(29)…مَحَبَّتِ اِلٰہی
محبت اِلٰہی کی تعریف:
طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانا محبت کہلاتا ہے۔[1] اور محبت الٰہی سے مراد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قرب اور اس کی تعظیم ہے۔[2] حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی محبت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بندے کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت وہ ایک صفت ہے جو فرماں بردار مؤمن کے دل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا معنیٰ تعظیم وتکریم بھی ہےیہاں تک کہ بندہ محبوب کی رضا طلب کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کے دیدار کی طلب میں بے خبر ہوکر اس کی قربت کی آرزو میں بے چین ہوجاتا ہے اور اسے اُس کے بغیر چین وقرار حاصل ہی نہیں ہوتا۔اس کی عادت اپنے محبوب کے ذکر کے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ بندہ غیر کے ذکر سے دور اور متنفر رہتا ہے۔وہ تمام طبعی رغبتوں وخواہشوں سے جدا ہوکر اپنی خواہشات سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،وہ غلبَۂ محبت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہےاور خُدا کے حکم کے آگے سر جھکادیتا ہے اور اسے کمال اوصاف کے ساتھ پہچاننے لگتا ہے۔‘‘[3] (نجات دلانے والے اعمال کی معلامات ،صفحہ ۲۴۶)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ)(پ۲، البقرۃ: ۱۶۵) ترجمۂ کنزالایمان:’’ اور ایمان والوں کو اللہکے برابر کسی کی محبت نہیں۔‘‘ (نجات دلانے والے اعمال کی معلامات ،صفحہ ۲۴۶)
(حدیث مبارکہ)ایمان کیا ہے؟
حضرت سیدنا ابو رَزین عُقَیْلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ایمان کیا ہے؟ اِرشاد فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول تمہارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں۔‘‘[4] (نجات دلانے والے اعمال کی معلامات ،صفحہ ۲۴۷)
محبت الٰہی کاحکم:
حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اُمت کا اِس بات پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول سے محبت کرنا فرض ہے۔‘‘[5](نجات دلانے والے اعمال کی معلامات ،صفحہ ۲۴۷)
محبت الٰہی پیدا کرنےکے نو(9)طریقےاور اَسباب:
(1)وجود عطا فرمانے والی ہستی سے محبت:اِنسان دیکھے کہ اس کا کمال وبقاء محض اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے ۔وہی ذات اس کو عدم سے وجود میں لانے والی،اس کو باقی رکھنے والی اور اس کے وجود میں صفات کمال ،ان کے اسباب اور ان کے استعمال کی ہدایت پیدا کرکے اسے کامل کرنے والی ہےتو ایسی ذات سے ضرور محبت رکھنی چاہئے۔
(2)اپنے محسن سے محبت:جس طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو پہچاننے کا حق ہے اگر بندہ اس طرح اُسے پہچانے تو ضرور جان جائے گا کہ اس پر احسان کرنے والا صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ہےاور محسن سے محبت فطری ہوتی ہےلہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت رکھنی چاہئے۔
(3)جمال والے سے محبت: اللہ عَزَّ وَجَلَّ جمیل ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے: ’’اِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘[6] اورجمال والے سے محبت فطری اور جبلی ہے لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔
(4)عیوب سے پاک ذات سے محبت: اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمام عیوب ونقائص سے منزہ ہےاور ایسی ذات سے محبت کرنا اسباب محبت میں سے ایک قوی سبب ہے۔
(5)محبت الٰہی کے متعلق بزرگان دِین کے اَقوال واَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی کتاب ’’رسالہ قشیریہ‘‘ اور امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی کتاب ’’اِحیاء العلوم‘‘جلدپنجمکا مطالعہ بہت مفید ہے۔
(6) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں غور کیجئے : انسان دیکھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جو منعم حقیقی ہے تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور وہ ہر مخلوق کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔یہ اِحساس انسان کے اندر منعم حقیقی کی محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
(7)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عدل اور فضل ورحمت میں غور کیجئے: انسان غور کرے کہ تو اسے عدل وانصاف میں سب سے بڑھ کر ذات اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی دکھائی دے گی اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کافروں اور گناہ گاروں پر بھی اس کی رحمت جاری ہے باجود یہ کہ وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غوروفکر انسان کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت پر اُبھارے گا۔
(8)محبت کی علامتوں میں غور کیجئے : علمائے کرام فرماتے ہیں: ’’بندے کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس سے محبت کرتا ہے بندہ اسے اپنی محبوب ترین چیزپرترجیح دیتا ہے اوربکثرت اس کا ذکر کرتا ہے، اس میں کوتا ہی نہیں کرتا اور کسی دو سرے کام میں مشغول ہونے کے بجائے بندے کو تنہائی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مناجات کرنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔‘‘[7]
(9) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کی صحبت اور اُن سے محبت:نیک بندوں کی صحبت اور ان سے محبت بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کرنے کا ایک ذریعہ ہےکہ نیک بندے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی محبت کا درس دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے دلوں میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلامات ،صفحہ ۲۴۸تا۲۵۰)
[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم ، ۵ / ۱۶۔
[2] ۔۔۔۔ الرسالۃ القشیریۃ،باب المحبۃ، ص۳۴۸۔
[3] ۔۔۔۔کشف المحجوب،باب المحبۃ ومایتعلق بھا،ص۳۳۸۔
[4] ۔۔۔۔مسند امام احمد، مسند مدنیین، حدیث ابی رزین العقیلی،۵ / ۴۷۰، حدیث: ۱۶۱۹۴۔
[5] ۔۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق۔۔۔الخ، بیان شواھد الشرع فی حب العبد للّٰہ تعالٰی، ۵ / ۳۔
[6] ۔۔۔۔مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم الکبر وبیانہ،ص۶۰، حدیث:۹۱۔
[7] ۔۔۔۔لباب الاحیاء، الباب السادس والثلاثون فی المحبۃ ۔۔۔ الخ،فصل فی الشوق،ص۳۱۹۔
Comments