بکریوں کی زکاۃ کا بیان
صحیح بخاری شریف میں انس رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی، کہ صدیقِ اکبر رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب انھیں بحرین بھیجا تو فرائض صدقہ جو رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے مقرر فرمائے تھے لکھ کر دیے، ان میں بکری کی نصاب کا بھی بیان ہے اور یہ کہ زکاۃ میں نہ بوڑھی بکری دی جائے، نہ عیب والی نہ بکرا۔
ہاں اگر مصدق (صدقہ وصول کرنے والا) چاہے تو لے سکتا ہے۔ [1] اور زکاۃ کے خوف سے نہ متفرق کو جمع کریں نہ مجتمع کو متفرق کریں۔
مسئلہ ۱: چالیس ۴۰ سے کم بکریاں ہوں تو زکاۃ واجب نہیں اور چالیس ۴۰ ہوں تو ایک بکری اور یہی حکم ایک سو بیس ۱۲۰ تک ہے
یعنی ان میں بھی وہی ایک بکری ہے اور ایک سو اکیس ۱۲۱ میں دو اور دو سو ایک۰۱ ۲ میں تین ۳ اور چار سو ۴۰۰ میں چار ۴ پھر ہر سو پر ایک [2] اور جو دو نصابوں کے درمیان میں ہے معاف ہے۔ [3] (عامہ کتب)
مسئلہ ۲: زکاۃ میں اختیار ہے کہ بکری دے یا بکرا، جو کچھ ہو یہ ضرور ہے کہ سال بھر سے کم کا نہ ہو، اگر کم کا ہو تو قیمت کے حساب سے دیا جا سکتا ہے۔ [4] (درمختار)
مسئلہ ۳: بھیڑ دُنبہ بکری میں داخل ہیں، کہ ایک سے نصاب پوری نہ ہوتی ہو تو دوسری کو ملا کر پوری کریں اور زکاۃ میں بھی ان کو دے سکتے ہیں مگر سال سے کم کے نہ ہوں۔ [5] (درمختار)
مسئلہ ۴: جانوروں میں نسب ماں سے ہوتا ہے، تو اگر ہرن اور بکری سے بچہ پیدا ہوا تو بکریوں میں شمار ہوگا اورنصاب میں اگر ایک کی کمی ہے تو اُسے ملا کر پوری کریں گے، بکرے اور ہرنی سے ہے تو نہیں۔ یو ہیں نیل گائے اور بیل سے ہے تو گائے نہیں اور نیل گائے نر اور گائے سے ہے تو گائے ہے۔ [6] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۵: جن جانوروں کی زکاۃ واجب ہے وہ کم سے کم سال بھر کے ہوں، اگر سب ایک سال سے کم کے بچے ہوں تو زکاۃ واجب نہیں اور اگر ایک بھی اُن میں سال بھر کا ہو تو سب اسی کے تابع ہیں، زکاۃ واجب ہو جائے گی، یعنی مثلاً بکری کے چالیس ۴۰ بچے سال سال بھر سے کم کے خریدے تو وقت خریداری سے ایک سال پر زکاۃ واجب نہیں کہ اس وقت قابلِ نصاب نہ تھے بلکہ اُس وقت سے سال لیا جائے گا کہ ان میں کا کوئی سال بھر کا ہوگیا۔ یو ہیں اگر اس کے پاس بقدر نصاب بکریاں تھیں اور چھ
مہینے گزرنے کے بعد اُن کے چالیس ۴۰بچے ہوئے پھر بکریاں جاتی رہیں، بچے باقی رہ گئے تو اب سال تمام پر یہ بچے قابلِ نصاب نہیں، لہٰذا زکاۃ واجب نہیں۔ [7] (جوہرہ)
مسئلہ ۶: اگر اُس کے پاس اونٹ، گائیں، بکریاں سب ہیں مگر نصاب سے سب کم ہیں یا بعض تو نصاب پوری کرنے کے لیے خلط نہ کریں گے اور زکاۃ واجب نہ ہوگی۔ [8] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۷: زکاۃ میں متوسط درجہ کا جانور لیا جائے گا چُن کر عمدہ نہ لیں، ہاں اُس کے پاس سب اچھے ہی ہوں تو وہی لیں اور گابھن اوروہ جانور نہ لیں جسے کھانے کے لیے فربہ کیا ہو، نہ وہ مادہ لیں جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے نہ بکرا لیا جائے۔ [9](عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۸: جس عمر کا جانور دینا واجب آیا وہ اس کے پاس نہیں اوراس سے بڑھ کر موجودہے تو وہ دے دے اور جو زیادتی ہو واپس لے، مگر صدقہ وصول کرنے والے پر لے لینا واجب نہیں اگرنہ لے اور اُس جانور کو طلب کرے جو واجب آیا یا اس کی قیمت تو اُسے اس کا اختیار ہے جس عمر کا جانور واجب ہوا وہ نہیں ہے اور اس سے کم عمر کا ہے تووہی دیدے اور جو کمی پڑے اُس کی قیمت دے یا واجب کی قیمت دیدے دونوں طرح کر سکتا ہے۔ [10] (عالمگیری)
