راہِ خُدا میں خرچ کرنا

(21)راہِ خُدا میں خرچ کرنا

راہِ خدا میں خرچ کرنے کی تعریف :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رِضا اور اَجروثواب کے لیے اپنے گھروالوں، رشتہ داروں، شرعی فقیروں، مسکینوں، یتیموں، مسافروں، غریبوںو دیگر مسلمانوں پر اور ہرجائز ونیک کام یا نیک جگہوں میں حلال وجائز مال خرچ کرنا ’’راہِ خدا میں خرچ کرنا‘‘ کہلاتا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۸۳)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ ((پ۳، البقرہ: ۲۵۴) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو ۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۸۳، ۱۸۴)

(حدیث مبارکہ)راہِ خدا میں خرچ کرنے والاقابل رشک ہے:

حضرت سیدنا سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’حسد (یعنی رشک) نہیں مگر فقط دو آدمیوں کے معاملے میں: پہلا وہ شخص جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآن عطا فرمایا اور وہ دن رات اس کے ساتھ قائم رہے۔ دوسرا وہ شخص جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مال عطا فرمایا اور وہ دن رات (راہِ خدا میں)خرچ کرتا رہے۔‘‘[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۸۴)

راہِ خدا میں خرچ کرنے کا حکم:

راہِ خدا میں اپنا جائز اور حلال مال خرچ کرنا بعض صورتوں میں فرض، بعض میں واجب اور بعض میں مستحب ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۸۴)

راہِ خدا میں خرچ کا ذہن بنانے اور خرچ کرنے کے چودہ(14)طریقے:

(1) : راہِ خد امیں خرچ کرنے کے دُنیوی واُخروی فوائد پیش نظر رکھیے:راہِ خدا میں مسلمانوں پر اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ وخیرات کرکے خرچ کرنے والوں کے لیے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰننے اَحادیث مبارکہ سے تقریباً ۲۵فوائد ذکر فرمائے ہیں:(۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے بُری موت سے بچیں گے، ستر دروازے بُری موت کے بند ہوں گے۔(۲)عمریں زیادہ ہوں گی۔(۳)اُن کی گنتی (تعداد)بڑھے گی۔(۴)رِزق میں وُسعت مال کی کثرت ہوگی، اِس کی عادت سے کبھی محتاج نہ ہوں گے۔(۵)خیروبرکت پائیں گے۔ (۶)آفتیں بلائیں دُور ہوں گی، بُری قضا ٹلے گی، ستر دروازے برائی کے بند ہوں گے، ستر قسم کی بلا دور ہوگی۔(۷)اُن کے شہر آباد ہوں گے۔(۸)شکستہ حالی دور ہوگی۔(۹)خوفِ اندیشہ زائل اور اطمینانِ خاطر حاصل ہوگا۔(۱۰)مددِالٰہی شامل ہوگی۔(۱۱)رحمت الٰہی اُن کے لیے واجب ہوگی۔ (۱۲)ملائکہ اُن پردرود (دعائے رحمت)بھیجیں گے۔ (۱۳)رِضائے الٰہی کے کام کریں گے۔(۱۴)غضب اِلٰہی اُن پر سے زائل ہوگا۔ (۱۵) اُن کے گناہ بخشے جائیں گے، مغفرت اُن کے لیے واجب ہوگی، اُن کے گناہوں کی آگ بجھ جائے گی۔ (۱۶)خدمت اہل دِین میں صدقہ سے بڑھ کر ثواب پائیں گے۔ (۱۷) غلام آزاد کرنے سے زیادہ اَجرلیں گے۔(۱۸)اُن کے ٹیڑھے کام درست ہوں گے۔ (۱۹) آپس میں محبتیں بڑھیں گی جو ہر خیروخوبی کی متبع(یعنی ان کے پیچھے پیچھے چلنے والی) ہیں۔ (۲۰)تھوڑے خرچ میں بہت کا پیٹ بھرے گا کہ تنہا کھاتے تو ڈبل خرچ آتا۔ (۲۱)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور درجے بلند ہوں گے۔ (۲۲) مولیٰ تَبَارَکْ وتَعَالٰی ملائکہ سے اُن کے ساتھ مباہات (فخر)فرمائے گا۔ (۲۳)روزِ قیامت دوزخ سے امان میں رہیں گے، آتش دوزخ اُن پر حرام ہوگی۔ (۲۴) آخرت میں اِحسانِ الٰہی سے بہرہ مند ہوں گے کہ نہایتِ مقاصِد وغایتِ مرادَات (مقصدوں ومرادوں کی انتہاو اَنجام)ہے۔(۲۵)خدا نے چاہا تو اُس مبارک گروہ میں شامل ہوں گے جو حضور پرنور سید عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نعل اَقدس کے تَصَدُّق میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا۔[2]

