زُھد

(24)زُھد(دنیا سے بے رغبتی)

زُہد کی تعریف :

دنیا کو ترک کرکے آخرت کی طرف مائل ہونے یا غیرُاللہ کو چھوڑ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف متوجہ ہونے کا نام زُہدہے۔[1] اور ایسا کرنے والے کو زاہد کہتے ہیں۔زُہد کی مکمل اور جامع تعریف حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کا قول ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’زُہد یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز کو ترک کردے جو اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دور کرے۔‘‘[2] (نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۹)

حقیقی زاہد کی تعریف:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الوَالی فرماتے ہیں: ’’حقیقی زاہد تو وہ ہے جس کی پاس دنیا ذلت کے ساتھ حاضر ہو،اس کے حصول کے لئے مشقت بھی نہ اٹھانی پڑےاور وہ کسی بھی قسم کا نقصان اٹھائے بغیر دنیا کو استعمال کرنے پر قادر ہو۔ مثلاً عزت میں کمی ، بدنامی یا کسی خواہِشِ نفس کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو لیکن وہ اس خوف سے دنیا کو ترک کردے کہ اسے اختیار کرکے میں اس سے مانوس ہوجاؤں گا اور یوں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے علاوہ کسی اور سے مانوس ہونے اور محبت کرنے والوں نیز اس کی محبت میں غیر کو شریک کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں گا۔آخرت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ملنے والے ثواب کو حاصل کرنے کی نیت سے دنیا کو ترک کرنے والا شخص بھی حقیقی زاہد ہے۔ جو شخص جنتی مشروبات کو پانے کے لئے دنیوی مشروبات سے نفع اٹھانے کو ترک کردے،حورانِ جنت کے اشتیاق میں دنیوی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو،جنتی باغات اوران کے درختوں پر نظر رکھتے ہوئے دنیا کے باغات سے نفع نہ اٹھائے،جنت میں زیب وزینت کے حُصُول کے لئے دنیا میں آرائش وزیبائش سے منہ موڑلے،جنتی میوہ جات کو پانے کیلئے دنیا کی لذیذ غذاؤں کو ترک کردےاس خوف سےکہ کہیں روزِ قیامت یہ نہ کہہ دیا جائے: )اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا((پ۲۶،الاحقاف:۲۰)ترجمۂ کنز الایمان: ’’تم اپنے حصہ کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور انہیں برت چکے۔‘‘ الغرض جو شخص اس بات پر نظر رکھتے ہوئے کہ آخرت دنیا سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے اور اس کے علاوہ دیگر ہر چیز دنیا ہے جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہے،جنتی نعمتوں کو ان تمام چیزوں پر ترجیح دے جو اسے دنیا میں بغیر کسی مَشَقَّت کے بآسانی دستیاب ہیں حقیقت میں ایسا شخص زاہد کہلانے کا حق دار ہے۔[3] (نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۰۹،۲۱۰)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قارون کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:(فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُۙ-اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۷۹)وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ-وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ(۸۰))(پ۲۰، القصص: ۷۹، ۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو اپنی قوم پر نکلا اپنی آرائش میں، بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بیشک اس کا بڑا نصیب ہے ، اور بولے وہ جنہیں علم دیا گیا خرابی ہو تمہاری اللہکا ثواب بہتر ہے اس کے لئے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو صبر والے ہیں۔‘‘حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اِس آیت مقدسہ میں زُہد کو علماء کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور زاہدین کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ علم کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور یہ بات زُہد کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘[4] (نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۱)

(حدیث مبارکہ)زُہد اختیار کرنے والے کی فضیلت:

ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ ہم نے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: ’’یارسولَ اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ہر وہ مؤمن جو دل کا صاف اور زبان کا سچا ہو۔‘‘ عرض کی گئی: ’’صاف دل والے سے کیا مراد ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وہ متقی اور مخلص شخص جس کے دل میں خیانت، دھوکا، بغاوت اور حسد نہ ہو۔‘‘ پھر عرض کی گئی: ’’ایسے شخص کے بعد کون افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص جو دنیا سے نفرت اور آخرت سے محبت کرنے والا ہو۔‘‘[5] (نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۱، ۲۱۲)

زُہد کا حکم:

