(36)…قِلَّتِ خَشِیَّت(خوف خدا کا کم ہونا)
قلت خشیت کی تعریف:
اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کے خوف میں کمی کو قلت خشیت کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۴۸)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(۱۲))(پ۲۹، الملک: ۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بے شک وہ جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۴۸)
حدیث مبارکہ، خوفِ خدا رزق اور عمرمیں اضافے کا سبب:
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنی عمرمیں اضافہ اور رزق میں کشادگی اور بری موت سے تحفّظ چاہتا ہے وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۴۸)
قلت خشیت کے بارے میں تنبیہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کا نہ ہونا یا کم ہونا نہایت ہی مہلک مرض ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف نہ ہونا یا خوف میں کمی ہونا بے باکی اور گناہوں پر جری کر دیتا ہے، ہر مسلمان کو اپنے دل میں ربّ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا کرنا چاہیےکہ قرآن پاک میں مومنین کو خوفِ خدا کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے: (وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵) (پ۴، آل عمران: ۱۷۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
صدرالافافضل مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحتفرماتے ہیں : ’’کیونکہ ایمان کا مُقْتَضَا ہی یہ ہے کہ بندے کو خدا ہی کا خوف ہو۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۴۹)
خوف خدا سے کیا مراد ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ’’خوفِ خدا ‘‘سے مرادیہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر،اس کی بے نیازی، اُس کی ناراضگی ، اس کی گرِفت (پکڑ)، ا س کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔ اے کاش !ہمیں حقیقی معنوں میں خوفِ خدا نصیب ہو جائے۔ آہ!آہ!آہ! ہم تو اپنے خاتِمے کے بارے میں اللہُ قدیر عَزَّ وَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر جانتے ہیں نہ کبھی جیتے جی جان سکیں گے ۔ زَبانِ رسالت سے جنّت کی بِشارت کی عظیم سعادت سے بہرہ مَند جنَّتی ہستیوں کے خوفِ خدا کی باتیں جب پڑھتے سنتے ہیں تو اپنی غفلت پر واقِعی حسرت ہوتی ہے۔چُنانچِہ پڑھئے اورکُڑھئے :
سات صحابہ کے رِقّت انگیز کلمات:
(1)امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک بار پرندے کو دیکھ کر فرمایا:’’اے پرندے! کاش ! میں تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نہ بنایا جاتا۔‘‘(2)حضرتِ سیِّدُنا ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا قول ہے:’’کاش! میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔‘‘(3)امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کرتے:’’ میں اس بات کو پسندکرتا ہوں کہ مجھے وفات کے بعد اُٹھایا نہ جائے۔‘‘(5،4)حضرتِ سیِّدُنا طَلْحہ اور حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرمایا کرتے :’’ کاش!ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے۔‘‘(6) ام المؤمنین حضرتِ سیِّدَتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرمایا کرتیں : ’’کاش!میں نَسْیًامَّنْسِیًّا (یعنی کوئی بُھولی بِسری چیز ) ہوتی۔‘‘ (7)حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کرتے: ’’کاش!میں راکھ ہوتا۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۰،۲۵۱)
قلت خشیت کے چھ علاج:
تبلیغ قران وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۶۰صفحات پر مشتمل کتاب ’’خوفِ خدا ‘‘ صفحہ ۲۳ سے قلت خشیت کے ۶ علاج پیش خدمت ہیں :
(1)…اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں قلت خشیت سے سچی تو بہ کرے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو اور خوفِ خدا کی نعمت کے حصول کے لیے دعا کرے کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہےاور دعا اس طرح کرے: ’’اے میرے مالک عَزَّ وَجَلَّ ! تیرا یہ کمزور وناتواں بندہ دنیا وآخرت میں کامیابی کے لئے تیرے خوف کو اپنے دل میں بسانا چاہتاہے۔ اے میرے ربّ عَزَّ وَجَلَّ ! میں گناہوں کی غلاظت سے لتھڑا ہوا بدن لئے تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہوں۔اے میرے پرورد گار عَزَّ وَجَلَّ !مجھے معاف فرمادے اور آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے کے لئے اس صفت کو اپنانے کے سلسلے میں بھرپور عملی کوشش کرنے کی توفیق عطافرمادے اور اس کوشش کو کامیابی کی منزل پر پہنچادے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یارب! میں تیرے خوف سے روتا رہوں ہر دم
دیوانہ شہنشاہِ مدینہ کا بنا دے
(2)…اپنی کمزوری و ناتوانانی کو سامنے رکھ کر جہنم کے عذابات پر غور و فکر کرے کہ آج دنیا میں چھوٹی سے تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو جہنم کے سخت عذابات کو کیسے برداشت کرسکیں گے حالانکہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے، دنیا کی آگ بھی جہنم کی آگ سے پناہ مانگتی ہے، دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر سانپ ہیں یہ سانپ ایک مرتبہ کسی کو کاٹے تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا۔ اور دوزخ میں پالان بندھے ہوئے خچروں کے مثل بچھو ہیں تو ان کے ایک مرتبہ کاٹنے کا دردچالیس سال تک رہے گا۔ وغیرہ وغیرہ
(3)…قرآن و حدیث میں موجود خوفِ خدا کے فضائل پیشِ نظر رکھے کہ جو ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور اس کے خوف کے سبب کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتوں کی بشارت ہے، دنیا میں خوف خدا رکھنے والے کے لیے کل بروز قیامت امن کی بشارت ہے، خوف خدا سے نکلنے والے آنسو جسم کے جس حصے پر گریں اس پر جہنم کی آگ حرام ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔خوف خدا سے ڈرنے والے کے گناہ درخت کو کامیابی کی منزل پر پہنچادے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یارب! میں تیرے خوف سے روتا رہوں ہر دم
دیوانہ شہنشاہِ مدینہ کا بنا دے
(4)…بزرگانِ دین کے خوفِ خدا پر مشتمل واقعات کا مطالعہ کرے۔اس کے لیے تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب ’’خوفِ خدا، توبہ کی روایات وحکایات، احیاء العلوم جلدسوم ‘‘ وغیرہ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
(5)…خود احتسابی کی عادت بنانے کے لیے مدنی انعامات پر عمل کی کوشش کرےکہ امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی طرف سے عطا کردہ یہ مدنی انعامات قلت خشیت جیسی مہلک بیماری سے نجات اور خوف خدا جیسی عظیم نعمت کے حصول میں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بہت معاون ثابت ہوں گے۔
(6)…خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرے کیونکہ اللہ تعالٰی کا خوف رکھنے والے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا بھی انسان کے دل میں خوف ِ الٰہی بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کب گناہوں سے کنارہ میں کروں گا یا رب
نیک کب اے میرے اللہ! بنوں گا یارب
گَر تُو ناراض ہوا میری ہلاکت ہوگی
ہائے ! میں نارِ جہنم میں جلوں گا یارب
(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۳تا۲۵۵)
.....[1] مسند احمد ، مسند علی بن ابی طالب، ج۱، ص ۳۰۲، حدیث: ۱۲۱۲۔
[2] ۔۔۔۔ قوت القلوب، الفصل الثانی والثلاثون۔۔۔الخ، شرح مقام ۔۔۔الخ، ج۱، ص۴۵۹، ۴۶۰ ملخصاً۔
Comments