احکام فقہیّہ
مسئلہ ۱: ہر مکلّف یعنی عاقِل بالغ پر نما ز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔ اور جو قصداً چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسِق ہے اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ ائمۂ ثلٰثہ مالک و شافعی و احمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کے نزدیک سلطانِ اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے۔ [1] (درمختار )
مسئلہ ۲: بچّہ کی جب سات برس کی عمر ہو، تو اسے نماز پڑھنا سکھایا جائے اور جب دس برس کا ہو جائے، تو مار کر پڑھوانا چاہیے۔[2](ابو داود و ترمذی)
مسئلہ ۳: نماز خالص عبادتِ بدنی ہے، اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی یعنی ایک کی طرف سے دوسرا نہیں پڑھ سکتا نہ یہ ہو سکتا ہے کہ زندگی میں نماز کے بدلے کچھ مال بطورِ فدیہ ادا کر دے البتہ اگر کسی پر کچھ نمازیں رہ گئی ہیں اور انتقال کر گیا اور وصیت کر گیا کہ اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے تو ادا کیا جائے [3] اور امید ہے کہ اِنْ شَاءَ اﷲ تَعَالٰی قبول ہو اور بے وصیت بھی وارث اس کی طرف سے دے کہ امید قبول و عفو ہے۔[4] (درمختار و ردالمحتار و دیگر کتب)
مسئلہ ۴: فرضیت نماز کا سبب حقیقی امر الٰہی ہے اور سبب ظاہری وقت ہے کہ اوّل وقت سے آخر وقت تک جب ادا کرے ادا ہو جائے گی اور فرض ذمّہ سے ساقط ہو جائے گا اور اگر ادا نہ کی یہاں تک کہ وقت کا ایک خفیف جز باقی ہے تو یہی جز اخیر سبب ہے، تو اگر کوئی مجنون یا بے ہوش ہوش میں آیا یا حیض و نفاس والی پاک ہوئی یا صبی [5] بالغ ہوا یا کافر مسلمان ہوا اور وقت صرف اتنا ہے کہ اﷲ اکبر کہہ لے تو ان سب پر اس وقت کی نماز فرض ہوگئی اور جنون و بے ہوشی پانچ وقت سے زائد کو مستغرق نہ ہوں تو اگرچہ تکبیر تحریمہ کا بھی وقت نہ ملے نماز فرض ہے، قضا پڑھے۔ [6] (درمختار ) حیض و نفاس والی میں تفصیل ہے، جو باب الحیض میں مذکور ہوئی۔[7]
مسئلہ ۵: نابالغ نے وقت میں نماز پڑھی تھی اور اب آخر وقت میں بالغ ہوا، تو اس پر فرض ہے کہ اب پھر پڑھے یوہیں اگر معاذ اﷲ کوئی مرتد ہو گیا پھر آخر وقت میں اسلام لایا اس پر اس وقت کی نماز فرض ہے، اگرچہ اوّل وقت میں قبل ار تداد نماز پڑھ چکا ہو۔[8] (درمختار)
مسئلہ ۶: نابالغ عشا کی نماز پڑھ کر سویا تھا اس کو احتلام ہوا اور بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ فجر طلوع ہونے کے بعد آنکھ کھلی تو عشا کا اعادہ کرے اور اگر طلوع فجر سے پیشتر آنکھ کھلی تو اس پر عشا کی نماز بالاجماع فرض ہے۔ [9] (بحرالرائق)
مسئلہ ۷: کسی نے اوّل وقت میں نماز نہ پڑھی تھی اور آخر وقت میں کوئی ایسا عذر پیدا ہو گیا، جس سے نماز ساقط ہو جاتی ہے مثلاً آخر وقت میں حیض و نفاس ہو گیا یا جنون یا بے ہوشی طاری ہوگئی تو اس وقت کی نماز معاف ہوگئی، اس کی قضا بھی ان پر نہیں ہے، مگر جنون و بے ہوشی میں شرط ہے کہ علی الاتصال [10] پانچ نمازوں سے زائد کو گھیر لیں، ورنہ قضا لازم ہوگی۔ [11] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۸: یہ گمان تھا کہ ابھی وقت نہیں ہوا نماز پڑھ لی بعد نماز معلوم ہوا کہ وقت ہو گیا تھا نماز نہ ہوئی۔ [12] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ سوم،صفحہ۴۴۳، ۴۴۴)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''معہ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۶.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ،باب ماجاء متی یؤمرالصبي بالصلاۃ، الحدیث: ۴۰۷، ج۱، ص۴۱۶.
[3] ۔۔۔۔۔۔ نماز کا فدیہ ادا کرنے کا طریقہ ''بہارِ شريعت'' حصہ ۴ ''قضا نماز کا بیان'' ميں اور امير اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الياس
عطّار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ''نماز کے اَحکام'' صفحہ ۳۴۵ تا ۳۴۷ پر ملاحظہ فرمائيں۔
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب فيما يصير الکافر بہ مسلما من الأفعال، ج۲، ص۱۲.
[5] ۔۔۔۔۔۔ بچہ۔
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۳،۱۵.
[7] ۔۔۔۔۔۔ اگر پوری مدت ميں پاک ہوئی تو صرف اﷲ اکبر کہنے کی گنجائش وقت ميں ہونے سے نماز فرض ہوجائیگی اور اگر پوری مدت سے پہلے پاک =
= ہوئی يعنی حيض ميں دس دن سے پہلے اور نفاس ميں چاليس دن سے پہلے تو اتنا وقت درکار ہے کہ غسل کرکے کپڑے پہن کر اﷲ اکبر کہہ سکے غسل کرسکنے ميں مقدمات غسل، پانی لانا، کپڑے اُتارنا، پردہ کرنا بھی داخل ہيں۔ (ردالمحتار) ۱۲ منہ ۔
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۱۵.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''البحرالرائق''، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج۲، ص۱۵۹.
[10] ۔۔۔۔۔۔ لگاتار۔ ''بہارِ شريعت'' حصہ ۴، ''نمازِ مريض کا بيان'' ميں ہے: اگر کسی وقت ہوش ہوجاتا ہے تو اس کا وقت مقرر ہے يا نہيں اگر وقت مقرر ہے اور اس سے پہلے پورے چھ وقت نہ گزرے تو قضا واجب اور وقت مقرر نہ ہو بلکہ دفعتہ ہوش ہوجاتا ہے پھر وہی حالت پيدا ہوجاتی ہے تو اس افاقہ کا اعتبار نہيں يعنی سب بیہوشياں متصل سمجھی جائيں گی۔ (عالمگیری، درمختار)
[11] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، ج۱، ص۵۱. و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، مطلب فيما يصير الکافر بہ مسلما من الأفعال، ج۲، ص۱۴.
[12] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۳۶.
Comments