مسئلہ ۹: گھوڑے، گدھے، خچر اگرچہ چرائی پر ہوں ان کی زکاۃ نہیں، ہاں اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان کی قیمت لگا کر اُس کا چالیسواں ۴۰ حصہ زکاۃ میں دیں۔ [11] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۱۰: دو نصابوں کے درمیان جو عفو ہے اس کی زکاۃ نہیں ہوتی یعنی بعد سال تمام اگر وہ عفو ہلاک ہو جائے تو زکاۃ میں کوئی کمی نہ ہوگی اور واجب ہونے کے بعد نصاب ہلاک ہوگئی تو اس کی زکاۃ بھی ساقط ہوگئی اور ہلاک پہلے عفو کی طرف پھیریں گے، اس سے بچے تو اُس کے متصل جو نصاب ہے اس کی طرف پھر بھی بچے تو اسکے بعد وعلیٰ ہذا القیاس۔ مثلاً اسّی ۸۰ بکریاں تھیں چالیس ۴۰ مر گئیں تو اب بھی ایک بکری واجب رہی کہ چالیس کے بعد دوسرا چالیس عفو ہے اور چالیس اونٹ میں پندرہ مر گئے تو بنتِ مخاض واجب ہے کہ چالیس میں چار عفو ہیں وہ نکالے، اس کے بعد چھتیس ۳۶ کی نصاب ہے وہ بھی کافی نہیں، لہٰذا گیارہ اور نکالے، پچیس رہے ان میں بنتِ مخاض کا حکم ہے بس یہی دیں گے۔ [12] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۱۱: دو بکریاں زکاۃ میں واجب ہوئیں اور ایک فربہ بکری دی جو قیمت میں دو کی برابر ہے زکاۃ ادا ہوگئی۔ [13] (جوہرہ)
مسئلہ ۱۲: سال تمام کے بعد مالک نصاب نے نصاب خود ہلاک کر دی تو زکاۃ ساقط نہ ہوگی، مثلاً جانور کو چارا پانی نہ دیا گیا کہ مر گیا زکاۃ دینی ہوگی۔ یو ہیں اگر اُس کا کسی پر قرض تھا اور وہ مقروض مالدار ہے سال تمام کے بعد اس نے معاف کر دیا تو یہ ہلاک کرنا ہے، لہٰذا زکاۃ دے اور اگر وہ نادار تھا اور اس نے معاف کردیا تو ساقط ہوگئی۔ [14] (درمختار)
مسئلہ ۱۳: مالکِ نصاب نے سال تمام کے بعد قرض دے دیا یا عاریت دی یا مال تجارت کو مال تجارت کے بدلے بیچا اور جس کو دیا تھا اُس نے انکار کر دیا اور اُس کے پاس ثبوت نہیں یا وہ مر گیا اور ترکہ نہ چھوڑا تو یہ ہلاک کرنا نہیں، لہٰذا زکاۃ ساقط ہوگئی۔ اور اگر سال تمام کے بعد مالِ تجارت کو غیر مالِ تجارت کے عوض بیچ ڈالا یعنی اس کے بدلے میں جوچیز لی اُس سے تجارت مقصود نہیں، مثلاً خدمت کے لیے غلام یاپہننے کے لیے کپڑے خریدے یا سائمہ کو سائمہ کے بدلے بیچا اور جس کے ہاتھ بیچا اُس نے انکار کر دیا اور اس کے پا س گواہ نہیں یا وہ مر گیا اور ترکہ نہ چھوڑا تو یہ ہلاک نہیں بلکہ ہلاک کرنا ہے، لہٰذا زکاۃ واجب ہے۔ سال تمام کے بعد مال تجارت کو عورت کے مہر میں دے دیا یا عورت نے اپنی نصاب کے بدلے شوہر سے خلع لیا تو زکاۃ دینی ہوگی۔ [15] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴: اس کے پاس روپے اشرفیاں تھیں جن پر سال گزرا مگر ابھی زکاۃ نہیں دی، ان کے بدلے تجارت کے لیے کوئی چیز خریدی اور یہ چیز ہلاک ہوگئی تو زکاۃ ساقط ہوگئی مگر جب کہ اتنی گراں [16] خریدی کہ اتنے نقصان کے ساتھ لوگ نہ خریدتے ہوں تو اُس کی اصلی قیمت پر جو کچھ زیادہ دیا ہے، اس کی زکاۃ ساقط نہ ہوگی کہ وہ ہلاک کرنا ہے اوراگر تجارت کے لیے نہ ہو، مثلاً خدمت کے لیے غلام خریدا، وہ مر گیا تو اس روپے کی زکاۃ ساقط نہ ہوگی۔