمۃ الأنبیاء قبل النبوۃ من الجھل۔۔۔ إلخ، ج ۵، ص ۱۴۴۔ ۱۹۳۔۳۳۷۔

[41] … في ’’شرح المقاصد‘‘، المقصد السادس، المبحث الثاني، الشروط التي تجب في الإمام، ج۳، ص۴۸۴: (واحتج أصحابنا علی عدم وجوب العصمۃ بالإجماع علی إمامۃ أبي بکر وعمر وعثمان رضي اللّٰہ عنہم مع الإجماع علی أنّہم لم تجب عصمتہم، وإن کانوا معصومین بمعنی أنّہم منذ آمنوا کان لہم ملکۃ اجتناب المعاصي مع التمکن منہا، وحاصل ہذا دعوی الإجماع علی عدم اشتراط العصمۃ في الإمام

[42] … في ’’بریقۃ محمودیۃ‘‘ شرح ’’طریقۃ محمدیۃ‘‘ ج۲، ص۱: (اعلم أنّہ لا تجب عصمۃ الولي کما تجب عصمۃ النبي لکن عصمتہ بمعنی أن یکون محفوظاً لا تصدر عنہ زلۃ أصلاً، ولا امتناع من صدورہا، وقیل للجنید: ہل یزني العارف؟ فأطرق ملیاً ثم رفع رأسہ وقال: { وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدْرًا مَّقْدُوْرَا٘ﰳۙ (۳۸)} ۲۲، الأحزاب: ۳۸]۔

وفي ’’الرسالۃ القشیریۃ‘‘، باب الولایۃ، ص۲۹۲: (ومن شرط الولي أن یکون محفوظاً، کما أنّ من شرط النبي أن یکون معصوماً وفیہا، باب کرامات الأولیاء، ص۳۸۱: (فإن قیل: ہل یکون الولی معصوماً؟ قیل: أمّا وجوباً کما یقال في الأنبیاء فلا، وأمّا أن یکون محفوظاً حتی لا یصر علی الذنوب إن حصلت ہنات أو آفات أو زلات فلا یمتنع ذلک في وصفہم، ولقد قیل للجنید: العارف یزني یا أبا القاسم؟ فأطرق ملیاً، ثم رفع رأسہ وقال: وکان أمر اللّٰہ قدراً مقدرواً

في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، مطلب: في أنّ الإلہام لیس بحجۃ۔۔۔الخ، ص۴۲۲: (والأولیاء وإن لم یکن لہم العصمۃ لجواز وقوع الذنب منہم ولا ینافیہ الولایۃ، ومن ثم قیل للجنید: أیزني الولي؟ فقال: وکان أمر اللّٰہ قدراً مقدرواً، لکن لہم الحفظ فلا تقع منہم کبیرۃ ولا صغیرۃ غالباً

[43] … بُری صفتوں ۔

[44] … في ’’روح البیان‘‘، پ۲۳، ج۸، ص۴۵، تحت الآیۃ: ۴۴: (واعلم: أنّ العلماء قالوا: إنّ الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام معصومون من الأمراض المنفرۃ

في ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘ علی ’’الطریقۃ المحمدیۃ‘‘، ج۱، ص۲۸۸:(وہم) أي: الأنبیاء والرسل علیہم السلام کلہم (مبرؤون عن الکفر) باللّٰہ تعالی (و)عن (الکذب مطلقاً أي: قبل النبوۃ وبعدہا العمد من ذلک والسہو والکذب علی اللّٰہ تعالی وعلی غیرہ في الأمور الشرعیۃ والعادیۃ، (و) مبرؤون (عن الکبائر) من الذنوب (و)عن (الصغائر) منہا أیضاً (المنفرۃ) نعت للصغائر أي: التي تنفر غیرہم من أتباعہم (کسرقۃ لقمۃ) من المأکولات (وتطفیف) أي: تنقیص (حبۃ) من الحبوب التي

یبیعونہا فإنّ ذلک ممّا یدلّ علی الخسۃ والدناء ۃ (و)مبرؤون أیضاً من (تعمد الصغائر غیرہا) أي غیر المنفرۃ (بعد البعثۃ) أي:إرسالہم إلی دعوۃ الخلق

في ’’منح الروض الأزہر‘‘ للقاریٔ، الأنبیاء منزہون عن الصغائر والکبائر، ص۵۶۔۵۷: (والأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم) أي: جمیعہم الشامل لرسلہم ومشاہیرہم وغیرہم (منزّہون) أي: معصومون (عن الصغائر والکبائر) أي: من جمیع المعاصي (والکفر) خص؛ لأنّہ أکبر الکبائر (والقبائح) وفي نسخۃ: والفواحش، وہي أخص من الکبائر في مقام التغایر کما یدل علیہ قولہ سبحانہ وتعالی: { اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ } والمراد بہا نحو: القتل والزنا واللواطۃ والسرقۃ وقذف المحصنۃ والسحر والفرار من الزحف والنمیمۃ وأکل الربا ومال الیتیم وظلم العباد وقصد الفساد في البلاد۔۔۔ إلخ، ثم ہذہ العصمۃ ثابتۃ للأنبیاء قبل النبوۃ وبعدہا علی الأصح، وہم مؤیدون بالمعجزات الباہرات والآیات الظاہرات۔ ملتقطاً۔

وقال الإمام الأعظم في ’’الفقہ الأکبر‘‘، ص۶۱: (ولم یشرک باللّٰہ طرفۃ عین قط، ولم یرتکب صغیرۃ ولا کبیرۃ قط قال الملا علي القاریٔ في شرحہ: (ولم یشرک باللّٰہ طرفۃ عین قط) أي: لا قبل النبوۃ ولا بعدہا، فإنّ الأنبیاء علیہم الصلوۃ والسلام معصومون عن الکفر مطلقاً بالإجماع

45…{ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)} پ۶، المائدۃ: ۶۷۔

في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۳، الجزء الثاني، ص۱۴۵، تحت ہذہ الآیۃ: (دلت الآیۃ علی رد قول من قال: إنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کتم شیئاً من أمر الدین تقیۃً، وعلی بطلانہ، وہم الرافضۃ، ودلت علی أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یسر إلی أحد شیئاً من أمر الدین؛ لأنّ المعنی بلغ جمیع ما أنزل إلیک ظاہراً، قال ابن عباس: والمعنی بلغ جمیع ما أنزل إلیک من ربک، فإن کتمت شیئاً منہ فما بلغت رسالتہ، وہذا تأدیب للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وتأدیب لحملۃ العلم من أمتہ ألا یکتموا شیئا من أمر شریعتہ، وقد علم اللّٰہ تعالی من أمر نبیہ أنّہ لا یکتم شیئا من وحیہ، وفي ’’صحیح مسلم‘‘ عن مسروق عن عائشۃ أنّہا قالت: ((من حدثک أنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم کتم شیئا من الوحي فقد کذب، واللّٰہ تعالی یقول: { یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-}))۔وقبّح اللّٰہ الروافض حیث قالوا: إنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کتم شیئاً ممّا أوحی اللّٰہ إلیہ کان بالناس حاجۃ إلیہ ملتقطاً۔

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۱۳۔۱۱۴: (ومنہ التبلیغ لجمیع ما جاء وا بہ من عند اللّٰہ ، وأمروا بتبلیغہ للعباد، اعتقادیاً کان أو عملیاً، فیجب أن یعتقد أنّہم صلوات اللّٰہ تَعَالٰی علیہم بلّغوا عن اللّٰہ ما أمروا بتبلیغہ ولم یکتموا منہ شیئاً، ولو في قوۃ الخوف

وقال الإمام أحمد رضا خان في ’’ المعتمد المستند‘‘ ص۱۱۴، تحت اللفظ: ولو في قوۃ: (وتجویز التقیۃ علیہم في التبلیغ کما تزعمہ الطائفۃ الشقیۃ ہدم لأساس الدین، وکفر و ضلال مبین

في ’’الیواقیت والجواہر‘‘، ص۲۵۲: (أجمعت الأمۃ علی أنّہ بلغ الرسالۃ بتمامہا وکمالہا وکذلک تشہد لجمیع الأنبیاء أنّہم بلغوا رسالات ربہم، وقد خطب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حجۃ الوداع فحذر وأنذر وأوعد وما خص بذلک أحدا دون أحد، ثم قال: ((ألا ہل بلغت)) فقالوا: بلغت یا رسول اللّٰہ، فقال: ((اللّٰہم اشہد))۔

46… في ’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘، شروط النبوّۃ، الکلام علی العصمۃ، ص۲۳۴۔۲۳۵: (وأمّا فیما طریقہ الإبلاغ) أي: إبلاغ الشرع وتقریرہ من الأقوال وما یجري مجراہا من الأفعال کتعلیم الأمۃ بالفعل (فہم معصومون فیہ من السہو والغلط

في ’’شرح النووي‘‘، ج۱، ص۱۰۸: (اتفقوا علی أنّ کل ما کان طریقہ الإبلاغ في القول فہم معصومون فیہ علی کل حال، وأمّا ما کان طریقہ الإبلاغ في الفعل فذہب بعضہم إلی العصمۃ فیہ رأساً وأنّ السہو والنسیان لا یجوز علیہم فیہ

[47] … في ’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘، ص۲۲۶: (من شروط النبوۃ السلامۃ من (العیوب المنفرۃ) منہم (کالبرص والجذام ملتقطاً۔وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۱۵: (ومنہ النزاہۃ في الذات: أي: السلامۃ من البرص والجذام والعمی وغیر ذلک من المنفرات

[48] … { وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا } پ۱، البقرۃ: ۳۱۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۱، ص۱۰۰، تحت ہذہ الآیۃ: (علّمہ أسماء الأشیاء کلّہا أي: ألہمہ فوقع في قلبہ فجری علی لسانہ بما في قلبہ بتسمیۃ الأشیاء من عندہ فعلّمہ جمیع أسماء المسمیات بکل اللغات بأن أراہ الأجناس التي خلقہا وعلّمہ أنّ ہذا اسمہ فرس وہذا اسمہ بعیر وہذا اسمہ کذا، وعلّمہ أحوالہا وما یتعلق بہا من المنافع الدینیۃ والدنیویۃ، وعلّمہ أسماء الملائکۃ وأسماء ذریتہ کلہم وأسماء الحیوانات والجمادات وصنعۃ کل شيئ، وأسماء المدن والقری وأسماء الطیر والشجر وما یکون وکل نسمۃ یخلقہا إلی یوم القیامۃ وأسماء المطعومات والمشروبات وکل نعیم في الجنۃ وأسماء کل شيء حتی القصعۃ والقصیعۃ وحتی الجفنۃ والمحلبوفي الخبر: علّمہ سبعمائۃ ألف لغۃ)۔{ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-} پ۳، البقرۃ:۲۵۵۔

في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۱، ص۱۹۶، تحت الآیۃ: ({اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-} } یعني: أن یطّلعہم علیہ وہم الأنبیاء والرسل لیکون ما یطلعہم علیہ من علم غیبہ دلیلاً علی نبوتہم کما قال تعالی:{ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ 

{ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹)} پ۳، آل عمران:۴۹۔ في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج۳، ص۲۷۸، تحت الآیۃ: قال عطاء بن أبي رباح: یعني قولہ:{ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-قال: الطعام والشيء یدّخرونہ في بیوتہم، غیبًا علّمہ اللّٰہ إیاہ.

{ وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ } پ۷، الأنعام:۷۵۔

في ’’تفسیرالخازن‘‘، ج۲، ص۲۸، تحت الآیۃ: قال مجاہد وسعید بن جبیر: (یعني: آیات السموات والأرض وذلک أنّہ أقیم علی صخرۃ وکشف لہ عن السموات حتی رأی العرش والکرسي وما في السموات من العجائب، وحتی رأی مکانہ في الجنۃ فذلک قولہ:(وآتیناہ أجرہ في الدنیایعني أریناہ مکانہ في الجنۃ وکشف لہ عن الأرض حتی نظر إلی أسفل الأرضین ورأی ما فیہا من العجائب

{قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَاؕ-ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْؕ- } پ۱۲، یوسف:۳۷۔ في ’’تفسیر الکبیر‘‘، ج۶، ص۴۵۵، تحت الآیۃ: ({لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ } محمول علی الیقظۃ، والمعنی: أنّہ لا یأتیکما طعام ترزقانہ إلاّ أخبرتکما أيّ طعام ہو، وأي لون ہو، وکم ہو، وکیف یکون عاقبتہ؟ أي: إذا أکلہ الإنسان فہو یفید الصحۃ أوالسقم

{ وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)} پ۱۵، الکھف: ۶۵۔ وفي ’’تفسیر القرطبي‘‘،ج۵، الجزء التاسع، ص۳۱۶، تحت الآیۃ: { وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)}أي: علم الغیب.

في ’’تفسیر الطبري‘‘، پ۱۵، الکھف، ج۸، ص۲۵۳:(قال لہ موسی: جئتک لتعلّمني مما علمت رشدًا، { قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۶۷) وکان رجلاً یعلم علم الغیب قد عُلِّم ذلک { وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-   پ۴، آٰل عمرٰن: ۱۷۹۔

في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۱، ص۳۲۹، تحت الأیۃ: (یعني: ولکن اللّٰہ یصطفي ویختار من رسلہ من یشاء فیطّلعہ علی ما یشاء من غیبہ

{ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳)} پ۵، النساء: ۱۱۳۔

في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۱، ص۴۲۹، تحت الآیۃ: یعني: من أحکام الشرع وأمور الدین، وقیل: علّمک من علم الغیب ما لم تکن تعلم، وقیل: معناہ وعلّمک من خفیات الأمور واطلعک علی ضمائر القلوب وعلّمک من أحوال المنافقین وکیدہم ما لم تکن تعلم)۔{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ } پ۲۹، الجن: ۲۶۔۲۷۔ في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج ۱۲، ص۲۷۵، تحت ہذہ الآیۃ: عن قتادۃ، قولہ: { عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فإنّہ یصطفیہم، ویطّلعہم علی ما یشاء من الغیب وعن قتادۃ قال: { اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ } فإنّہ یظہرہ من الغیب علی ما شاء إذا ارتضاہ

{ وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴)} پ۳۰، التکویر: ۲۴۔

في ’’تفسیر البغوي‘‘، ج۴، ص۴۲۲، تحت الآیۃ:({ وَ مَا هُوَ } یعني: محمدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم { عَلَى الْغَیْبِ } ، أي: الوحي، وخبر السماء وما أطلع علیہ مما کان غائبا عنہ من الأنباء والقصص، { بِضَنِیْنٍۚ} أي: ببخیل یقول: إنّہ یأتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلمکم ویخبرکم بہ، ولا یکتمہ کما یکتم الکاہن)

عن طارق بن شہاب قال: سمعت عمر رضي اللّّٰہ عنہ یقول: ((قام فینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقاماً فأخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل أہل الجنۃ منازلہم وأہل النار منازلہم، حفظ ذلک من حفظہ ونسیہ من نسیہ))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب بدء الخلق، الحدیث: ۳۱۹۲، ج۲، ص۳۷۵۔

في ’’عمدۃ القاري‘‘، ج۱۰، ص۵۴۴، تحت الحدیث: (وفیہ دلالۃ علی أنّہ أخبر في المجلس الواحد بجمیع أحوال المخلوقات من ابتدائہا إلی انتہائہا، وفي إیراد ذلک کلّہ في مجلس واحد أمر عظیم من خوارق العادۃ، وکیف! وقد أعطي جوامع الکلم مع ذلک

عن حذیفۃ قال: ((قام فینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقاماً ما ترک شیئاً یکون في مقامہ ذلک إلی قیام الساعۃ إلاّ حدث بہ حفظہ من حفظہ ونسیہ من نسیہ))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الفتن، باب إخبار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، الحدیث: ۲۳۔(۲۸۹۱)، ص۱۵۴۵۔ حدثني أبو زید یعني: عمرو بن أخطب قال: صلّی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتی حضرت الظہر فنزل فصلی ثم صعد المنبر فخطبنا حتی حضرت العصر ثم نزل فصلی ثم صعد المنبر فخطبنا حتی غربت الشمس فأخبرنا بما کان وبما ہوکائن فأعلمنا أحفظنا۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الفتن، باب إخبار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، الحدیث: ۲۸۹۲، ص۱۵۴۶۔

ع اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا

جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود [’’حدائق بخشش‘‘، ص۱۹۱]۔

مزیددلائل کیلئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی کتب مثلاً: ’’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ‘‘، ’’خالص الاعتقاد‘‘، ’’إنباء الحي‘‘، ’’إزاحۃ العیب بسیف الغیب‘‘، ’’إنباء المصطفی بحال سرّ وأخفی‘‘، ’’مالیٔ الجیب بعلوم الغیب‘‘، وغیرہا کا مطالعہ کریں ۔

[49] … عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ اللّٰہ عزوجل قد رفع لي الدنیا فأنا أنظر إلیہا وإلی ما ہو کائن فیہا إلی یوم القیامۃ کأنّما أنظر إلی کفّي ہذہ جلیان من أمر اللّٰہ عزوجل جلاّہ لنبیّہ کما جلاّہ للنبیّین من قبلہ))۔

’’حلیۃ الأولیاء‘‘، ج۶، ص۱۰۷، و’’الخصائص الکبری‘‘، ج۲، ص۱۸۵، و’’الدولۃ المکیّۃ بالمادّۃ الغیبیۃ‘‘، ص۵۶۔

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں اس حدیث ِمبارکہ کو نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :’’اس حدیث سے روشن ہے کہ جو کچھ سماوات وارض میں ہے اور جو قیامت تک ہوگا اس سب کا علم اگلے انبیاء ِکرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوا تھا اور حضرت عزت عز جلا لہ نے اس تمام ما کان وما یکون کو اپنے ان محبوبوں کے پیش نظر فرمادیا، مثلاً: مشرق سے مغرب تک، سماک سے سمک تک، ارض سے فلک تک اس وقت جو کچھ ہورہا ہے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ الصلاۃ والتسلیم ہزار ہا برس پہلے اس سب کو ایسا دیکھ رہے تھے گویا اس وقت ہر جگہ موجود ہیں ،ایمانی نگاہ میں یہ نہ قدرتِ الٰہی پر دشوار اور نہ عزت ووجاہت ِانبیاء کے مقابل بسیار۔ ’’فتاوی رضویۃ‘‘ ، ج۲۹، ص۴۹۵۔

وعن ثوبان قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ اللّٰہ زوی لي الأرض فرأیت مشارقہا ومغاربہا))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الفتن، باب ہلاک ہذہ الأمۃ بعضہم ببعض، الحدیث: ۲۸۸۹، ص۱۵۴۴۔

في ’’المرقاۃ‘‘، ج۱۰، ص ۱۵، تحت الحدیث: (إنّ اللّٰہ زوی لي الأرض، أي: جمعہا لأجلي، یرید بہ تقریب البعید منہا حتی اطّلع علیہ اطلاعہ علی القریب منہا، وحاصلہ: أنّہ طوی لہ الأرض وجعلہا مجموعۃ کہیئۃ کف في مرآۃ نظرہ، ولذا قال: فرأیت مشارقہا ومغاربہا، أي: جمیعہا) ملتقطاً۔

وفي روایۃ: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((رأیت ربي في أحسن صورۃ، قال:فیم یختصم الملأ الأعلی؟ فقلت: أنت أعلم یا رب، قال: فوضع کفہ بین کتفيّ فوجدت بردہا بین ثدیيّ فعلمت ما في السموات والأرض))۔ ’’سنن الدارمي‘‘، کتاب الرؤیا، باب في رؤیۃ الرب تعالی في النوم، ج۲، ص۱۷۰۔

