(5)…حُبِّ مَدَح
حُبِّ مَدَح کی تعریف:
’’کسی کام پر لوگوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف کو پسند کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کام پر لوگ میری تعریف کریں ، مجھے عزت دیں حُبِّ مَدَح کہلاتا ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۵۷)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ
بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۸۸))(پ۴، آل عمران: ۱۸۸)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’ہر گز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہو ، ایسوں کو ہر گز عذاب سے دُور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :’’یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور باوجود نادان ہونے کے یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے۔ مسئلہ: اس آیت میں وعید ہے خود پسندی کرنے والے کے لئے اور اس کے لئے جو لوگوں سے اپنی جھوٹی تعریف چاہے جو لوگ بغیر علم اپنے آپ کو عالم کہلواتے ہیں یااسی طرح اورکوئی غلط وصف اپنے لئے پسند کرتے ہیں انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۵۷،۵۸)
حدیث مبارکہ،حُبِّ مَدَح بربادیٔ اعمال کا سبب:
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کو لوگوں کی زبانوں سے اپنی تعریف پسند کرنے کے ساتھ ملانے سے بچو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں۔‘‘[1] حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’حُبِّ مَدَح آدمی کو اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔ ‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۵۸)
حُبِّ مَدَح کا حکم:
اپنی تعریف کو پسند کرنا اور اپنی تنقید پر ناراض ہو جانا یہ بڑی بڑی گمراہیوں اور گناہوں کا سر چشمہ ہے، قابلِ مذمت خوشی یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے نزدیک اپنے مقام ومرتبے پر خوش ہو اور یہ خواہش کرے کہ وہ اس کی تعریف وتعظیم کریں ، اس کی (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۵۸)حاجتیں پوری کریں ، آمدورفت میں اسے اپنے آگے کریں۔
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’اگر (کوئی آدمی) اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھے (یعنی پسند کرے) کہ لوگ اُن فضائل سے اُس کی ثَنا (یعنی تعریف) کریں جو (فضیلت وخوبی) اس میں نہیں ،جب تو صریح حرامِ قطعی ہے۔‘‘ قَالَ اللہُ (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: )
(لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۸۸))(پ۳، آل عمران: ۱۸۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’ہرگز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہو ایسوں کو ہرگز عذاب سے دور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ ہاں اگر تعریف واقعی ہو تو اگر چہ تاویل معروف ومشہور کے ساتھ، جیسے شَمْسُ الْاَئِمَّہ (اماموں کے آفتاب) وفَخْرُالْعُلَمَاء (اہل علم کے لیے فخر) و تَاجُ الْعَارِفِیْن (عارفوں کے تاج) وَاَمْثَالُ ذٰلِکَ (یعنی اسی قسم اور نوع کے دوسرے توصیف کلمات جو مدح کی تعریف وتوصیف ظاہر کریں )کہ مقصود اپنے عصر (زمانے) یا مصر ( شہر) کے لوگ ہوتے ہیں اور اس پر اس لئے خوش نہ ہو کہ میری تعریف ہورہی ہے بلکہ اس لئے کہ ان لوگوں کی(تعریف) ان کو نفع دینی پہنچائے گی سمع قبول سے سنیں گے جو ان کو نصیحت کی جائے گی تویہ حقیقۃً حب مدح نہیں بلکہ حب نصح مسلمین ہے اور وہ محض ایمان ہے۔‘‘[3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۵۸،۵۹)
حُبِّ مَدَح کے اسباب وعلاج:
(1)… حُبِّ مَدَح کا پہلا سبب دوسروں کے تعریفی کلمات کی وجہ سے خود کو باکمال سمجھنا ہے۔ اس کا علاج یہ ہےبندہ اس بات پر غور کرے کہ یہ تعریفی کلمات کسی دنیوی عہدے مال ودولت یا ذہانت کے سبب سے ہیں یا کسی دینی خوبی (مثلاً تقویٰ وغیرہ) کی وجہ سے۔ اگر دنیوی خوبیوں کی وجہ سے ہیں تو وہ فانی ہیں اور فانی خوبیوں پر اترانا کیسا؟ اور اگر دینی خوبیوں کے سبب سے ہوں تو اپنے آپ کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرائے اور اپنے برے خاتمے کے خوف کو ہمیشہ اپنے اوپر طاری رکھے، اور ربّ عَزَّ وَجَلَّ ایمان پر خاتمے کی دعا مانگے۔
(2)… حُبِّ مَدَح کا دوسر ا سبب تعریف کے ذریعےدوسروں کو اپنا عقیدت مند بنانا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غو ر کرے کہ ’’لوگوں کے دلوں میں مقام بنانے کی خواہش کہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقام گھٹانے کا سبب نہ بن جائے۔‘‘جو بذاتِ خود یقیناً دنیا وآخری کی بربادی کا سبب ہے۔
(3)… حُبِّ مَدَح کا تیسرا سبب تعریف کے ذریعے لوگوں پر اپنی برتری اور رعب و دبدبہ قائم کرنا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ باربار اس بات پر غور کرے کہ ’’ایسی عارضی برتری اور رُعب و دبدبہ جس میں ذرہ برابر پائیداری نہیں کس طرح میری تعریف کا سبب بن سکتی ہے؟۔‘‘[4] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۶۱،۶۲)
[1] ۔۔۔۔فردوس الاخبار،باب الالف،ج۱،ص۲۲۳، حدیث: ۱۵۶۷۔
[2] ۔۔۔۔فردوس الاخبار،باب الحاء،ج۱،ص۳۴۷، حدیث: ۲۵۴۸۔
[3] ۔۔۔۔فتاویٰ رضویہ ، ج۲۱، ص۵۹۷ ۔
…..[4] احیاء العلوم ،ج۳،ص۸۵۸ماخوذا۔
Comments