سید المرسلین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خصائص

شمائل و خصائل

حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جمالِ صورت میں بھی بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا۔ ہم اور آپ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتے ہیں ؟ حضرات صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جو دن رات سفر و حضر میں جمال نبوت کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن کر یہی کہنا پڑتا ہے جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎

لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ

اَبَدًا وَّ عِلْمِیْ اَنَّہٗ لَا یَخْلُقُ

یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔[1] (حیاۃ الحیوان د میری ج۱ص۴۲)

صحابی رسول اور تاجدار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے قصیدۂ ہمزیہ میں جمال نبوت کی شان بے مثال کو اس شان کے ساتھ بیان فرمایا کہ ؎

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ!

وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ

یعنی یا رسول اللہ !(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں ۔

خُلِقْتَ مُبَرَّءًمِّنْ کُلِ عَیْبٍ!

کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ[2]

(یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )آپ ہر عیب و نقصان سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔

حضرت علامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے قصیدۂ بردہ میں فرمایا کہ ؎

مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ

فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ[3]

یعنی حضرت محبوب خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابل تقسیم ہی نہیں ۔

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہ العزیز نے بھی اس مضمون کی عکاسی فرماتے ہوئے کتنے نفیس انداز میں فرمایا ہے کہ ؎

ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خَلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسب ِاعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے مثل و بے مثال ہیں ۔ چنانچہ حضرات محدثین و مصنفین سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر ہر عضو شریفہ کے تناسب اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے۔ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں ’’حلیۂ مبارکہ‘‘ کے ذکر جمیل سے حسن و جمال پیدا کرنے کے لئے اس عنوان پر حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں تاکہ اس عالم کامل کی برکتوں سے بھی یہ کتاب سرفراز ہو جائے۔ حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ’’پنجہ نور‘‘ میں تحریر فرمایا کہ

حلیۂ مقدسہ

روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں

پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں

اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال

تا کہ یاروں کو مرے پہچان ہو اور اس کی یاد بھی آسان ہو

تھا میانہ قد و اوسط پاک تن پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن

چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے

تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی

دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال

اِتصال دو مہ ’’عیدین‘‘ تھا یاکہ ادنیٰ قرب تھا ’’قوسین‘‘ کا

تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں

کان دونوں خوب صورت ارجمند ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند

صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا

تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ

تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن ہو ازار و جبہ یا پیر ہن

سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا پر کبھی سود و سپید و صاف تھا

میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی دونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی

جسم اطہر

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔[4] (شمائل ترمذی ص۲)

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیباوحریر(ریشمیں کپڑوں ) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔[5] (بخاری ج۱ ص۵۰۳ باب صفۃ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )

حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اسی کیفیت سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شادمانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔ [6] (بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )

آپ کے رُخِ انور پر پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہاایک چمڑے کا بستر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے

بچھا دیتی تھیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں پھر اس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں ۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔[7] (بخاری ج۲ ص۹۲۹ باب من زار قوماً فقال عندہم و بخاری ج۱ ص۳۶۵ حدیث الافک)

جسم انور کا سایہ نہ تھا

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵؁ھ) نے اپنی کتاب ’’نوادر الاصول‘‘ میں حضرت ذکوان تابعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔امام ابن سبع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا قول ہے کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تو میرے تمام اعضاء کو نور بنا دے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا کہ’’وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا‘‘ یعنی یااللہ ! تو مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا؟

اسی طرح عبداللہ بن مبارک اور ابن الجوزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَانے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کی ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سایہ نہیں تھا۔[8] (زرقانی ج۵ ص۲۴۹)

مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ

حضرت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور علامہ حجازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِوغیرہ سے بھی یہی منقول ہے کہ بدن تو بدن، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں ، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا، اس مضمون کو ابو الربیع سلیمان بن سبع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’شفاء الصدور فی اعلام نبوۃ الرسول‘‘ میں بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا اس لئے آپ ان چیزوں سے محفوظ رہے۔امام سبتیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے بھی اس مضمون کو ’’اعظم الموارد‘‘ میں مفصل لکھا ہے۔[9] (زرقانی ج۵ ص۲۴۹)

مہر نبوت

حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔[10] (شمائل ترمذی ص۳ وترمذی ج۲ص ۲۰۵)

لیکن ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مہر نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر تھی اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ

اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ بِوَجْہٍ حَیْثُ کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنْصُوْرٌ

یعنی ایک اللہ ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول!)آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ

’’ کَانَ نُوْرًا یَّتَلَأُ لَأُ ‘‘ یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔[11] (حاشیہ ترمذی ج۲ ص۲۰۵ باب ماجاء فی خاتم النبوۃ)

قد مبارک

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قدبلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔[12] (شمائل ترمذی ص۱)

اسی طرح حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ طویل القامت تھے نہ پستہ قدبلکہ آپ میانہ قد تھے۔ بوقت ِرفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔[13] (شمائل ترمذی صفحہ۱)

اس پر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اتفاق ہے کہ آپ میانہ قد تھے لیکن یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔

قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام

طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں اُس سہی سروِقامت پہ لاکھوں سلام

سر اقدس

حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلیہ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ضخم الراس‘‘ یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سر مبارک ’’بڑا‘‘ تھا(جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔) [14] (شمائل ترمذی)

جس کے آگے سرسروراں خم رہیں

اُس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام

مقدس بال

حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قبلہ بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس و لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ

گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تادوش کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو

آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔[15] (شمائل ترمذی ص۴-۵)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اتروائے تو وہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

حضرت بی بی اُمِ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَااس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔[16] (بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب مایذکر فی الشیب)

وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا

لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام

رُخِ انور

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ،پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اورایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔[17]

حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ (چمک دمک میں ) تلوار کی مانند تھا؟ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حلیہ مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ

مَنْ رَاٰہُ بَدِیْھَۃً ھَابَہٗ وَمَنْ خَالَطَہٗ مَعْرِفَۃً اَحَبَّہٗ [18] (شمائل ترمذی ص۲)

جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اچانک دیکھتا وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔

حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔[19] (بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )

حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ کے چہرۂ انور کے بارے میں یہ کہا: فَلَمَّا تَبَیَّنْتُ وَجْھَہٗ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْھَہٗ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ۔[20] یعنی میں نے جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کو بغور دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہے۔ ( مشکوٰۃ ج۱ ص۱۶۸ باب فضل الصدقہ)

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کیا خوب کہا کہ ؎

چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام

جس سے تاریک دل جگمگانے لگے اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام

عربی زبان میں بھی کسی مداح رسول نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخ انور کے حسن و جمال کا کتنا حسین منظر اور کتنی بہترین تشریح پیش کی ہے ؎

نَبِیُّ جَمَالٍ کُلُّ مَا فِیْہِ مُعْجِزٌ مِنَ الْحُسْنِ لٰکِنْ وَجْھُہُ الْاٰیَۃُ الْکُبْرٰی

یُنَادِیْ بَلَالُ الْخَالِ فِیْ صَحْنِ خَدِّہٖ یُطَالِعُ مِنْ لَا ْٔ لَآءِ غُرَّتِہِ الْفَجْرَا

یعنی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حسن و جمال کے بھی نبی ہیں ، یوں تو ان کی ہر ہر چیز حسن کا معجزہ ہے لیکن خاص کر ان کا چہرہ تو آیت کبریٰ (بہت ہی بڑا معجزہ) ہے۔

ان کے رخسار کے صحن میں ان کے تل کا بلال ان کی روشن پیشانی کی چمک سے صبح صادق کو دیکھ کر اذان کہا کرتا تھا۔

محراب اَبرو

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔[21] (شمائل ترمذی ص۲)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابروئے مبارک کی مد ح میں فرماتے ہیں کہ ؎

جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام

اور حضرت محسن کاکوروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے چہرۂ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ؎

مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں یا کھنچی معرکۂ بدر میں شمشیریں ہیں

نورانی آنکھ

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں ۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں ۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔[22] (شمائل ترمذی ص۲ و دلائل النبوۃ ص۵۴)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں ، اوپر نیچے،دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔[23] (زرقانی علی المواہب ج۵ ص۲۴۶ وخصائص کبریٰ ج۱ ص۶۱)

چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ

اَقِیْمُوا الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فَوَاللہ اِنِّیْ لَاَ رَاکُمْ مِنْ بَعْدِیْ[24] (مشکوٰۃ ص۸۲ باب الرکوع)یعنی اے لوگو!تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں ۔

صاحب ِمرقاۃ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ وَھِیَ مِنَ الْخَوَارِقِ الَّتِیْ اُعْطِیَھَا عَلَیْہِ السَّلام[25] (حاشیہ مشکوٰۃ ص۸۲ باب الرکوع) یعنی یہ باب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں ۔

پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آنکھوں کا دیکھنا محسوسات ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی وغیر محسوس چیزوں کو بھی جوآنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ وَاللہ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رَکُوْعُکُمْ وَلَا خُشُوْعُکُمْ[26] (بخاری ج۱ ص۵۹)

یعنی خدا کی قسم! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ سبحان اللہ !پیارے مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نورانی آنکھوں کے اعجاز کا کیا کہنا؟کہ پیٹھ کے پیچھے سے نمازیوں کے رکوع بلکہ ان کے خشوع کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔

’’خشوع‘‘ کیا چیزہے ؟خشوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سبحان اللہ ! چشمانِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے؟ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہٗ نے کیا خوب فرمایا ؎

شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال

دھوم ’’والنجم‘‘ میں ہے آپ کی بینائی کی

فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر

بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی

بینی مبارک

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔[27] (شمائل ترمذی ص۲ وغیرہ)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود

اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

مقدس پیشانی

حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ ’’واسع الجبین‘‘ یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔[28] (شمائل ترمذی ص۲)

قدرتی طورسے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیشانی پرایک نورانی چمک تھی۔ چنانچہ دربار رسالت کے شاعر مداح رسول حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسی حسین و جمیل نورانی منظر کو دیکھ کر یہ کہا ہے کہ

مَتَی یَبْدُ فِی الدَّاجِی الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہٗ!

یَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْمُتَوَقِّدِ[29]

یعنی جب اندھیری رات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں ۔

گوش مبارک

آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ اِنِّیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ(خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۷) یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔[30]

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دورو نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے، جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں ، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ لَا بُعْدَ فِیْ سَمَآعِہٖ صَلَی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَ یَسْمَعُ اَطِیْطَ السَّمَآءِیعنی اگر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔[31] (خصائص کبریٰ ج۱ ص۵۳ و حاشیہ الدولۃ المکیۃ ص۱۸۰)

دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان

کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام

دہن شریف

حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔[32] (شمائل ترمذی ص۲و خصائص کبریٰ ج۱ ص۷۴)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کو کبھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام شیطان کے تسلط سے محفوظ و معصوم ہیں ۔[33] (زرقانی ج۵ ص۲۴۸)

وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا

چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

زبان اقدس

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات ومخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔ ؎

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منہ میں زباں نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ

زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالم وجود میں آ گیا۔ ؎

وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام

اسکی پیاری فصاحت پہ بیحد درود اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام

لعابِ دہن

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لعابِ دہن(تھوک)زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ’’شفاء العین‘‘ بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔ (زاد المعاد غزوۂ بدر)

حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَ کے چہرے پر تیر لگا،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔[34] (اصابہ تذکرۂ ابو قتادہ)

شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔[35] (زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)

امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔[36] (زرقانی ج۵ ص۲۴۶)

جس کے پانی سے شاداب جان و جناں اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام

جس سے کھاری کنوئیں شیرۂ جاں بنے اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام

آواز مبارک

یہ حضرات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے،خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔[37] (زرقانی ج۴ ص۱۷۸)

جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں

اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام

پرنور گردن

حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔ [38] (شمائل ترمذی ص۲)

دست ِرحمت

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔[39] (شمائل ترمذی ص۲)

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔[40] (بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ج۲ ص۲۵۷)

جس شخص سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست ِرحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا دست ِمبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔ [41] (مسلم ج۲ ص۲۵۶ باب طیب ریحہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )

اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔ ؎

ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام

جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام

کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام

جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اُس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام

نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام

شکم و سینہ

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔[42] (شمائل ترمذی ص۲)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الٰہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الٰہی کا گنجینہ تھا۔ ؎

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا

اُس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

پائے اقدس

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔[43] (شمائل ترمذی ص۲ومدارج النبوۃ وغیرہ)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔[44] (شمائل ترمذی ص۲ وغیرہ)

ساقِ اصل قدم شاخ نخل کرم شمع راہ اصابت پہ لاکھوں سلام

کھائی قرآن نے خاکِ گزر کی قسم اُس کف پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام

لباس

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے ۔اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی،موزہ ان سب کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔[45]

عمامہ

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔[46] (شمائل ترمذی ص۹ وغیرہ)

عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ۔[47] (ابو داؤد باب العمائم ص ۲۰۹ ج۲ مجتبائی)