في ’’المرقاۃ‘‘، ج۲، ص۴۲۹، تحت الحدیث: (فعلمت أي: بسبب وصول ذلک الفیض ما في السموات والأرض، یعني: ما أعلمہ اللّٰہ تعالی مما فیہما من الملائکۃ والأشجار وغیرہما، وہو عبارۃ عن سعۃ علمہ الذي فتح اللّٰہ بہ علیہ، وقال ابن حجر: أي: جمیع الکائنات التي في السموات بل وما فوقہا، کما یستفاد من قصۃ المعراج، والأرض ہي بمعنی الجنس، أي: وجمیع ما في الأرضین السبع بل وما تحتہا

وفي ’’أشعۃ اللمعات‘‘، ج۱، ص۳۵۷، تحت قولہ: (( فعلمت ما في السموات والأرض)) پس دانستم ہر چہ در آسمان ہا و ہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ علوم جزوی وکلی واحاطۂ آن)۔

ترجمہ: پس جو کچھ آسمان وزمین میں تھا سب کچھ میں نے جان لیا یہ بات تمام علوم کلی وجزئی کو گھیرے ہوئے ہے۔

اعلی حضرت امام اہلسنّت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’اللہ عزوجل نے روز اَزل سے روز آخر تک جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے ایک ایک ذرّہ کا تفصیلی علم اپنے حبیب اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمایا، ہزار تاریکیوں میں جو ذرّہ یا ریگ کا دانہ پڑا ہے حضور کا علم اس کو محیط ہے، اور فقط علم ہی نہیں بلکہ تمام دنیا بھر اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا دیکھ رہے ہیں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو ، آسمانوں اور زمینوں میں کوئی ذرّہ ان کی نگاہ سے مخفی نہیں بلکہ یہ جو کچھ مذکور ہے ان کے علم کے سمندروں میں سے ایک چھوٹی سی نہر ہے، اپنی تمام امت کو اس سے زیادہ پہچانتے ہیں جیسا آدمی اپنے پاس بیٹھنے والوں کو، اور فقط پہچانتے ہی نہیں بلکہ ان کے ایک ایک عمل ایک ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں ، دلوں میں جو خطرہ گزرتا ہے اس سے آگاہ ہیں ، اور پھر ان کے علم کے وہ تمام سمندر اور جمیع علوم اوّلین وآخرین مل کر علم الہی سے وہ نسبت نہیں رکھتے جو ایک ذَرَا سے قطرہ کو کرور سمندر وں سے‘‘۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج ۱۵، ص۷۴۔

50…{ وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَؕ-} پ۷ الأنعام: ۵۹۔

قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن في ’’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ‘‘، ص۳۹: (إنّ العلم إمّا ذاتي إن کان مصدرہ ذات العالم لا مدخل فیہ لغیرہ عطاء ولا تسبیبا، وإمّا عطائي إذا کان بعطاء غیرہ، فالأوّل مختص بالمولی سبحانہ وتَعَالٰی لا یمکن لغیرہ ومن أثبت شیئاً منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک، وبار وہلک۔ والثاني مختص بعبادہ عزّ جلالُہ لا إمکان لہ فیہ، ومن أثبت شیئاً منہ للّٰہ تعالی فقد کفر، وأتی بما ہو أخنع وأشنع من الشرک الأکبر؛ لأنّ المشرک من یسوي باللّٰہ غیرہ، وہذا جعل غیرہ أعلی منہ حیث أفاض علیہ علمہ وخیرہ۔

[51] … پ۱، البقرۃ: ۸۵

[52] … ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۴۰۸۔ ۴۰۹، ۴۴۵، ۴۵۰۔

[53] … في ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، ج۱، الجزء الأوّل، ص۱۴۸:( الغیب کلّ ما أخبر بہ الرسول علیہ السلام ممّا

لا تہتدي إلیہ العقول من أشراط الساعۃ وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنۃ والنار

[54] … { ٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ } پ۲۹، الجن: ۲۶۔۲۷۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۱۰، ص۲۰۱۔۲۰۲، تحت الآیۃ:(قال ابن شیخ: إنّہ تعالی لا یطلع علی الغیب الذي یختص بہ علمہ إلاّ المرتضی الذي یکون رسولاً، وما لا یختص بہ یطلع علیہ غیر الرسول، إمّا بتوسط الأنبیائ، أو بنصب الدلائل وترتیب المقدمات أو بأن یلہم اللّٰہ بعض الأولیاء وقوع بعض المغیبات في المستقبل بواسطۃ الملک، فلیس مراد اللّٰہ بہذہ الآیۃ أن لا یطلع احداً علی شيء من المغیبات إلاّ الرسل لظہور أنّہ تعالی قد یطلع علی شيء من الغیب غیر الرسل

وفي ’’إرشاد الساري‘‘، کتاب التفسیر، تحت الحدیث: ۴۶۹۷:(ولا یعلم متی تقوم الساعۃ أحد إلاّ اللّٰہ إلاّ من ارتضی من رسول فإنّہ یطلعہ علی ما یشاء من غیبہ، والولي التابع لہ یأخذ عنہ) ج۱۰، ص۳۶۹۔

[55] … { وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)} پ۷، الأنعام: ۸۶۔

في ’’تفسیرالخازن‘‘، ج۲، ص۳۳، تحت الآیۃ: { وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)} یعني: علی عالمي زمانہم ویستدلّ بہذہ الآیۃ من یقول: إنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ؛ لأنّ العالم اسم لکلّ موجود سوی اللّٰہ تعالی فیدخل فیہ الملک فیقتضي أنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ۔

وفي ’’التفسیر الکبیر‘‘، پ۱، البقرۃ، ج۱، ص۴۳۰، تحت الآیۃ: ۳۴:(اعلم أنّ جماعۃ من أصحابنا یحتجون بأمر اللّٰہ تعالی للملائکۃ بسجود آدم علیہ السلام علی أنّ آدم أفضل من الملائکۃ فرأینا أن نذکر ہہنا ہذہ المسألۃ فنقول: قال أکثر أہل السنّۃ: الأنبیاء أفضل من الملائکۃ

وفي ’’شرح المقاصد‘‘، المبحث السابع، الملائکۃ، ج۳، ص۳۲۰۔۳۲۱:(فذہب جمہور أصحابنا والشیعۃ إلی أنّ الأنبیاء أفضل من الملائکۃ

[56] … في’’منح الروض الأزہر‘‘ ص۱۲۱:(أنّ الولي لا یبلغ درجۃ النبي، فما نقل عن بعض الکرامیۃ من جواز کون الولي أفضل من النبي کفر وضلالۃ وإلحاد وجہالۃ ملتقطاً۔وفي’’إرشاد الساري‘‘، کتاب العلم، باب ما یستحب للعالم۔۔۔ إلخ، ج۱، ص۳۷۸:(فالنبي أفضل من الولي، وہو أمر مقطوع بہ، والقائل بخلافہ کافر، لأنّہ معلوم من الشرع بالضرورۃ

وفي ’’الشفاء‘‘، ج۲، ص۲۹۰:(وکذلک نقطع بتکفیر غلاۃ الرافضۃ في قولہم: إنّ الأئمۃ أفضل من الأنبیاء

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۲۵:(إنّ نبیاً واحداً أفضل عند اللّٰہ من جمیع الأولیاء، ومن فضّل ولیّاً علی نبي یخشی الکفر بل ہو کافر

[57] … { اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) پ۲۶، الفتح: ۹۔ وفي ’’جواہر البحار‘‘، ج۳، ص۲۶۰:(إنّ اللّٰہ فرض علینا تعزیر رسولہ، وتوقیرہ

[58] … في ’’تفسیر روح البیان‘‘، پ۱۰، التوبۃ، ج۳، ص۳۹۴، تحت الآیۃ: ۱۲:(واعلم أنّہ قد اجتمعت الأمّۃ علی أنّ الاستخفاف بنبینا وبأي نبيکان من الأنبیاء کفر سواء فعلہ فاعل ذلک استحلالاً أم فعلہ معتقداً بحرمتہ، لیس بین العلماء خلاف في ذلک۔۔۔ إلخ

وفي ’’الشفا‘‘، فصل في بیان ما ہوحقہ، ج۲، ص۲۱۹:(قال ابن عتاب: الکتاب والسنۃ موجبان أنّ من قصد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأذی أو نقص معرضا أو مصرّحا وإن قلّ فقتلہ واجب) وصفحۃ ۲۱۷:(قال بعض علمائنا: أجمع العلماء علی أنّ من دعا علی نبي من الأنبیاء بالویل أو بشيء من المکروہ أنّہ یقتل بلا استتابۃ

وفي ’’فتاوی قاضي خان‘‘، کتاب السیر:(إذا عاب الرجل النبي علیہ السلام في شيء کان کافراً۔ قال بعض العلماء: لو قال: شعر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم شُعَیر فقد کفر۔ وعن أبي حفص الکبیر رحمہ اللّٰہ: من عاب النبي علیہ السلام بشعر من شعراتہ فقد کفر ج۴، ص۴۶۸۔وفي ’’التتارخانیہ‘‘، کتاب أحکام المرتدین، ج۵، ص۴۷۷:(من لم یقر ببعض الأنبیاء علیہم السلام أوعاب نبیا بشيء أولم یرض بسنۃ من سنن المرسلین علیہم السلام فقد کفر

اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویۃ‘‘، ج۱۵، ص۵۸۷ میں فرماتے ہیں : ’’ہر نبی کی تحقیر مطلقا کفر قطعی ہے‘‘۔

59… { وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَؕ-} پ۲۴، المؤمن:۷۸۔

[60] … { وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا } پ۱، البقرۃ:۳۱۔

[61] … { اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا } پ۳، آل عمران:۳۳۔

[62] … { وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-} پ۱، البقرۃ:۱۲۴۔

[63] … { وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ } پ۱، البقرۃ:۱۲۵۔

[64] … { وَ اِسْحٰقَ } پ۱، البقرۃ:۱۳۳۔

[65] … { وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ-} پ۱، البقرۃ:۱۳۲۔

[66] … { اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ } پ۱۲، یوسف: ۴۔

[67] … { وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً } پ۱، البقرۃ:۵۱۔

[68] … { وَ هٰرُوْنَ } پ۶، النساء: ۱۶۳۔

[69] … { وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ- } پ۸، الأعراف:۸۵۔

[70] … { وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا } پ۱۲، ہود: ۷۷۔

[71] … { وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا } پ۸، الأعراف: ۶۵۔

[72] … { وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ } پ۲، البقرۃ: ۲۵۱۔

[73] … { وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا } پ۱، البقرۃ: ۱۰۲۔

[74] … { وَ اَیُّوْبَ }پ۶، النساء: ۱۶۳۔

[75] … { وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ-} پ۳، آل عمران:۳۷۔

[76] … { وَ یَحْیٰى } پ۷، الانعام: ۸۵۔

[77] … { وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-} پ۱، البقرۃ: ۸۷۔

[78] … { وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵)} پ۷، الأنعام:۸۵۔

[79] … { وَ الْیَسَعَ } پ۷، الانعام:۸۶۔

[80] … { وَ یُوْنُسَ } پ۶، النساء: ۱۶۳۔

[81] … { وَ اِدْرِیْسَ } پ۱۷، الانبیاء:۸۵۔

[82] … { وَ ذَا الْكِفْلِؕ- } پ۱۷، الانبیاء:۸۵۔

[83] … { وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-} پ۸، الأعراف:۷۳۔

[84] … { وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ } پ۱۰، التوبۃ: ۳۰۔

نوٹ: صراحت کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام کے ملنے والے ناموں میں ایک نام حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی ہے اس لیے ہم نے متن میں کرلی بریکٹ []میں ان کا اضافہ کردیا، تفصیل کے لیے ’’فتاوی رضویہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔ انظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۴، ص۳۴۲۔

[85] … { وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ- پ۴، آل عمران: ۱۴۴۔

{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-} پ۲۲، الأحزاب:۴۰۔

{ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ } پ۲۶، محمد:۲۔ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-} پ۲۶، الفتح: ۲۹۔

[86] … { اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ } پ۳، اٰل عمرٰن: ۵۹۔

في ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، تحت الآیۃ:(یقول جل وعلا: { اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ } في قدرۃ اللّٰہ حیث خلقہ من غیر أب { كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-} حیث خلقہ من غیر أب ولا أم، بل { خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹)} ج۲، ص۴۱۔

[87] … { وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-} پ۱، البقرۃ: ۳۰۔

[88] … ناموں اور ان سے پکاری جانے والی چیزوں ۔

[89] … { وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا } پ۱، البقرۃ: ۳۱۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۱، ص۱۰۰، تحت الآیۃ:(علّمہ أسماء الأشیاء کلہا أي: ألہمہ فوقع في قلبہ فجری علی لسانہ بما في قلبہ بتسمیۃ الأشیاء من عندہ فعلّمہ جمیع أسماء المسمیات بکلّ اللغات بأن أراہ الأجناس التي خلقہا وعلّمہ أنّ ہذا اسمہ فرس وہذا اسمہ بعیر وہذا اسمہ کذا وعلّمہ أحوالہا وما یتعلق بہا من المنافع الدینیۃ والدنیویۃ وعلّمہ أسماء الملائکۃ وأسماء ذریتہ کلہم وأسماء الحیوانات والجمادات وصنعۃ کل شيئ، وأسماء المدن والقری وأسماء الطیر والشجر وما یکون وکل نسمۃ یخلقہا إلی یوم القیامۃ وأسماء المطعومات والمشروبات وکل نعیم في الجنۃ وأسماء کل شيء حتی القصعۃ والقصیعۃ وحتی الجفنۃ والمحلب وفي الخبر: علّمہ سبع مائۃ ألف لغۃ

[90] … { وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ } پ۱۵، الکہف: ۵۰۔

[91] … في ’’حاشیۃ شیخ زادہ علی البیضاوي‘‘، پ۱۵، الکہف: تحت ہذہ الآیۃ:۵۰:(فإنّہ لما امتنع عن السجود لآدم استکبارًا وافتخارًا بأنّ أصلہ نار وأصل آدم تراب، والنارعلوي نوراني لطیف فیکون أشرف من التراب الذي ہو سفلي ظلماني کثیف، وأداہ ذلک الکبر إلی أنّ صار ملعونًا مخلّدًا في النار بعد أن کان رئیس الملائکۃ ومقدمہم ومعلمہم وأشدہم اجتہادًا في العبادۃ حتی لم یبق في سبع السموات ولا في سبع الأرضین موضع قدر شبر إلاّ وقد سجد اللعین للّٰہ تعالی علیہ سجدۃ حتی امتلأت من العجب نفسہ حیث لم یر أحدًا مثلہ، فأبی أن یسجد لآدم استکبارًا فقال: { قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)} ج۵، ص۴۸۶۔

[92] … { اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱)فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۷۴)قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّؕ-اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ(۷۵)قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶)قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸)} پ۲۳، ص:۷۱ تا ۷۸۔

[93] … { یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ   اتَّقُوْا  رَبَّكُمُ  الَّذِیْ  خَلَقَكُمْ  مِّنْ  نَّفْسٍ  وَّاحِدَةٍ  } پ۴، النساء: ۱۔

في ’’روح المعاني‘‘، ج۲، ص۲۸۳، تحت الآیۃ:(والمراد من النفس الواحدۃ آدم علیہ السلام، والذي علیہ الجماعۃ من الفقہاء والمحدثین ومن وافقہم أنّہ لیس سوی آدم واحد ۔وہو أبو البشر۔)۔

وفي ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۳، ص۴۷۷، تحت الآیۃ:(أجمع المسلمون علی أنّ المراد بالنفس الواحدۃ ہاہنا ہو آدم علیہ السلام

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ } پ۷، الأنعام: ۹۸۔في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۲، ص۴۰، تحت الآیۃ: (یعني: واللّٰہ الذي ابتدأ خلقکم أیہا الناس من آدم علیہ السلام فہو أبو البشر، کلّہم وحواء مخلوقۃ منہ عیسی أیضاً؛ لأنّ ابتداء خلقہ من مریم وہي من بنات آدم فثبت أنّ جمیع الخلق من آدم علیہ السلام

وفي ’’روح البیان‘‘، ج۳، الجزء السابع، ص۷۲، تحت الآیۃ:(من نفس آدم وحدہا فإنّہ خلقنا جمیعاً منہ وخلق أُمُّنا حواء من ضلع من أضلاع آدم فصار کل الناس محدثۃ مخلوقۃ من نفس واحدۃ حتی عیسی فإنّ ابتداء تکوینہ من مریم التي ہي مخلوقۃ من ماء أبویہا وإنما منّ علینا بہذا؛ لأنّ الناس إذا رجعوا إلی أصل واحد کانوا أقرب إلی أن یألف بعضہم بعضاً۔ قال أہل الإشارۃ: إنّ اللّٰہ تعالی کما خلق آدم ابتدائً وجعل أولادہ منہ کذلک خلق روح محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأرواح کما قال: أول ما خلق اللّٰہ روحي، ثم خلق الأرواح من روحہ فکان آدم أبا البشر وکان محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم أبا الأرواح

{ كَانَ مِنَ الْجِنِّ } پ۱۵، الکہف: ۵۰۔

في ’’روح المعاني‘‘، ج۸، ص۴۲۲، تحت الآیۃ:(ما کان إبلیس من الملائکۃ طرفۃ عین وإنّہ لأصل الجن کما أنّ آدم علیہ السلام أصل الإنس، وفیہ دلالۃ علی أنہ لم یکن قبلہ جن کما لم یکن قبل آدم علیہ السلام إنس۔۔۔ إلخ

[94] … عن أبي ذر قال قلت: یا رسول اللّٰہ! أيّ الأنبیاء کان أوّل؟ قال:((آدم))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۱۶۰۲، ج۸، ص۱۳۰۔

وفي ’’العقائد النسفیۃ‘‘، ص۱۳۶:(أوّل الأنبیاء آدم علیہ السلام

[95] … في ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الإیمان، باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا، الحدیث: ۱۹۳، ص۱۲۲:((ولکن ائتوا نوحاً، أوّل رسول بعثہ اللّٰہ))۔

وفي ’’النبراس‘‘، ص۲۷۵:(إن قلت: جاء في الحدیث أنّ نوحاً علیہ السلام أوّل رسول بعثہ اللّٰہ کما في ’’صحیح مسلم‘‘، أجیب أي: بعثہ اللّٰہ إلی الکفار بخلاف آدم وشیث فإنّہما أرسلا إلی المؤمنین لتعلیم الشرائع

96 { وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-} پ۲۰، العنکبوت: ۱۴۔

[97] … انظر التفصیل في القرآن: پ۸، الأعراف: ۵۹۔۷۲۔ پ۱۱، یونس:۷۱۔۷۳۔

پ۱۲، ہود: ۲۵۔۴۷۔ پ۱۸، المؤمنون: ۲۳۔۳۰۔ پ۱۹، الشعرائ: ۱۰۵۔۱۲۲۔ پ۲۰، العنکبوت: ۱۴۔۱۵۔ پ۲۹، نوح: ۱۔۲۸۔

