طمع

(25)طمع(لالچ)

طمع (لالچ) کی تعریف:

کسی چیز میں حد ردرجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۰)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶)) (پ۲۸، الحشر: ۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۰)

حدیث مبارکہ، طمع یعنی لالچ سے بچتے رہو:

حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عَمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۰)

طمع (لالچ) کے بارے میں تنبیہ:

مال ودولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو ، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے، نہایت ہی قبیح ، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو اِن کے مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۹۱)


[1] ۔۔۔۔ مفردات الفاظ القرآن،ص۵۲۴۔

[2] ۔۔۔۔ ابو داود،کتاب الزکاۃ،باب فی الشح، ج۲، ص۱۸۵، حدیث: ۱۶۹۸۔

Share