اُن صورتوں کا بیان جن میں کفارہ بھی لازم ہے
مسئلہ ۱: رمضان میں روزہ دار مکلّف مقیم نے کہ ادائے روزہ رمضان کی نیّت سے روزہ رکھا اور کسی آدمی کے ساتھ جو قابلِ شہوت ہے، اُس کے آگے یا پیچھے کے مقام میں جماع کیا، انزال ہوا ہو یا نہیں یا اس روزہ دار کے ساتھ جماع کیا گیا یا کوئی غذا یا دوا کھائی یا پانی پیا یا کوئی چیز لذّت کے لیے کھائی یا پی یا کوئی ایسا فعل کیا، جس سے افطار کا گمان نہ ہوتا ہو اور اس نے گمان کر لیا کہ روزہ جاتا رہا پھر قصداً کھا پی لیا، مثلاً فصد یا پچھنا لیا یا سُرمہ لگایا یا جانور سے وطی کی یا عورت کو چُھوا یا بوسہ لیا یا ساتھ لٹایا یا مباشرت فاحشہ کی، مگر ان سب صورتوں میں انزال نہ ہوا یا پاخانہ کے مقام میں خشک انگلی رکھی، اب ان افعال کے بعد قصداً کھا لیا۔
تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضا اور کفّارہ دونوں لازم ہیں اور اگر ان صورتوں میں کہ افطار کا گمان نہ تھا اور اس نے گمان کر لیا اگر کسی مفتی نے فتویٰ دے دیا تھا کہ روزہ جاتا رہا اور وہ مفتی ایسا ہو کہ اہلِ شہر کا اس پر اعتماد ہو، اُس کے فتویٰ دینے پر اُس نے قصداً کھا لیا یا اُس نے کوئی حدیث سُنی تھی جس کے صحیح معنی نہ سمجھ سکا اور اُس غلط معنی کے لحاظ سے جان لیا کہ روزہ جاتا رہا اور قصداً کھا لیا تو اب کفّارہ لازم نہیں، اگرچہ مفتی نے غلط فتویٰ دیا یا جو حدیث اُس نے سُنی وہ ثابت نہ ہو۔ [1] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲: جس جگہ روزہ توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے اس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی سے روزہ رمضان کی نیّت کی ہو، اگر دن میں نیّت کی اور توڑ دیا تو کفارہ لازم نہیں۔ [2] (جوہرہ)
مسئلہ ۳: مسافر بعد صبح کے ضحوہ کبریٰ سے پہلے وطن کو آیا اور روزہ کی نیّت کر لی پھر توڑ دیا یا مجنون اس وقت ہوش میں آیا اور روزہ کی نیّت کر کے پھر توڑ دیا تو کفارہ نہیں۔ [3] (عالمگیری)
مسئلہ ۴: کفّارہ لازم ہونے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ روزہ توڑنے کے بعد کوئی ایسا امر واقع نہ ہوا ہو، جوروزہ کے منافی ہو یا بغیر اختیارایسا امر نہ پایا گیا ہو، جس کی وجہ سے روزہ افطار کرنے کی رخصت ہوتی، مثلاً عورت کو اُسی دن میں حیض یا نفاس آگیا یا روزہ توڑنے کے بعد اُسی دن میں ایسا بیمار ہوگیا جس میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تو کفارہ ساقط ہے اور سفر سے ساقط نہ ہوگا کہ یہ اختیاری امر ہے۔ یوہیں اگر اپنے کو زخمی کر لیا اور حالت یہ ہوگئی کہ روزہ نہیں رکھ سکتا، کفّارہ ساقط نہ ہوگا۔ [4] (جوہرہ)
مسئلہ ۵: وہ کام کیا جس سے کفارہ واجب ہوتا ہے پھر بادشاہ نے اُسے سفر پر مجبور کیا کفارہ ساقط نہ ہوگا۔[5] (عالمگیری)
مسئلہ ۶: مرد کو مجبور کر کے جماع کرایا یا عورت کو مرد نے مجبور کیا پھر اثنائے جماع میں اپنی خوشی سے مشغول رہا یا رہی تو کفّارہ لازم نہیں کہ روزہ تو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے۔[6](جوہرہ) مجبوری سے مراد اکراہِ شرعی ہے، جس میں قتل یا عضو کاٹ ڈالنے یا ضربِ شدید [7] کی صحیح دھمکی دی جائے اور روزہ دار بھی سمجھے کہ اگر میں اس کا کہا نہ مانوں گا تو جو کہتا ہے، کر گزرے گا۔
مسئلہ ۷: کفارہ واجب ہونے کے لیے بھر پیٹ کھانا ضرور نہیں، تھوڑا سا کھانے سے بھی واجب ہو جائے گا۔[8](جوہرہ)
مسئلہ ۸: تیل لگایا یا غیبت کی پھر یہ گمان کر لیا کہ روزہ جاتا رہا یا کسی عالم ہی نے روزہ جانے کا فتویٰ دے دیا، اب اس نے کھا پی لیا جب بھی کفّارہ لازم ہے۔ [9] (درمختار)
