کسی بزرگ کا عُرس منانا
سوال:عُرس کسے کہتے ہیں؟
جواب: کسی بزرگ کی یاد مَنانے کے لئے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے۔
سوال:کسی بزرگ کا عُرس منانا کیسا؟
جواب:بزرگانِ دین اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یا د منا نا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لئے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجر وثواب کا ذریعہ ہے ۔
سوال:اس کے جائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب:بزرگانِ دین کے ا َعراس میں ذکرُ اللّٰہ،نعت خوانی اور قرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل اوپر ذکر کئے جاچکے ہیں ۔
سوال:مزارات پر حاضر ہونے کا کیا ثبوت ہے؟
جواب:مزارات پر حاضری دینا زمانہ ٔ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے۔علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہےکہ حضور سیّدِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔[1]
سوال:بزرگانِ دین کے مزار پر کیوں جاتے ہیں اس ضِمْن میں کوئی واقعہ ہو تو وہ بھی ارشاد فرمادیں؟
جواب:اولیاء اللّٰہ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰیکے مزارات پر جانا باعثِ برکت اور رفعِ حاجات کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبور پرجاتے اوراللّٰہعَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجات کیلئے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے نقل فرماتے ہیں:’’ میں امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تودو رکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ تَعَالٰی سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے۔‘‘[2]
سوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ عُرس پر غیر شرعی کاموں کا ارتکاب کیا جاتا ہے لہٰذا وہاں جانا اور عُرس منانا جائز نہیں،یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب:اَلْـحَمْـدُ لـِلّٰـهِ عَزَّ وَجَلَّعُرس کا مسئلہ قرآن وحدیث، صحابۂ کرام اور اولیا ء صالحین کے عمل سے واضح ہوچکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں۔ہاں!غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا،ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے۔
سوال:کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنا کیسا؟
جواب:کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کانام لیکر ذبح کیا جائے۔کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کردیاجاتا ہے، اورذبح کے وقت اس پر اللّٰہ تَعَالٰی کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کےلئے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں۔ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۱۰۰تا۱۰۳)
[1] ۔۔۔۔ رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،۳ / ۱۷۷۔
[2] ۔۔۔۔ ردالمحتار ، مقدمة الکتاب، مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل،۱ / ۱۳۵۔
Comments