[98] … في ’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘، ص۲۲۵:(أمّا المبعوثون، فالإیمان بہم واجب، من ثبت شرعاً تعیینہ منہم وجب الإیمان بعینہ، ومن لم یثبت تعیینہ کفی الإیمان بہ إجمالاً(ولا ینبغي في الإیمان بالأنبیاء القطع بحصرہم في عدد) إذ لم یرد بحصرہم دلیل قطعي(لأنّ) الحدیث(الوارد في ذلک) أي في عددہم(خبر واحد) لم یقترن بما یفید القطع(فإن وجدت فیہ الشروط) المعتبرۃ للحکم بصحتہ(وجب ظن مقتضاہ، مع تجویزنقیضہ) بَدَلَہ(وإلا) أي: وإن لم یصح(فلا) یجب ظن مقتضاہ، وعلی کل من التقدیرین(فیؤدي) أي: فقد یؤدي حصرہم في العدد الذي لا قطع بہ(إلی أن یعتبر فیہم من لیس منہم) بتقدیر کون عددہم في نفس الأمر أقل من الوارد(أو یخرج) عنہم(من ہو منہم) بتقدیر أن یکون عددہم في نفس الأمر أزید من الوارد وفي ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۲۔ وفي ’’شرح المقاصد‘‘، فصل في النبوۃ، ج۳، ص۳۱۷۔ و’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘، ص۱۳۹۔۱۴۰۔

[99] … { وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ } پ۱۵، بنی اسرآئیل: ۵۵۔ { تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-} پ۳، البقرۃ: ۲۵۳۔

في ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۲، ص۵۲۱۔۵۲۵، تحت الآیۃ:(أجمعت الأمۃ علی أنّ بعض الأنبیاء أفضل من بعض، وعلی أنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم أفضل من الکل، ویدلّ علیہ وجوہ۔ ومنہا: قولہ تعالی: { وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)} پ۱۷، الأنبیاء: ۱۰۷۔ فلما کان رحمۃ لکل العالمین لزم أن یکون أفضل من کل العالمین۔ ومنہا: أنّ معجزۃ رسولنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أفضل من معجزات سائر الأنبیاء فوجب أن یکون رسولنا أفضل من سائر الأنبیاء۔ ومنہا: أنّ دین محمد علیہ السلام أفضل الأدیان فیلزم أن یکون محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم أفضل الأنبیائ، بیان الأول: أنّہ تعالی جعل الإسلام ناسخاً لسائر الأدیان، والناسخ یجب أن یکون أفضل لقولہ علیہ السلام:((من سنّ سنۃ حسنۃ فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامۃ)) فلما کان ہذا الدین أفضل وأکثر ثواباً کان واضعہ أکثر ثواباً من واضعي سائرالأدیان، فیلزم أن یکون محمد علیہ السلام أفضل من سائر الأنبیاء۔ ومنہا:(قولہ علیہ السلام:(( آدم ومن دونہ تحت لوائي یوم القیام)) وذلک یدلّ علی أنّہ أفضل من آدم ومن کل أولادہ، وقال علیہ السلام:((أنا سید ولد آدم ولا فخر)) وقال علیہ السلام:((لا یدخل الجنۃ أحد من النبیّین حتی أدخلہا أنا، ولا یدخلہا أحد من الأمم حتی تدخلہا أمتي)) وروی أنس قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((أنا أول الناس خروجاً إذا بعثوا، وأنا خطیبہم إذا وفدوا، وأنا مبشّرہم إذا أیسوا، لواء الحمد بیدي، وأنا أکرم ولد آدم علی ربي ولا فخر)) وعن ابن عباس قال: جلس ناس من الصحابۃ یتذاکرون فسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیثہم فقال بعضہم: عجباً إنّ اللّٰہ اتخذ إبراہیم خلیلاً، وقال آخر: ماذا بأعجب من کلام موسی کلّمہ تکلیماً، وقال آخر: فعیسٰی کلمۃ اللّٰہ وروحہ، وقال آخر: آدم اصطفاہ اللّٰہ فخرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال:((قد سمعت کلامکم وحجّتکم أنّ إبراہیم خلیل اللّٰہ وہو کذلک، وموسی نجي اللّٰہ وہوکذلک، وعیسٰی روح اللّٰہ وہوکذلک، وآدم اصطفاہ اللّٰہ تعالی وہوکذلک، ألا! وأنا حبیب اللّٰہ ولا فخر، وأنا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر، وأنا أوّل شافع وأنا أول مشفع یوم القیامۃ ولا فخر، وأنا أول من یحرک حلقۃ الجنۃ فیفتح لي فأدخلہا ومعي فقراء المؤمنین ولا فخر، وأنا أکرم الأوّلین والآخرین ولا فخر))۔ ومنہا: أنّ اللّٰہ تعالی کلّما نادی نبیاً في القرآن ناداہ باسمہ { یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ }پ۱، البقرۃ: ۳۵۔ { وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴)}پ۲۳، الصافات: ۱۰۴۔{ یٰمُوْسٰىؕ(۱۱) اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ } پ۱۶، طٰہٰ: ۱۱،۱۲۔ وأمّا النبي علیہ السلام فإنّہ ناداہ بقولہ:{ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ } پ۲۲، الأحزاب: ۴۵۔ { یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ } پ۶، المائدۃ: ۶۷۔ وذلک یفید الفضل۔ ملخصاً۔ في ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۲۳:(أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاق علی کل الأنبیاء والملائکۃ والإنس علی الإطلاق في الذات والصفات والأفعال والأقوال والأحوال بلا استغراب في ذلک لما حواہ من الکمال، وانفرد بہ من الجلال والجمال(إلی أن قال) فالواجب علی کل مؤمن أن یعتقد أنّ نبینا محمدا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم سید العالمین، وأفضل الخلائق أجمعین، فمن اعتقد خلاف ہذا فہو عاص، مبتدع، ضال

تنبیہ:.6 قال الإمام أحمد رضا في ’’المعتمد المستند‘‘، ص۱۲۴:(والحق أنّ تفضیل نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم علی العالمین جمیعاً مقطوع بہ مجمع علیہ، بل کاد أن یکون من ضروریات الدین، فإنّي لا أعلم یجہلہ أحد من المسلمین فاعرف وتثبتوانظر للتفصیل: ’’تجلي الیقین بأنّ نبینا سید المرسلین‘‘ للإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن، في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰۔

100… في’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۱۲۴۔۱۲۵:(أفضل الأنبیاء محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ، چنانچہ فرمودہ((أنا سید ولد آدم ولا فخر)) در عرف بمعنی نوع انسان آبد تا آدم، نیز در مفہوم آن داخل بود، وحدیث ((آدم ومن دونہ تحت لوائي)) در مقصود ظاہرتر وصریح تر است، فضیلت بعد ازاں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام راست، وبعد ازوي موسی وعیسی ونوح علیہم السلام راست، وایں پنجتن اولوالعزم اند کہ بزرگ ترین وفاضلترین رسل اند، وصبر ومجاہدہ ایشاں در راہ حق ازھمہ بیشتر است) ملتقطاً۔

یعنی: نبیوں میں سب سے افضل سید عالم (صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) ہیں چنانچہ آپ(صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) نے ارشاد فرمایا:’’میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور کوئی فخر نہیں ‘‘۔ اولاد آدم عرف میں نوع انسانی کے لئے جس میں سیدنا آدم علیہ السلام بھی داخل ہیں بولا جاتا ہے، د وسری حدیث میں ہے کہ: ’’آدم اور ان کے سوا سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے‘‘۔ یہ حدیث آپ (صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) کی فضیلتِ مطلقہ کے مقصد میں ظاہر تر اور بہت صریح ہے۔ آپ (صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم)کے بعد صاحب ِفضیلت حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں ، پھر حضرت موسی پھر عیسی اور نوح (علیہم السلام) ہیں اور یہ پانچوں حضرات اُولو العزم ہیں جو سب رسولوں اور نبیوں میں افضل اور بزرگ تر ہیں ، راہ حق میں ان کا صبر و مجاہدہ سب سے زیادہ ہے۔

[101] … بلند وبا لا عزت و عظمت اور حوصلہ والے۔

[102] … { فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } پ۲۶، الأحقاف: ۳۵۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت ہذہ الآیۃ: عن عطاء الخُراسانيّ، أنّہ قال:{ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } نوح وإبراہیم وموسی وعیسی ومحمد صلی اللّٰہ علیہم وسلم، الحدیث: ۳۱۳۲۹، ج۱۱، ص۳۰۳۔ وفي ’’الدر المنثور‘‘، تحت ہذہ الآیۃ: عن ابن عباس قال:(أولو العزم من الرسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونوح وإبراہیم وموسی وعیسی ج۷، ص۴۵۴۔

[103] … { كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ  پ۴، اٰلِ عمرٰن:۱۱۰۔

في ’’التفسیر الکبیر‘‘، البقرۃ: تحت الآیۃ: ۲۵۳:(أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم أفضل الأمم، فوجب أن یکون محمد أفضل الأنبیاء ، بیان الأوّل قولہ تعالی: { كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ } پ۴، اٰلِ عمرٰن:۱۱۰۔ بیان الثاني أنّ ہذہ الأمۃ إنّما نالت ہذہ الفضیلۃ لمتابعۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال تعالی: { قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ } پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۳۱۔ وفضیلۃ التابع توجب فضیلۃ المتبوع، وأیضاً أنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکثر ثواباً؛ لأنّہ مبعوث إلی الجن والإنس، فوجب أن یکون ثوابہ أکثر، لأنّ لکثرۃ المستجیبین أثراً في علو شأن المتبوع، ج۲، ص۵۲۳۔

عن معمر عن بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ أنّہ سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول في قولہ تعالی: { كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ }قال:((أنتم تتمّون سبعین أمۃ أنتم خیرہا وأکرمہا علی اللّٰہ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ آل عمران، الحدیث: ۳۰۱۲، ج۵، ص۷۔

قال: ثم إنّ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم أثنی علی ربہ، فقال:((کلکم أثنی علی ربہ، وأنا مثن علی ربي، فقال: الحمد للّٰہ الذي أرسلني رحمۃ للعالمین، وکافۃ للناس بشیراً ونذیراً، وأنزل علي الفرقان فیہ تبیان کل شیء ، وجعل أمتي خیر أمۃ أخرجت للناس، وجعل أمتي وسطاً، وجعل أمتي ہم الأوّلون وہم الآخرون، وشرح لي صدري، ووضع عنّي وزري ورفع لي ذکري، وجعلني فاتحا خاتما))، قال إبراہیم: بہذا فضلکم محمد. ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۱۴، ص۶۶۵، وج۱۵، ص۶۳۸۔وانظر للتفصیل ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۱۵۳۔

104…{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)پ۲۲، الأحزاب: ۶۹۔في ’’تفسیر ابن کثیر‘‘، ج۶، ص۴۳۰، تحت ہذہ الآیۃ: { وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)} أی: لہ وجاہۃ وجاہ عند ربہ عز وجل.

قال الحسن البصري:کان مستجابَ الدعوۃ عند اللّٰہ، وقال غیرہ من السلف: لم یسأل اللّٰہ شیئاً إلاّ أعطاہ، ولکن منع الرؤیۃ لما یشاء اللّٰہ، عز وجل. وقال بعضہم: من وجاہتہ العظیمۃ عند اللّٰہ أنّہ شفع في أخیہ ہارون أن یرسلہ اللّٰہ معہ، فأجاب اللّٰہ سؤالہ، فقال:{ وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)

{ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵)}پ۳، آل عمران:۴۵۔ في’’تفسیر الطبري‘‘، ج۳، ص۲۷۰، تحت الآیۃ:(قال أبوجعفر: یعني: بقولہ’’ وَجِیْهًا ‘‘ ذا وَجْہٍ ومنزلۃ عالیۃ عند اللّٰہ، وشرفٍ وکرامۃ

في’’الجامع الصغیر‘‘، ص۲۸۹، الحدیث:۴۶۹۸: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((سلّم علي ملک ثم قال لي: لم أزل أستأذن ربي عزوجل في لقائک حتی کان ہذا أوان أذن لي، وإنّي أبشرک أنّہ لیس أحدٌ أکرم علی اللّٰہ منک))۔

في ’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، الحدیث: ۲۶۷۵، ج۳، ص۵۷: [وفیہ] قال:((یا فاطمۃ ونحن أہل بیت قد أعطانا اللّٰہ سبع خصال لم یعط أحد قبلنا، ولا یعطی أحد بعدنا، أنا خاتم النبیین، وأکرم النبیین علی اللّٰہ۔۔۔ إلخ))۔

في ’’الخصائص الکبری‘‘، ج۲، ص۳۴۰- ۳۴۱: عن ابن مسعود قال:((إنّ محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکرم الخلق علی اللّٰہ یوم القیامۃ))۔ وعن عبد اللّٰہ بن سلام قال:((إنّ أکرم خلیقۃ اللّٰہ علی اللّٰہ أبو القاسم صلی اللّٰہ علیہ وسلم))۔

’’فتاوی رضویہ‘‘ میں ’’فتاوی امام سراج الدین ‘‘ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے:(ا للہ تَعَالٰی نے حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا: ’’قد مننتُ علیک بسبعۃ أشیاء أولہا أني لم أخلق في السموات والأرض أکرم علي منک‘‘)۔

’’فتاوی سراج الدین البلقیني‘‘، شعر۱، ص۱۲۱، بحوالہ ’’فتاوی رضویہ‘‘، ج۳۰، ص۱۹۵۔

105… جیسا کہ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ میں ہے: ’’اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘۔

’’تقویۃ الإیمان مع تذکیر الإخوان‘‘، ص۲۵، ( مطبوعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)۔

’’تقویۃ الایمان ‘‘کے مصنف کا یہ کہنا کھلی گستاخی اور کلمۂ کفر ہے؛ کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں ادنی گستاخی بھی کفر ہے جیسا کہ مفسر القرآن صاحب ’’روح البیان ‘‘ علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تَعَالٰی علیہ فرماتے ہیں : ’’مختار یہ ہے کہ بے شک مسلمانوں میں سے وہ شخص جس سے ارادۃً و قصداً ایسی چیز ظاہر ہوئی جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی تخفیف (یعنی بے ادبی) پر دلالت کرے ایسے شخص کا قتل کرنا واجب ہے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی کہ وہ قتل سے بچ جائے اگرچہ وہ کلمہ شہادت پڑھے اور رجوع و توبہ کرے۔۔۔۔ اور یہ یقین کر کہ بے شک اجماع امت ہے اس بات پر کہ ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃو السلام میں سے جس نبی علیہ السلام کی بھی تخفیف ہو کفر ہے عام ازیں کہ تخفیف کرنے والا تخفیف کو حلال سمجھ کر کرے یا نبی کی عزت کا معتقد ہو کر کرے بہرحال کفر ہے اس مسئلہ میں علماء کرام کا کوئی اختلاف نہیں ، سبّ (گالی ) کا ارادہ ہو یا نہ ہو اس لئے کہ کوئی بھی کفر میں بوجہ جہالت اور بوجہ دعوی لغزش ِ زبانی کے معذور نہ سمجھا جائے گا جب کہ اس کی عقلِ فطرت صحیح وسالم ہو‘‘۔ ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۳، ص۳۹۴، پ۱۰، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۔

وفي ’’الشفا‘‘، الباب الأوّل في بیان ما ہوحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم سب أونقص من تعریض ونصّ، ج۲، ص۲۱۴۔

[106] … في’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘، مبحث النبوات، ص۱۳۵:(وأیّدہم) أي: الأنبیاء(بالمعجزات الناقضات للعادات) جمع معجزۃ وہي أمر یظہر بخلاف العادۃ علی ید مدعي النبوۃ عند تحدّي المنکرین علی وجہ یعجز المنکرین عن الإتیان بمثلہ

و’’المسامرۃ بشرح المسایرۃ‘‘، ص۲۴۰۔

[107] … { وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳)} پ۸، الأعراف:۷۳۔

[108] … { قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(۱۹)فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(۲۰)} پ۱۶، طٰہٰ: ۱۹۔۲۰۔

[109] … یعنی روشن اورچمکدارہاتھ۔

{ وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)}پ۱۶، طٰہٰ: ۲۲۔

[110] … { وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-} پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۴۹۔

[111] … في ’’الشفا‘‘، ج۱، ص۲۵۲۔۲۵۳:(اعلم أنّ معنی تسمیتنا ما جاء ت بہ الأنبیاء معجزۃ ہوأنّ الخلق عجزوا عن الإتیان بمثلہا وہي علی ضربین ضرب: ہو من نوع قدرۃ البشر فعجزوا عنہ فتعجیزہم عنہ فعل للّٰہ دل علی صدق نبیہ کصرفہم عن تمني الموت وتعجیزہم عن الإتیان بمثل القرآن علی رأي بعضہم ونحوہ، وضرب: ہو خارج عن قدرتہم فلم یقدروا علی الإتیان بمثلہ کإحیاء الموتی وقلب العصا حیۃ وإخراج ناقۃ من صخرۃ وکلام شجرۃ ونبع الماء من الأصابع وانشقاق القمر ممّا لا یمکن أن یفعلہ أحد إلاّ اللّٰہ، فیکون ذلک علی ید النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من فعل اللّٰہ تعالی وتحدیہ من یکذبہ أن یأتي بمثلہ تعجیز لہ۔ واعلم أنّ المعجزات التي ظہرت علی ید نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم ودلائل نبوتہ وبراہین صدقہ من ھذین النوعین معًا وہوأکثر الرسل معجزۃ وأبہرہم آیۃ وأظہرہم برہانا،وہي فيکثرتہا لا یحیط بہا ضبط، فإنّ واحدا منہا وہو القرآن لا یُحصی عدد معجزاتہ بألف ولا ألفین ولا أکثر؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد تحدّی بسورۃ منہ فعجز عنہا

وفي ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۱۱، ص۳۱۵، پ۳۰، الکوثر، تحت الآیۃ ۱:(ومعجزاتہ أکثر من أن تحصی وتعد

[112] … في ’’النبراس‘‘، أقسام الخوارق سبعۃ، ص۲۷۲:(أجمع المحققون علی أنّ ظہور الخارق عن المتنبي وہو الکاذب في دعوی النبوۃ محال؛ لأنّ دلالۃ المعجزۃ علی الصدق قطعیۃ وقیل: لوجاز لزم عجز اللّٰہ سبحانہ عن تصدیق أنبیائہ، وقالوا: قد دل الاستقرار علی عدم ظہورہ و’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۱۳۔

[113] … في ’’النبراس‘‘، أقسام الخوارق سبعۃ، ص۲۷۲:(أقسام الخوارق سبعۃ:أحدہا: المعجزۃ من الأنبیاء۔ ثانیہا: الکرامۃ

للأولیائ۔ ثالثہا: المعونۃ لعوام المؤمنین ممن لیس فاسقاً ولا ولیاً۔ رابعہا: الإرہاص للنبي قبل أن یبعث کتسلیم الأحجار علی النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم، وأدرجہ بعضہم في الکرامۃ و بعضہم في المعجزۃ مجازاً۔ خامسہا: الاستدراج للکافر والفاسق المجاہر علی وفق غرضہ سمّي بہ؛ لأنّہ یوصلہ بالتدریج إلی النار۔ سادسہا: الإہانۃ للکافر والفاسق علی خلاف غرضہ کما ظہر عن مسیلمۃ الکذاب إذ تمضمض في ماء فصار ملحاً و مس عین الأعور فصار أعمی۔ سابعہا: السحر لنفس شریرۃ تستعمل أعمالاً مخصوصۃ بإعانۃ الشیاطین

[114] … عن أبي الدرداء قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((إنّ اللّٰہ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام فنبي اللّٰہ حيّ یرزق))۔ ’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب الجنائز، ذکر وفاتہ ودفنہ، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلّون))۔ ’’مسند أبي یعلی‘‘، الحدیث: ۳۴۱۲، ج۳، ص۲۱۶۔

قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم:((إنّ الأنبیاء لا یموتون وإنّہم یصلّون ویحجّون في قبورہم وأنّہم أحیاء))۔

’’فیوض الحرمین‘‘ للشاہ ولي اللّٰہ المحدث الدہلوي، ص۲۸۔

[115] … في ’’روح المعاني‘‘، الأحزاب، ج۱۱، الجزء الثاني، ص۵۲۔۵۳، تحت الآیۃ: ۴۰:(أنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حيّ بجسدہ وروحہ، وأنّہ یتصرّف ویسیر حیث شاء في أقطار الأرض وفي الملکوت وذہب ’’أي: الإمام جلال الدین السیوطي‘‘ إلی نحو ہذا في سائر الأنبیاء علیہم السلام فقال: إنّہم أحیائ، ردت إلیہم أرواحہم بعد ما قبضوا وأذن لہم في الخروج من قبورہم والتصرف في الملکوت العلوي والسفلي) ملتقطًا۔

في ’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۱۲۲: (خود انبیاء راموت نبود وایشاں حی وباقی اندوموت ہماں است کہ یکبار چشیدہ اند، بعد از اں ارواح بابدان ایشاں اعادت کنند وحقیقت حیات بخشند چنانچہ در دنیا بودند کامل تر از حیات شہدا کہ آن معنوی است)۔

یعنی : اور خود انبیاء علیہم السلام کو بھی (دائمی) موت نہیں وہ زندہ اور باقی ہیں ، ان کو موت صرف اتنی ہے کہ ایک بار ایک آن کے لئے موت کا ذائقہ چکھتے ہیں پھر ان کی ارواح مقدسہ کو انہی کے جسموں میں لوٹا دیا جاتا ہے، اور ویسی ہی حیات حقیقی عطا فرما دی جاتی ہے جیسے کہ وہ دنیا میں تھے ان کی حیات شہداء کی حیات سے زیادہ کامل ہے کیونکہ شہداء کی حیات معنوی ہے۔

قال الإمام الأجل جلال الدین السیوطي في ’’الحاوي للفتاوي‘‘: فہذہ الأخبار دالّۃ علی حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر الأنبیاء، وقد قال تعالی في الشہداء: { وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)} والأنبیاء أولی بذلک فہم أجل وأعظم وما نبي إلاّ وقد جمع مع النبوۃ وصف الشہادۃ فیدخلون في عموم لفظ الآیۃ۔ وأخرج أحمد وأبو یعلی والطبراني والحاکم في ’’المستدرک‘‘ والبیہقي في ’’دلائل النبوۃ‘‘ عن ابن مسعود قال:((لأن أحلف تسعًا: إنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قتل قتلاً أحب إلي من أن أحلف واحدۃ إنّہ لم یقتل، وذلک أنّ اللّٰہ عزوجل اتخذہ نبیّاً واتخذہ شہیداً))۔(’’المستدرک‘‘ للحاکم، کتاب المغازي و السرایا، الحدیث: ۴۴۵۰، ج۳، ص۶۰۶)۔

وأخرج البخاري والبیہقي عن عائشۃ قالت:کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول في مرضہ الذي توفي فیہ:((لم أزل أجد ألم الطعام الذي أکلت بخیبر، فہذا أوان انقطاع أبہري من ذلک السم))۔(’’دلائل النبوۃ‘‘، ص۱۷۲، ج۷، و’’بخاري‘‘، ج۳، ص۱۵۲)،

فثبت کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیاً في قبرہ بنص القرآن، إمّا من عموم اللفظ وإما من مفہوم الموافقۃ، قال البیہقي في کتاب الاعتقاد:(الأنبیاء بعد ما قبضوا ردّت إلیہم أرواحہم، فہم أحیاء عند ربہم کالشہداء وقال القرطبي في التذکرۃ:(الموت لیس بعدم محض وإنّما ہو انتقال من حال إلی حال، ویدلّ علی ذلک أنّ الشہداء بعد قتلہم وموتہم أحیاء یرزقون فرحین مستبشرین، وہذہ صفۃ الأحیاء في الدنیا، وإذا کان ہذا في الشہداء فالأنبیاء أحق بذلک وأولی، وقد صح أنّ الأرض

لا تأکل أجساد الأنبیاء ’’الحاوي للفتاوي‘‘، کتاب البعث، أنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیائ، ج۲، ص۱۷۹۔۱۸۰۔

وقد ثبت أنّ نبینا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو سید الشہدائ، وانظر للتفصیل ہذہ المسألۃ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۰، ص۷۶۴، ج۱۵، ص۶۱۳، ۶۲۴، و ج۲۹، ص۱۱۰۔

116… في’’البدائع والصنائع‘‘، کتاب الصلاۃ، فصل في الشہید، ج۲، ص۷۴:(فالعبد وإن جل قدرہ لا یستغني عن الدعاء ألا تری أنّہم صلوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ولا شک أنّ درجتہ کانت فوق درجۃ الشہداء وإنّما وصفہم بالحیاۃ في حق أحکام الآخرۃ ألا تری إلی قولہ تعالی { بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)} فأمّا في حق أحکام الدنیا فالشہید میت یقسم مالہ، وتنکح امرأتہ بعد انقضاء العدۃ، ووجوب الصلاۃ علیہ من أحکام الدنیا فکان میتاً فیہ فیصلی علیہ واللہ أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب.

[117] … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((إنّا معشرالأنبیاء لا نورِّث، ما ترکتُ بعد مؤونۃ عاملي ونفقۃ نسائي صدقۃ))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۹۹۷۹، ج۳، ص۴۹۰۔ وعن أبي الدردائ، سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((إنّ العلماء ورثۃ الأنبیاء، إنّ الأنبیاء لم یورِّثوا دیناراً ولادرہماً، إنّما ورَّثوا العلم، فمن أخذہ أخذ بحظِّ وافر))۔ ’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۲۳، ج۱، ص۱۴۶۔

وفي ’’الخصائص الکبری‘‘، ج۲، ص۴۳۷:(قد ذکر في الحکمۃ في کون الأنبیاء لایورثون أوجہ:

منہا: أن لایتمنی قریبہم موتہم فیہلک بذلک۔

ومنہا: أن لا یظن بہم الرغبۃ في الدنیا وجمعہا لوراثہم۔

ومنہا: أنّہم أحیاء والحي لایورث، ولہذا ذہب إمام الحرمین إلی أنّ مالہ باق علی ملکہ ینفق منہ علی أہلہ کما کان علیہ السلام ینفقہ في حیاتہ لأنّہ حي۔ ولذلک کان الصدیق ینفق منہ علی أہلہ وخدمہ ویصرفہ فیما کان یصرفہ في حیاتہ۔

{ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا(۵۳)} پ۲۲، الأحزاب: ۵۳۔

وفي ’’تفسیر الطبري‘‘، الحدیث: ۲۸۶۲۲، ج۱۰، ص۳۲۶، تحت ہذہ الآیۃ:(یقول: وما ینبغي لکم أن تنکحوا أزواجہ من بعدہ أبدًا؛ لأنّہن أمہاتکم، ولا یحل للرجل أن یتزوّج أمہ۔ وذکر أنّ ذلک نزل في رجل کان یدخل قبل الحجاب، قال: لئن مات محمد لأتزوّجن امرأۃ من نسائہ سمّاہا، فأنزل اللّٰہ تبارک وتعالی في ذلک { وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-})۔

وعن حذیفۃ رضي اللّٰہ عنہ أنّہ قال لامرأتہ:((إن شئت أن تکوني زوجتي في الجنۃ فلا تزوجي بعدي، فإنّ المرأۃ في الجنۃ لآخر أزواجہا في الدنیا، فلذلک حرّم اللّٰہ علی أزواج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن ینکحن بعدہ؛ لأنّہنّ أزواجہ في الجنۃ))۔

’’السنن الکبری‘‘ للبیہقي، کتاب النکاح، باب ماخص بہ من۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۳۴۲۱، ج۷، ص۱۱۱۔

في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳، ص۴۰۳۔۴۰۷ :(الأنبیاء صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیہم طیبون طاھرون أحیاء وأمواتاً بل لا موت لہم إلّا آنیاً تصدیقاً للوعد ثم ہم أحیاء أبداً بحیاۃ حقیقۃ دنیاویۃ روحانیۃ جسمانیۃ کما ہو معتمد أہل السنۃ والجماعۃ ولذا لا یورثون ویمتنع تزوج نسائہم صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیہم بخلاف الشھداء الذین نص الکتاب العزیز إنّہم أحیاء ونھی أن یقال لہم أموات۔۔۔ إلخ ملتقطاً

[118] … ((وکان النبي یبعث إلی قومہ خاصّۃ وبعثت إلی الناس عامّۃ))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التیمّم، الحدیث: ۳۳۵، ج۱، ص۱۳۷۔

[119] … وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ } پ۲۲، سبا: ۲۸۔

{ قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ } پ۹، الأعراف: ۱۵۸۔

((وأرسلت إلی الخلق کافۃ))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب المساجد ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۵۳۳، ص۲۶۶۔

في ’’المرقاۃ‘‘، کتاب الفضائل، باب فضائل سید المرسلین، الفصل الأوّل، تحت الحدیث: ۵۷۴۸، ج۱۰، ص۱۴: ((وأرسلت إلی الخلق کافۃ)) أي: إلی الموجودات بأسرھا عامۃ من الجن والإنس والملک والحیوانات والجمادات۔

و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ج۳۰، ص۱۴۳۔۱۴۵۔

في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، مطلب في بعثہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الملائکۃ، ص۲۸۳: (أنّہ مبعوث إلیہم ورجّحہ التقي السبکي وزاد: أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرسل إلی جمیع الأنبیاء والأمم السابقۃ، وأنّ قولہ:((بعثت إلی الناس کافۃ)) شامل لہم من لدن آدم إلی قیام الساعۃ، ورجّحہ أیضاً البارزي وزاد أنّہ مرسل إلی جمیع الحیوانات والجمادات وص ۲۸۵: (أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرسل إلی الحور العین وإلی الولدان ملتقطاً۔

في ’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۱۲۷۔۱۲۸: (وہو مبعوث إلی کافۃ الخلق أجمعین) وی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مبعوث است بہ کافۃ جن وانس ولہذا او را رسول الثقلین خوانند وآمدن جن بحضرت وی وایمان آوردن ایشاں وقرآن شنیدن وبرقوم خود باز رفتن ودعوت کردن منصوص قرآن مجید است ونزد اکثر علما عموم بعثت بجانب جن وانس مخصوص بآن حضرت است صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبقول شاذ از بعض علما بعث و رسالت آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم ملائکۃ را نیز شامل است، ونزد اہل تحقیق وی مبعوث است بتمامہ اجزای عالم وجمیع اقسام موجودات از جمادات ونباتات وحیوانات ومربی ومکمل ذرایر موجودات وسایر مکنونات است ملتقطاً۔

یعنی: حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے اس لئے آپ کو رسول الثقلین کہتے ہیں جنات کا آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہونا، ان کا ایمان لانا ،پھر اپنی قوم کی طرف لوٹ کر انہیں دعوت اسلام دینا قرآن ِکریم میں مذکور ومنصوص ہے اکثر علما ء کے نزدیک حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا جن وانس کی طرف مبعوث ہونا آپ ہی کی خصوصیت ہے… اور بعض علماء کے نادر قول کے مطابق حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت ورسالت فرشتوں کو بھی شامل ہے اور محققین کے نزدیک آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بعثت تمام اجزائے عالم اور جمیع اقسام موجودات کے لئے ہے خواہ وہ جمادات ونباتات ہوں یا حیوانات، آپ موجودات کے تمام ذرّوں اور کل کائنات کی تکمیل وتربیت فرمانے والے ہیں ۔

[120] … { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ } پ۵، النساء: ۵۹۔

{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ }پ۹، الأنفال:۲۰۔

وفي ’’الخصائص الکبری‘‘، ج۲، ص۳۴۲: ( قال أبو نعیم: ومن خصائصہ أنّ اللّٰہ تعالی فرض طاعتہ علی العالم فرضاً مطلقاً لا شرط فیہ ولا استثناء فقال: { وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-} پ۲۸، الحشر:۷، وقال:{ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-} پ۵، النساء:۸۰، وأنّ اللّٰہ تعالی أوجب علی الناس التأسي بہ قولاً وفعلاً مطلقاً بلا استثناء

[121] … في ’’مدارج النبوۃ‘‘، ص۱۹۳۔۱۹۴: (ہمچنانکہ حیوانات ہمہ مطیع ومنقاد امر آنحضرت بودند نباتات نیز در حیطئہ فرمانبرداری و طاعت وی بودند (ہمچنانکہ نباتات را منقاد ومطیع امر وی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ساختہ بودند جمادات نیز ہمیں حکم دارند)، ملتقطاً۔

یعنی: جس طرح حیوانات سب کے سب حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم کے مطیع وفرمانبردار تھے نباتات (اگنے والی چیزیں ) بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی فرمانبرداری اور اطاعت کے دائرے میں تھے، ، جس طرح نباتات کو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے حکم کا فرماں بردار اور مطیع بنایا ہوا تھا جمادات بھی یہی حکم رکھتے تھے ۔

[122] … { وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) } پ۱۷، الأنبیاء: ۱۰۷۔

في ’’روح المعاني‘‘، ج۹، ص۱۵۷، تحت ہذہ الآیۃ: (أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنّما بعث رحمۃً لکل فرد من العالمین ملائکتھم وإنسھم وجنھم ولا فرق بین المؤمن والکافر من الإنس والجن في ذلک

في ’’روح البیان‘‘، ج۵، ص۵۲۸، تحت ہذہ الآیۃ: (قال بعض الکبار: وما أرسلناک إلاّ رحمۃ مطلقۃ تامۃکاملۃ عامۃ شاملۃ جامعۃ محیطۃ بجمیع المقیّدات من الرحمۃ الغیبیۃ والشہادۃ العلمیۃ والعینیۃ والوجودیۃ والشہودیۃ والسابقۃ واللاحقۃ وغیر ذلک للعالمین جمع عوالم ذوي العقول وغیرہم من عالم الأرواح والأجسام ومن کان رحمۃ للعالمین لزم أن یکون أفضل من کل العالمین

[123] … { لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)} پ۱۱، التوبۃ: ۱۲۸۔

[124] … { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- پ۲۲، الأحزاب:۴۰۔

((وأنا خاتم النبیین)) ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث: ۳۵۳۵، ج۲، ص۴۸۵۔

[125] … ((وأنا خاتم النبیین لا نبي بعدي))۔’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۲۲۶، ج۴، ص۹۳۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدي ولا نبي))۔’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الرؤیا، باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات، ج۴، ص۱۲۱، الحدیث:۲۲۷۹۔

[126] … في ’’المعتقد المنتقد‘‘، تکمیل الباب، ص۱۱۹۔۱۲۰: (ومنہا: أن یؤمن بأن اللّہ ختم بہ النبیین وختم اللّہ حکمہ بما لا یخلف منہ،… وہذہ المسألۃ لا ینکرہا إلاّ من لا یعتقد نبوتہ؛ لأنّہ إن کان مصدقا بنبوتہ اعتقدہ صادقا في کل ما أخبر بہ، إذ الحجج التي ثبت بہا بطریق التواتر نبوتہ ثبت بہا أیضاً أنّہ آخر الأنبیاء في زمانہ وبعدہ إلی القیامۃ لا یکون نبي، فمن شک فیہ یکون شاکا فیہا أیضاً، وأیضاً من یقول: إنّہ کان نبي بعدہ، أو یکون، أو موجود وکذا من قال: یمکن أن یکون، فھو کافر

اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ’’محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانہ میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا قطعاً محال وباطل جاننا فرضِ اجل وجزءایقان ہے { وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-}، نص قطعی قرآن ہے اس کا منکر، نہ منکر بلکہ شک کرنے والا، نہ شاک کہ ادنی ضعیف احتمال خفیف سے تو ہّم خلاف رکھنے والا قطعاً اِجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے اس عقیدۂ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی،کافر ہونے میں شک و تردّدکو راہ دے وہ بھی کافر ہیں الکفر جلی الکفران ہے۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۵، ص، ۵۷۸۔ وانظر رسالۃ إمام أہل السنۃ علیہ الرحمۃ: ’’المبین ختم النبیین‘‘، ج۱۴، ص۳۳۱، والرسالۃ: ’’جزاء اللّٰہ عدوہ بإبائہ ختم النبوۃ‘‘، ج۱۵، ص۶۲۹۔

[127] … انظر العقیدۃ (۲۹)، ص ۵۲۔۵۴۔

[128] … { اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ-} پ۷، الأنعام: ۹۰۔

في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۲، ص۳۴، تحت الآیۃ: (احتج العلماء بہذہ الآیۃ علی أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أفضل من جمیع الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، بیانہ أنّ جمیع خصال الکمال وصفات الشرف کانت متفرقۃ فیہم فکان نوح صاحب

احتمال علی أذی قومہ، وکان إبراہیم صاحب کرم وبذل ومجاہدۃ في اللّٰہ عز وجل، وکان إسحاق ویعقوب من أصحاب الصبر علی البلاء والمحن، وکان داود علیہ السلام وسلیمان من أصحاب الشکر علی النعمۃ، قال اللّٰہ فیہم: { اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-}۲۲، سبا: ۱۳]،وکان أیوب صاحب صبر علی البلاء، قال اللّٰہ فیہ: { اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۴۴)} ۲۳، صٓ: ۴۴]، وکان یوسف قد جمع بین الحالتین، یعني: الصبر والشکر، وکان موسی صاحب الشریعۃ الظاہرۃ والمعجزۃ الباہرۃ، وکان زکریا ویحیی وعیسی وإلیاس من أصحاب الزہد في الدنیا، وکان إسماعیل صاحب صدق وکان یونس صاحب تضرع وإخبات، ثم إنّ اللّٰہ تعالی أمر نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یقتدی بہم وجمع لہ جمیع الخصال المحمودۃ المتفرقۃ فیہم فثبت بہذا البیان أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان أفضل الأنبیاء لما اجتمع فیہ من ہذہ الخصال التی کانت متفرقۃ في جمیعہم واللّٰہ أعلموفي ’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۱۲۴: (جمیع کمالات کہ در ذوات مقدسہ انبیاء سابق مودع بود، در ذات شریف او بازیادتیہا موجود بود (انچہ خوباں ہمہ دار ند تو تنہا داری

یعنی: جس قدر کمالات انبیاء سابقین کی ذواتِ مقدسہ میں ودیعت فرمائے گئے تھے وہ سب بلکہ ان سے زیادہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی ذات شریف میں موجود۔ یعنی: جو کچھ تمام حسین باعتبار مجموعہ کے رکھتے ہیں وہ آپ تنہا رکھتے ہیں ۔

129… عن ابن عباس رضي اللّٰہ تعالی عنہما: ((فضلت علی الأنبیاء بخصلتین))۔ ’’المواہب اللدنیۃ‘‘، المقصد الرابع، الفصل الثاني، ج۲، ص۲۵۳۔

عن حذیفۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((فُضّلنا علی الناس بثلاث))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث: ۵۲۲، ص۲۶۵۔

عن أبي أمامۃ: أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((فضلت بأربع))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۲۲۷۲، ج۸، ص۲۸۴۔

عن السائب بن یزید، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((فضلت علی الأنبیاء بخمس))۔