مسئلہ ۹: قے آئی یا بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کیا اور ان سب صورتوں میں اسے معلوم تھا کہ روزہ نہ گیا پھر اس کے بعد کھا لیا تو کفّارہ لازم نہیں اور اگر احتلام ہوا اور اسے معلوم تھا کہ روزہ نہ گیا پھر کھا لیا تو کفّارہ لازم ہے۔ [10] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۰: لعاب تھوک کر چاٹ گیا یا دوسرے کا تھوک نگل گیا تو کفّارہ نہیں، مگر محبوب کا لذت یا معظم دینی [11] کا تبرک کے لیے تھوک نگل گیاتو کفّارہ لازم ہے۔ [12] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱ ۱: جن صورتوں میں روزہ توڑنے پرکفّارہ لازم نہیں ان میں شرط ہے ،کہ ایک ہی بار ایسا ہوا ہو اور معصیت کا قصد نہ کیا ہو، ورنہ اُن میں کفّارہ دینا ہوگا۔ [13] (درمختار)
مسئلہ ۱۲: کچا گوشت کھایا اگرچہ مردار کا ہو تو کفارہ لازم ہے، مگر جبکہ سڑا ہو یا اُس میں کیڑے پڑ گئے ہوں تو کفارہ نہیں۔ [14] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۳: مٹی کھانے سے کفارہ واجب نہیں، مگر گل ارمنی یا وہ مٹی جس کے کھانے کی اُسے عادت ہے، کھائی تو کفارہ واجب ہے اور نمک اگر تھوڑا کھایا تو کفارہ واجب ہے، زیادہ کھایا تو نہیں۔[15] (جوہرہ، عالمگیری)
مسئلہ ۱۴: نجس شوربے میں روٹی بھگو کرکھائی یا کسی کی کوئی چیز غصب کر کے کھالی تو کفارہ واجب ہے اور تھوک میں خون تھا اگرچہ خون غالب ہو، نگل لیا یا خون پی لیا تو کفارہ نہیں۔ [16] (جوہرہ)
مسئلہ ۱۵: کچی بِہی کھائی یا پستہ یا اخروٹ مسلّم یا خشک یا بادام مسلّم نگل لیا یا چھلکے سمیت انڈا یا چھلکے کے ساتھ انار کھا لیا تو کفارہ نہیں اور خشک پستہ یا خشک بادام اگر چبا کر کھایا اور اس میں مغز بھی ہو تو کفارہ ہے اور مسلّم نگل لیا ہو تو نہیں، اگرچہ پھٹا ہو اور تر بادام مسلّم نگلنے میں بھی کفارہ ہے۔ [17] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: چنے کا ساگ کھایا تو کفارہ واجب، یہی حکم درخت کے پتوں کا ہے جبکہ کھائے جاتے ہوں ورنہ نہیں۔
مسئلہ ۱۷: خرپزہ یا تربز کا چھلکا کھایا، اگر خشک ہو یا ایسا ہو کہ لوگ اس کے کھانے سے گھن کرتے ہوں تو کفارہ نہیں ورنہ ہے۔ کچے چاول، باجرا، مسور، مونگ کھائی تو کفارہ نہیں، یہی حکم کچے جَو کا ہے اور بھنے ہوئے ہوں توکفارہ لازم۔[18](عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: تِل یا تِل کے برابر کھانے کی کوئی چیز باہر سے مونھ میں ڈال کر بغیر چبائے نگل گیا تو روزہ گیا اور کفارہ واجب۔[19] (درمختار)
مسئلہ ۱۹: دوسرے نے نوالہ چبا کر دیا، اُس نے کھا لیا یا اُس نے خود اپنے مونھ سے نکال کر کھا لیا تو کفارہ نہیں۔ [20](عالمگیری) بشرطیکہ اس کے چبائے ہوئے کو لذات یا تبرک نہ سمجھتا ہو۔
مسئلہ ۲۰: سحری کا نوالہ مونھ میں تھا کہ صبح طلوع ہوگئی یا بھول کر کھا رہا تھا، نوالہ مونھ میں تھا کہ یاد آگیا اور نگل لیا تو دونوں صورتوں میں کفارہ واجب، مگر جب مونھ سے نکال کر پھر کھایا ہو تو صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں۔ [21] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۱: عورت نے نابالغ یا مجنون سے وطی کرائی یا مرد کو وطی کرنے پر مجبور کیا ،تو عورت پر کفارہ واجب ہے مرد پر نہیں۔[22](عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۲۲: مُشک، زعفران، کافور، سرکہ کھایا یا خرپزہ، تربز، ککڑی، کھیرا، باقلا کا پانی پیا تو کفارہ واجب ہے۔ [23] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: رمضان میں روزہ دار قتل کے لیے لایا گیا اُس نے پانی مانگا، کسی نے اُسے پانی پلا دیا پھر وہ چھوڑ دیا گیا تو اُس پر کفارہ واجب ہے۔[24] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۴: باری سے بخار آتا تھا اورآج باری کا دن تھا۔ اُس نے یہ گمان کر کے کہ بخار آئے گا روزہ قصداً توڑ دیا تو اس صورت میں کفارہ ساقط ہے۔[25]یوہیں عورت کو معیّن تاریخ پر حیض آتا تھا اورآج حیض آنے کا دن تھا، اُس نے قصداً روزہ توڑ دیا اور حیض نہ آیا تو کفارہ ساقط ہوگیا۔ یوہیں اگر یقین تھا کہ دشمن سے آج لڑنا ہے اور روزہ توڑ ڈالا اور لڑائی نہ ہوئی تو کفارہ واجب نہیں۔[26](درمختار)
