(1)… ریا کاری
’’ ریاکاری ‘‘کی تعریف:
’’ریاء‘‘ کے لغوی معنی ’’دکھاوے‘‘ کے ہیں۔شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’نیکی کی دعوت‘‘ ص۶۶پر ریاکاری کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں : ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا۔‘‘ گویا عبادت سے یہ غَرَض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۷)
آیت مبارکہ:
اللہ ربُّ العزت قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴))(پ۲، البقرۃ: ۲۶۴) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کر دو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نِرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا ۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی اِس آیت مبارکہ کے تحت ’’خزائن العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’یعنی جس طرح منافق کو رضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی وہ اپنا مال ریا کاری کے لئے خرچ کرکے ضائع کردیتا ہے اس طرح تم اِحسان جَتَا کر اور اِیذاء دے کر اپنے صدقات کا اَجْرْ ضائع نہ کرو۔یہ (یعنی مذکورہ آیت مبارکہ) منافق ریا کار کے عمل کی مثال ہے کہ جس طرح پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن بارش سے وہ سب دور ہو جاتی ہے خالی پتھر رہ جاتا ہے یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روز قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے نہ تھے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸،۲۹)
حدیث مبارکہ، ریاء شرک اصغر ہے:
اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ’’مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر ریاء یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دیتے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو؟‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹)
ریاکار حافظ ،عالم،شہید اورصدقہ کرنے والے کا انجام:
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان پر(اپنی شان کے مطابق) تجلی فرما ئے گا، اس وقت ہر اُمت گھٹنوں کے بل کھڑی ہو گی۔ سب سے پہلے جن لوگوں کو بلایا جائے گا ان میں ایک قرآن کریم کا حافظ، دوسرا راہِ خدا میں مارا جانے والا شہیداور تیسرا مالدار ہو گا۔
٭…اللہ عَزَّ وَجَلَّ حافظ سے ارشاد فرمائے گا:’’کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر اُتاراہوا کلام نہیں سکھایا تھا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،اے ربّ عَزَّ وَجَلَّ ۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’پھر تُو نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’یاربّ عَزَّ وَجَلَّ ! میں دن رات اسے پڑھتا رہا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تیرے بارے میں یہ کہیں کہ فلاں شخص قاری قرآن ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘
٭…پھرمالدار کو لایا جائے گا تواللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’کیا میں نے تجھ پر اپنی نعمتوں کو اتنا وسیع نہ کیا کہ تجھے کسی کا محتا ج نہ ہونے دیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،اے ربّ عَزَّ وَجَلَّ ۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو نے میرے عطا کردہ مال کا کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا اور تیری راہ میں صدقہ کیا کرتا تھا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہاجائے کہ فلاں بہت سخی ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘
٭… پھر راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں مارے جانے والے کو لایا جائے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا : ’’تجھے کیوں قتل کیا گیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا تو میں تیری راہ میں لڑتا رہا اور بالآخر اپنی جان دے دی۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرامقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہا جائےکہ فلاں بہت بہادر ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیاگیا۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو ہریرہ! یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کے وہ پہلے تین افراد ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کو بھڑکایا جائے گا ۔ ‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۹تا۳۱)
ریاکاری کا حکم:
حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’رِیا کے بہت دَرَجے ہیں ، ہر دَرَجے کا حکم علیحدہ ہے، بعض رِیا شرک ِاَصغر ہیں ، بعض ریا حرام ،بعض ریا مکروہ، بعض ثواب، مگر جب رِیا مطلقاً بولی جاتی ہے تو اس سے ممنوع رِیا مراد ہوتی ہے۔‘‘ [3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱)
ریاکاری کے دس علاج:
(1)…پہلا علاج: ’’اللہ تعالٰی سے مدد طلب کیجئے۔‘‘بارگاہ رب العزت میں یوں دعا کیجئے:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے ریاکاری کی بیماری سے شفا عطافرما،میری خالی جھولی کو اخلاص کی عظیم دولت سے بھر دے ،میرا سامنا اس دشمن (یعنی شیطان) سے ہے جو مجھے دیکھتا ہے مگر خود دکھائی نہیں دیتا لیکن تُو اس کو ملاحظہ فرما رہا ہے اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے اس دشمن کے مکروفریب سے بچا لے ،اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا حال بہت اچھا ہو وہ مجھے نیک اور پرہیز گار سمجھیں مگر تیری بارگاہ میں سزاکا حقدار ٹھہروں۔
(2)…دوسرا علاج: ’’ریاکاری کے نقصانات پیشِ نظر رکھئے۔‘‘کیونکہ آدمی کا دل کسی چیز کو اس وقت تک پسند کرتا ہے جب تک وہ اسے نفع بخش اور لذیذ نظر آتی ہے مگر جب اسے اس شے کے نقصان دہ ہونے کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس سے بچتا ہے۔ ریاکاری کے چند نقصانات یہ ہیں : ریاکار کا عمل ضائع ہوجاتا ہے، ریاکار شیطان کا دوست ہے، جہنم کی وادی ریاکار کا ٹھکانہ ہوگی، ریاکار کے تمام اعمال برباد ہوجائیں گے، کل بروز قیامت اسے شدید حسرت ہوگی، ریاکار کو ذلت ورسوائی کا عذاب دیا جائےگا، ریاکارپر جنت حرام ہے، ریاکار زمین وآسمان میں ملعون ہے۔ وغیرہ وغیرہ
(3)…تیسرا علاج: ’’اَسباب کا خاتمہ کیجئے۔‘‘کیونکہ ہربیماری کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جب وہ سبب ہی ختم ہوجائے تو بیماری بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہے، ریاکاری کے تین اسباب ہیں : تعریف کی خواہش، مذمت کا خوف اور مال ودولت کی حرص۔
(4)…چوتھا علاج: ’’اِخلاص اپنا لیجئے۔‘‘کیونکہ جس طرح کپڑے کے میل کچیل صاف کرنے کے لیے اعلی قسم کا صابن یا سرف استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح ریاکاری کی گندگی سے اپنے دل کو صاف کرنے کے لیے اِخلاص کا صابن درکار ہے، اِخلاص ریاکاری کی ضد ہے۔
(5)…پانچواں علاج: ’’ نیّت کی حفاظت کیجئے۔‘‘کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیت دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں اور شرعاً عبادت کے ارادے کو نیت کہا جاتا ہے، یاد رکھیے جتنی نیتیں زیادہ اتنا ثواب زیادہ، لہٰذا ہر جائز کام سے قبل اچھی اچھی نیتیں کرلیجئے تاکہ عمل کے ساتھ ساتھ ثواب کا خزانہ بھی ہاتھ آجائے۔
(6)…چھٹا علاج: ’’دورانِ عبادت شیطانی وسوسوں سے بچئے۔‘‘کیونکہ شیطان ہمارا ازالی دشمن ہے جو مسلسل ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، لہٰذا ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ سے شیطانی وَساوِس سے بچتے رہنے کی ہروقت دعا کرتے رہیں۔
(7)…ساتواں علاج: ’’تنہائی ہویا ہجوم یکساں عمل کیجئے۔‘‘یعنی جس خشوع وخضوع کے ساتھ لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اسی انداز کو تنہائی میں بھی قائم رکھیں اور جس کام کو لوگوں کے سامنے کرنے سے جھجکتے ہیں تنہائی میں بھی وہ کام نہ کیا کریں۔
(8)…آٹھواں علاج: ’’نیکیاں چھپائيے۔‘‘حَتَّی الْاِمْکَاناپنی نیکیوں کو اسی طرح چھپائیں جس طرح اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں اور اسی پر قناعت کریں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری نیکی کو جانتا ہے بالخصوص پوشیدہ نیکی کرنے کے بعد نفس کی خوب نگرانی کریں کہ عموماً پوشیدہ نیکی کے بعد وہ اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے پر زیادہ اُبھارتا ہے۔
(9)…نواں علاج: ’’اچھی صحبت اختیار کیجئے۔‘‘ہر صحبت اپنا اثر رکھتی ہے، اچھی صحبت اچھا اور بُری صحبت بُرا۔ اچھی صحبت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کا مدنی ماحول بھی ہے، آپ بھی اس مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، اپنے شہر میں ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں پابندی وقت کے ساتھ شرکت کیجئے، مدنی انعامات پر عمل کی کوشش کیجئے، مدنی قافلوں میں جدول کے مطابق سفر کو اپنا معمول بنائیے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس مدنی ماحول کی برکت سے پابند سنت بننے، گناہوں بالخصوص ریاکاری سے بچنےاور نیکیوں کے لیے کڑھنے کا مدنی ذہن بنے گا۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
(10)…دسواں علاج: ’’اَورادووَظائِف کا مَعْمُول بنا لیجئے۔‘‘ریاکاری کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے مذکورہ اُمور کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی کیجئے۔ مثلاً جب بھی دل میں ریاکاری کا خیال آئے تو اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ایک بار پڑھنے کے بعد اُلٹے کندھے کی طرف تین بار تھو تھو کردیجئے۔سورۂ اخلاص گیارہ بار صبح (آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صبح ہے) پڑھنے والے پر اگر شیطان مع لشکر کے کوشش کرے کہ اس سے گناہ کرائے تو بھی اس سے گناہ نہ کرا سکے جب تک یہ خود نہ کرے۔ ’’سورۃ الناس ‘‘پڑھ لینے سے بھی وسوسے دُور ہوتے ہیں۔ ریاکاری کے اِن دس علاج کی مزید تفصیل کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۵ صفحات پر مشتمل کتاب ’’ریاکاری‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۳تا۳۶)
[1]۔۔۔۔مسند احمد ،حدیث محمود بن لبید،ج۹،ص۱۶۰، حدیث:۲۳۶۹۲۔
[2] ۔۔۔۔۔ترمذی، کتاب ابواب الزھد، باب ماجاء فی الریاء والسمعۃ، ج۴، ص۱۶۹، حدیث:۲۳۸۹۔
[3] ۔۔۔۔۔مرآۃ المناجیح، ج۷، ص۱۲۷۔
Comments