’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، الحدیث: ۶۶۷۴، ج۷، ص۱۵۵۔

عن أبي ہریرۃ أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((فضلت علی الأنبیاء بست))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث: ۵۲۳، ص۲۶۶۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أعطیت أربعا لم یعطہن أحد من أنبیاء اللّٰہ))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۳۶۱، ج۱، ص۳۳۳۔

أخبرنا جابر بن عبد اللّٰہ أنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((أعطیت خمساً لم یعطہن أحد قبليإلخ))۔

’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التیمم، الحدیث: ۳۳۵، ج۱، ص۱۳۴۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أعطیت خمساً لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبليإلخ))۔

’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الصلاۃ، الحدیث: ۴۳۸، ج۱، ص۱۶۸۔

عن عبادۃ بن صامت أنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلمخرج فقال: ((إنّ جبریل أتاني فقال: اخرج فحدث بنعمۃ اللّٰہ التي أنعم بہا علیک فبشرني بعشر لم یؤتہا نبي قبلي))۔’’الخصائص الکبری‘‘، باب اختصاصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعموم الدعوۃ۔۔۔ إلخ، ج۲، ص۳۲۰۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((أعطیت ما لم یعط أحد من الأنبیاء))۔

’’المصنف‘‘ لابن أبيشیبۃ، کتاب الفضائل، باب ما أعطی اللّٰہ تعالی۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۹، ج۷، ص۴۱۱۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ یہ احادیث نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’ان روایات ہی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اعداد مذکورہ میں حصر مراد نہیں ، کہیں دو فرماتے ہیں ، کہیں تین، کہیں چار، کہیں پانچ، کہیں چھ، کہیں دس۔ اور حقیقۃً سو اور دوسو پر بھی انتہا نہیں ۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے ’’خصائص کبری‘‘ میں اڑھائی سو کے قریب حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے خصائص جمع کئے۔ اور یہ صرف ان کا علم تھا ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے۔ اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے، پھر تمام علوم عالم اعظم حضور سید عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے ہزاروں منزل ادھر منقطع ہیں ۔جس قدر حضور اپنے فضائل وخصائص جانتے ہیں دوسرا کیا جانے گا، اور حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے زیادہ علم والاان کا مالک ومولی جل وعلا، { وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ(۴۲)} پ۲۷، النجم: ۴۲، (ترجمہ:بیشک تمہارے رب ہی کی طرف منتہی ہے۔ ت)جس نے انہیں ہزاروں فضائل عالیہ وجلائل غالیہ دئے اور بے حد وبے شمار ابد الآباد کے لئے رکھے { وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴)} پ۳۰، الضحی: ۴، (ترجمہ: اور بے شک پچھلی گھڑی آپ کے لئے پہلی سے بہتر ہے۔ ت)۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۲۵۳۔

130…’’ فتاوی رضویہ‘‘ میں ہے: ’’ہمزیہ شریف ‘‘ میں ارشاد فرمایا : ع (کل فضل في العالمین فمن فضل النبي استعارۃ الفضلاء

(جہاں والوں میں جو خوبی جس کسی میں ہے وہ اس نے نبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے فضل سے مانگ کرلی ہے)۔

امام ابن حجر مکی ’’افضل القری‘‘ میں فرماتے ہیں : (لأنّہ الممد لہم إذ ھو الوارث للحضرۃ الإلٰہیۃ والمستمد منہا بلا واسطۃ دون غیرہ فإنّہ لا یستمد منہا إلاّ بواسطتہ فلا یصل لکامل منہا شيء إلاّ وھو من بعض مددہ وعلی یدیہ تمام جہان کی امداد کرنے والے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اس لیے کہ حضور ہی بارگاہ الہی کے وارث ہیں بلا واسطہ خدا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اور تمام عالم مدد الہی حضور کی وساطت سے لیتا ہے تو جس کامل کو جو خوبی ملی وہ حضورہی کی مدد اور حضور ہی کے ہاتھ سے ملی‘‘۔ (’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۶۷۷)۔

في ’’حاشیۃ الصاوي‘‘، ج۱، ص۲۱۶: (فالأنبیاء وسائط لأممہم في کلّ شيء وواسطتہم رسول اللّٰہ

وفیہ ج۱، ص۵۲: (فہو الواسطۃ لکل واسطۃ حتی آدم

في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳، ۲۴۷: (أنہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لا یتشرف بغیرہ بل الکل إنّما یتشرفون بہ

یعنی: حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو کسی دوسرے سے شرف حاصل نہیں ہوا بلکہ دوسروں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے شرف پایا ہے ۔

131… في ’’المعتقد المنتقد‘‘، ص۱۲۶: (ومن المعلوم استحالۃ وجود مثلہ بعدہ

وانظر للتفصیل ’’الشفا‘‘، ج۲، ص۲۳۹، ’’شرح الشفا‘‘ للملا علي القاریٔ، ج۲، ص۲۴۰، و’’نسیم الریاض‘‘، ج۶، ۲۳۲۔

[132] … تمام مخلوق اﷲ تَعَالٰی کی رضا چاہتی ہے۔

[133] … { وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵)} پ۳۰، الضحی:۵۔

{ قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪- } پ۲، البقرۃ: ۱۴۴۔

في ’’التفسیر الکبیر‘‘، البقرۃ: تحت الآیۃ: ۱۴۲، ج۲، ص۸۲: (ولم یقل: قبلۃ أرضاہا، والإشارۃ فیہ کأنّہ تعالی قال: یا محمد کل أحد یطلب رضايَ وأنا أطلب رضاک في الدارین وفي الحدیث: ((کلّھم یطلبون رضائي وأنا أطلب رضاک یا محمد))۔ وفي الحدیث: ((یا محمد أنت نور نوري وسر سري وکنوز ہدایتي وخزائن معرفتي، جعلت فداء لک ملکي من العرش إلی ما تحت الأرضین، کلھم یطلبون رضائي وأنا أطلب رضاک یا محمد))۔’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۳۰، ص۴۹۱۔ وص ۱۹۷۔ ۱۹۸، وج۱۴، ۲۷۵۔۲۷۶۔ عن عائشۃ قالت:… ((واللّٰہ ما أری ربک إلاّ یسارع لک في ہواک))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الرضاع، باب جواز ہبتہا نوبتہا لضرتہا، الحدیث: ۱۴۶۴، ص۷۷۱۔

وفي روایۃ: ’’صحیح البخاري‘‘، عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: ((مَا اُرَی رَبَّکَ إِلَّا یُسَارِعُ في ہَوَاکَ))۔ کتاب التفسیر، الحدیث: ۴۷۸۸، ج۳، ص۳۰۳۔ وفي ’’فتح الباري‘‘، ج۸، ص۴۵۳، تحت الحدیث: (أي: ما أری اللّٰہ إلاّ موجداً لما ترید بلا تأخیر، منزلاً لما تحب وتختار

[134] … { سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا } پ۱۵، بنی اسرآئیل: ۱۔

[135] … عن شریک ابن عبد اللّٰہ أنّہ قال: سمعت ابن مالک یقول: لیلۃ أسري برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من مسجد الکعبۃ، ثم عرج بہ إلی السماء الدنیا ثم عرج بہ إلی السماء الثانیۃ ثم عرج بہ إلی السماء الثالثۃ ثم عرج بہ إلی الرابعۃثم عرج بہ إلی السماء الخامسۃ ثم عرج بہ إلی السماء السادسۃ ثم عرج بہ إلی السماء السابعۃ ثم علا بہ فوق ذلک بما لا یعلمہ إلاّ اللّٰہ حتی جاء سدرۃ المنتہی، ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین أو أدنی، فأوحی اللّٰہ فیما أوحی ملتقطاً۔’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التوحید، باب ماجاء في قولہ عزوجل: { وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) الحدیث: ۷۵۱۷، ج۴، ص۵۸۰۔۵۸۲۔

وفي ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، ج۱، ص ۲۷۲: (والمعراج لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حال الیقظۃ بشخصہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم أي: بصورۃ الجسمانیۃ من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی، ثم من المسجد الأقصی إلی السماء، أي: جنسہا لیشمل السموات السبع، ثم إلی ما شاء اللّٰہ من العلی

[136] … في ’’تکمیل الإیمان‘‘، ص۱۲۸: (ومعراجہ في الیقظۃ بشخصہ إلی السماء، ثم إلی ما شاء اللّٰہ تَعَالٰی حق)امتحان ایمان در تصدیق قضیہ معراج است کہ در ساعت لطیف در بیداری بجسد شرف تا آسمان وعرش عظیم بلکہ بالای عرش تا حد لامکان بآن حکایات وخصوصیات مذکورہ کہ در احادیث صحیحہ واقع شدہ)۔

یعنی: بیداری کی حالت میں جسمانی طور پر آسمان کی طرف معراج فرمانا، پھر وہاں سے جہاں تک خدا کی مشیت ہوجانا حق ہے، مطلب یہ کہ واقعہ معراج کی تصدیق میں ایمان کا امتحان ہے کہ مختصر سی گھڑی میں بیداری کے عالم میں جسم شریف کے ساتھ آسمان وعرش اعظم تک بلکہ عرش سے بھی اوپر حدلامکان تک تشریف لے جانایہ حکایات و خصوصیات احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ۔

[137] … في ’’تفسیر الخازن‘‘، ج۳، ص۱۵۸: (والحق الذي علیہ أکثر الناس ومعظّم السلف وعامۃ الخلف من المتأخرین من الفقہاء والمحدثین والمتکلمین أنّہ أسري بروحہ وجسدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ویدل علیہ قولہ سبحانہ وتعالی: { سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا  ولفظ العبد عبارۃ عن مجموع الروح والجسد

و في’’حاشیۃ الصاوي‘‘، ج۴، ص۱۱۰۶، پ ۱۵، الإسراء، تحت الآیۃ۱: (قولہ: { بِعَبْدِهٖ } أي: بروحہ وجسمہ علی الصحیح وفي ’’ تفسیر الجلالین‘‘، ص ۲۲۸: ({لَیْلًا }: نصب علی الظرف والإسراء سیر اللیل وفائدۃ ذکرہ الإشارۃ بتنکیرہ إلی تقلیل مدتہ

في ’’حاشیۃ الصاوي‘‘، ج۴، ص۱۱۰۶: (قولہ: إلی تقلیل مدتہ: أي: فقیل: قدر أربع ساعات، وقیل: ثلاث، وقیل: قدر لحظۃ، قال السبکي: في تائیتہ: وعدت وکل الأمر في قدر لحظۃ

وفي ’’الجمل‘‘، الجزء الثاني، ج۲، ص۲۹۹، تحت الآیۃ: (قولہ: الإشارۃ إلخ أي: فالتنوین للتقلیل أي: في جزء قلیل من اللیل، قیل: قدر أربع ساعات، وقیل: ثلاث، وقیل: أقل من ذلک

138… في ’’روح البیان‘‘، پ۱۵، الأسراء، ج۵، ص۱۰۶، تحت الآیۃ:۱: قال علیہ السلام: ((فقمت إلی جبریل فقلت: أخي جبریل: ما لک؟))، فقال: یا محمد إنّ ربي تعالی بعثني إلیک أمرني أن آتیہ بک في ہذہ اللیلۃ بکرامۃ لم یکرم بہا أحد قبلک ولا یکرم بہا أحد بعدک۔

وفي ’’روح البیان‘‘، پ۷، الأنعام، ج۳، ص۶۳، تحت الآیۃ: ۹۰: (…وتدنو إلیہ بہ إلی أن تصل إلی مقام قاب قوسین أو أدنی مقاما لم یصل إلیہ أحد قبلک لا ملک مقرب ولا نبي مرسل

[139] … { مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷)} پ ۲۷، النجم: ۱۷۔

وفي ’’روح البیان‘‘، ج۹، ص۲۲۸، تحت الآیۃ: (إنّ رؤیۃ اللّٰہ کانت بعین بصرہ علیہ السلام یقظۃ بقولہ: { مَا زَاغَ الْبَصَرُ }۔۔۔إلخ، لأنّ وصف البصر بعدم الزیغ یقتضي أنّ ذلک یقظۃ ولوکانت الرؤیۃ قلبیۃ لقال: ما زاغ قلبہ، وأمّا القول بأنّہ یجوز أن یکون المراد بالبصر بصر قلبہ فلا بد لہ من القرینۃ وھي ھاہنا معدومۃ عن ابن عباس قال: ((إنّ محمداً رأی ربہ مرتین،مرۃ ببصرہ ومرۃ بفؤادہ))۔’’الدر المنثور‘‘ ج۷ ص ۶۴۷۔ عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((رأیت ربي تبارک وتعالی))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۵۸۰، ج۱، ص۶۱۱۔

[140] … في ’’فتح الباري‘‘، کتاب مناقب الأنصار، باب المعراج، تحت الحدیث: ۳۸۸۸، ج۷، ص۱۸۵: (إنّ اللّٰہ سبحانہ وتعالی کلّم نبیہ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ الإسراء بغیر واسطۃ وانظر رسالۃ إمام أہل السنۃ رحمہ اللّٰہ تعالی ’’منبہ المنیۃ بوصول الحبیب إلی العرش والرؤیۃ‘‘، ج۳۰، ص۶۷۳۔

[141] … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((رأیت ربي في أحسن صورۃ، قال: فیم یختصم الملأ الأعلی؟ فقلت: أنت أعلم یا رب، قال: فوضع کفہ بین کتفيّ فوجدت بردہا بین ثدیيّ فعلمت ما في السموات والأرض))۔

’’سنن الدارمي‘‘، کتاب الرؤیا، باب في رؤیۃ الرب تعالی في النوم، الحدیث: ۲۱۴۹، ج۲، ص۱۷۰۔

في ’’المرقاۃ‘‘، ج۲، ص۴۲۹، تحت الحدیث: (فعلمت أي: بسبب وصول ذلک الفیض ما في السموات والأرض، یعني: ما أعلمہ اللّٰہ تعالی مما فیہما من الملائکۃ والأشجار وغیرہما، وہو عبارۃ عن سعۃ علمہ الذي فتح اللّٰہ بہ علیہ، وقال ابن حجر:

أي: جمیع الکائنات التي في السموات بل وما فوقہا، کما یستفاد من قصۃ المعراج، والأرض ہي بمعنی الجنس، أي: وجمیع ما في الأرضین السبع بل وما تحتہا۔۔۔۔ إلخ وفي ’’أشعۃ اللمعات‘‘، ج۱، ص۳۵۷، تحت قولہ: ((فعلمت ما في السموات والأرض)) پس دانستم ہر چہ در آسمان ہا و ہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ علوم جزوی وکلی واحاطۂ آن)۔

یعنی: ’’پس جو کچھ آسمان وزمین میں تھا سب کچھ میں نے جان لیا‘‘ یہ بات تمام علوم کلی وجزئی کو گھیرے ہوئے ہے۔

142… عن أبي ہریرۃ قال…: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أنا سید الناس یوم القیامۃ، وہل تدرون بم ذاک؟ یجمع اللّٰہ تعالی یوم القیامۃ الأولین والآخرین في صعید واحد فیقول بعض الناس لبعض: ائتوا آدم، فیأتون آدم ۔علیہ السلام۔… فیقول آدم:… نفسي نفسي، اذہبوا إلی غیري اذہبوا إلی نوح، فیأتون نوحا۔علیہ السلام۔… فیقول لہم: نفسي نفسي، اذہبوا إلی إبراہیم، فیأتون إبراہیم،… فیقول لہم إبراہیم:… نفسي نفسي اذہبوا إلی غیري، اذہبوا إلی موسی، فیأتون موسی،… فیقول لہم موسی:… نفسي نفسي اذہبوا إلی عیسی، فیأتون عیسی،… فیقول لہم عیسی:… نفسي نفسي اذہبوا إلی غیري، اذہبوا إلی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیأتوني فیقولون: یا محمد! أنت رسول اللّٰہ وخاتم الأنبیاء، وغفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر، اشفع لنا إلی ربک، ألا تری ما نحن فیہ، ألا تری ما قد بلغنا، فأنطلق فآتي تحت العرش فأقع ساجداً لربي، ثم یفتح اللّٰہ عليّ ویلہمني من محامدہ وحسن الثناء علیہ شیئاً لم یفتحہ لأحد قبلي، ثم یقال: یا محمد! ارفع رأسک سل تعطہ اشفع تشفع، فأرفع رأسي فأقول: یا رب! أمتي أمتي فیقال: یا محمد! أدخل الجنۃ من أمتک، مَن لا حساب علیہ، من باب الأیمن من أبواب الجنۃ، وہم شرکاء الناس فیما سوی ذلک من الأبواب))، ملتقطاً۔’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الإیمان، باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا، الحدیث: ۱۹۴، ص۱۲۵۔۱۲۶۔

[143] … قال رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: ((اَللّٰھم! اغفر لأمتي، اللّھم اغفر لأمتي، وأخرّت الثالثۃ لیوم یرغب إليّ الخلق کلھم حتی إبراھیم علیہ السلام))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب فضائل القرآن، باب بیان أنّ القرآن علی۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۸۲۰، ص۴۰۹۔وفي’’نوادر الأصول‘‘، الأصل الحادی والاربعون والمائتان، ص۹۴۴، الحدیث: ۱۲۳۱، والأصل التاسع والخمسون والمائتان، ج۲، ص۱۰۶۵، الحدیث: ۱۳۸۲: ((وأنّ إبراہیم لیرغب في دعائي ذلک الیوم))۔’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۳۰، ص۲۱۷۔۲۱۸۔

[144] … { عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹)} پ۱۵، بنی اسرائیل: ۷۹۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘،ج۸، ص۱۳۱، تحت الآیۃ:عن ابن عباس، قولہ: { عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) قال: المقام المحمود: مقام الشفاعۃ

وفي ’’روح البیان‘‘، ج۵، ص۱۹۲، تحت الآیۃ : { مَقَامًا مَّحْمُوْدًا } عندک وعند جمیع الناس وھو مقام الشفاعۃ العامۃ لأھل المحشر یغبطہ بہ الأولون والآخرون؛ لأنّ کل من قصد من الأنبیاء للشفاعۃ یحید عنھا ویحیل علی غیرہ حتی یأتوا محمداً للشفاعۃ فیقول: ((أنا لھا))، ثم یشفع فیشفع فیمن کان من أھلھا

في ’’المعتقد المنتقد‘‘، تکمیل الباب، ص۱۲۷: (ومنھا: أن یعتقد أنّ یوم القیمۃ لا یستغني أحد من أمتہ بل جمیع الأنبیاء عن جاھہ ومنزلتہ، ومتی لم یفتح الشفاعۃ لا یستطیع أحد شفاعۃ و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۲۹، ص۵۷۵۔

[145] … قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ’’ المعتمد المستند‘‘، ص۱۲۷: وہذا أحد معاني (قولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم: ((أنا صاحب شفاعتہم)) والمعنی الآخر الألطف الأشرف أن لا شفاعۃ لأحد بلا واسطۃ عند ذي العرش جل جلالہ إلاّ للقرآن العظیم ولہذا الحبیب المرتجی الکریم صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم، وأمّا سائر الشفعاء من الملائکۃ والأنبیاء والأولیاء والعلماء والحفاظ والشھداء والحجاج والصلحاء فعند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فیُنہون إلیہ ویشفعون لدیہ وہو صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یشفع لمن ذکروہ ولمن لم یذکروا عند ربہ عزوجل، وقد تأکد عندنا ہذا المعنی بأحادیث، وللّٰہ الحمد۔ ۱۲)۔

