ایصالِ ثواب
سوال:ایصالِ ثواب کسے کہتے ہیں؟
جواب:اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا ’’ایصالِ ثواب‘‘ کہلاتاہے۔
سوال:کیا ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے ؟
جواب:شریعتِ مطہرہ میں اپنے کسی بھی نیک عمل کا ثواب کسی فوت شُدہ یا زندہ مسلمان کو ایصال کرنا جائز و مستحسن ہے۔
سوال:کیا اس کے بارے میں احادیث بھی ہیں؟
جواب:جی ہاں! ایصالِ ثواب کے ثبوت میں احادیثِ مبارکہ موجود ہیں۔
حدیث۱:حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتیں تو صدقے کا کہتیں پَس اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اُنہیں ثواب پہنچے گا فرمایا: ’’ہاں‘‘۔[1]
حدیث۲:حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم! میری ماں کا انتقا ل ہو گیا ہے، اُ ن کے لیے کون سا صدقہ افضل ہے؟حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’پانی‘‘تو حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے[2] یعنی اس کا ثواب ان کی روح کو ملے۔
سوال:کس کس چیز کا ثواب بخشا جاسکتا ہے؟
جواب:انسان اپنے کسی بھی نیک عمل کاثواب کسی دوسرے شخص کو پہنچاسکتا ہے جیسے نماز، روزہ ،صدقہ و خیرات وغیرہ۔
سوال:کیا زندوں کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں؟
جواب:جی ہاں !کرسکتے ہیں ۔
سوال:کیا اس سے مُردوں کو فائدہ پہنچتا ہے ؟
جواب:جی ہاں!اس سے نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں ،گناہ گاروں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اہلِ قبر سختی یاعذاب میں مبتلاہو ں تونجات مل جاتی ہے یااس میں تخفیف ہوجاتی ہے اور یہ سب اللّٰہ تَعَالیٰ کے چاہنے سے ہوتا ہے۔
سوال:کیا ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی کچھ ملتا ہے؟
جواب:ایصالِ ثواب کرنے والا بھی اجر وثواب سے محروم نہیں رہتا اس کے عمل کا اجر اس کے لئے بھی باقی رہتا ہے بلکہ ان سب کی گنتی کے برابرنیکیاں ملتی ہیں جن کو اس نے ایصالِ ثواب کیا ہوتا ہے۔
سوال:ایصالِ ثواب کے بارے میں کوئی واقعہ بھی پیش فرمادیجئے؟
جواب: شاہ ولِیُّ اللّٰہ مُحدّ ث دہلوی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ نذر و نیاز،چالیسواں، تیجہ، دسواں ایصالِ ثواب کے قائل تھے، لکھتے ہیں’’شاہ عبدُ الرّحیم صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے یومِ وصال میں ان کے پاس نیاز دینے کے لیے کوئی چیز میسّر نہ تھی۔ آخرکار کچھ بُھنے ہوئے چنے اور گُڑھ پر نیاز دی۔ رات میں نے دیکھا کہ نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس انواع و اقسام کے کھانے حاضر ہیں اور ان میں وہ گُڑھ اور چنےبھی ہیں ،آپ نے کمالِ مُسرّت واِلتِفات فرمایا اور انہیں طلب فرمایا اور کچھ آپ نے تَناوُل فرما یا اور کچھ آپ نے اَصحاب میں تقسیم کردیا۔[3]
سوال:کیا ایصالِ ثواب کسی مقررہ دن ہی کرنا چاہیے یا کسی بھی دن ہو سکتا ہے؟
جواب:ایصالِ ثواب کے لئے نہ کسی وقت کو معیّن کرنا ضروری ہے نہ کسی عمل کو۔ بغیر کسی قید کے جب بھی چاہیں ،کو ئی نیک عمل کرکے میّت کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں،چاہے کوئی صدقہ کرے یا مدرسہ ومسجد بنا دے ،میّت کی طرف سے حج کرے ،قرآنِ پاک کی تلاوت کرکے ثواب پہنچائے یہی کام کسی دن کو معیّن کرکے کئے جائیں اس میں بھی حرج نہیں کہ دن معیّن کرنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ جمع ہوجائیں اور اہتمام کے ساتھ عملِ خیر کیا جائے تعیین شرعاً منع نہیں ہے جیساکہ نمازِ باجماعت میں لوگوں کی آسانی کے لئے ایک وقت مُقرّر کردینا ،کسی دینی اجتماع مَحافل یا شادی بیاہ وغیرہ کے لئے دن و تاریخ معیّن کردینا جائز ہے۔ ہاں البتہ اسی تعیین کو ضروری سمجھنا کہ اس کے بغیر ایصالِ ثواب نہ ہو گا یہ درست نہیں جاہلانہ خیال ہے اس سے باز رہنا ضروری ہے۔
سوال:تیجہ ،دسواں ،چالیسواں کیا ہیں؟
جواب:فوت شُدہ مسلمانوں کے ایصالِ ثواب کے لئے عموماً قرآن خوانی اور محفلِ ذکر و نعت کا اہتمام کیا جاتاہے نیز کھانا وغیرہ بھی پکاکر تقسیم کیا جاتا ہے، اگر اس طرح کا اہتمام فوت ہونے کے دوسرے روز ہوتو اسے دوجہ ،تیسرے روز ہوتو تیجہ ،دسویں روز ہوتو دسواں، چالیسویں روز ہوتو چالیسواں یا چہلم اور سال کے بعد ہوتو برسی کہتے ہیں ایک دو دن آگے پیچھے بھی ہوجائیں تو دسواں بیسواں یا چالیسواں ہی کہلاتا ہے ۔
