(9)…تعظیم اُمراء
تعظیم اُمَرَاء کی تعریف:
تعظیم اُمَرَاء یعنی حکمرانوں اور دولت مندوں کی تعظیم کرنا۔ امیروکبیر لوگوں کی وہ تعظیم جو محض اُن کی دولت وامارت کی وجہ سے ہو تعظیم اُمَرَاء کہلاتی ہے جو قابل مذمت ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۲)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸))(پ۱۵، الکھف: ۲۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔‘‘
مُفَسِّرِ شَھِیر، حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان ’’نورالعرفان‘‘ میں اِس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :’’اِس میں قیامت تک کے مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ غافِلُوں ، مُتَکَبِّرُوں ، رِیاکاروں ، مال داروں کی نہ مانا کریں ، مُخْلِص صالِح غُرَباَء ومَسَاکِین مسلمانوں کی اِطاعت کیا کریں۔ اِن مالداروں کی بات ماننا دنیا و دین برباد کردیتا ہے۔ اسی لیے اکثر انبیاء اولیاء غُرَباَء میں ہوئے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۲،۹۳)
حدیث مبارکہ،جہنم کی خطرناک وادی سے پناہ:
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جُبُّ الْحُزْن سے پناہ مانگو۔‘‘ پوچھا گیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! جُبُّ الْحُزْن کیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’یہ جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم بھی دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے۔‘‘ پوچھا گیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟‘‘ فرمایا: ’’اس میں ریاکار قراء (اہل علم) کو ڈالا جائے گا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں بہت مَبْغُوض (قابل نفرت) قرَّاء (اہل علم) وہ ہیں جو امیر لوگوں سے (ان کی امیری اور طلب مال کے لیے) ملاقات کرتے ہیں۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۳،۹۴)
تعظیم اُمراء کے بارےمیں تنبیہ:
امیرلوگوں کے مال ودولت اور ان کی امارت کی وجہ سے ان کی تعظیم کرنا نہایت ہی مذموم وقبیح کام ہے، ہر مسلمانوں کو اُس برے فعل سے بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۴)
تعظیم اُمراء کے چار اسباب اور ان کا علاج:
(1)… تعظیم اُمراء کا پہلا اور سب سے بڑا سبب مال ودولت کی حرص ہےکہ عموماً بندہ امیر لوگوں کی تعظیم ان کے مال واسباب کو حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مال ودولت کی غیر ضروری محبت کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ اس سے بندے کا سکون تباہ وبرباد ہوجاتاہے، نیز نیکیوں سے بھی دوری ہوجاتی ہے، بسا اوقات بندہ گناہوں کے دلدل میں جاپھنستا ہے، مال ودولت کی محبت بسا اوقات تکبر اور حسد جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ مال کو فتنہ فرمایا گیا ہے، مال ودولت حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غفلت کا بہت بڑا سبب ہے جو دنیا وآخرت کی تباہی وبربادی کی طرف لے جانے والی ہے۔
(2)… تعظیم اُمراء کا دوسرا سبب حب جاہ ہےکہ بندہ امیر لوگوں کی تعظیم وتکریم اس لیے کرتا ہے کہ ان سے اسے کوئی منصب یا مرتبہ وغیرہ مل جائے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب جاہ کی تبارہ کاریوں پر غور کرے کہ جاہ ومنصب کی چاہت و خواہش اچھی نہیں بلکہ یہ تو ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ جو بندہ حب جاہ کے مرض میں مبتلاہوجاتا ہے وہ کہیں کا رنہیں رہتا، بزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اس سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔
(3)… تعظیم اُمراء کا تیسرا سبب طلب شہرت ہے کہ عموماً امیر لوگ مشہور ومعروف ہوتے ہیں اس لیے بندہ ان کی تعظیم وتکریم بجا لاتا ہے تاکہ ان کے ساتھ ساتھ اسے بھی شہرت مل جائے۔ اس کا علاج بھی یہی ہے کہ بندہ طلب شہرت کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ طلب شہرت ایک موذی مرض ہے، بسا اوقات طلب شہرت کے لیے بندہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کربیٹھتا ہے، طلب شہرت کے سبب بندہ جھوٹ، غیبت ، چغلی اور وعدہ خلافی جیسے امراض میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔الغرض طلب شہرت ایک نہایت ہی مذموم اور قبیح امر ہے۔
(4)… تعظیم اُمراء کا چوتھا سبب شاہانہ طرزِ زندگی کا حصول ہے کہ بندہ تعظیم اُمراء اس لیے کرتا ہے تاکہ ان جیسی شاہانہ طرز زندگی حاصل کرسکے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قارون جیسے دولت مندوں ، بادشاہوں اور ایسے امیروکبیر لوگوں کے انجام پر غور وفکر کرے جو زمین پر اکڑ کر چلتے تھے مگر اُن کا انجام بہت بھیانک ہوا۔ آہ! آج ایسے لاکھوں لوگ منوں مٹی کے نیچے بے سروسامان دفن ہوچکے ہیں بلکہ کئی لوگ تو ایمان کی بربادی کے سبب عذاب قبر سے دوچار ہوں گے۔بندہ ہمیشہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے اپنے آپ کو ڈراتا رہے اور ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا رہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۹۵،۹۶)
[1]۔۔۔۔نورالعرفان، پ۱۵، الکہف، تحت الآیہ:۲۸۔
…..[2] ابن ماجہ،کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ج۱، ص۱۶۶ ، حدیث: ۲۵۵۔ مرقاۃ، کتاب العلم، الفصل الثالث، ج۱، ص۵۳۰، تحت الحدیث: ۲۷۵۔
Comments