حُسنِ اَخلاق

(5)حُسنِ اَخلاق

حسن اَخلاق کی ایک پہلو کے اعتبار سے تعریف:

’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’رویہ، برتاؤ، عادت‘‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:

’’اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے اَفعال ادا ہوں تو اسے حسن اَخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے اَفعال ادا ہوں تو اسے بداَخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔‘‘[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۴۹)

حسن اَخلاق میں شامل نیک اعمال:

حقیقت میں حسن اَخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس میں کئی نیک اعمال شامل ہیں چند اعمال یہ ہیں:معافی کو اختیار کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا،جاہلوں سے اعراض کرنا، قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا،محروم کرنے والے کو عطا کرنا،ظلم کرنے والے کو معاف کردینا،خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا،کسی کو تکلیف نہ دینا،نرم مزاجی، بردباری، غصے کے وقت خود پر قابو پالینا، غصہ پی جانا، عفو ودرگزر سے کام لینا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا، مسلمان بھائی کے لیے مسکرانا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا، لوگوں میں صلح کروانا، حقوق العباد کی ادائیگی کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا، دعائے مغفرت کرنا، کسی کی پریشانی دور کرنا، کمزوروں کی کفالت کرنا، لاوارث بچوں کی تربیت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، علماء کا ادب کرنا، مسلمانوں کو کھانا کھلانا، مسلمانوں کو لباس پہنانا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا ، مشقتوں کو برداشت کرنا، حرام سے بچنا، حلال حاصل کرنا، اہل وعیال پر خرچ میں کشادگی کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔مزید تفصیل کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ ’’حسن اخلاق‘‘ اور ’’احیاء العلوم‘‘جلدسوم، صفحہ۱۵۳ تا ۱۶۴ کا مطالعہ کیجئے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۰)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴))(پ۲۹، القلم: ۴)ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے ۔‘‘اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:حضرت اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خُلْق قرآن ہے ۔ حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللہ تَعَالٰی نے مجھے مَکارِمِ اَخلاق و محاسنِ افعال کی تکمیل وتتمیم (مکمل وپورا کرنے)کے لئے مبعوث فرمایا ۔[2]

ترے خُلْق کو حق نے عظیم کہا

تر ی خِلْق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا!

تیرے خالق حسن و ادا کی قسم(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۰،۵۱)

(حدیث مبارکہ) میزان عمل میں سب سے وزنی شے:

حضرتِ سیِّدُناابودَرْداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ، راحت قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ باقرینہ ہے: ’’ قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہو گی۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۱)

حسن اَخلاق کا حکم:

حسن اخلاق کے مختلف پہلو ہیں اسی وجہ سے بعض صورتوں میں حسن اخلاق واجب، بعض میں سنت اور بعض صورتوں میں مستحب ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۱)

حسن اَخلاق اپنانے کے دس (10)طریقے:

(1)اچھی صحبت اِختیار کیجئے:کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جو بندہ جیسی صحبت اختیار کرتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے، بداَخلاقوں کی صحبت بدخلق اور حسن اَخلاق والوں کی صحبت حسن اَخلاق والا بنادیتی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی بھی اچھا ماحول فراہم کرتی ہے، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں حسن اَخلاق سکھایا جاتا ہے، بداَخلاقی سے بچایا جاتا ہے، ہزاروں ایسے لوگ جو اپنی بداَخلاقی کی وجہ سے معاشرے میں بدنام تھے، دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوئے، حسن اَخلاق کا تاج سر پر سجایا اور آج وہی لوگ دوسروں کو حسن اَخلاق کا درس دیتے نظر آتے ہیں، آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، حسن اَخلاق کو اپنائیے، بداَخلاقی کو دور بھگائیے اور رحمت الٰہی سے اجرکثیر پائیے۔

(2) حسن اَخلاق کے فضائل کا مطالعہ کیجئے: جب کسی چیز کے فضائل پیش نظر ہوں تو اسے اپنانا آسان ہوجاتا ہے، حسن اخلاق کی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتب علامہ طبرانی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب مکارم الاخلاق ترجمہ بنام حسن اَخلاق، حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیکی مایہ ناز تصانیف احیاء العلوم، جلدسوم اور مکاشفۃ القلوب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3)بداَخلاقی کی دُنیوی واُخروی برائیوں پر غور کیجئے:کہ بداَخلاق شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں، اُس سے دور بھاگتے ہیں، اُسے دُنیوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے، بداَخلاق شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں، بندہ بُرے اَخلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچ سکتاہے، بداَخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیبت میں بھی مبتلا کرلیتا ہے، بداَخلاق شخص ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل استعمال نہیں ہوتا۔[4]

(4)حسن اَخلاق میں شامل نیک اَعمال کی معلومات حاصل کیجئے: جب تک بندے کو ایسے نیک اعمال کی معلومات نہیں ہوگی جو حسن اَخلاق میں شامل ہیں تو اس وقت تک حسن اَخلاق کو اختیار کرنا دشوار ہوگا۔ اوپر حسن اَخلاق کی تعریف کے بعد تقریباً تیس (۳۰)سے زائد ایسے نیک اعمال بیان کیے گئے ہیں جو حسن اَخلاق میں شامل ہیں۔