سوال:ایصالِ ثواب کا کھانا کون کون کھا سکتا ہے؟
جواب:ایصالِ ثواب کا کھانا خود بھی کھاسکتے ہیں اور اپنے عزیز و اَقرباء و اَحبّاء،اَغنیاء و فقراء سب کو کھلاسکتے ہیں۔
سوال:کیا فاتحہ میں کھانے کا سامنے ہونا ضروری ہے؟
جواب: کھانے کا سامنے ہونا ضروری نہیں۔ سامنے کھانا رکھے بغیر بھی فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے لیکن کھانے کا سامنے ہونا منع بھی نہیں،معمول ہے اور پڑھ کر اس پر دم بھی کیا جاتا ہے جس سے وہ بابرکت ہوجاتا ہے ،اس میں حرج نہیں ۔
سوال:محرّمُ الحرام میں پانی یا شربت کی سبیل لگانا کیسا ہے؟
جواب:پانی یا شربت کی سبیل لگانا جبکہ نیّت اچھی ہو اور مقصود خالصاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا اور ارواحِ طیّبہ ائمّہ اطہارکو ثواب پہنچانا ہوتو بلا شبہ بہتر ومستحب و کارِثواب ہے۔ حدیث میں ہے:رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں:جب تیرے گناہ زیادہ ہوجائیں تو پانی پر پانی پلا ، تو تیرے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جیسے سخت آندھی میں پیڑ کے پتّے جَھڑ جاتے ہیں۔[4]
سوال:کیاگیارہویں شریف کی نیازکرنا جائز ہے؟
جواب:گیارہویں شریف کی نیازدلانا جائز ہے۔یہ ہم حضور سیّدُنا غوثِ پاک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کرنے کے لئے کرتے ہیں اور یہ عمل جائز و مستحسن اور باعثِ اَجر وثواب ہے بزرگوں سے نسبت و محبّت کی علامت ہے جو سعادت مندی کی دلیل ہے ۔
سوال:رجبُ المرجّب میں کونڈوں کی نیاز دلوانے کا رواج ہے ،کیا یہ جائز ہے ؟
جواب:جی ہاں!بائیس رجبُ المرجّب میں حضرت سیّدُنا امام جعفر صادق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت جلال بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی کے ایصالِ ثواب کے لیے نیا ز کی جاتی ہے جس میں چاول ، کھیر یا پوریاں وغیرہ پکا کر ان کے کونڈے بھرتے ہیں، پھر ان پر ختم دلوایا جاتا ہے لہٰذا اسے کونڈے کا ختم یا نیاز کہتے ہیں۔ یہ بھی ایصالِ ثواب کی ایک صورت ہے اور ایصالِ ثواب کرنا جائز و مستحسن ہے۔
سوال:کونڈوں کے ختم میں کون سی باتیں منع ہیں؟
جواب:۱…کونڈوں کی نیاز کے موقع پر جو کہانی عام طور پر سنائی جاتی ہے وہ مَن گھڑت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں لہٰذا وہ کہانی پڑھی جائے نہ سنی جائے۔
۲…بعض جگہ یہ قید لگاتے ہیں کہ یہیں کھاؤ کہیں اور نہ لے جاؤ ، یہ قید بھی بے جا ہے۔ ان باتوں سے اجتناب کیا جائے۔
۳…اسی طرح بعض یہ قید لگاتے ہیں کہ مٹّی کے برتن وغیرہ میں کونڈے کی نیاز ضروری ہے، یہ قید بھی ضروری نہیں۔
سوال:ایصالِ ثواب کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟
جواب:آج کل مسلمانوں میں خصوصاً کھانے پر ایصالِ ثواب یعنی فاتحہ کا جو طریقہ رائج ہے وہ بھی بہت اچھا ہے، جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے کھانے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کو سامنے رکھ لیں اب اعوذاور بسمِ اللّٰہ شریف پڑھ کر قُلْ یٰۤاَیُّھَا الْکٰفِرُوْن ایک با ر، قُلْ ھُوَاﷲشریف تین بار، سورۂ فلق،سورۂ ناس اور سورۂ فاتحہ ایک ایک بار پھر الٓمّٓ تا مُفْلِحُوْن پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھیں:
(۱)وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳)(پ ،البقرة:۱۶۳ )
(۲)اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶)(پ ۸،الأعراف:۵۶ )
(۳)وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ ۱۷،الأنبياء:۱۰۷)
(۴)مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ ۲۲،الأحزاب:۴۰)
(۵)اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)(پ ۲۲،الأحزاب:۵۶)
اب درود شریف کے بعد پڑھے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۸۲) (پ ۲۳،الصّٰفّٰت:۱۸۰ تا ۱۸۲) پھر ایصالِ ثواب کرے۔ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۹۵تا۱۰۰)
[1] ۔۔۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب موت الفجاة البغتة،۱ / ۴۶۸،حدیث:۱۳۸۸
[2] ۔۔۔۔۔ ابو داود،کتاب الزکاة، باب فی فضل سقی الماء،۲ / ۱۸۰،حدیث:۱۶۸۱
[3] ۔۔۔۔۔ انفاس العارفین ،ص۷۶
[4] ۔۔۔۔۔ تاریخ بغداد، ۶ / ۴۰۰، رقم:۳۴۶۴
Comments