[146] … عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إذا کان یوم القیامۃ کنت إمام النبیین وخطیبہم وصاحب شفاعتہم غیر فخر))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب المناقب، باب سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ، الحدیث: ۳۶۳۳، ج۵، ص۳۵۳۔

[147] … عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ((إنّ الشمس لتدنو حتی یبلغ العرق نصف الأذن، فبینما ہم کذلک استغاثوا بآدم علیہ السلام فیقول: لَسْتُ بصاحب ذلک، ثم موسی علیہ السلام فیقول کذلک،

[148] … ثم محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیشفع، فیقضي اللّٰہ بین الخلائق فیمشي حتی یأخذ بحلقۃ باب الجنۃ فیومئذ یبعثہ اللّٰہ مقاماً محموداً یحمدہ أہل الجمع کلہم))۔ ’’الدر المنثور‘‘، ج۵، ص۳۲۵، ’’بخاری‘‘، کتاب الزکاۃ، ج۱، ص۴۹۷، الحدیث: ۱۴۷۴۔

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، تکمیل الباب، ص۱۲۸: (الشفاعۃ لإراحۃ الخلائق من ھول الموقف

قال الإمام أحمد رضا في ’’المعتمد المستند‘‘، تحت اللفظ: ’’لإراحۃ الخلائق‘‘: (وہي الشفاعۃ الکبری لعمومہا جمیع أہل الموقف و’’روح البیان‘‘، ج۵، ص۱۹۲۔

148… قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((وعدني ربي أن یدخل الجنۃ من أمتي سبعین ألفاً لا حساب علیھم ولا عذاب، مع کل ألف سبعون ألفا وثلاث حثیات من حثیات ربي))۔ ’’جامع الترمذي‘‘، أبواب صفۃ القیامۃ، ۱۲۔ باب منہ الحدیث: ۲۴۴۵، ج۴، ص۱۹۸۔

وفي روایۃ: أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ ربي أعطاني سبعین ألفا من أمتي یدخلون الجنۃ بغیر حساب))، فقال عمر: یا رسول اللّہ، فھلا استزدتہ؟ قال: ((قد استزدتہ، فأعطاني مع کلّ رجل سبعین ألفاً)) قال عمر: فہلا استزدتہ؟ قال: ((قد استزدتہ فأعطاني ھکذا)) وفرّج عبد اللّٰہ بن بکر بین یدیہ وقال عبد اللّٰہ: وبسط باعیہ وحثا عبد اللّٰہ وقال ھشام: وھذا من اللّٰہ لا یُد ری ما عددُہ۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۷۰۶، ج۱، ص۴۱۹۔

[149] … ((فما أزال أشفع حتی أعطی صکاکا برجال قد بعث بھم إلی النار وآتي مالکاً خازن النار فیقول: یا محمد ما ترکت للنار لغضب ربک في أمتک من بقیۃ))۔ ’’المستدرک‘‘ للحاکم، کتاب الإیمان، للأنبیاء منابر من ذہب، الحدیث: ۲۲۸، ج۱، ص۲۴۲۔

[150] … ((یخرج قوم من النار بشفاعۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیدخلون الجنۃ یسمون الجھنمیین))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، الحدیث: ۶۵۶۶، ج۴، ص۲۶۳۔

[151] … في ’’المعتقد المنتقد‘‘، أقسام شفاعتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۱۲۹: (ومنھا زیادۃ الدرجات) وفي ’’حجۃ اللّٰہ علی العالمین‘‘، ص۵۳: (والشفاعۃ في رفع درجات ناس في الجنۃ

[152] … عن عباس بن عبد المطلب قال: یا رسول اللّٰہ ھل نفعت أبا طالب بشيء فإنّہ کان یحوطک ویغضب لک؟ قال: ((نعم، ھو في ضحضاح من نار، لولا أنا لکان في الدرک الأسفل من النار))۔’’صحیح البخاری‘‘، کتاب الأدب، باب کنیۃ المشرک، الحدیث: ۶۲۰۸، ج۴، ص۱۵۷۔۱۵۸۔ وانظر رسالۃ إمام أہل السنۃ علیہ الرحمۃ: ’’إسماع الأربعین في شفاعۃ سید المحبوبین‘‘، ج۲۹، ۵۷۱۔

[153] … ’’المعتقد المنتقد‘‘، تکمیل الباب، ص۱۲۹ ۔ ۱۳۱۔

[154] … یعنی: ’’مجھے شفاعت دے دی گئی‘‘۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التیمم، الحدیث: ۳۳۵، ج۱، ص۱۳۴۔

[155] … پ۲۶، محمّد: ۱۹۔

[156] … ترجمۂ کنز الایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔ پ۱۹، الشعرآء: ۸۸ ۔۸۹۔

[157] … قال اللّٰہ تعالی: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)} پ۱۰، التوبۃ: ۲۴۔

عن أنس قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الإیمان، باب حبّ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الإیمان، الحدیث: ۱۵،ج۱، ص۱۷۔

وانظر رسالۃ إمام أہل السنۃ علیہ الرحمۃ: ’’تمہید إیمان بآیات قرآن‘‘ في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۳۱۰۔

[158] … { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- } پ۵، النسآء: ۸۰۔

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، الفصل الأوّل في وجوب۔۔۔ إلخ، ص۱۳۳: (فجعل طاعۃ رسولہ طاعتہ، وقرن طاعتہ بطاعتہ وأوعد علیہ بجزیل الثواب ووعد علی مخالفتہ بألیم العذاب ورغم أنف المشرکین حین قال النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم: ((من أحبني فقد أحب اللّٰہ، ومن أطاعني فقد أطاع اللّٰہ))۔

[159] … عن أبي سعید بن المعلی رضي اللّہ عنہ قال:کنت أصلي فمر بي رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فدعاني فلم آتہ حتی صلیت ثم أتیتہ، فقال: ما منعک أن تأتي؟ ألم یقل اللّہ: { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ۔۔۔إلخ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التفسیر، الحدیث: ۴۶۴۷، ج۳، ص۲۲۹۔

عن أبي ہریرۃ، أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج علی أُبي بن کعب، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((یا أُبي ۔وہو یصلي۔ فالتفت أبي فلم یجبہ، وصلی أبي فخفف ثم انصرف إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: السلام علیک یا رسول اللّٰہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وعلیک السلام ما منعک یا أبي أن تجیبني إذ دعوتک؟، فقال: یا رسول اللّٰہ إني کنت في الصلاۃ، قال: أفلم تجد فیما أوحی اللّٰہ إلي أن{ اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-} ۹، الانفال: ۲۴]، قال: بلی ولا أعود إن شاء اللّٰہ))۔’’سنن الترمذي‘‘، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب، الحدیث: ۲۸۸۴، ج۴، ص۴۰۰۔

[160] … { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ } پ۹، الأنفال: ۲۴۔

وفي ’’روح المعاني‘‘، ج۵،ص۲۷۶، تحت الآیۃ: (واستدل بالآیۃ علی وجوب إجابتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا نادی وھو في الصلوۃ، وعن الشافعي أنّ ذلک لایبطلھا؛ لأنّھا أیضاً إجابۃ

وفي ’’تفسیر القرطبي‘‘، ج۴، ص۲۷۹، تحت الآیۃ: (وقال الشافعي رحمہ اللّٰہ: ہذا دلیل علی أنّ الفعل الفرض أو القول الفرض إذا أتي بہ في الصلاۃ لا تبطل؛ لأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالإجابۃ وإن کان في الصلاۃ

وفي ’’تفسیرالبیضاوي‘‘، ج۳، ص۹۹، تحت الآیۃ: (واختلف فیہ، فقیل: ہذا؛ لأنّ إجابتہ لا تقطع الصلاۃ، فإنّ الصلاۃ أیضاً إجابۃ، وقیل: لأنّ دعاء ہ کان لأمر لا یحتمل التأخیر وللمصلي أن یقطع الصلاۃ لمثلہ، وظاہر الحدیث یناسب الأول

وفي ’’عمدۃ القاري‘‘، کتاب العمل في الصلاۃ، باب إذا ادعت الأم ولدہا في الصلاۃ، تحت الحدیث: ۱۲۰۶، ج۵، ص۶۰۶: (من خصائص النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنّہ لو دعا إنسانا وہو في الصلاۃ وجب علیہ الإجابۃ ولا تبطل صلاتہ

وفي’’المرقاۃ‘‘، کتاب فضائل القرآن، ج۴،ص۶۲۴، تحت الحدیث:۲۱۱۸:(قال الطیبي: دل الحدیث علی أنّ إجابۃ الرسول لا تبطل الصلاۃ، کما أنّ خطابہ بقولک: السلام علیک أیہا النبي لا یبطلہا

161… وفي ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۵، ص۱۶۸: { لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-} [الفتح: ۹]: یہ رسول کا بھیجنا کس لئے ہے خود فرماتا ہے : ’’اس لئے کہ تم اللہ و رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو‘‘۔ معلوم ہوا کہ دین وایمان محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی تعظیم کا نام جو ان کی تعظیم میں کلام کرے اصل رسالت کو باطل وبیکار کیا چاہتاہے ، والعیاذ باللہ تعالی ۔

[162] … عن أسماء بن عمیس أنّ رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الظھربالصھباء، ثم أرسل علیّا في حاجۃ فرجع وقد صلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم العصر، فوضع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأسہ في حجرعليّ فنام فلم یحرکہ حتی غابت الشمس، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((اللھم إنّ عبدک علیّا احتبس بنفسہ علی نبیہ فرُدّ علیہ الشمس)) قالت: فطلعت علیہ الشمس حتی رفعت علی الجبال وعلی الأرض وقام علي فتوضأ وصلی العصر ثم غابت وذلک بالصھباء۔’’المعجم الکبیر ‘‘، الحدیث: ۳۸۲، ج۲۴، ص۱۴۴۔۱۴۵۔وفي ’’الشفا‘‘، فصل في انشقاق القمر، الجزء، ص۲۸۴: ((أنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوحی إلیہ ورأسہ في حجرعلي فلم یصل العصرحتی غربت الشمس فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أصلیتَ یا علي؟)) قال: لا، فقال: ((اَللّٰھم إنّہ کان في طاعتک وطاعۃ رسولک فاردد علیہ الشمس))، قالت أسماء: فرأیتھا غربت ثم رأیتھا طلعت بعد ما غربت ووقفت علی الجبال والأرض وذلک بالصھباء في خیبر۔

[163] … { حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-} پ۲، البقرۃ: ۲۳۸۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت الآیۃ، ج۲، ص۵۶۹، الحدیث: ۵۳۸۵: (حدثنا أبو کریب قال: حدثنا مصعب بن سلام، عن أبي حیان، عن أبیہ، عن علي قال: ((الصلاۃ الوسطی صلاۃ العصر))۔

[164] … { ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-}[پ۱۰، التوبۃ: ۴۰] في ’’روح البیان‘‘، تحت ہذہ الآیۃ، ج۳ ، ص۴۳۲۔۴۳۳ : (فلمّا أراد رسول اللّٰہ دخولہ قال لہ أبو بکر: مکانک یا رسول! حتی أستبرء الغار فدخل واستبرأہ وجعل یسدّ الحجرۃ بثیابہ خشیۃ أن یخرج منہا شيء یؤذیہ أي: رسول اللّٰہ فبقی جحر وکان فیہ حیۃ فوضع رضي اللّٰہ عنہ عقبہ علیہ ثم دخل رسول اللّٰہ فجعلت تلک الحیۃ تلسعہ وصارت دموعہ تنحدر فتفل رسول اللّٰہ علی محل اللدغۃ فذہب ما یجدہ

في ’’تفسیر الخازن‘‘، پ۱۰، التوبۃ: ۴۰، ج۲، ص۲۴۰: ( قال لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ادخل، فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووضع رأسہ في حجرہ ونام فلدغ أبوبکر في رجلہ من الحجر ولم یتحرک مخافۃ أن ینتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسقطت دموعہ علی وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ((ما لک یا أبابکر؟)) فقال: لدغت فداک أبي وأمي فتفل علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فذھب ما یجدہ ثم انتقض علیہ وکان سبب موتہ

[165] … ’’حدائقِ بخشش‘‘، حصہ أوّل، ص۱۴۴، وانظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ۳۰، ص۱۳۸۔

[166] … وفي’’الشفاء‘‘، الباب الثالث في تعظیم أمرہ ووجوب توقیرہ وبرہ، فصل،ج۲،ص۴۰:(أنّ حرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ وتوقیرہ وتعظیمہ لازم کما کان حال حیاتہ

في ’’روح البیان‘‘، الأحزاب: تحت الآیۃ: ۵۳، ج۷، ص۲۱۶: (یجب علی الأمۃ أن یعظموہ علیہ السلام ویوقروہ في جمیع الأحوال في حال حیاتہ وبعد وفاتہ فإنّہ بقدر ازدیاد تعظمیہ وتوقیرہ في القلوب یزداد نور الإیمان فیھا

وفي ’’المعتقد المنتقد‘‘، وکذا یجب توقیرہ۔۔۔ إلخ، ص۱۴۲: (أنّ حرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ وتوقیرہ وتعظمیہ بعد وفاتہ لازم علی کل مسلم کما کان حال حیاتہ؛ لأنّہ الآن حي یرزق في علو درجاتہ ورفعۃ حالاتہ وذلک عند ذکرہ وذکر حدیثہ وسنتہ وسماع اسمہ وسیرتہ

167… في ’’الشفا‘‘، ج۲، ص۲۵۔۲۶: (ومن علاماتہ مع کثرۃ ذکرہ تعظمیہ لہ وتوقیرہ عند ذکرہ، وإظھار الخشوع والانکسار مع سماع اسمہ

[168] … اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن’’ فتاوی رضویہ‘‘ میں اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : نام پاک حضور پرنور سید عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  مختلف جلسوں میں جتنے بار لے یا سنے ہر بار درود شریف پڑھنا واجب ہے ،اگر نہ پڑھے گا گنہگار ہوگا اور سخت سخت وعیدوں میں گرفتار، ہاں ا س میں اختلاف ہے کہ اگر ایک ہی جلسہ میں چند بار نام پاک لیا یا سنا تو ہر بار واجب ہے یا ایک بار کافی اور ہر بار مستحب ہے، بہت علما قولِ اوّل کی طرف گئے، ان کے نزدیک ایک جلسہ میں ہزار بار کلمہ شریف پڑھے تو ہر بار درود شریف بھی پڑھتا جائے اگر ایک بار بھی چھوڑا گنہگار ہوا ۔’’ مجتبی‘‘ و ’’درمختار‘‘ وغیرھما میں اسی قول کو مختار و اَصح کہا : في ’’الدر المختار‘‘: اختلف في وجوبہا علی السامع والذاکر کلما ذکر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، والمختار تکرار الوجوب کلما ذکر ولو اتحد المجلس في الأصحاھ، بتلخیص۔ ترجمہ: در مختار میں ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ جب بھی حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا اسم گرامی ذکر کیا جائے تو سامع اور ذاکر دونوں پر ہر بار درود و سلام عرض کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ اصح مذہب پر مختار قول یہی ہے کہ ہر بار درود و سلام واجب ہے اگرچہ مجلس ایک ہی ہو، اھ، خلاصۃً(ت)۔

دیگر علما نے بنظر آسانیِ امت قول دوم اختیار کیا ان کے نزدیک ایک جلسہ میں ایک بار درود ادائے واجب کے لئے کفایت کرے گا زیادہ کے ترک سے گنہگار نہ ہوگا مگر ثوابِ عظیم وفضل جسیم سے بے شک محروم رہا، ’’کافی‘‘ و ’’قنیہ‘‘ وغیرھما میں اسی قول کی تصحیح کی۔ في ’’رد المحتار‘‘: صححہ الزاھدي في ’’المجتبی‘‘ لکن صحّح في ’’الکافي‘‘ وجوب الصلاۃ مرۃ في کل مجلس کسجود التلاوۃ للحرج إلاّ أنّہ یندب تکرار الصلاۃ في المجلس الواحد بخلاف السجود، وفي ’’القنیۃ‘‘: قیل: یکفی في المجلس مرۃ کسجدۃ التلاوۃ، وبہ یفتی، وقد جزم بھذا القول المحقق ابن الھمام في ’’زاد الفقیر‘‘، اھ، ملتقطا۔ ترجمہ: ’’رد المحتار ‘‘ میں ہے کہ اسے زاہدی نے’’ المجتبی ‘‘میں صحیح قرار دیا ہے لیکن ’’کافی‘‘ میں ہر مجلس میں ایک ہی دفعہ درود کے وجوب کو صحیح کہا ہے جیسا کہ سجدئہ تلاوت کا حکم ہے تاکہ مشکل اور تنگی لازم نہ آئے، البتہ مجلس واحد میں تکرارِ درود مستحب و مندوب ہے بخلاف سجدئہ تلاوت کے، ’’قنیہ‘‘ میں ہے : ایک مجلس میں ایک ہی دفعہ درود پڑھنا کافی ہے جیسا کہ سجدۂ تلاوت کا حکم ہے اور اسی پر فتوی ہے، ابن ہمام نے ’’زاد الفقیر‘‘ میں اسی قول پر جزم کیا ہے اھ ، ملتقطا (ت)۔

بہرحال مناسب یہی ہے کہ ہر بار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کہتا جائے کہ ایسی چیز جس کے کرنے میں بالاتفاق بڑی بڑی رحمتیں برکتیں ہیں اور نہ کرنے میں بلا شبہ بڑے فضل سے محرومی اور ایک مذہب ِ قوی پر گناہ و معصیت، عاقل کا کام نہیں کہ اسے ترک کرے، وباللہ التوفیق۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۶، ص۲۲۲ ۔۲۲۳

[169] … في ’’الشفا‘‘، ج۲، ص۲۵: (ومن علامات محبۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کثرۃ ذکرہ لہ، فمن أحب شیئاً أکثر ذکرہ

[170] … في ’’حاشیۃ الطحطاوي‘‘ علی ’’الدر المختار‘‘، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۶: (ویکرہ الرمز بالصلوۃ والترضي بالکتابۃ، بل یکتب ذلک کلہ بکمالہ، وفي بعض المواضع عن ’’التتارخانیۃ‘‘: من کتب علیہ السلام بالھمزۃ والمیم یکفر؛ لأنّہ تخفیف وتخفیف الأنبیاء کفر بلا شک ولعلہ إن صحّ النقل فھو مقید بقصدہ وإلاّ فالظاھر أنّہ لیس بکفر وکون لازم الکفر کفراً بعد تسلیم کونہ مذھبا مختارا محلہ إذا کان اللزوم بیِّناً، نعم الاحتیاط في الاحتراز عن الإیہام ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۶، ص۲۲۱ ۔ ۲۲۲، وج۲۳، ص۳۸۷۔۳۸۸۔

[171] … وفي ’’الشفا‘‘، ج۲، ص۲۶:(ومنہا محبتہ لمن أحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن ہو بسببہ من آل بیتہ وصحابتہ من المہاجرین والأنصار، وعداوۃ من عاداہم، وبغض من أبغضہم وسبہم، فمن أحب شیئا أحب من یحب

[172] … { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)} پ۱۰، التوبۃ: ۲۳۔۲۴۔

{ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲) پ۲۸، المجادلۃ: ۲۲۔

[173] … دو مخالف چیزیں ۔

[174] … { لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-} پ۱۸، النور: ۶۳۔