زُہد نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن اَدہم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَم فرماتے ہیں: ’’اَحکام کے اعتبار سے زُہد کی تین اَقسام ہیں: (۱)فرض کہ بندہ اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بچائے۔ (۲)نفل کہ بندہ اپنے آپ کو حلال چیزوں سے بھی بچائے۔(۳)احتیاط کہ بندہ شبہات سے اپنے آپ کو بچائے۔[6] پھر زُہدکے تین درجات ہیں:(۱)جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا ہر چیز حتی کہ جنت الفردوس سے بھی بے رغبتی اختیار کرے، صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کرے وہ زاہد مطلق ہے جو کہ زُہد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔(۲) جو شخص تمام دُنیوی لذات سے بے رغبت ہو لیکن اُخروی نعمتوں مثلاً جنتی حوروں، محلات وباغات، نہروں اور پھلوں وغیرہ کی لالچ کرے وہ بھی زاہد ہے لیکن اس کا مرتبہ زاہد مطلق سے کم ہے۔(۳) جو شخص دُنیوی لذات میں سے بعض کو ترک کرے اور بعض کو نہیں مثلاً مال ودولت کو ترک کرے، مرتبے اور شہرت کو نہیں یا کھانے پینے میں وسعت کو ترک کردے زینت وآرائش کو نہیں، اس کو مطلقاً زاہد نہیں کہا جاسکتا۔ زاہدین میں ایسے شخص کا وہی مرتبہ ہے جیسے توبہ کرنے والوں میں اس شخص کا جو بعض گناہوں سے توبہ کرے اور بعض سے نہ کرے، جس طرح ایسے تائب کی توبہ صحیح ہے کیونکہ ممنوعہ چیزوں کو ترک کرنے کا نام توبہ ہے یوں ہی ایسے زاہد کا زُہد بھی صحیح ہے کیونکہ مباح لذتوں کا ترک کرنا زُہد کہلاتا ہے اور جس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بعض ممنوعات کو ترک کرپاتا ہو اور بعض کو نہیں، اسی طرح جائز چیزوں میں بھی یہ ہوسکتا ہے۔‘‘[7] (نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۲، ۲۱۳)

زُہد کا ذہن بنانے اور اختیار کرنے کے نو(9)طریقے:

(1) زُہد کے فضائل وفوائد پر غور کیجئے:چندفضائل وفوائد یہ ہیں:٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ زُہد اختیار کرنے والے کے ارادوں کو مضبوط فرمادیتا ہے۔٭زاہد کے مال واسباب کی حفاظت فرماتا ہے۔٭زاہد کے دل میں دنیا سے بے نیازی پیدا فرمادیتا ہے۔ ٭زاہد کے پاس دنیا ذلیل ہوکر آتی ہے۔٭زاہد کو حکمت عطا کردی جاتی ہے۔ ٭زاہد سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ محبت فرماتا ہے۔٭جس دل میں ایمان اور حیا موجود ہوں اس میں زُہدا ورتقویٰ قیام کرتے ہیں۔٭زاہد کے دل کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایمان سے منور فرمادیتا ہے۔٭زاہد کی زبان پر بھی حکمت جاری ہوجاتی ہے۔٭زاہد کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ دنیا کی بیماری اور اس کے علاج کی پہچان عطا فرمادیتا ہے۔٭زاہد کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ دنیا سے صحیح سلامت نکال کر سلامتی کے گھر یعنی جنت کی طرف لے جاتا ہے۔٭زُہد اختیار کرنا انبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور امام الانبیاء احمدمجتبےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنت ہے۔٭زاہد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا محبوب ہے۔٭زاہد کو بغیر سیکھے علم اور بغیر کوشش کے ہدایت نصیب ہوجاتی ہے۔ ٭ زاہد پر دنیا کی مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں۔[8]

(2)زُہدسے متعلق اَقوال بزرگانِ دِین پر غور کیجئے:چند اَقوال یہ ہیں: ٭ حضرت سیدنا بشر حافی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی فرماتے ہیں: ’’دنیا سے زُہد اس چیز کا نام ہے کہ لوگوں سے بے رغبتی اختیار کی جائے۔‘‘٭حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: ’’زُہد تو درحقیقت قناعت ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا سفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’لمبی امید نہ لگانا زُہد ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’زاہد وہ شخص ہے جو کسی کو دیکھے تو کہے کہ یہ مجھ سے افضل ہے۔‘‘٭ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’رزقِ حلال کی تلاش زُہد ہے۔‘‘٭حضرت سیدنا یوسف بن اسباط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص تکلیفوں پر صبر کرے، شہوات کو ترک کردے اورحلال غذا کھائے تو بے شک اس نے حقیقی زُہد کو اختیار کرلیا۔‘‘[9]

