بیان اُن وجوہ کا جن سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے

بیان اُن وجوہ کا جن سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے

مسئلہ ۱: سفر و حمل اور بچہ کو دودھ پلانا اور مرض اور بڑھاپا اور خوف ہلاک و اکراہ و نقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے لیے عذر ہیں، ان وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گنہگار نہیں۔ (درمختار)( ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۲.)

مسئلہ ۲: سفر سے مراد سفر شرعی ہے یعنی اتنی دُور جانے کے ارادہ سے نکلے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن کی مسافت ہو، اگرچہ وہ سفر کسی ناجائز کام کے لیے ہو۔ [1] (درمختار)

مسئلہ ۳: دن میں سفر کیا تو اُس دن کا روزہ افطار کرنے کے لیے آج کا سفر عذر نہیں۔ البتہ اگر توڑے گا تو کفارہ لازم نہ آئے گا مگر گنہگار ہوگا اور اگر سفر کرنے سے پہلے توڑ دیا پھر سفر کیا تو کفارہ بھی لازم اور اگر دن میں سفرکیا اور مکان پر کوئی چیز بھول گیاتھا، اُسے لینے واپس آیا اور مکان پر آکر روزہ توڑ ڈالا تو کفارہ واجب ہے۔ [2] (عالمگیری)

مسئلہ ۴: مسافر نے ضحوہ کبریٰ سے پیشتر اقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں تو روزہ کی نیّت کر لینا واجب ہے۔ [3] (جوہرہ)

مسئلہ ۵: حمل والی اور دودھ پلانے والی کو اگر اپنی جان یا بچہ کا صحیح اندیشہ ہے، تو اجازت ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھے، خواہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں ہو یا دائی اگرچہ رمضان میں دودھ پلانے کی نوکری کی ہو۔ [4] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶: مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ [5] (جوہرہ، درمختار)

مسئلہ ۷: ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں۔

(۱) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا

(۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا

(۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو اور اگر نہ کوئی علامت ہو نہ تجربہ نہ اس قسم کے طبیب نے اُسے بتایا ،بلکہ کسی کافر یا فاسق طبیب کے کہنے سے افطار کر لیا تو کفارہ لازم آئے گا۔ [6] (ردالمحتار) آج کل کے اکثر اطبا اگر کافر نہیں تو فاسق ضرور ہیں اور نہ سہی تو حاذق طبیب فی زمانہ نایاب سے ہو رہے ہیں، ان لوگوں کا کہنا کچھ قابلِ اعتبار نہیں نہ ان کے کہنے پر روزہ افطار کیا جائے۔ ان طبیبوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ذرا ذرا سی بیماری میں روزہ کو منع کر دیتے ہیں، اتنی بھی تمیز نہیں رکھتے کہ کس مرض میں روزہ مُضر ہے کس میں نہیں۔

مسئلہ ۸: باندی کو اپنے مالک کی اطاعت میں فرائض کا موقع نہ ملے تو یہ کوئی عذر نہیں۔ فرائض ادا کرے اور اتنی دیر کے لیے اُس پر اطاعت نہیں۔ مثلاً فرض نماز کا وقت تنگ ہو جائے گا تو کام چھوڑ دے اور فرض ادا کرے اور اگر اطاعت کی اور روزہ توڑ دیا تو کفارہ دے۔[7] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: عورت کو جب حیض و نفاس آگیا تو روزہ جاتا رہا اور حیض سے پورے دس دن رات میں پاک ہوئی تو بہرحال کل کا روزہ رکھے اور کم میں پاک ہوئی تو اگر صبح ہونے کو اتنا عرصہ ہے کہ نہا کر خفیف سا وقت بچے گا تو بھی روزہ رکھے اور اگر نہا کر فارغ ہونے کے وقت صبح چمکی تو روزہ نہیں۔[8] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰: حیض و نفاس والی کے لیے اختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً، روزہ کی طرح رہنا اس پر ضروری نہیں۔[9](جوہرہ) مگر چھپ کر کھانا اَولیٰ ہے خصوصاً حیض والی کے لیے۔

مسئلہ ۱۱: بھوک اور پیاس ایسی ہو کہ ہلاک کا خوف صحیح یا نقصانِ عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے۔[10] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: روزہ توڑنے پر مجبور کیا گیا تو اسے اختیار ہے اور صبر کیا تو اجر ملے گا۔[11] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۳: سانپ نے کاٹا اور جان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑ دیں۔ [12] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: جن لوگوں نے ان عذروں کے سبب روزہ توڑا، اُن پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اور ان قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں۔ فلہٰذا اگر ان روزوں کے پہلے نفل روزے رکھے تو یہ نفلی روزے ہوگئے، مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔

حدیث میں فرمایا: ''جس پر اگلے رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہ ہوں گے۔'' [13]

اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے، قضا نہ رکھے، بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضا کی نیّت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اُسی رمضان کے روزے ہیں۔[14] (درمختار)

مسئلہ ۱۵: خود اس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر نہ پہنچے تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے ورنہ نہ رکھنا بہتر۔ [15](درمختار)

مسئلہ ۱۶: اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصےّت کر جائیں پھر بھی وصیّت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے، مگر نہ رکھے تو وصیّت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجہ اَولیٰ وصیّت کرنا واجب ہے اور وصیّت نہ کی، بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔[16] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۱۷: ہر روزہ کا فدیہ بقدر صدقہ فطر ہے اور تہائی مال میں وصیّت اس وقت جاری ہوگی، جب اس میت کے وارث بھی ہوں اور اگر وارث نہ ہوں اورسارے مال سے فدیہ ادا ہوتا ہو تو سب فدیہ میں صرف کر دینا لازم ہے۔ یوہیں اگر وارث صرف شوہر یا زوجہ ہے تو تہائی نکالنے کے بعد ان کا حق دیا جائے، اس کے بعد جوکچھ بچے اگر فدیہ میں صرف ہوسکتا ہے تو صرف کر دیا جائے گا۔ [17](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۸: وصیّت کرنا صرف اتنے ہی روزوں کے حق میں واجب ہے جن پر قادر ہوا تھا، مثلاً دس قضا ہوئے تھے اور عذر جانے کے بعد پانچ پر قادر ہوا تھا کہ انتقال ہوگیا تو پانچ ہی کی وصیّت واجب ہے۔ [18](درمختار)

مسئلہ ۱۹: ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص روزہ نہیں رکھ سکتا۔ [19](عامہ کتب)

مسئلہ ۲۰: اعتکاف واجب اور صدقہ فطرکا بدلہ اگر ورثہ ادا کر دیں تو جائز ہے اور اُن کی مقدار وہی بقدر صدقہ فطر ہے اور زکاۃ دیناچاہیں تو جتنی واجب تھی اُس قدر نکالیں۔ [20] (درمختار)

مسئلہ ۲۱: شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روزبروز کمزور ہی ہوتا جائے گا، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اُس میں اتنی طاقت آنے کی اُمید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا، اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھاناکھلانا اس پرواجب ہے یا ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے۔[21] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲۲: اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں بوجہ گرمی کے روزہ نہیں رکھ سکتا، مگر جاڑوں [22]میں رکھ سکے گا تو اب افطار کرلے اور اُن کے بدلے کے جاڑوں میں رکھنا فرض ہے۔[23] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۳: اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے ،تو فدیہ صدقہ نفل ہوکر رہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے۔[24](عالمگیری)

مسئلہ ۲۴: یہ اختیار ہے کہ شروع رمضان ہی میں پورے رمضان کا ایک دم فدیہ دے دے یا آخر میں دے اور اس میں تملیک [25] شرط نہیں بلکہ اباحت بھی کافی ہے اور یہ بھی ضرور نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اتنے ہی مساکین کو دے بلکہ ایک مسکین کو کئی دن کے فدیے دے سکتے ہیں۔[26] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲۵: قسم [27] یا قتل[28]کے کفارہ کا اس پر روزہ ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس روزہ کافدیہ نہیں اور روزہ توڑنے یا ظہار [29] کا کفارہ اس پر ہے ،تو اگر روزہ نہ رکھ سکے ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلا وے۔[30] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۶: کسی نے ہمیشہ روزہ رکھنے کی منّت مانی اور برابر روزے رکھے تو کوئی کام نہیں کر سکتا جس سے بسر اوقات ہو تو اُسے بقدر ضرورت افطار کی اجازت ہے اور ہرروزے کے بدلے میں فدیہ دے اور اس کی بھی قوت نہ ہو تو استغفار کرے۔[31] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲۷: نفل روزہ قصداً شروع کرنے سے لازم ہو جاتا ہے کہ توڑے گا تو قضا واجب ہوگی اور یہ گمان کر کے کہ اس کے ذمّہ کوئی روزہ ہے، شروع کیا بعد کومعلوم ہوا کہ نہیں ہے، اب اگر فوراً توڑ دیا تو کچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد نہ توڑا تو اب نہیں توڑ سکتا، توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ [32] (درمختار)

مسئلہ ۲۸: نفل روزہ قصداً نہیں توڑا بلکہ بِلااختیار ٹوٹ گیا، مثلاً اثنائے روزہ میں حیض آگیا، جب بھی قضا واجب ہے۔[33] (درمختار)