[17] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۵: بادشاہِ اسلام نے اگرچہ ظالم یا باغی ہو، سائمہ کی زکاۃ لے لی یا عُشر وصول کر لیا اور انھیں محل پر صرف کیا تواعادہ کی حاجت نہیں اور محل پر صرف نہ کیا تو اعادہ کیا جائے اور خراج لے لیا تو مطلقاً اعادہ کی حاجت نہیں۔ [18] (درمختار)
مسئلہ ۱۶: مُصدّق (زکاۃ وصول کرنے والے) کے سامنے سائمہ بیچ ڈالا تو مُصدّق کو اختیار ہے چاہے بقدر زکاۃ اس میں سے قیمت لے لے اور اس صورت میں بیع تمام ہوگئی اور چاہے جو جانور واجب ہوا وہ لے لے اور اس وقت جو لیا اس کے حق میں بیع باطل ہوگی اور اگر مُصدّق وہاں موجود نہ تھا بلکہ اس وقت آیا کہ مجلس عقد سے وہ دونوں جُدا ہوگئے تو اب جانور نہیں لے سکتا،جو جانور واجب ہوا، اُس کی قیمت لے لے۔ [19] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۷: جس غلہّ پر عشر واجب ہوا اُسے بیچ ڈالا تو مُصدّق کو اختیار ہے چاہے بائع [20] سے اس کی قیمت لے یا مشتری [21] سے اُتنا غلّہ واپس لے، بیع اس کے سامنے ہوئی ہو یا دونوں کے جُدا ہونے کے بعد مُصدّق آیا۔ [22] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: اسّی ۸۰ بکریاں ہیں تو ایک بکری زکاۃ کی ہے، یہ نہیں کیا جاسکتا کہ چالیس ۴۰ چالیس ۴۰ کے دو ۲ گروہ کر کے دو ۲ زکاۃ میں لیں اور اگر دو ۲ شخصوں کی چالیس ۴۰ چالیس ۴۰ بکریاں ہیں تو یہ نہیں کر سکتے کہ انھیں جمع کر کے ایک گروہ کر دیں کہ ایک ہی بکری زکاۃ میں دینی پڑے، بلکہ ہر ایک سے ایک ایک لی جائے گی۔ یو ہیں اگر ایک کی انتالیس ۳۹ ہیں اور ایک کی چالیس ۴۰ تو انتالیس ۳۹ والے سے کچھ نہ لیں گے، غرض نہ مجتمع کو متفرق کریں گے، نہ متفرق کو مجتمع۔ [23] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۱۹: مویشی میں شرکت سے زکاۃ پرکچھ اثر نہیں پڑتا، خواہ وہ کسی قسم کی ہو۔ اگر ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب ہے تو دونوں پر پوری پوری زکاۃ واجب اور ایک کا حصہ بقدر نصاب ہے دوسرے کا نہیں تو اس پر واجب ہے، اس پرنہیں مثلاً ایک کی چالیس ۴۰ بکریاں ہیں دوسرے کی تیس ۳۰ تو چالیس والے پر ایک بکری تیس والے پر کچھ نہیں اگر اور کسی کی بقدر نصاب نہ ہوں مگر مجموعہ بقدر نصاب ہے تو کسی پر کچھ نہیں۔ [24] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۲۰: اسّی ۸۰ بکریوں میں اکاسی ۸۱ شریک ہیں، یوں کہ ایک شخص ہر بکری میں نصف کا مالک ہے اور ہر بکری کے دوسرے نصف کا ان میں سے ایک ایک شخص مالک ہے تو اُس کے سب حصوں کا مجموعہ چالیس ۴۰ کے برابر ہوا اور یہ سب صرف آدھی آدھی بکری کے حصہ دار ہوئے، مگر زکاۃ کسی پر نہیں۔ [25] (درمختار)