چادر

یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں ’’حبرہ‘‘ یا بردیمانی کہلاتی تھیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے استعمال فرمائی ہے۔[48] (ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخضرۃ مجتبائی)

کملی

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقت ِوفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وفات پائی۔[49] (ترمذی ج۱ ص۲۰۶ باب ماجاء فی الثوب)

نعلین اقدس

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں ۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔[50] (شمائل ترمذی ص۷ وغیرہ)

پسندیدہ رنگ

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے استعمال فرمائے ہیں ۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے؟۔ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دوسرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔[51] (ابو داؤدج۲ ص۲۰۷،۲۰۸ باب فی الحمرۃ)

انگوٹھی

جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اُوپر تلے تین سطروں میں ’’مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ ‘‘ کندہ کیا ہوا تھا۔[52] (شمائل ترمذی ص۷ وغیرہ)

خوشبو

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوشبو بہت زیادہ پسند تھی آپ ہمیشہ عطر کا استعمال فرمایا کرتے تھے حالانکہ خود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم اطہر سے ایسی خوشبو نکلتی تھی کہ جس گلی میں سے آپ گزر جاتے تھے وہ گلی معطر ہو جاتی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ خوشبو پھیلے اور رنگ نظر نہ آئے اورعورتوں کے لئے وہ خوشبو بہتر ہے کہ وہ خوشبو نہ پھیلے اور رنگ نظر آئے ۔کوئی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس خوشبو بھیجتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خوشبو کے تحفہ کو رد مت کرو کیونکہ یہ جنت سے نکلی ہوئی ہے۔[53] (شمائل ترمذی ص۱۵)

سرمہ

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روزانہ رات کو ’’اِثمد‘‘ کا سرمہ لگایا کرتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اثمد کا سرمہ لگایا کرو یہ نگاہ کو روشن اور تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اُگاتا ہے۔[54] (شمائل ترمذی ص۵)

سواری

گھوڑے کی سواری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت پسند تھی۔ گھوڑوں کے علاوہ اونٹ، خچر حمار(عربی گدھا جو گھوڑے سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے) پر بھی سواری فرمائی ہے۔[55] (صحیحین وغیرہ کتب احادیث و سیر)

نفاست پسندی

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مزاجِ اقدس نہایت ہی لطیف اور نفاست پسند تھا۔ ایک آدمی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو ناگواری کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کپڑوں کو دھو لیا کرے؟ ۔اسی طرح ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال اُلجھے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ کیا اس کو کوئی ایسی چیز(تیل کنگھی) نہیں ملتی کہ یہ اپنے بالوں کو سنوارلے۔[56] (ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخلقان الخ مجتبائی)

اسی طرح ایک آدمی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بہت ہی خراب قسم کے کپڑے پہنے ہوئے آگیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ مال بھی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں میرے پاس اونٹ بکریاں گھوڑے غلام سبھی قسم کے مال ہیں ۔ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو چاہیے کہ تمہارے اوپر اس کی نعمتوں کا کچھ نشان بھی نظر آئے۔( یعنی اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنو) [57] (ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ مجتبائی)

مرغوب غذائیں

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ اور صبر و قناعت کا مکمل نمونہ تھی اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی لذیذ اور پر تکلف کھانوں کی خواہش ہی نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ کبھی آپ نے چپاتی نہیں کھائی پھر بھی بعض کھانے آپ کو بہت پسند تھے جن کو بڑی رغبت کے ساتھ آپ تناول فرماتے تھے۔ مثلاً عرب میں ایک کھانا ہوتا ہے جو ’’حیس‘‘ کہلاتا ہے یہ گھی، پنیر اور کھجور ملا کر پکایا جاتا ہے اس کو آپ بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے تھے۔

جوکی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے، سالنوں میں گوشت، سرکہ، شہد، روغن زیتون، کدو خصوصیت کے ساتھ مرغوب تھے۔ گوشت میں کدو پڑا ہوتا تو پیالہ میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے کھاتے تھے۔

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بکری، دنبہ، بھیڑ، اونٹ، گورخر،خرگوش، مرغ، بٹیر، مچھلی کا گوشت کھایا ہے۔ اسی طرح کھجور اور ستو بھی بکثرت تناول فرماتے تھے۔ تربوز کو کھجور کے ساتھ ملا کر، کھجور کے ساتھ ککڑ ی ملا کر، روٹی کے ساتھ کھجور بھی کبھی کبھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ انگور، انار وغیرہ پھل فروٹ بھی کھایا کرتے تھے۔

ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا دودھ میں کبھی پانی ملا کراور کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی کشمش اور کھجور پانی میں ملا کر اس کا رس پیتے تھے جو کچھ پیتے تین سانس میں نوش فرماتے۔

ٹیبل(میز)پر کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا،ہمیشہ کپڑے یا چمڑے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے، مسند یا تکیہ پر ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کبھی کچھ نہ کھاتے نہ اس کو پسند فرماتے۔ کھانا صرف انگلیوں سے تناول فرماتے چمچہ کانٹا وغیرہ سے کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہاں ابلے ہوئے گوشت کو کبھی کبھی چھری سے کاٹ کاٹ کر بھی کھاتے تھے۔[58] (شمائل ترمذی)

روزمرہ کے معمولات

احادیث ِکریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک خداعزوجل کی عبادت کے لئے ،دوسرا عام مخلوق کے لئے، تیسرا اپنی ذات کے لئے۔

عام طور پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ معمول تھا کہ نماز فجرکے بعد آپ اپنے مصلیٰ پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آفتاب خوب بلند ہو جاتا۔ عام لوگوں سے ملاقات کا یہی خاص وقت تھا لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی حاجات و ضروریات کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی ضروریات کو پوری فرماتے اور لوگوں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین فرماتے اپنے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے۔ اس کے بعد مختلف قسم کی گفتگو فرماتے کبھی کبھی لوگ زمانہ جاہلیت کی باتوں اوررسموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسکرادیتے کبھی کبھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماپ کو اشعار بھی سناتے۔[59] (مشکوٰۃ ج۲ ص۴۰۶ باب الضحک) (ابو داؤد ج۲ ص۳۱۸ باب فی الرجل یجلس متربعاً)

اکثر اسی وقت میں مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم بھی فرماتے۔ جب سورج خوب بلند ہو جاتا تو کبھی چار رکعت کبھی آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرماتے پھر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجروں میں تشریف لے جاتے اور گھریلو ضروریات کے بندوبست میں مصروف ہو جاتے اور گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی مدد فرماتے۔ (بخاری ج۱ ص۹۳ باب من کان فی حاجۃ اہلہ)

نماز عصر کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو شرفِ ملاقات سے سرفراز فرماتے اور سب کے حجروں میں تھوڑی تھوڑی دیر ٹھہر کر کچھ گفتگو فرماتے پھر جس کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے، تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ وہیں جمع ہو جاتیں ،عشاء تک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے بات چیت فرماتے رہتے پھر نماز عشاء کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد سے واپس آ کر آرام فرماتے اور عشاء کے بعد بات چیت کونا پسند فرماتے ۔[60] (مسلم ج۱ ص۴۷۲ باب القسم بین الزوجات)

سونا جاگنا

نماز عشاء پڑھ کر آرام کرنا عام طور پر یہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معمول تھا، سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ سورتیں ضرور تلاوت فرماتے اور کچھ دعاؤں کا بھی ورد فرماتے۔ پھر اکثر یہ دعا پڑھ کر دا ہنی کروٹ پر لیٹ جاتے کہ اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی یااللہ ! تیرا نام لے کر وفات پاتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں ۔ نیند سے بیدار ہوتے تو اکثر یہ دعا پڑھتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ [61] اس خداکیلئے حمد ہے جس نے موت کے بعد ہم کو زندہ کیا اوراسی کی طرف حشر ہو گا۔

آدھی رات یا پہر رات رہے بستر سے اٹھ جاتے مسواک فرماتے پھر وضو کرتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ تلاوت فرماتے، مختلف دعاؤں کا وظیفہ فرماتے، خصوصیت کے ساتھ نماز تہجد ادا فرماتے، تہجد کی نماز میں کبھی لمبی لمبی کبھی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے، ضعف پیری میں کبھی کچھ رکعتیں بیٹھ کر بھی ادا فرماتے، نمازِ تہجد کے بعد وتر پڑھتے اور پھر صبح صادق طلوع ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا فرما کر نمازِ فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، کبھی کبھی کئی کئی بار رات میں سوتے اور جاگتے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے اورکبھی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے گفتگو بھی فرماتے۔(صحاح ستہ وغیرہ)

رفتار

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت ہی باوقار رفتار کے ساتھ چلتے تھے۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ بوقت رفتار حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس قدر تیز چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے قدموں کے نیچے سے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم لوگ آ پ کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگتے اور مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا تکلف بغیر کسی مشقت کے تیز رفتاری کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔ [62] (شمائل ترمذی ص۹)