مسئلہ ۲۹: عیدین یا ایام تشریق میں روزہ نفل رکھا تو اس روزہ کا پورا کرنا واجب نہیں، نہ اُس کے توڑنے سے قضا واجب، بلکہ اس روزہ کا توڑ دینا واجب ہے اور اگر ان دنوں میں روزہ رکھنے کی منّت مانی تو منّت پوری کرنی واجب ہے مگر ان دنوں میں نہیں بلکہ اور دنوں میں۔ [34] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوہ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔ [35] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۱: کسی نے یہ قسم کھائی کہ اگر تو روزہ نہ توڑے تو میری عورت کو طلاق ہے، تو اُسے چاہیے کہ اس کی قسم سچی کر دے یعنی روزہ توڑ دے اگرچہ روزہ قضا ہو[36] اگرچہ بعد زوال ہو۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۲: اُس کی کسی بھائی نے دعوت کی تو ضحوہ کبریٰ کے قبل روزہ نفل توڑ دینے کی اجازت ہے۔ [37] (درمختار)

مسئلہ ۳۳: عورت بغیر شوہر کی اجازت کے نفل اور منّت و قسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لیے تو شوہر توڑوا سکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی، مگر اس کی قضا میں بھی شوہر کی اجازت درکار ہے یا شوہر اور اُس کے درمیان جدائی ہو جائے یعنی طلاق بائن دیدے یا مر جائے ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو مثلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا احرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے، بلکہ اگر وہ منع کرے جب بھی اور ان دنوں میں بھی بے اس کی اجازت کے نفل نہیں رکھ سکتی۔ رمضان اور قضائے رمضان کے لیے شوہر کی اجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اس کی ممانعت پر بھی رکھے۔ [38] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۴: باندی غلام بھی علاوہ فرائض کے مالک کی اجازت بغیر نہیں رکھ سکتے۔ ان کا مالک چاہے تو توڑوا سکتا ہے۔ پھر اُس کی قضامالک کی اجازت پر یا آزاد ہونے کے بعد رکھیں۔ البتہ غلام نے اگر اپنی عورت سے ظہار کیا تو کفارہ کے روزے بغیر مولیٰ کی اجازت کے رکھ سکتا ہے۔ [39] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۵: مزدور یا نوکر اگر نفل روزہ رکھے تو کام پورا ادا نہ کر سکے گا تو مستاجر یعنی جس کا نوکر ہے یا جس نے مزدوری پر اُسے رکھا ہے، اُس کی اجازت کی ضرورت ہے اور کام پورا کر سکے تو کچھ ضرورت نہیں۔ [40] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۶: لڑکی کو باپ اور ماں کو بیٹے اور بہن کو بھائی سے اجازت لینے کی کچھ ضرورت نہیں اور ماں باپ اگر بیٹے کو روزہ نفل سے منع کر دیں، اس وجہ سے کہ مرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اطاعت کرے۔ [41] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۱۰۰۲تا ۱۰۰۸)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۳.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الافطار، ج۱، ص۲۰۶ ۔ ۲۰۷.

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۶.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۳.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۳. و ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۳.

[6] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۴.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۴.

[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۷.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوھرۃ النیرۃ''، کتاب الصوم، ص۱۸۶.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۷.

[11] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۲.

[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''المسند'' للإمام أحمد بن حنبل، مسند أبي ہریرۃ، الحدیث: ۸۶۲۹، ج۳، ص۲۶۶.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۵.

[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۵.

[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۶. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۷.

[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۷.

[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۶۷.

[19] ۔۔۔۔۔۔ انظر: ''فح القدیر''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۲، ص۲۷۹.

[20] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۱.

[21] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۱، وغیرہ.

[22] ۔۔۔۔۔۔ سردیوں۔

[23] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۲.

[24] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۷.

[25] ۔۔۔۔۔۔ یعنی مالک بنا دینا۔

[26] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۲، وغیرہ.

[27] ۔۔۔۔۔۔ قسم کے کفارے میں تین روزے ہیں۔

[28] ۔۔۔۔۔۔ یعنی قتل خطا کے کفارے میں دو ماہ کے روزے ہیں۔

[29] ۔۔۔۔۔۔ ظہار کے کفارے میں دو ماہ کے روزے ہیں۔( ''النتف في الفتاوی''، کتاب الصوم، ص۹۳ ۔ ۹۴ ).

[30] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۷.

[31] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۲.

[32] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۳.

[33] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۴۷۴.

[34] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۴.

[35] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۵ ۔ ۴۷۷. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب الخامس في الاعذار التی تبیح الإفطار، ج۱، ص۲۰۸.

[36] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۶.

[37] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۷.

[38] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۷.

[39] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۴۷۸.

[40] ۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''، کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۷۸.

[41] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۴۷۸.

Share