(3) زُہد سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے:اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلد چہارم، صفحہ ۶۹۱ سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(4)فضیلتِ زُہد پر اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:چنداقوال یہ ہیں: امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’دنیا سے بے رغبتی بدن اور دل کی راحت کا سبب ہے۔‘‘ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’ہم نے تمام اعمال کو کرکے دیکھا لیکن آخرت کے معاملے میں دنیا سے بے رغبتی سے زیادہ کسی عمل کو مؤثر نہ پایا۔‘‘حضرت سیدنا وہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جب اہل جنت ان میں سے داخل ہونا چاہیں گے تو دروازوں پر مقرر فرشتے کہیں گے: ہمارے رب عَزَّوَجَل کی عزت کی قسم! جنت کے عاشقوں اور دنیا سے بے رغبت رہنے والوں سے پہلے کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کو زُہد کی دولت حاصل ہواس کا دو رکعت نماز ادا کرنا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو (غیرزاہد) عبادت گزاروں کی ہمیشہ کی عبادت سے زیادہ پسند ہے۔‘‘[10]

(5) سچے زاہد کی صفات اپنانے کی کوشش کیجئے:حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی فرماتے ہیں کہ سچے زاہد کی غذا وہ ہے جو مل جائے، لباس وہ جو سترپوشی کردے اور مکان وہ جہاں اسے رات ہو جائے۔ دنیا اس کے لیے قیدخانہ، قبر اس کا بچھونا، تنہائی اس کی مجلس، حصول عبرت اس کی فکر، قرآن اس کی گفتگو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کا انیس، ذکر اس کا رفیق، زہد اس کا ساتھی، غم اس کا حال، حیا اس کی نشانی، بھوک اس کا سالن، حکمت اس کا کلام، مٹی اس کا فرش، تقویٰ اس کا زادِ راہ، خاموشی اس کا مال، صبر اس کا تکیہ، توکل اس کا نسب، عقل اس کی دلیل، عبادت اس کا پیشہ اور جنت اس کی منزل ہوگی۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوَجَل [11]

(6) زُہد کی علامات پیداکرنے کی کوشش کیجئے: جب علامات پیدا ہوجائیں گی تو زُہد بھی خود بخود پیدا ہوجائے گا۔ زُہد کی تین علامتیں ہیں: ٭پہلی علامت:جو چیز موجود ہے اس پر خوش نہ ہو اور جو موجود نہیں اس پر غمگین نہ ہو۔٭دوسری علامت: زاہد کے نزدیک مذمت اور تعریف کرنے والا برابر ہو۔٭تیسری علامت: زاہد کو صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت ہو، اس کے دل پراللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت واطاعت کی حَلاوَت ومِٹھاس غالِب ہو کیونکہ کوئی بھی دل محبت کی حَلاوَت سے خالی نہیں ہوتا تو اس میں محبتِ دنیا کی حَلاوَت ہوتی ہے یا پھر محبت اِلٰہی کی حَلاوَت۔[12] علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے زُہد کی کئی اور علامات بھی بیان فرمائی ہیں، تفصیل کے لیے احیاء العلوم، جدچہارم، صفحہ ۷۲۹ کا مطالعہ کیجئے۔

(7) دنیا کوآخرت پرترجیح دینے کے نقصانات پر غور کیجئے:کہ جب بندے پر کسی چیز کا نقصان ظاہر ہوجاتا ہے تو عموماً اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، جب بندہ دنیا کو آخرت پرترجیح نہیں دے گا تو یقیناً آخرت کو دنیا پر ترجیح دے گا اور یہی زُہد ہے۔ حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجور سلطانِ بحروبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے تین باتوں میں مبتلا فرمادے گا: (۱) ایسا غم جو کبھی اس کے دل سے جدا نہ ہوگا۔ (۲)ایسا فقر جس سے کبھی نجات نہ ملے گی اور (۳) ایسی لالچ جو کبھی ختم نہ ہوگی۔‘‘[13]