(5)دِل میں احترامِ مسلم پیدا کیجئے: جب بندے کے دل میں مسلمانوں کا احترام پید اہوگا تو خو د بخود اُن کے ساتھ حسن اَخلاق سے پیش آئے گا، اِحترامِ مسلم پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے بندہ خود سے تمام لوگوں کو اچھا جانے، اپنے آپ کو بڑا گنہگار سمجھے، عاجزی واِنکساری اختیار کرے، یوں احترامِ مسلم پیدا ہوگا اور حسن اَخلاق کی دولت نصیب ہوگی۔اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَل

(6)نفسانی خواہشات سےپرہیز کیجیے:‏بسا اوقات ذاتی رَنجش، ناپسندیدگی اور ناراضی کی بناء پرنفس اپنے غصے کا اِظہار غیبت، گالی گلوچ ،چغلی وغیر ہ جیسی بداَخلاقی کی بدترین قسموں سے کرواتا ہے جو حسن اَخلاق کی بدترین دشمن ہیں، لہٰذا نفسانی خواہشات سے پرہیز کیجئے تاکہ حسن اَخلاق کی دولت نصیب ہو۔

(7)حسن اَخلاق کی بارگاہِ اِلٰہی میں دعا کیجئے:کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دو دعائیں پیش خدمت ہیں:’’اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے اخلاق کو بھی اچھا کردے۔‘‘[5]’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعَافِیَۃَ وَ حُسْنَ الْخُلُق یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میں تجھ سے صحت، عافیت اور اچھے اخلاق کا سوال کرتا ہوں۔‘‘[6]

(8)بُرائی کا جواب اچھائی سے دیجیے:‏ برائی کا جواب بھلائی سے دینے کوافضل اَخلاق میں شمار کیا گیا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے": ’’دنیا و آخرت کے افضل اَخلاق میں سے یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو۔‘‘[7]

(9)بد اَخلاقی کے اَسباب کو دُور کیجئے: بداَخلاقی حسن اَخلاق کی ضد ہے، جب بداَخلاقی دور ہوجائے گی تو حسن اَخلاق خود ہی پیدا ہوجائے گا۔ بداَخلاقی کا ایک سبب گھر کا ماحول اچھا نہ ہونا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ دعوت اسلامی سے وابستہ ہوجائیے، حکمت عملی کے ساتھ گھر میں مدنی ماحول بنائیے، فحاشی وعریانی والے چینلز کو بند کرکے مدنی چینل کو بسائیے، اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَل مدنی چینل آپ کی آپ کے گھر والوں کی، بچوں کی، والدین اور دیگر رشتہ داروں کی ایسی مدنی تربیت کرے گا، جس سے حسن اَخلاق پیدا کرنے میں آسانی ہوگی۔بداَخلاقی کا ایک سبب منصب یا عہدے کا چھن جانابھی ہے کہ جب بندے سے کوئی منصب یا عہدہ چھین لیا جائے تو بسااوقات وہ بداَخلاق ہوجاتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ کسی بھی منصب کو مستقل اور دائمی نہ سمجھے ، بلکہ اپنا یوں مدنی ذہن بنائے کہ مجھے تو دنیا میں بھی مخصوص مدت تک رہنا ہے تو یہ منصب ہمیشہ کیسے رہے گا، جب پہلے سے ہی منصب کے ہمیشہ نہ رہنے کا ذہن ہوگا تو اس کے چھن جانے پر افسوس بھی نہ ہوگا اور بداَخلاقی بھی پیدا نہ ہوگی۔اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَل بسا اَوقات ضرورت سے زائد مالداری بھی بداَخلاقی کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لیے کمائےاور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کی تیاری کرے، اَعمالِ صالحہ بجالائے، رضائے الٰہی والے کام کرے۔

(10)بلا وجہ غصہ چھوڑ دیجیے:بلا وجہ غصہ بہت ساری برائیوں کی جڑ اورکئی خامیوں کی بنیا د ہے، جب بندہ بلا وجہ غصہ کرتا ہے تو بداَخلاقی کا شکار ہوجاتا ہے، بلا وجہ غصے کو چھوڑ دینا ہی اچھے اخلاق کی علامت ہے۔ حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی گئی کہ ’’ایک جملے میں بتائیے کہ اچھے اَخلاق کیا ہیں؟‘‘ ارشاد فرمایا:’’(بلا وجہ) غصے کو چھوڑدینا ۔‘‘[8] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۵۳تا۵۶)


[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۳ / ۱۶۵۔

[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۹، القلم، تحت الآیۃ: ۴۔

[3] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی حسن الخلق، ۳ / ۴۰۳،حدیث:۲۰۰۹۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۳ / ۱۶۰ ماخوذا۔

[5] ۔۔۔۔شعب الایمان، باب فی حسن الخلق، ۶ / ۳۶۴، حدیث: ۸۵۴۲۔

[6] ۔۔۔۔مجمع الزوائد، کتاب الادعیۃ، باب الاجتھاد فی الدعا، ۱۰ / ۲۷۴، حدیث: ۱۷۳۶۷۔

[7] ۔۔۔۔شعب الایمان، باب فی صلۃ الارحام،۶ / ۲۲۲، حدیث: ۷۹۵۹۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۵۰۸۔

Share