(2) بزرگانِ دِین کے واقعات کا مطالعہ کیجئے:بندہ جب بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کے واقعات کا مطالعہ کرے گا کہ وہ کیسے راہِ خدا میں خرچ کرتے تھے تو اُسے بھی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ نصیب ہوگا، اِس کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘ جلدسوم، ص ۷۴۱(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)سے مطالعہ بہت مفید ہے۔

(3) بخل کی مذمت، اَسباب اور علاج کا مطالعہ کیجئے:راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے کا ایک سبب بخل (کنجوسی)بھی ہے، جب بندہ بخل کی مذمت، اَسباب اور اُن کے علاج کا مطالعہ کرے گا تو بخل سے بچنا آسان ہوجائے گا اور اُسے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ نصیب ہوگا۔ اِس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ اِن کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: اِحیاء العلوم، جلدسوم، باطنی بیماریوں کی معلومات،ص۱۲۸، جہنم میں لے جانے والے اَعمال۔ وغیرہ وغیرہ

(4) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: والدین پر خرچ کرنے کا حکم خود قرآنِ پاک میں دیا گیا ہے، چنانچہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتاہے: (یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ)(پ۲، البقرہ: ۲۱۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے ۔‘‘

(5) اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: صلۂ رحمی کا حکم بھی خود ربّ تَعَالٰی نے قرآنِ پاک میں اِرشاد فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ آیت مبارکہ گزری۔نیز اَحادیث مبارکہ میں بھی اِس کے بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ صدقہ کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے سے رِزق میں وُسعت اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو چاہتا ہے کہ اس کے رِزق میں وُسعت، مال میں برکت ہو وہ اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے۔‘‘[3] ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’بے شک صدقہ اور صلۂ رحم اِن دونوں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ عمر بڑھاتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہےاور مکروہ اوراندیشہ کو دور کرتا ہے۔‘‘[4]

(6) اپنے اہل وعیال کی کفالت کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: اہل خانہ پر خرچ کرنے کے اَحادیث مبارکہ میں بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔جو ثواب کی نیت سے اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ بندے کے میزان میں سب سے پہلے اہل وعیال پر خرچ کیے گئے مال کو رکھا جائے گا۔ سب سے افضل دینار وہ ہے جسے بندہ اپنے گھروالوں پر خرچ کرے۔[5]

(7) یتیموں مسکینوں سے حسن سلوک کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے (شہادت کی انگلی اور بیچ والی انگلی کی طرح)اکھٹے ہوں گے۔‘‘[6] ایک اور حدیث پاک میں فرمایا: ’’بیوہ اور مسکین کی اِمداد وخبرگیری کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘[7]

(8) اِیصالِ ثواب کرکےراہِ خدا میں خرچ کیجئے:اِیصالِ ثواب بھی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ایک بہترین مَصْرَف ہے۔ حضرت سیدنا سعد بن عبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی والدہ کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: ’’سعد کی ماں کا انتقال ہوگیا (میں ایصالِ ثواب کے ليے کچھ صدقہ کرنا چاہتا ہوں) تو کون سا صدقہ افضل ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’پانی۔‘‘ اُنہوں نے ایک کنواں کھدوا دیا اور کہا:’’یہ اُمّ سعد کے ليے ہے۔‘‘[8] (یعنی اس کا ثواب میری ماں کو پہنچے۔)اِیصالِ ثواب کے لیے خرچ کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں: اپنے مرحومین کی اَرواح کے لیے کسی بھی نیک اور جائز کام میں خرچ کرنا ، مسجد میں پیسے دے دینا،مدرسۃ المدینہ، جامعۃ المدینہ وغیرہ میں پیسے دے دینا ،گھر میں فاتحہ خوانی ،بارہویں شریف ،گیارہویں شریف،رجب میں کونڈے ،گھر یا علاقے میں اجتماع ذکرونعت بزرگانِ دِین کے اَعراس، گھر میں قرآن خوانی غریبوں، یتیموں، مسکینوں ، ناداروں میں کھانا تقسیم کرنا ،کسی بیوہ ومجبور کی مدد،مسافروں کی خیرخواہی ،مدنی قافلے میں سفرکرنا یا کسی کو سفر کروا دینا ، دینی کتب ورسائل خرید کر وقف کردینا ،کسی بیمار کا علاج کروادینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اِیصالِ ثواب کی مختلف صورتیں ہیں، اِن میں خرچ کرنا راہِ خدا میں ہی خرچ کرنا ہے۔

(9) صدقہ وخیرات کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:مطلق صدقہ وخیرات کرکے راہ خدا میں خرچ کیجئے: کہ اس کے کثیر فضائل وفوائد احادیث مبارکہ میں بیان فرمائے گئے ہیں، تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں: ’’صدقہ دیا کرو بے شک صدقہ تمہارے لیے جہنم سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘[9]’’صدقہ بری موت سے بچاتا ہےاور نیکی عمر بڑھاتی ہے۔‘‘[10] ’’صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔‘‘[11]