(8)آخرت کے لیے دنیا کو ترک کردینے کی اس مثال میں غوروتفکر کیجئے: اس سے بھی زُہد اختیار کرنے میں معاونت نصیب ہوگی۔حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں:’’آخرت کےلئے دنیا کو ترک کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ کے دروازے پر موجود کتا اندر جانے سے روک ‏دے،یہ شخص اس کتے کےآگے روٹی کا ایک لقمہ ڈال دے اورجب وہ اسے کھانے میں مشغو ل ہو تو یہ اندر داخل ہوجائے،پھر اسے بادشاہ کا قُرب نصیب ہوجائے یہاں تک کہ پوری سلطنت میں اس کا حکم جاری ہوجائے۔کیاتمہارے خیال میں وہ شخص بادشاہ پر اپنا احسان سمجھے گا کہ اس کا قرب پانے کے عوض میں نے اس کے کتےکے آگے روٹی کا لقمہ ڈالا تھا۔شیطان بھی ایک کتے کی طرح ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دروازے پر موجود ہے اور لوگوں کو اندر داخل ہونے سے روکتا ہے اگرچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے،پردے اٹھادئیے گئے ہیں اور ہر کسی کو داخلے کی اجازت ہے۔دنیا اپنی تمام تر نعمتوں سمیت روٹی کے ایک لقمے کی مانند ہے،اگر تم اسے کھالوتو اس کی لذت صرف چبانے کے وقت تک محدود ہے، حلق سے نیچے اترتے ہی اس کی لذت ختم ہوجاتی ہے، معدے میں اس کا بوجھ باقی رہتا ہے اور آخر کار یہ گندگی اور نجاست کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور انسان اسے اپنے جسم سے باہر نکالنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جو شخص ایسی حقیر چیز کو بادشاہ کا قرب پانے کے لئے ترک کردے بھلا وہ دوبارہ اس کی طرف کیسے متوجہ ہوسکتا ہے؟کوئی شخص اگرچہ سو (100) سال تک زندہ رہے لیکن اسے دی جانے و الی دنیا کو آخرت میں ملنے والی نعمتوں سے وہ نسبت بھی نہیں ہے جو روٹی کے ٹکڑے اور بادشاہ کے قرب کی نعمت کے درمیان ہےکیونکہ متناہی چیز(یعنی جس کی کوئی انتہاہو)کو لامتناہی چیز(یعنی جس کی کوئی انتہا نہ ہو) سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔دنیاعنقریب ختم ہونے والی ہے، اگربالفرض یہ ایک لاکھ سال تک باقی رہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بالکل صاف شَفّاف بھی ہو اس میں کوئی میل کچیل نہ ہوتو بھی اسے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کوئی نسبت نہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کی عُمر قلیل اور دُنیوی لذات آلودہ اور میلی ہوتی ہیں ،بھلا ایسی چیز کو آخرت سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔‘‘[14]

(9)زُہدکے مختلف درجات کی معلومات حاصل کرکے عمل کی کوشش کیجئے: زُہدکے تین درجات یہ ہیں:(۱)پہلا درجہ:بندے کا مقصد عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حساب کی سختی، پل صراط سے گزرنا اور ان دیگر مصائب وآلام سے چھٹکارے کا حصول ہو جن کا احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے،یہ سب سے ادنیٰ درجے کا زُہد ہے۔(۲) دوسرا درجہ: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ملنے والے ثواب، نعمتوں اور جنت میں جن انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے، مثلاً: محلات وغیرہ ان پر نظر رکھتے ہوئے زُہد اختیار کیا جائے۔ (۳) تیسرا درجہ: بندہ صرف اور صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی محبت کے سبب اور اس کے دیدار کی دولت پانے کے لیے زُہد اختیار کرے، نہ تو اس کا دل اُخروی عذابوں کی طرف متوجہ ہو اور نہ ہی جنتی نعمتوں کی طرف متوجہ ہو، یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔[15](نجات دلانے والےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۱۴تا۲۱۹)


[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۴۷۔

[2] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۸۴۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۵۳بتصرف قلیل۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۵۵۔

[5] ۔۔۔۔شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، ۴ / ۲۰۵، حدیث: ۴۸۰۰۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۸۵ملخصا۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۴۶۔

[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۶۵۷تا۶۶۹ماخوذا۔

[9] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۸۲تا ۶۸۴ملخصا۔

[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۶۹ تا۶۷۲ملخصا۔

[11] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۹۳۔

[12] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۷۲۷۔

[13] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۴ / ۶۶۶۔

[14] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۷۵۔

[15] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۴ / ۶۷۶تا ۶۷۷ملخصا۔

Share

Comments


Security Code