قبولِ حق

(33)قبولِ حق

قبول حق کی تعریف:

باطل پر نہ اَڑنا اور حق بات مان لینا قبولِ حق ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۳)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں فرماتا ہے:(اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(۳))(پ۲۹،الدھر:۳) ترجمۂ کنزالایمان:’’بے شک ہم نے اسے راہ بتائی یا حق مانتا یا ناشکری کرتا۔‘‘(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۳)

(حدیث مبارکہ)قبول حق پر مجبور کرنا:

حضرت سیدنا عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! تم ضرور نیکی کی دعوت دیتے رہنا اوربُرائی سے منع کرتے رہنا۔ ظالم کاہاتھ پکڑکراسے حق کی طرف جھکا دینا اورحق بات قبول کرنے پر اسے مجبور کر دینا۔‘‘[1] ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جب تک تم نیک لوگوں سے محبت رکھوگے بھلائی پر رہو گے اور تمہارے بارے میں جب کوئی حق بات بیان کی جائے تواسے مان لیاکروکہ حق کو پہچاننے والا اس پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتاہے۔‘‘[2](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۳)

قبولِ حق کے بارے میں تنبیہ:

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حق بات قبول کرےکہ حق بات معلوم ہونے کے باوجود انانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا فرعونیوں کا طریقہ ہے۔چنانچہ قرآنِ پاک میں فرعونیوں کے متعلق ہے:( فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۷۶))(پ۱۱،یونس:۷۶) ترجمۂ کنزالایمان:’’تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا بولے یہ تو ضرور کھلا جادو ہے۔‘‘اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر’’صراط الجنان‘‘ میں ہے:’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینےکے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۳،۲۶۴)

قبول حق کاذہن بنانے اور اس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےآٹھ(8) طریقے:

(1)قبول حق کے فوائد پر نظر کیجئے: ٭حق بات قبول کرنے والے کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ ٭حق بات قبول کرنے والا تکبر سے دور ہوتا ہےکیونکہ کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے۔[4] ٭قبول حق عاجزی کی علامت ہے۔٭قبول حق صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔٭قبول حق کے سبب آدمی فضول بحث ومباحثہ سے بچ جاتا ہے۔٭حق بات قبول کرنے والے کی لوگوں میں قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔٭حق بات قبول کرنے والا جھگڑے سے بچا رہتا ہے۔٭قبول حق کے سبب آدمی عنادِ حق اور اِصرارِ باطل سے بچ جاتا ہے۔

(2)حق بات قبول نہ کرنے کے نقصانات میں غور کیجئے: ٭حق بات قبول نہ کرنے والے کو لوگ حق کی تلقین کرنے سے رُک جاتے ہیں۔٭حق بات قبول نہ کرنے والوں کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا اصرارِ باطل اور عنادِ حق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا تکبر میں پڑ جاتا ہے۔ ٭حق بات نہ ماننے والا جھگڑے سے نہیں بچ پاتا۔٭حق بات قبول نہ کرنے والا فضول بحث ومباحثہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔٭حق بات نہ ماننے والے کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔

(3)قبولِ حق کے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال واَحوال کا مطالعہ کیجئے: قبولِ حق کے متعلق دو فرامین بزرگانِ دِین:٭حضرت سیدنا ذوالنون مصری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:”تین چیزیں عاجزی کی علامت ہیں: (۱)نفس کا عیب پہچان کراسے چھوٹا سمجھنا(۲)اسلام کی حرمت کے سبب لوگوں کی تعظیم کرنا اور(۳)ہر ایک سے حق بات اور نصیحت کو قبول کرنا۔‘‘[5] حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے آگے جھک جاؤاور اس کی پیروی کرو اور اگرتم سب سے بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تواسے بھی قبول کرلو۔‘‘[6]

(4)صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے:صالحین اور حق قبول کرنے والوں کی صحبت کی برکت سے قبول حق کا جذبہ ملے گااور باطل پر اِصرار سے آدمی بچ جائے گا۔

(5)ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھئے:جب بندہ یہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی تائید کرنے سے ذاتی مفادات خطرے میںپڑ جائیں گےجبکہ غلط کام پر اڑےرہنے سے میری ذات کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا تو وہ حق بات کو قبول کرنے سے رُک جاتا ہے لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے۔

(6)تکبر کو ختم کیجئے: قبول حق میں ایک بڑی رکاوٹ تکبر ہے کہ متکبر انسان حق بات کو جان کر بھی اسے قبول کرنے سے کتراتا ہے اور اسے اپنی بے عزتی جانتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے ضروری ہے کہ تکبر کو ختم کیا جائے۔

(7)خود پسندی کو ختم کیجئے: جو اپنی رائے یا مشورے کو حتمی اور ناقابل رد سمجھتے ہیں بعض اوقات حق بات کی تائید کرنا اُن کے لیے مشکل ہوجاتا ہے اور وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بناکر حق بات کی مخالفت شروع کردیتے ہیں لہٰذا قبول حق کے لیے ضروری ہے کہ خودپسندی کو ختم کیا جائے۔

(8)حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کیجئے: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کا حق ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مخالفت میں اپنا باطل اور غلط موقف پیش کیا جارہا ہوتا ہے جس کاسبب حب جاہ اور شہرت کا حصول ہوتا ہے لہٰذا قبولِ حق کے لیے حب جاہ اور طلب شہرت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۶۵تا۲۶۷)


[1] ۔۔۔۔ابو داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنھی، ۴ / ۱۶۲، حدیث: ۴۳۳۶۔

[2] ۔۔۔۔شعب الایمان ، باب فی مقاربۃومودۃ۔۔۔الخ، ۶ / ۵۰۳، حدیث:۹۰۶۳۔

[3] ۔۔۔۔صراط الجنان،پ۱۱، یونس،تحت الآیۃ:۷۶، ۴ / ۳۶۳۔

[4] ۔۔۔۔مستدرک حاکم،کتاب اللباس ،باب ان اللّٰه جمیل یحب الجمال،

[5] ۔۔۔۔شعب الایمان ، باب فی حسن الخلق، فصل فی التواضع ۔۔۔الخ، ۶ / ۲۹۸، حدیث:۸۲۳۰۔

[6] ۔۔۔۔الزواجر عن اقتراف الکبائر ،الباب الاول فی الکبائر الباطنۃ وما یتبعھا، ۱ / ۱۶۳۔

Share

Comments


Security Code