وفي ’’حاشیۃ الصاوي‘‘، ج۴، ص۱۴۲۱: { لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ } أي: نداء ہ بمعنی لا تنادوہ باسمہ فتقولوا: یا محمد، ولا بکنیتہ فتقولوا: یا أبا القاسم، بل نادوہ وخاطبوہ بالتعظیم والتکریم والتوقیر بأن تقولوا: یا رسول اللّہ، یانبي اللّہ، یا إمام المرسلین، یا رسول رب العالمین، یاخاتم النبیین، وغیر ذلک

وفي’’المعتقد المنتقد‘‘، وکذا یجب توقیرہ۔۔۔ إلخ، ص۱۳۹۔۱۴۰:(وکذایجب توقیرہ وتعظیمہ في الظاھر والباطن وجمیع الأحوال، قال اللّہ تعالی: { لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-} أي: برفع الصوت فوق صوتہ أو ندائہ بأسمائہ فلا تقولوا: یا محمد یا أحمد بل قولوا: یا نبي اللّٰہ ویا رسول اللّٰہ کما خاطبہ بہ سبحانہ، ذکرہ مجاھد وقتادۃ، ولا منع من الجمع، وروي عن ابن عباس رضي اللّٰہ تعالی عنہما: احذروا دعاء الرسول علیکم إذا أسخطتموہ فإنّ دعاء ہ موجب لیس کدعاء غیرہ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۳۰، ص۱۵۶۔

[175] … في’’الہندیۃ‘‘، کتاب المناسک، الباب السابع عشر في النذر بالحج، مطلب زیارۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ج۱،ص۲۶۵:(فیتوجہ إلی قبرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…، ثمّ یدنو منہ ثلاثۃ أذرع أو أربعۃ ویقف کما یقف في الصلاۃ ویمثل صورتہ الکریمۃ البہیۃ کأنّہ نائم في لحدہ عالم بہ یسمع کلامہ کذا في ’’الاختیار شرح المختار‘‘، ثم یقول: السلام علیک یا نبي اللّہ ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ أشہد أنّک رسول اللّٰہ

وفي ’’المسلک المتقسط في المنسک المتوسط‘‘ شرح ’’لباب المناسک‘‘ للملاّ علي القاري، ص۵۰۸: (ثم توجہ) أي: بالقلب والقالب (مع رعایۃ غایۃ الأدب، فقام تجاہ الوجہ الشریف) أي: قبالۃ موجھۃ قبرہ المنیف (متواضعا خاشعا مع الذلۃ والانکسار والخشیۃ والوقار) أي: السکینۃ، (والھیبۃ والافتقار غاض الطرف) أي:خافض العین إلی قدامہ غیر ملتفت إلی غیر إمامہ وأمامہ، (مکفوف الجوارح) أي: مکفوف الأعضاء من الحرکات التي ھي غیر مناسبۃ لمقامہ،( فارغ القلب) أي: عمن سوی مقصودہ ومرامہ، (واضعا یمینہ علی شمالہ) أي: تأدبا في حال إجلالہ، (مستقبلا للوجہ الکریم مستدبرا للقبلۃ لأنّ المقام یقتضي ہذہ الحالۃ (تجاہ مسمار الفضۃ) أي: المرکبۃ علی جدران تلک البقعۃ،(علی نحو أربعۃ أذرع) أي: یقف بعیدا علی ھذا المقدار (لا أقل) أي: لأنّہ لیس من شعار آداب الأبرار ملتقطاً۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۱۰، ص۷۶۵۔

[176] … { یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)پ۲۶، الحجرات: ۲۔

[177] … في ’’الشفا‘‘، فصل في علامۃ محبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ج۲، ص۲۴: (اعلم أنّ من أحب شیئاً آثرہ وآثر موافقتہ وإلاّ لم یکن صادقا في حبہ وکان مدّعیا فالصادق في حب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من تظہر علامۃ ذلک علیہ، وأوّلہا: الاقتداء بہ واستعمال سنتہ واتباع أقوالہ وأفعالہ وامتثال أوامرہ واجتناب نواہیہ والتأدب بآدابہ في عسرہ ویسرہ ومنشطہ ومکرہہ وشاہد ہذا قولہ تعالی: { قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ })۔

[178] … في ’’الفتاوی قاضي خان‘‘، کتاب السیر، ج۴، ص ۴۶۸: (إذا عاب الرجل النبي علیہ السلام في شيء کان کافراً

وفي’’حاشیۃ الصاوي‘‘، ج۴، ص۱۴۲۱۔

[179] … في ’’أشعۃ اللمعات‘‘، ج۴، ص۳۱۵: (وے صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم خلیفہ مطلق ونائب کل جناب اقدس است مے کند و مے دہد ہر چہ خواہد باذنِ وے۔ یعنی: حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالی کے خلیفہ مطلق اور نائب کل ہیں جو چاہیں کرتے ہیں اور جو چاہیں عطا فرماتے ہیں ۔ ؎ فإنّ من جودک الدنیا وضرتہا ومن علومک علم اللوح والقلم

یعنی: یا رسول اللہ ! دنیا اور آخرت کی ہر نعمت آپ کے جود لا محدود سے کچھ حصہ ہے اور آپ کے علوم کثیرہ سے لوح و قلم کا علم بعض حصہ ہے ۔في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۵، ص۲۸۷: ’’حضورتمام ملک وملکوت پر اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں جن کو رب عزوجل نے اپنے اسماء وصفات کے اسرار کا خلعت پہنایا اور ہر مفرد ومرکب میں تصرف کا اختیار دیاہے، دولھا بادشاہ کی شان دکھاتا ہے، اس کا حکم برات میں نافذ ہوتاہے، سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے کام چھوڑ کر اس کے کام میں لگے ہوتے جس بات کو اس کا جی چاہے موجود کی جاتی ہے، چین میں ہوتاہے، سب براتی اس کی خدمت میں اور اس کے طفیل میں کھانا پاتے ہیں ، یوہیں مصطفی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عالم میں بادشاہ حقیقی عزوجل کی شان دکھاتے ہیں ، تمام جہاں میں ان کا حکم نافذ ہے، سب ان کے خدمت گار وزیر ِفرمان ہیں ، جو وہ چاہتے ہیں اللہ عزوجل موجود کردیتاہے ((ما أری ربک إلّا یسارع في ھواک))، ’’صحیح بخاری ‘‘کی حدیث ہے کہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کرتی ہیں : ’’میں حضور کے رب کو دیکھتی ہوں کہ حضور کی خواہش میں شتابی فرماتاہے‘‘۔ تمام جہاں حضور کے صدقہ میں حضور کا دیا کھاتاہے

کہ ((إنّما أنا قاسم واللّٰہ المعطي)) ، ’’صحیح بخاری ‘‘کی حدیث ہے کہ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ہر نعمت کا دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں ہوں ‘‘۔ یوں تشبیہ کامل ہوئی اور حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سلطنتِ الٰہی کے دولھا ٹھہرے، والحمداللہ رب العالمین‘‘۔

180… اختیار میں ، زیرِ حکم۔

[181] … في ’’أشعۃ اللمعات‘‘، ج۱، ص۴۳۲: تصرف و قدرت سلطنت وے صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ براں بود وملک وملکوت جن و انس وتمامئہ عوالم بتقدیر وتصرف الہی عزو علا در حیطئہ قدرت و تصرف وے بود۔

یعنی: حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تصرف اور آپ کی قدرت اور سلطنت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت اور قدرت سے زیادہ تھی، ملک و ملکوت جن اور انسان اور سارے جہان اللہ تعالی کے تابع کر دینے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تصرف اور قدرت کے احاطے میں تھے (اور ہیں ) ۔

في ’’جواہر البحار‘‘، ج۳، ص۶۰: (إن اللّٰہ تعالی اتخذ خلیفتہ في الأکوان منہ (أي: من جنس الإنسان وہو الفرد الجامع المحیط بالعالم کلہ، والعالم کلہ في قبضتہ وتحت حکمہ وتصرفہ یفعل فیہ کل ما یرید بلا منازع ولا مدافع وقصاری أمرہ أنہ کان حیثما کان الرب إلہاً کان ھو خلیفتہ فلا خروج لشيء من الأکوان عن ألوہیۃ اللّٰہ تعالی کذلک لا خروج لشيء من الأکوان عن سلطنۃ ہذا الفرد الجامع یتصرف في المملکۃ بإذن مستخلفہ

[182] … في ’’الجوہر المنظم‘‘، ص۴۲: (أنّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خلیفۃ اللّٰہ الذي جعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت إرادتہ یعطي منہما من یشاء ویمنع من یشاء ملخصاً۔

[183] … في ’’المواہب‘‘، ج۱، ص۲۸۔۲۹:(ألا! بأبي من کان ملکاً وسیداً وآدم بین الماء والطین واقف إذا رام أمراً لا یکون خلافہ ولیس لذلک الأمر في الکون صارف

[184] … في ’’نسیم الریاض‘‘، القسم الأول في تعظیم العلي الأعلی لقدر النبي، ج۲، ص۲۸۱: (فمعنی نبیّنا الآمر إلی آخرہ: أنّہ لا حاکم سواہ، فھو حاکم غیر محکوم، فإذا قال في أمر: لا، أو نعم، وھو لا یقول إلاّ صواباً موافقاً لرضی اللّٰہ، فحینئذ لا یخالفہ إلاّ بقسر قاسر، ولیس غیرہ حاکم یمنعہ عما حکم بہ ویرد أحکامہ، فھو أصدق القائلین فیما یقولہ

و’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۵۶۵۔

[185] … حدثني الأعشی المازني قال: ((أتیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فأنشدتہ: یا مالک الناس ودیان العرب۔۔۔إلخ))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۶۹۰۲، ج۲، ص۶۴۴)۔

ترجمہ: اعشی مازنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی پاک  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے شعر پڑھا: اے تمام آدمیوں کے مالک اور اے عرب کے جزا وسزا دینے والے۔

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:’’یہ حدیث ِجلیل اتنے آئمہ کبار نے باسانید ِ متعددہ روایت کی اور طریقِ اخیر میں یہ لفظ ہیں کہ:اعشی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پناہ لی اور عرض کی کہ: اے مالک ِ آدمیاں ، و اے جزا و سزا دہ عرب صلی اللہ تعالی علیک وبارک وسلم۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۳۰، ص۴۴۷۔

[186] … سنّت کی لذت و مٹھاس۔

[187] … في ’’الشفا‘‘، الباب الثاني في لزوم محبتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ج۲، ص۱۹: ( قال سھل: من لم یر ولایۃ الرسول علیہ في جمیع الأحوال ویر نفسہ في ملکہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لا یذوق حلاوۃ سنتہ؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من نفسہ)) الحدیث ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۳۰، ص۴۲۵۔

[188] … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((واعلموا أنّ الأرض للّٰہ ورسولہ))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب إخراج الیہود من جزیرۃ العرب، الحدیث: ۳۱۶۷، ج۲، ص۲۵۶۔عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((موتان الأرض للّٰہ ولرسولہ))۔ ’’السنن الکبری‘‘، للبیہقي، کتاب إحیاء الموات، باب من أحیا أرضاً میتۃ لیست لأحد، الحدیث: ۱۱۷۸۶، ج۶، ص۲۳۷۔

عن ابن عباس قال: ((إنّ عادي الأرض للّٰہ ولرسولہ))۔ ’’السنن الکبری‘‘، للبیہقي، کتاب إحیاء الموات، باب من أحیا أرضاً میتۃ لیست لأحد، الحدیث: ۱۱۷۸۵، ج۶، ص۲۳۷۔

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن’’ فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں ان احادیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:’’میں کہتا ہوں بَن(جہاں کثرت سے درخت ہوں ) جنگل ، پہاڑوں اور شہروں کی ملک افتادہ زمینوں کی تخصیص اس لئے فرمائی کہ اُن پر ظاہری مِلک بھی کسی کی نہیں یہ ہر طرح خالص مِلک ِخدا ورسول ہیں جل جلالہ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ورنہ محلوں ، احاطوں ، گھروں ، مکانوں کی زمینیں بھی سب اللہ ورسول کی مِلک ہیں اگرچہ ظاہری نام مَن وتُو کا لگا ہوا ہے۔’’ زبور شریف‘‘ سے رب العزت کا کلام سن ہی چکے :’’کہ احمد مالک ہوا ساری زمین اور تمام امتوں کی گردنوں کا‘‘، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔ تو یہ تخصیصِ مکانی ایسی ہے جیسے آیہ کریمہ { وَ الْاَمْرُ یَوْمَىٕذٍ لِّلّٰهِ۠(۱۹)} میں تخصیص زمانی کہ حکم اس دن اللہ کے لئے ہے ، حالانکہ ہمیشہ اللہ ہی کا ہے، مگر وہ دن روز ظہورِ حقیقت وانقطاع ِ ادّعا ہے لا جرم صحیح بخاری شریف کی حدیث نے ساری زمین بلا تخصیص اللہ ورسول کی ملک بتائی وہ کہاں ؟ وہ اس حدیث آئندہ میں ، فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((اعلموا أنّ الأرض للّٰہ ولرسولہ))۔یعنی یقین جان لو کہ زمین کے مالک اللہ ورسول ہیں ۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۴۴۵۔

[189] … حدثني ربیعۃ بن کعب الأسلمي قال:کنت أبیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فآتیہ بوضوئہ وحاجتہ، فقال لي: ((سل)) فقلت: أسألک مرافقتک في الجنۃ، قال: ((أو غیر ذلک؟)) قلت: ہو ذاک، قال: ((فأعني علی نفسک بکثرۃ السجود))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، الحدیث: ۴۸۹، ص۲۵۳۔

وفي ’’المرقاۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الحدیث: ۸۹۶، ج۲،ص۶۱۵، تحت لفظ ’’سل‘‘: (أي: اطلب مني حاجۃ، وقال ابن حجر: أتحفک بہا في مقابلۃ خدمتک لي، لأنّ ہذا ہو شأن الکرام، ولا أکرم منہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ویؤخذ من إطلاقہ علیہ السلام الأمر بالسؤال أنّ اللّٰہ تعالی مکنہ من إعطاء کل ما أراد من خزائن الحق، ومن ثم عدّ أئمتنا من خصائصہ علیہ السلام أنّہ یخص من شاء بما شاء۔۔۔۔۔ وذکر ابن سبع في خصائصہ وغیرہ: أنّ اللّٰہ تعالٰی أقطعہ أرض الجنۃ یعطي منہا ما شاء لمن یشاء ملتقطا۔وانظر ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۲۱، ص۳۱۰۔وفي ’’أخبار الأخیار‘‘، ص۲۱۶: ({تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)} ۱۶، مریم: ۶۳] أي: نورث تلک الجنۃ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیعطي من یشاء ویمنع عمن یشاء، وہو السلطان في الدنیا والآخرۃ، فلہ الدنیا ولہ الجنۃ ولہ المشاہدات صلی اللّٰہ علیہ وسلم

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن’’ فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اپنے رب کی عطا سے مالک جنت ہیں ، معطیِ جنت ہیں ، جسے چاہے عطافرمائیں ، امام حجۃ الاسلام غزالی پھر امام احمد قسطلانی ’’مواہب لدنیہ ‘‘ پھر علامہ محمد زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : (إن اللّٰہ تعالی ملّکہ الأرض کلھا وأنّہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کان یقطع أرض الجنۃ ما شاء منہا لمن شاء فأرض الدنیا أولیاللہ تعالی نے دینا اور آخرت کی تمام زمینوں کا حضور کو مالک کردیاہے، حضور جنت کی زمین میں سے جتنی چاہیں جسے چاہیں جاگیر بخشیں تو دنیا کی زمین کاکیا ذکر!‘‘۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۱۴، ص۶۶۷۔

[190] … اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن’’ فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں بحوالہ ’’معجم اوسط‘‘ للطبرانی بسندِ حسن سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: (إنّ النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم أمر الشمس فتأخّرت ساعۃ من نھار سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آفتاب کو حکم دیا کہ کچھ دیر چلنے سے باز رہ، وہ فوراً ٹھہر گیا۔

اقول: اس حدیثِ حسن کا واقعہ اس حدیث صحیح کے واقعہ عظیمہ سے جدا ہے جس میں ڈوبا ہوا سورج حضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کے لیے پلٹاہے یہاں تک کہ مولیٰ علی کرم اللہ تَعَالٰی وجہہ الکریم نے نمازِ عصر کہ خدمت گزاری ٔ محبوب ِباری  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں قضا ہوئی تھی ادا فرمائی۔ امام اجل طحاوی وغیرہ اکابر نے اس حدیث کی تصحیح کی ۔ الحمدللہ اسے خلافت رب العزت کہتے ہیں کہ ملکوت السمٰوت والارض میں ان کا حکم جاری ہے تمام مخلوق الہٰی کو ان کیلئے حکم اطاعت وفرمانبرداری ہے ۔ وہ خدا کے ہیں اورجو کچھ خدا کا ہے سب ان کا ہے ، وہ محبوب اجل واکرم وخلیفۃ اللہ الاعظم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جب دودھ پیتے تھے گہوارہ میں چاند ان کی غلامی بجالاتا ، جدھر اشارہ فرماتے اسی طرف جھک جاتا۔ حدیث میں ہے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تَعَالٰی عنہما عم مکرم سید اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضور سے عرض کی: مجھے اسلام پر باعث حضور کے ایک معجزے کا دیکھنا ہوا، ’’رأیتک في المھد تناغي القمر وتشیر إلیہ بأصبعک فحیث أشرت إلیہ مَالَ‘‘۔

میں نے حضو ر کو دیکھا کہ حضور گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے جس طرف انگشت مبارک سے اشارہ کرتے چاند اسی طرف جھک جاتا۔

سید عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: ((إني کنت أحدثہ، ویحدثني ویلھیني عن البکاء وأسمع وجبتہ حین یسجد تحت العرش))۔ ہاں میں اس سے باتیں کرتا تھا وہ مجھ سے باتیں کرتا اور مجھے رونے سے بہلاتا، میں اس کے گرنے کا دھماکہ سنتاتھا جب وہ زیر عرش سجدے میں گرتا۔

امام شیخ الاسلام صابونی فرماتے ہیں : ’’في المعجزات حسن‘‘ یہ حدیث معجزات میں حسن ہے ۔

جب دودھ پیتوں کی یہ حکومت قاہرہ ہے تو اب کہ خلافۃ الکبریٰ کا ظہور عین شباب پرہے آفتاب کی کیا جان کہ ان کے حکم سے سرتابی کرے۔۔۔ إلخ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۴۸۵۔۴۸۸۔

191… في ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۴۳۱۔۴۳۳: (ینصب إلی یوم القیامۃ منبر علی الصراط وذکر الحدیث (إلی أن قال:) ثم یأتي ملک فیقف علی أول مرقاۃٍ من منبري فینادي معاشر المسلمین: من عرفني فقد عرفني ومن لم یعرفني فأنا مالک خازن النار إنّ اللّٰہ أمرني أن أدفع مفاتیح جہنم إلی محمد وإنّ محمداً أمرني أن أدفع إلی أبي بکر، ھاہ اشھدوا ھاہ اشھدوا، ثم یقف ملک آخر علی ثاني مرقاۃٍ من منبري فینادي معاشرالمسلمین: من عرفني فقد عرفني ومن لم یعرفني فأنا رضوان خازن الجنان إنّ اللّٰہ أمرني أن أدفع مفاتیح الجنۃ إلی محمد وإنّ محمدا أمرني أن أدفعہا إلی أبي بکرٍ، ھاہ اشھدوا ھاہ اشھدوا، الحدیث۔ أوردہ العلامۃ إبراہیم بن عبد اللّٰہ المدني الشافعي في الباب السابع من کتاب التحقیق في فضل الصدیق من کتابہ ’’الاکتفاء في فضل الأربعۃ الخلفاء‘‘)۔

