(34)…مال سے بے رغبتی
مال سے بے رغبتی کی تعریف:
مال سے محبت نہ رکھنا اور اس کی طرف رغبت نہ کرنا مال سے بے رغبتی کہلاتا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۸)
مال سے بے رغبتی کاکمال درجہ:
حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’مال سے بے رغبتی کا کمال درجہ یہ ہے کہ بندے کے نزدیک مال اور پانی برابر ہوں، ظاہر ہے کہ کثیر پانی کا انسان کے نزدیک ہونا اسے نقصان نہیں دیتا جیساکہ ساحل سمندر پر رہنے والا شخص اور نہ ہی پانی کا کم ہونا ضرر دیتا ہے جبکہ بقدرِ ضرورت پانی دستیاب ہو۔پانی ایک ایسی چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے ،انسان کا دل نہ تو کثیر پانی سے نفرت کرتا ہے اور نہ ہی راہِ فرار اختیار کرتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں اس سے اپنی حاجت کے مطابق پیوں گا، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندوں کو پلاؤں گااور اس میں بخل نہیں کروں گا۔ انسا ن کے نزدیک مال کی حالت بھی یہی ہونی چاہیے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہ پڑے۔‘‘[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۸)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:(كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵))(پ۳۰،التکاثر:۵)ترجمۂ کنزالایمان:’’ہاں!ہاں!اگریقین کا جاننا جانتے تو مال کی محبت نہ رکھتے۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۸)
(حدیث مبارکہ)موت ناپسند کیوں؟
ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں موت کو پسند نہیں کرتا؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’کیا تمہارے پاس مال ہے؟‘‘اُس نے کہا:جی ہاں۔ فرمایا: ’’اپنا مال آگے بھیج دو (یعنی آخرت کے لیے صدقہ کرو)،کیونکہ مؤمن کا دل اپنے مال کے ساتھ ہوتا ہے اگر اس نے اسے آگے بھیج دیا تو اس سے ملنا چاہتا ہےاور اگر پیچھے چھوڑ دے تو اس کے ساتھ پیچھے رہنا چاہتا ہے۔‘‘[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۹)
مال سے بے رغبتی کے متعلق تنبیہ:
حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: جس قدر مال کی ضرورت ہوتی ہے اس کا حصول ممنوع نہیں ،مال ضرورت سے زیادہ ہوتو زہر قاتل ہےجبکہ ضرورت کی مقدار ہوتو نفع بخش دوا ہے اور ان دونوں کے درمیان مختلف درجات ہیں جن کے بارے میں شبہات ہیں۔مال کی وہ مقدار جو ضرورت سے زائد کے قریب ہو وہ اگرچہ زہر قاتل نہ ہو لیکن نقصان دہ ہے اور جو مقدار ضرورت کے قریب ہو وہ اگر نفع مند دوا نہ بھی ہو تو کم نقصان دہ ہے۔ زہر کا پینا حرام اور دوا کا استعمال ضروری ہے۔[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۹)
مال سے بے رغبتی کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کےنو( 9)طریقے:
(1)مال سے بے رغبتی کے فضائل میں غور کیجئے:حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے فقیر ہونے کی حالت میں ملنا ،مال دار ہوکر نہ ملنا۔‘‘[4] ایک حدیث پاک میں ہےکہ’’جو شخص دنیا سے بے رغبتی اختیارکرتا ہےاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے دل میں حکمت داخل فرماکر اس کی زبان پر جاری فرمادیتا ہے، اسے دنیا کی بیماری اور اس کے علاج کی پہچان عطا فرماتا ہے اور اسے دنیا سے صحیح سلامت نکال کر سلامتی کے گھر (یعنی جنت کی طرف) لے جاتا ہے۔‘‘[5]