مسئلہ ۲۱: شرکت کی مویشی میں زکاۃ دی گئی تو ہر ایک پر اُس کے حصہ کی قدر ہے، جو کچھ حصہ سے زائد گیا وہ شریک سے واپس لے، مثلاً ایک کی اکتالیس ۴۱ بکریاں ہیں، دوسرے کی بیاسی ۸۲ ، کل ایک سو تیئس ۱۲۳ ہوئیں اور دو ۲ زکاۃ میں لی گئیں، یعنی ہر ایک سے ایک مگرچونکہ ایک ایک تہائی کا شریک ہے اور دوسرا دو کا، لہٰذا ہر بکری میں دو تہائی والے کی دو تہائیاں گئیں، جن کا مجموعہ ایک تہائی اور ایک بکری ہے اور ایک تہائی والے کی ہر بکری میں ایک ہی تہائی گئی کہ مجموعہ دو تہائیاں ہوا اور اُس پر واجب ایک بکری ہے، لہٰذا دو تہائیوں والا ایک تہائی والے سے تہائی لینے کا مستحق ہے اور اگر کُل اسّی ۸۰ بکریاں ہیں، ایک دو تہائی کا شریک ہے، دوسرا ایک تہائی کا اور زکاۃ میں ایک بکری لی گئی تو تہائی کا حصہ دار اپنے شریک سے تہائی بکری کی قیمت لے کہ اس پر زکاۃ واجب نہیں۔ [26] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۸۹۶ تا ۹۰۱)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''صحیح البخاري''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، الحدیث: ۱۴۵۴، ۱۴۵۵،ج۱، ص۴۹۰.
[2] ۔۔۔۔۔۔ مزید آسانی کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیجئے: بکری کا نصاب
تعداد جن پر زکاۃ فرض ہے شرح زکاۃ
۴۰ سے ۱۲۰ تک ایک بکری
۱۲۱ سے ۲۰۰ تک دو بکریاں
۲۰۱ سے ۳۹۹تک تین بکریاں
۴۰۰ سے ۴۹۹ تک چار بکریاں
پھر ہر سو پر ایک بکری کا اضافہ
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویر الأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۳. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثاني في صدقۃ السوائم، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۷۸.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۳.
[5] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۴۲.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثاني في صدقۃ السوائم، الفصل الرابع، ج۱، ص۱۷۸، وغیرہ.
[7] ۔۔۔۔۔۔''الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الخیل، ص ۱۵۴.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویر الأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۸۰. وغیرہ
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۵۱.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثاني في صدقۃ السوائم، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۷۷.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویر الأبصار'' و ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۴، وغیرہ.
[12] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۶، وغیرہما.
[13] ۔۔۔۔۔۔
[14] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۷.
[15] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۸ ۔ ۲۵۰.
[16] ۔۔۔۔۔۔ یعنی مہنگی۔
[17] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۴۸.
[18] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج۳، ص۲۵۵.
[19] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، في زکاۃ الذھب والفضۃ والعروض مسائل شتی، ج۱، ص۱۸۱.
[20] ۔۔۔۔۔۔ یعنی فروخت کرنے والے۔
[21] ۔۔۔۔۔۔ یعنی خریدنے والے۔
[22] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، في زکاۃ الذھب والفضۃ والعروض مسائل شتی، ج۱، ص۱۸۱.
[23] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، وغیرہ.
[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۸۱.
[26] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۸۰.
Comments