[192] … في ’’المواھب اللدنیۃ‘‘، الفصل الثاني، أعطي مفاتیح الخزائن، ج۲، ص۲۷۸: (أنّہ أعطي مفاتیح الخزائن، قال بعضہم: وہي خزائن أجناس العالم لیخرج لہم بقدر ما یطلبونہ لذواتہم، فکلّ ما ظہر من رزق العالم فإنّ الاسم الإلہي لا یعطیہ إلاّ عن محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم الذي بیدہ المفاتیح، کما اختص تعالی بمفاتیح الغیب فلا یعلمہا إلاّ ہو، وأعطی ہذا السید الکریم منزلۃ الاختصاص بإعطائہ مفاتیح الخزائن

وفي ’’جواہر البحار‘‘،ج۳، ص۳۷: (فتح اللّٰہ بہ علی عبادہ أنواع الخیرات وأبواب السعادات الدنیویۃ والأخرویۃ، فکل الأرزاق من کفہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

[193] … (فإنّ من جودک الدنیا وضرتہا ومن علومک علم اللوح والقلم

’’الکواکب الدریۃ في مدح خیر البریۃ‘‘ (قصیدۃ بردہ) الفصل العاشر، ص۵۹۔

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن’’ فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں فرماتے ہیں کہ :’’یہ شعر قصیدہ بردہ شریف کا ہے جس میں سیدی امام اجل محمد بوصیری قدس سرہ حضور سید عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے عرض کرتے ہیں :’’یارسول اللہ! دنیا وآخرت دونوں حضور کے خوانِ جود و کرم سے ایک حصہ ہیں اور لوح وقلم کے تمام علوم جن میں ماکان ومایکون جو کچھ ہوا اور جو کچھ قیامِ قیامت تک ہونے والا ہے ذرہ ذرہ بالتفصیل مندرج ہے حضور کے علوم سے ایک پارہ ہیں ‘‘۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۳۰، ص۴۹۵۔

[194] … احکام کے حلال وحرام کرنے کے اختیارات۔

[195] … { وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ }پ۹، الأعراف: ۱۵۷۔

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم افتتح مکۃ : ((لا ہجرۃ ولکن جہاد ونیۃ وإذا استنفرتم فانفروا، فإنّ ہذا بلد حرمہ اللّٰہ یوم خلق السموات والأرض، وہو حرام بحرمۃ اللّٰہ إلی یوم القیامۃ، وإنّہ لم یحلّ القتال فیہ لأحد قبلي ولم یحلّ لي إلاّ ساعۃ من نہار، فہو حرام بحرمۃ اللّٰہ إلی یوم القیامۃ لا یعضد شوکہ ولا ینفر صیدہ ولا یلتقط لقطتہ إلاّ من عرّفہا ولا یختلی خلاہا))، قال العباس: یا رسول اللّٰہ إلاّ الإذخر فإنّہ لقینہم ولبیوتہم، قال: ((إلاّ الإذخر))۔’’صحیح البخاري‘‘، کتاب جزاء الصید، باب لا یحل القتال بمکۃ،الحدیث: ۱۸۳۴، ج۱، ص۶۰۶۔

في ’’أشعۃ اللمعات‘‘، کتاب المناسک، باب حرم مکۃ، ج۲، ص۴۰۸، تحت لفظ: ((إلاّ الإذخر)): (مگر اذخر کہ رد است قطع کردن، ودر مذہب بعضے آنست کہ احکام مفوض بود بوے صلی اللّہ علیہ وسلم ہر چہ خواہد وبر ہر کہ خواہد حلال وحرام گرداند وبعضے گویند باجتہاد گفت، واول اصح واظہر ست واللّہ اعلم)۔

یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’إلاّ الإذخر‘‘ فرماتے ہوئے اس گھاس کے کاٹنے کی اجازت دے دی بعض علماء کا مذہب یہ ہے کہ شرع کے احکام حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حوالے کردئے گئے ہیں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جو چا ہتے ہیں جس کے لئے چاہتے ہیں کوئی چیز حلال فرمادیتے ہیں اور حرام کر دیتے ہیں ۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس گھاس کے کاٹنے کی اجازت اپنے اجتہاد سے دی مگر پہلا مذہب صحیح تر اور ظاہر تر ہے۔

وفي ’’مدارج النبوۃ‘‘، ج۲، ص۱۸۳: (ومذہب صحیح ومختار آنست کہ احکام مفوض ست بحضرت رسالت صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہر کہ و بہر چہ خواہد حکم کندیک فعل بریکی حرام کند وبردیگری مباح گرداند واین را امثلہ بسیار ست کما لا یخفی علی المتبع حق جل و علٰی پیدا کردہ وشریعتی نہادہ و ہمہ برسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود و حبیب خود سپردہ است صلی اللّٰہ علیہ وسلم)۔

یعنی: صحیح اور مختار مذہب یہی ہے کہ احکام حضور کے سپرد ہیں جس پر جو چاہیں حکم کریں ۔ ایک کام ایک پہ حرام کرتے ہیں اور دوسرے پر مباح۔ اس کی بہت مثالیں ہیں جیسا کہ متبع پر مخفی نہیں ، حق تعالی نے شریعت مقرر کر کے ساری کی ساری اپنے رسول اور اپنے محبوب کے حوالہ کر دی (کہ اس میں جس طرح چاہیں ترمیم و اضافہ فرمائیں )۔

196… عن رجل منھم أنّہ أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأسلم علی أنّہ لایصلي إلاّصلاتین، فقبل ذلک منہ

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۲۰۳۰۹، ج۷، ص۲۸۳۔۲۸۴۔

وانظر رسالۃ إمام أہل السنۃ علیہ الرحمۃ ’’منیۃ اللبیب أنّ التشریع بید الحبیب‘‘، ج۳۰، ص۵۰۰۔

والرسالۃ: ’’الأمن والعلی لناعتي المصطفی بدافع البلاء‘‘، ج۳۰، ص۳۵۹۔

[197] … عن أبي ھریرۃ قال: قالوا: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم متی وجبت لک النبوۃ؟ قال: ((وآدم بین الروح والجسد))۔

’’جامع الترمذي‘‘، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث: ۳۶۲۹، ج۵، ص۳۵۱۔

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قیل یا رسول اللّٰہ: متی کنتَ نبیاً؟ قال: ((وآدم بین الروح والجسد))۔’’الدر المنثور‘‘، ج۶، ص۵۶۹۔

[198] … { وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱) پ۳، اٰلِ عمرٰن:۸۱۔

[199] … في’’تفسیر الطبري‘‘، الحدیث: ۷۳۲۷، ج۳، ص۳۳۰، تحت الآیۃ: عن علي بن أبي طالب قال: لم یبعث اللّٰہ عز وجل نبیًّا۔آدمَ فمن بعدَہ۔ إلاّ أخذ علیہ العہدَ في محمد: لئن بعث وہو حيّ لیؤمنن بہ ولینصرَنّہ، ویأمرُہ فیأخذ العہدَ علی قومہ، فقال: { وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ  الآیۃ۔

[200] … في ’’الخصائص الکبری‘‘، فائدۃ في أنّ رسالۃ النبيصلی اللہ علیہ وسلم عامۃ لجمیع الخلق والأنبیاء وأممہم کلہم من أمتہ، ج۱، ص۸ ۔۱۰: (قال الشیخ تقي الدین سبکي في کتابہ ’’التعظیم والمنۃ‘‘ في { لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-}: في ہذہ الآیۃ من التنویہ بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتعظیم قدرہ العلي ما لایخفی، وفیہ مع ذلک أنّہ علی تقدیر مجیئہ في زمانہم یکون الأمر مرسلا إلیہم، فتکون نبوتہ ورسالتہ عامۃ لجمیع الخلق من زمن آدم إلی یوم القیامۃ، وتکون الأنبیاء وأممہم کلہم من أمتہ ویکون قولہ: ((بعثت إلی الناس کافۃ)) لا یختص بہ الناس من زمانہ إلی یوم القیامۃ، بل یتناول من قبلہم أیضاً، ویتبین بذلک معنی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((کنت نبیا وآدم بین الروح والجسد))… (والنبي صلی اللہ علیہ وسلمخیر الخلق، فلا کمال لمخلوق أعظم من کمالہ، ولا محل أشرف من محلہ، فعرفنا بالخبر الصحیح حصول ذلک الکمال من قبل خلق آدم لنبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ربہ سبحانہ، وأنّہ أعطاہ النبوۃ من ذلک الوقت، ثم أخذ لہ المواثیق علی الأنبیاء لیعلموا أنّہ المقدم علیہم وأنّہ نبیہم ورسولہم، وفي أخذ المواثیق وہي في معنی الاستخلاف ملتقطاً۔وانظر للتفصیل ’’تجلي الیقین بأن نبینا سید المرسلین‘‘، ج۳۰، ص۱۲۹۔

[201] … { یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) پ۲۲، الأحزاب:۴۵۔۴۶۔

في ’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۷، ص۱۹۷، تحت الآیۃ: ({وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا }: اعلم أنّ اللّٰہ تعالی شبّہ نبینا علیہ السلام بالسراج لوجوہ: الأوّل: أنّہ یستضاء بہ في ظلمات الجہل والغوایۃ ویہتدي بأنوارہ إلی مناہج الرشد والہدایۃ کما یہتدي بالسراج المنیر في الظلام إلی سمت المرام،…والرابع: أنّ السراج الواحد یوقد منہ ألف سراج ولا ینقص من نورہ شيئ، وقد اتفق أہل الظاہر والشہود علی أنّ اللّٰہ تعالی خلق جمیع الأشیاء من نور محمد ولم ینقص من نورہ شيئ، وہذا کما روي أنّ موسی علیہ السلام قال: یا رب! أرید أن أعرف خزائنک، فقال لہ: اجعل علی باب خیمتک نارا یأخذ کل إنسان سراجا من نارک ففعل فقال: ہل نقص من نارک قال: لا یا رب، قال: فکذلک خزائني، وأیضا علوم الشریعۃ وفوائد الطریقۃ وأنوار المعرفۃ وأسرار الحقیقۃ قد ظہرت في علماء أمتہ وہي بحالہا في نفسہ علیہ السلام ألا تری أنّ نور القمر مستفاد من الشمس ونور الشمس بحالہ، وفي ’’القصیدۃ البردیۃ‘‘:

فإنّہ شمس فضل ہم کواکبہا ... یظہرن أنوارہا للناس في الظلم

تو مہر منیری ہمہ اخترند ... تو سلطان ملکی ہمہ لشکرند

أي: أنّ سیدنا محمداً علیہ السلام شمس من فضل اللّٰہ طلعت علی العالمین، والأنبیاء أقمارہا یظہرن الأنوار المستفادۃ منہا، وہي العلوم والحکم في عالم الشہادۃ عند غیبتہا ویختفین عند ظہور سلطان الشمس فینسخ دینہ سائر الأدیان۔ وفیہ إشارۃ إلی أنّ المقتبس من نور القمر کالمقتبس من نور الشمس،… والخامس: أنّہ علیہ السلام یضيء من جمیع الجہات الکونیۃ إلی جمیع العوالم کما أنّ السراج یضيء من کل جانب، وأیضاً یضيء لأمتہ کلہم کالسراج لجمیع الجہات إلاّ من عمّی مثل أبي جہل ومن تبعہ علی صفتہ، فإنّہ لا یستضيء بنورہ ولا یراہ حقیقۃ کما قال تعالی: { وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ(۱۹۸)}۔۔۔ إلخ ملتقطاً۔

وفي ’’المصنف‘‘ لعبد الرزاق بسندہ، کتاب الإیمان، باب في تخلیق نور محمد، الجزء المفقود من الجزء الأوّل، الحدیث: ۱۸، ص۶۳، وفي ’’المواہب اللدنیۃ‘‘، ج۱، ص۷۱۔۷۲، واللفظ لـ’’المواہب‘‘: عن جابر بن عبد اللّٰہ الأنصاري قال: قلت یا رسول اللّہ بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أوّل شيء خلقہ اللّٰہ تعالی قبل الأشیائ، قال: ((یا جابر إنّ اللّٰہ تعالی قد خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ، فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللّٰہ تعالی، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولاجنۃ ولا نار، ولا ملک ولا سمائ، ولا أرض ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا إنسي، فلما أراد اللّٰہ تعالی أن یخلق الخلق قسم ذلک النور أربعۃ أجزائ، فخلق من الجزء الأوّل القلم، ومن الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعۃ أجزائ، فخلق من الجزء الأوّل حملۃ العرش، ومن الثاني الکرسي، ومن الثالث باقي الملائکۃ، ثم قسم الجزء الرابع أربعۃ أجزاء، فخلق من الأوّل السمٰوات، ومن الثاني الأرضین ومن الثالث الجنۃ والنار، ثم قسم الرابع أربعۃ أجزائ، فخلق من الأول نور أبصار المؤمنین، ومن الثاني نور قلوبہم ۔وہي المعرفۃ باللّٰہ۔ ومن الثالث نور أنسہم، وہو التوحید، لا إلہ إلاّ اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ))۔

202…یعنی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سورج کی طرح ہیں جو آسمانوں کے وسط میں ہو اور اس کی روشنی مشرقوں اور مغربوں کے تمام شہروں کو ڈہانک لے۔ ’’تفسیر روح المعاني‘‘، پ۲۲، الأحزاب، تحت الآیۃ:۴۰، الجزء الثاني والعشرون، ص۲۹۴۔

وانظر للتفصیل: ’’صلات الصفاء في نور المصطفی‘‘، ج۳۰، ص۶۵۷۔

[203] … یعنی: اگر چمگادڑ کو دن میں روشنی نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور۔

[204] … في ’’أشعۃ اللمعات‘‘: (درقرآن مجید بآدم نسبت عصیان کردہ وعتاب نمودہ مبنی برعلوشان قرب اوست ومالک رامیرسدکہ برترک اولی وافضل اگرچہ بحد معصیت نرسد بہ بندئہ خود ہرچہ خواہد بگوید وعتاب نماید دیگری رامجال نہ کہ تواندگفت واینجا ادبی ست کہ لازم ست رعایت آن وآن انیست کہ اگر از جانب حضرت بہ بعض انبیا کہ مقربان درگاہ اند عتابی وخطابی رودیا از جانب ایشان کہ بندگان خاص اویند تواضعی وذلتی وانکساری صادر گرددکہ موہم نقص بود مارانبایدکہ دران دخل کینم وبدان تکلم نمائیم)۔ ’’أشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الإیمان، الفصل الأول، ج۱، ص۴۳۔

ترجمہ: قرآن مجید میں جو حضرت آدم علیہ السلام کی طرف عصیاں ونافرمانی کی نسبت کی اور ان پر عتاب فرمایا وہ حضرت آدم علیہ السلام کے خدائے تعالی کے مقرب ہونے اور ان کی بلندی شان پر مبنی ہے اور مالک کو حق پہنچتا ہے کہ اولیٰ وافضل چیز کے ترک کرنے پر اگرچہ وہ معصیت کی حد تک نہ پہنچے اپنے بندے کو جو کچھ چاہے کہے اور عتاب کرے دوسرے کسی کو کچھ بھی کہنے کی مجال نہیں ہے یہ نہایت ادب کا مقام ہے جس کا لحاظ ضروری ہے اور وہ ادب یہ ہے کہ اگر خداوندتَعَالٰی کی جانب سے بعض انبیاء علیہم السلام پر جو اس کی درگاہ کے مقرب ہیں عتاب نازل ہو یا ان کی طرف خطا کی نسبت کی گئی ہو یا خود ان انبیاء (علیہم السلام )کی طرف سے جو کہ اس کے خاص بندے ہیں تواضع ،عاجزی وانکساری کی بات صادر ہو جس سے ان میں نقص وعیب کا وہم پڑتا ہو ، تو ہم بندوں کو اس میں دخل دینے یا اسے زبان پر لانے کی ہرگز اجازت نہیں ۔

اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ ‘‘ شریف میں فرماتے ہیں کہ: ’’غیر تلاوت میں اپنی طرف سے سید نا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمہ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علمائے کرام نے اسے کفر بتایا، مولیٰ کو شایان ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر فرمائے ،فرمائے دوسرا کہے تو اس کی زبان

گُدّی کے پیچھے سے کھینچی جائے للّٰہ المثل الأعلی، بلا تشبیہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عمرو کو اس کی کسی لغزش یا بھول پر متنبہ کرنے ادب دینے حزم وعزم واحتیاط اتم سکھانے کے لئے مثلاً بیہودہ نالائق احمق وغیرہا الفاظ سے تعبیر کیا باپ کو اس کا اختیار تھا اب کیا عمرو کا بیٹا بکر یا غلام ِخالد انہیں الفاظ کو سند بنا کر اپنے باپ اور آقا عمرو کو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے، حاشا! اگر کہے گا سخت گستاخ ومردود و ناسزا ومستحق ِعذاب وتعزیر وسزا ہوگا، جب یہاں یہ حالت ہے تو اللہ عزوجل کی ریس کرکے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی شان میں ایسے لفظ کا بکنے والا کیونکر سخت شدید ومدید عذابِ جہنم وغضب الٰہی کا مستحق نہ ہوگا والعیاذ باللہ تعالیٰ۔

امام ابو عبداللہ قرطبی تفسیر میں زیر قولہ تعالیٰ: { وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘- } کی تفسیر میں فرماتے ہیں : قـال القاضي أبو بکر بن العربي رحمہ اللّٰہ تعالی: (لا یجوز لأحد منّا الیوم أن یخبر بذلک عن آدم علیہ الصّلاۃ والسّلام إلَّاإذا ذکرناہ في أثناء قولہ تعالی عنہ أو قول نبیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم، فأمّا أن نبتدیٔ ذلک من قبل أنفسنا فلیس بجائز لنا في آبائنا الأدَنین إلینا المماثلین لنا فکیف بأبینا الأقدم الأعظم الأکبر النبي المقدم صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم وعلی جمیع الأنبیاء والمرسلین)۔’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي، پ۱۶، الآیۃ: ۱۲۱، ج۶، ص۱۳۷۔

امام ابو عبداللہ محمد بن عبدری ابن الحاج ’’مدخل ‘‘ ، ج ۱، الجزء ا لاول، ص ۲۳۷، میں فرماتے ہیں : (قد قال علماؤنا رحمہم اللّٰہ تعالی: أنّ من قال عن نبي من الأنبیاء علیھم الصّلاۃ والسلام في غیر التلاوۃ والحدیث: أنّہ عصی أو خالف فقد کفر، نعوذ باللّٰہ من ذلک)۔ایسے امور میں سخت احتیاط فرض ہے اللہ تعالی اپنے محبوبوں کا حسن ِادب عطا فرمائے ۔ آمین۔ ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ج۱، ص ۸۲۳۔۸۲۴۔

205… ہزاروں حکمتوں اور مصلحتوں پرمشتمل،ہزاروں فائدوں اور برکتوں کو لانے والی۔

[206] … ہمارے باپ آدم علیہ السلام کی ایک لغزش۔

[207] … نیکیوں کے اجر۔

[208] … ’’کشف الخفاء‘‘ للعجلوني، ج۱، ص۳۱۸۔ و’’النبراس‘‘، الملائکۃ علیہم السلام، ص۲۸۶۔

یعنی: نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لیے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں ۔

Share