(10) خفیہ طور پر صدقہ کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:چھپا کر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب خود قرآنِ پاک میں دلائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:( اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَۚ-وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِكُمْ) (پ۳، البقرہ: ۲۷۱) ترجمۂ کنز الایمان: ’’اگر خیرات علانیہ دو تو وہ کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر چُھپا کر فقیروں کو دو یہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اور اس میں تمہارے کچھ گناہ گھٹیں گے۔‘‘فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’بے شک مخفی صدقہ ربّ تَعَالٰی کے غضب کو بجھاتا ہے۔‘‘[12]

(11) کھانا کھلا کر، پانی پلا کر راہِ خدا میں خرچ کیجئے:فرمان مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:’’جو اپنے (مسلمان )بھائی کو روٹی کھلائے یہاں تک کہ اُس کا پیٹ بھر جائے اور اُسے پانی پلائے یہاں تک کہ اُس کی پیاس بجھ جائے تو اللہ تَعَالٰی اُسے دوزخ سے ایسی سات خندقوں کے برابر دور کردےگا جن میں سے ہردو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہو '۔‘‘[13]

(12)قرض دے کرراہِ خدا میں خرچ کیجئے: قرض دینا بھی راہِ خدا میں صدقہ کرنے اور خرچ کرنے جیسا ہے بلکہ قرض کا کئی گناہ اجر دیا جاتا ہے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’شب معراج میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: صدقہ دس گنا اور قرض اٹھارہ گنا (زیادہ اَجر رکھتا)ہے۔‘‘[14]

(13)تنگدست پر آسانی کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے:تنگ دست پر آسانی کرنے سے اجروثواب کی امید ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو کسی تنگدست پر آسانی کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ دنیا وآخرت میں اُس پر آسانی فرمائے گا۔‘‘[15]

(14)مسجد تعمیر کرکے راہِ خدا میں خرچ کیجئے: تعمیر مسجد میں خرچ کی بھی بہت فضیلت ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے مسجد بنائے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘[16] اسی طرح مدرسے یا کسی بھی دینی عمارت وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کرنا بھی راہِ خدا میں ہی خرچ کرنا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۸۷تا۱۹۳)


[1] ۔۔۔۔مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔الخ، ص۴۰۷، حدیث: ۸۱۵۔

[2] ۔۔۔۔فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۵۳بتصرف قلیل۔

[3] ۔۔۔۔بخاری، کتاب الادب، باب من یبسط لہ فی الرزق۔۔۔الخ، ۴ / ۹۷، حدیث: ۵۹۸۵۔

[4] ۔۔۔۔مسند ابی یعلی، مسند انس بن مالک، ۳ / ۳۹۷، حدیث: ۴۰۹۰۔

[5] ۔۔۔۔فیضان ریاض الصالحین،۱ / ۸۶۔

[6] ۔۔۔۔بخاری، کتاب الادب، باب فضل من یعول یتیما،۴ / ۱۰۱، حدیث: ۶۰۰۵۔

[7] ۔۔۔۔بخاری، کتاب الادب، باب الساعی علی المسکین، ۴ / ۱۰۲، حدیث: ۶۰۰۷۔

[8] ۔۔۔۔ابوداود، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی الماء،۲ / ۱۸۰، حدیث: ۱۶۸۱۔

[9] ۔۔۔۔شعب الایمان، باب فی الزکاۃ، فصل فی التحریص علی صدقۃ التطوع،۳ / ۲۱۴، حدیث: ۳۳۵۵۔

[10] ۔۔۔۔مسند امام احمد، حدیث رافع بن مکیث، ۵ / ۴۴۱، حدیث: ۱۶۰۷۹۔

[11] ۔۔۔۔معجم کبیر ،۴ / ۲۷۴، حدیث: ۴۴۰۲۔

[12] ۔۔۔۔معجم کبیر، ۱۹ / ۴۲۱، حدیث: ۱۰۱۸۔

[13] ۔۔۔۔مستدرک حاکم، کتاب الاطعمۃ، باب فضیلۃ اطعام الطعام، ۵ / ۱۷۸، حدیث: ۷۶۵۴۔

[14] ۔۔۔۔ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض، ۳ / ۱۵۴، حدیث: ۲۴۳۱۔

[15] ۔۔۔۔ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب انظار المعسر،۳ / ۱۴۶، حدیث: ۲۴۱۷۔

[16] ۔۔۔۔بخاری، کتاب الصلاۃ، باب من بنی مسجدا،۱ / ۱۷۱، حدیث: ۴۵۰۔

Share