(2)مال سے بے رغبتی کےمتعلق اقوال بزرگانِ دین میں غورکیجئے: امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اپنی ہتھیلی میں ایک درہم رکھا پھر فرمایا: ’’تو جب تک مجھ سے دور نہیں ہوگا مجھے نفع نہیں دے گا۔‘‘حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!جو شخص روپے پیسے کی عزت کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے ذلیل کرتا ہے۔حضرت سیدنا سمیط بن عجلان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:درہم اور دینار منافقوں کی لگامیں ہیں وہ ان کے ذریعے دوزخ کی طرف کھینچے جائیں گے۔[6]
(3)مال کی طرف رغبت کرنے کے نقصانات میں غور کیجئے:3فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: (۱)’’مال اور جاہ کی محبت دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزی اُگاتا ہے۔‘‘[7] (۲)’’بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیئے اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا نقصان جاہ ومنصب اور مال کی محبت مسلمان آدمی کے دِین میں کرتی ہے۔‘‘[8] (۳) ’’روپے پیسے کا پجاری ملعون ہے۔‘‘[9]
(4)مال سے بے رغبتی کے متعلق بزرگان ِ دین کے احوال کا مطالعہ کیجئے: مروی ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا زینب بنتِ جَحْشرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف عَطِیّات بھیجے، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لانے والوں نے کہا: یہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ کےلئے بھیجے ہیں۔ فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کی مغفرت فرمائے، پھر ایک پردہ کھینچا اور اسے پھاڑ کر تھیلیاں بنائیں اور وہ تمام مال اپنےگھر والوں ، رشتہ داروں اور یتیموں میں تقسیم کردیا، اس کے بعد ہاتھ اٹھاکردعا مانگی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !اس سال کے بعد مجھے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا عَطِیَّہ نہ پہنچے۔ لہٰذارسولِ اَکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وِصال کے بعد ازواجِ مُطَہَّرات میں سب سے پہلے آپ کا انتقال ہوا۔[10]ایک مرتبہ حضرت سیدنا کَعْب قُرَظَی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی کو بہت مال ملا تو آپ سے کہا گیا: کیاہی اچھا ہو اگر آپ اپنے بعد اپنی اولاد کے لیےاسے ذخیرہ کر لیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! بلکہ میں اسے اپنے لئے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکے پاس ذخیرہ کروں گا اور اپنی اولاد کو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکے سپرد کروں گا۔[11]
(5)مال سے بے رغبتی حضور خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا طریقہ ہے: حضرت سیدنا ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’مجھےمیرے ربّ نے اس بات کی پیشکش کی کہ وہ میرے لیے وادیٔ مکہ کو سونے کا بنادے لیکن میں نے عرض کی:اے میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ! میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانا کھاؤں،جس دن بھوکا رہوں اس دن تیری بارگاہ میں عاجزی اور دعا کروں اور جس دن کھانا کھاؤں اس دن تیری حمد وثنا اورشکربجا لاؤں۔‘‘[12]
(6)مال سے بے رغبتی کے فوائد میں غور کیجئے: ٭مال سے بے رغبتی زہد وقناعت پیدا کرتی ہے۔٭مال سے بے رغبتی نیک اَعمال میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ ٭مال سے بے رغبتی کے باعث آدمی حرص وطمع سے بچ جاتا ہے۔٭مال سے بے رغبتی سادگی پیدا کرتی ہے۔٭مال سے بے رغبت شخص کو لوگ پسند کرتے ہیں۔٭مال سے بے رغبتی تقویٰ پر اُبھارتی ہے۔٭مال سے بے رغبتی انبیائے کرام عَلَیْہِ السَّلَام اور بزرگانِ دِین کا طریقہ ہے۔٭مال سے بے رغبتی کے سبب آدمی بخل سے بچ جاتا ہے۔٭مال سے بے رغبتی کے باعث آدمی مال جمع کرنے کی آفت سے بچ جاتا ہے۔
