(39)…غَضَب لِلنَّفْس
غضب للنفس کی تعریف:
اپنے آپ کو تکلیف سے دور کرنے یا تکلیف ملنے کے بعد اس کا بدلہ لینے کے لیے خون کا جوش مارنا ’’غضب‘‘ کہلاتا ہے۔اپنے ذاتی انتقام کے لیے غصہ کرنا ’’غضب للنفس‘‘ کہلاتا ہے۔[1] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۴)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴))(پ۴، آل عمران: ۱۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: ’’وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۴،۲۶۵)
حدیث مبارکہ، غصہ نہ کیا کرو:
ایک شخص نے رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! مجھے کوئی مختصر عمل بتائيے؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘ اس نے دوبارہ یہی سوال کیاتو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۵)
غضب للنفس کا حکم:
غضب للنفس (نفس کے لیے غصہ) مذموم ہے۔ مطلق غصہ مذموم وبرانہیں بلکہ ایک لازمی امرہے کیونکہ اس کے ذریعے انسان کی دنیا و آخرت کی حفاظت ہوتی ہے ۔ مثلاً حق کے اظہاراورباطل کے مٹانے کے لئے شجاعت وبہادری ہونایہ عقلاً ، شرعاً اورعرفاً ہرطرح جائز ہے ۔البتہ غیر شرعی اور اپنے ذاتی انتقام کے لیے غصے پر عمل کرنا حرام ہے۔[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۵)
کیا غصہ مطلق حرام ہے؟
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۴۸۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’بیانات عطاریہ (حصہ دوم)‘‘ میں شیخ طریقت امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریری بیان ’’غصے کا علاج‘‘ صفحہ ۱۷۳ پرہے: ’’عوام میں یہ غلط مشہور ہے کہ غصہ حرام ہے۔ غصہ ایک غیر اختیاری امر ہے، انسان کو آہی جاتا ہے، اس میں اس کا قصور نہیں ، ہاں غصہ کا بے جا استعمال برا ہے، بعض صورتوں میں غصہ ضروری بھی ہے ، مثلاً جہاد کے وقت اگر غصہ نہیں آئے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دشمنوں سے کس طرح لڑیں گے؟ بہرحال غصے کا ازالہ (یعنی اس کا نہ آنا) ممکن نہیں ، ’’امالہ‘‘ ہونا چاہیے یعنی غصہ کا رُخ دوسری طرف پھر جانا چاہیے۔ مثلا کوئی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے پہلے بری صحبت میں تھا، غصہ کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی نے ہاں کا ناں کہہ دیا تو آپے سے باہر ہوگیا اور گالیوں کی بوچھاڑ کردی، کسی نے بدتمیزی کردی تو اٹھا کر تھپڑ جڑ دیا۔ مطلب کوئی بھی کام خلاف مزاج ہوا، غصہ آیا تو صبر کرنے کے بجائے نافذ کردیا۔ جب اسے خوش قسمتی سے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر آگیا اور دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلوں میں سفر کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں اور غصہ امالہ ہوگیا یعنی رخ بدل گیا یعنی اب بھی غصہ تو باقی ہے مگر اس کا رخ یوں تبدیل ہوا کہ اسے اللہ ورسول اور صحابہ واولیاء عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دشمنوں سے بغض ہوگیا مگر خود اس کی اپنی ذات کو کوئی کتنا ہی برا بھلا کہے غصہ دلائے مگر صبر کرتاہے ، دوسروں پر بپھرنے کے بجائے خود اپنے نفس پر غصہ نافذ کرتا ہے کہ تجھے گناہ نہیں کرنے دوں گا۔ الغرض غصہ تو ہے مگر اب اس کا امالہ ہوگیا یعنی رخ بدل گیا جو کہ آخرت کے لیے انتہائی مفید ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۶،۲۶۷)
امیر اہلسنت کے بیان کردہ غصے کے تیرہ علاج:
شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریری بیان ’’غصے کا علاج‘‘ صفحہ ۳۰ پر ہے: ’’جب غصہ آجائے تو ان میں سے کوئی بھی ایک یا ضرورتاً سارے علاج فرمالیجئے:(1) ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھیے۔‘‘ (2)’’ وَلا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم الا باللہ العلی العظیم الا باللہ العلی العظیم اِلَّا بِاللہِ پڑھیے۔‘‘ (3)’’چپ ہوجائیے۔‘‘ (4)’’وضو کرلیجئے۔‘‘ (5)’’ناک میں پانی چڑھائیے۔‘‘ (6)’’کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے۔‘‘ (7)’’بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے اورزمین سے چپٹ جائیے۔‘‘ (8)’’اپنے خد (یعنی گال) کو زمین سے ملا دیجئے (وضو ہوتو سجدہ کرلیجئے) تاکہ احساس ہو کہ میں خاک سے بنا ہوں لہٰذا بندے پر غصہ کرنا مجھے زیب نہیں دیتا۔‘‘[4](9)’’جس پر غصہ آرہا ہے اس کے سامنے سے ہٹ جائیے۔‘‘ (10) ’’سوچئے کہ اگر میں غصہ کروں گا تو دوسرا بھی غصہ کرے گا اور بدلہ لے گا اور مجھے دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔‘‘ (11) ’’اگر کسی کو غصے میں جھاڑ وغیرہ دیا تو خصوصیت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگئے اس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غصہ نافذ کرتے وقت اپنی ذلت یاد آئے گی اور ہوسکتا ہے یوں کرنے سے غصے سے خلاصی مل جائے۔‘‘ (12)’’یہ غور کیجئے کہ آج بندے کی خطا پر مجھے غصہ چڑھا ہے اور میں درگزر کرنے کے لیے تیار نہیں حالانکہ میری بے شمار خطائیں ہیں اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ غضب ناک ہوگیا اور مجھے معافی نہ دی تو میرا کیا بنے گا؟‘‘ (13)’’کوئی اگر زیادتی کرے یا خطا کر بیٹھے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آنے پر ذہن بنائے کہ کیوں نہ میں معاف کر کے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے؟ وہ کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔‘‘ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘[5] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۶۹،۲۷۰)
[1] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الثامن عشر ۔۔۔الخ،ج۱،ص۶۳۵ماخوذا۔
[2] ۔۔۔۔ بخاری، کتاب الادب، باب الحذرمن الغضب، ج۴، ص۱۳۱، حدیث :۶۱۱۶۔
[3] ۔۔۔۔ الحدیقہ الندیۃ،التاسع عشر۔۔۔الخ،ج۱،ص۶۳۵ماخوذا۔
[4] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، ج۳، ص۳۸۸۔
[5] ۔۔۔۔ معجم اوسط، من اسمہ احمد، ج۱، ص۵۴۲، حدیث: ۱۹۹۸۔
Comments