مسئلہ ۲۵: روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک رقبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے مثلاً اس کے پاس نہ لونڈی غلام ہے، نہ اتنا مال کہ خریدے یا مال تو ہے مگر رقبہ میسر نہیں جیسے آج کل یہاں ہندوستان میں، تو پے درپے ساٹھ روزے رکھے، یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ ۶۰ مساکین کو بھر بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلائے اور روزے کی صورت میں اگر درمیان میں
ایک دن کا بھی چھوٹ گیا تو اب سے ساٹھ ۶۰ روزے رکھے، پہلے کے روزے محسوب نہ ہوں گے اگرچہ اُنسٹھ ۵۹ رکھ چکا تھا، اگرچہ بیماری وغیرہ کسی عذر کے سبب چُھوٹا ہو، مگر عورت کوحیض آجائے تو حیض کی وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے نہیں شمار کیے جائیں گے یعنی پہلے کے روزے اور حیض کے بعد والے دونوں مِل کر ساٹھ ۶۰ ہو جانے سے کفارہ ادا ہوجائے گا۔ [27] (کتب کثیرہ)
مسئلہ ۲۶: اگر دو روزے توڑے تو دونوں کے لیے دو کفارے دے، اگرچہ پہلے کا ابھی کفارہ نہ ادا کیا ہو۔ [28](ردالمحتار) یعنی جب کہ دونوں دو رمضان کے ہوں اور اگر دونوں روزے ایک ہی رمضان کے ہوں اور پہلے کا کفارہ ادا نہ کیا ہو تو ایک ہی کفارہ دونوں کے لیے کافی ہے۔ [29] (جوہرہ)
کفارہ کے متعلق دیگر جزئیات کتاب الطلاق باب الظہار میں اِنْ شَاءَ اﷲ تَعَالٰی معلوم ہوں گی۔
مسئلہ ۲۷: آزاد و غلام، مرد و عورت، بادشاہ وفقیر سب پر روزہ توڑنے سے کفارہ واجب ہوتا ہے، یہاں تک کہ باندی کو اگر معلوم تھا کہ صبح ہوگئی اُس نے اپنے آقا کو خبر دی کہ ابھی صبح نہ ہوئی اس نے اس کے ساتھ جماع کیا تو لونڈی پرکفارہ واجب ہوگا اور اُس کے مولیٰ پر صرف قضا ہے کفارہ نہیں۔ [30] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۹۱تا ۹۹۵)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۴۲ ۔ ۴۴۶.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۶.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۱.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۶.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱.
[7] ۔۔۔۔۔۔ یعنی سخت مار۔
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۰.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۴۶.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم... إلخ، مطلب في حکم الاستمناء بالکف، ج۳، ص۴۳۱، وغیرہ.
[11] ۔۔۔۔۔۔ یعنی بزرگ۔
[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۶.
[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۴۰.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في جواز الإفطار بالتحري، ج۳، ص۴۴۴ ۔ ۴۴۵
[15] ۔۔۔۔۔۔''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۱. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۲، ۲۰۵.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۱.
[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۲، ۲۰۵.
[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۲، ۲۰۵.
[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۵۳.
[20] ۔۔۔۔۔۔
[21] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۳.
[22] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۵، وغیرہ.
[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد، ج۱، ص۲۰۵.
[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۰۶.
[25] ۔۔۔۔۔۔ یعنی کفارہ کی ضرورت نہیں
[26] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج۳، ص۴۴۸.
[27] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في الکفارۃ، ج۳، ص۴۴۷. و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۰، ص۵۹۵،وغیرہما.
[28] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في الکفارۃ، ج۳، ص۴۴۹.
[29] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۲.
[30] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في الکفارۃ، ج۳، ص۴۴۷.
Comments