(7)مال سے بے رغبتی کے لئے اس کی آفات اور ہلاکتوں میں غور کیجئے: ٭مال آدمی کو گناہ کے راستے پر ڈال دیتا۔٭عموماً مال کےسبب آدمی عیش وعشرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔٭مال آخرت سے غافل کردیتا ہے۔٭مال کے باعث اِنسان حرص وطمع میں پڑجاتا ہے۔٭مالدار آدمی کو اپنے مال کی حفاظت کی فکر لگی رہتی ہے۔٭مال کے سبب آدمی لمبی امیدوں اور خواہشات کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے۔٭زیادہ مال والے کو اپنے مال کا حساب بھی زیادہ دینا پڑے گا۔٭زیادہ دیر تک میدان محشر میں کھڑا رہنا پڑے گا۔٭اپنے مال کی زکوٰۃنہ دینے والے کو آخرت میں طرح طرح کے عذابات کا سامناہوگا۔٭مال کی رغبت آدمی کو فعل حرام میں بھی مبتلا کردیتی ہے۔مالدار کے ذمہ لوگوں کے بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔٭مالداری آدمی کو ناشکری میں ڈال دیتی ہے۔ ٭مالدار ی سرکشی کا باعث بھی بنتی ہے ۔
(8)مال ودولت کی حرص کا خاتمہ کیجئے:دُنیوی مال کی حرص مؤمن کے لئے بہت ہی خطرناک ہے اگر اس کی روک تھام نہ کی جائےتو بسا اوقات یہ دُنیوی بربادیوں کے ساتھ ساتھ اُخروی ہلاکتوں کی طرف بھی لے جاتی ہے ،لہٰذا اسے ختم کرکے مال سے بے رغبتی اور زُہد اختیار کیجئے۔
(9)قیامت کے حساب وکتاب سے خود کو ڈرایئے:ضرورت اور حاجت سے زائد مال کمانا اگرچہ جائز ہے لیکن یاد رکھیے جس کا مال جتنا زیادہ ہوگا قیامت کے روز اس کا حساب وکتاب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔زیادہ مال ودولت والے کو کل بروزِ قیامت دُشواری اور تکلیف کا سامنا ہوگا اوراُسے دیر تک میدان محشر میں ٹھہرنا پڑے گا جبکہ کم مال والاجلدی جلدی حساب وکتاب سے فارغ ہوجائے گا،لہٰذا قیامت کے حساب وکتاب سے خود کو ڈرایئے ،اس سے بھی مال سے بے رغبتی اختیار کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۷۱تا۲۷۵)
[1] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین،کتاب الفقر والزھد، بیان حقیقۃ الفقر ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۷۔
[2] ۔۔۔۔الزھد لابن مبارک،باب فی طلب الحلال، ص۲۲۴، حدیث: ۶۳۴۔
[3] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین،کتاب الفقر والزھد،بیان تفصیل الزھد فیما ھو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۶۔
[4] ۔۔۔۔مستدرک حاکم،کتاب الرقاق،باب الف اللہ فقیرا،۵ / ۴۵۰،حدیث:۷۹۵۷ ۔
[5] ۔۔۔۔شعب الایمان،باب فی الزھد وقصر الامل،۷ / ۳۴۶، حدیث:۱۰۵۳۲۔
[6] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم المال وکراھۃ حبہ ،۳ / ۲۸۸۔
[7] ۔۔۔۔الزواجر عن اقتراف الکبائر،الکبیرۃ الثالثۃ والخمسون بعد المائتین، ۲ / ۴۹۔
[8] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی اخذ المال،۴ / ۱۶۶، حدیث: ۲۳۸۳۔
[9] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی اخذ المال،۴ / ۱۶۶، حدیث: ۲۳۸۲۔
[10] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین،کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم المال وکراھۃ حبہ ،۳ / ۲۸۸ ۔
[11] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین،کتاب ذم البخل و ذم حب المال،بیان ذم
[12] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الکفاف والصبرِ علیہ،۴ / ۱۵۵، حدیث: ۲۳۵۴۔
Comments