کلام

حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے بلکہ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملہ کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سامعین اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’جوامع الکلم‘‘ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔ حضرت ہند بن ابو ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔[63] (شمائل ترمذی ص۱۵)

دربار نبوت

حضور تاجدارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا ۔یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اورباڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔[64] (بخاری ج۱ ص۳۹۸)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمان نبوت کو سنتے۔ (بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجہاد)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اللہ ! ؎

وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں

غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی

جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ ونصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار میں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔

تاجدارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبات

نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اورشریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطیب اور واعظ ہونا ضروریات ولوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی و جہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵)وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶)وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷)یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪(۲۸)[65] (طہٰ)

اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثیرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔

چنانچہ جمعہ وعیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اوران خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔

چونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں ۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے ،مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں ۔[66] (مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعہ)

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَما آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پرجوش خطبہ اورتقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اورزمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں ، میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جبار لوگ؟ کدھر ہیں متکبرین؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں ) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں ) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔[67] (ابن ما جہ ص۳۲۶ ذکر البعث)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منبرپر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طویل خطبات بھی دیئے لیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔

میدانِ جنگ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دست ِمبارک میں ’’عصا‘‘ ہوتا تھا۔[68] (ابن ما جہ ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ)

آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسا اثر انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کایہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زارو قطار رونے لگے۔[69] (بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورۂ مائدہ)

سرورِ کائنات کی عبادات

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام انبیاء سابقین کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کا طریقہ عبادت کیا تھا؟ اور ان کے کون کون سے اوقات عبادتوں کے لئے مخصوص تھے؟ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ فخرو شرف صرف حضور خاتم الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَم ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادات کے تمام طریقوں ، ان کے اوقات و کیفیات غرض اس کے ایک ایک جزئیہ کو محفوظ رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور راتوں کی تاریکیوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو اور جس قدر عبادتیں فرماتے تھے ان کو ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے دیکھ کر یاد رکھا اور ساری امت کو بتا دیا اور گھرکے باہر کی عبادتوں کو حضرات صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قیام و قعود، رکوع و سجوداور ان کی کمیات و کیفیات، اذکار اور دعاؤں کے بعینہ الفاظ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشادات اور خضوع و خشوع کی کیفیات کو بھی اپنی یادداشت کے خزانوں میں محفوظ کر لیا۔ پھر امت کے سامنے ان عبادتوں کا اس قدر چرچا کیا کہ نہ صرف کتابوں کے اوراق میں وہ محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ امت کے ایک ایک فردیہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کو بھی ان کا علم حاصل ہو گیا اور آج مسلمانوں کا ایک ایک بچہ خواہ وہ کرۂ زمین کے کسی بھی گوشہ میں رہتا ہو اس کو اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادتوں کے مکمل حالات معلوم ہیں اور وہ ان عبادتوں پر اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع میں جوش ایمان اور جذبہ عمل کے ساتھ کاربند ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادتوں کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔

نماز

اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب معراج میں نماز پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے ۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔ (صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث)

روزہ

رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایام بیض کے روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’صوم وصال‘‘ بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ۔ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو (روحانی غذا) کھلاتا اور پلاتا ہے۔[70] (بخاری و مسلم صوم وصال)

زکوٰۃ

چونکہ حضرات انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر خداوند قدوس نے زکوٰۃ فرض ہی نہیں فرمائی ہے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرزکوٰۃفرض ہی نہیں تھی۔[71] (زرقانی ج۸ ص۹۰) لیکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب خداعزوجل کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کا شانہ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے جب حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اللہ !(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔ [72] (ابو داؤد باب قبول ہدایاالمشرکین)

حج

اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو یا تین حج کئے۔ [73] (ترمذی باب کم حج النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و ابن ماجہ)

لیکن ہجرت کے بعدمدینہ منورہ سے ۱۰ ھ؁ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک حج فرمایاجوحجۃ الوداع کے نام سے مشہورہے جس کامفصل تذکرہ گزرچکا۔حج کے علاوہ ہجرت کے بعدآپ نے چارعمرے بھی ادافرمائے۔[74] (ترمذی وبخاری ومسلم کتاب الحج)

ذکر الٰہی

حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیان ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر وقت ہر گھڑی ہر لحظہ ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔[75] (ابو داؤد کتاب الطہارۃ وغیرہ)

اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سواری سے اترتے، سفر میں جاتے، سفر سے واپس ہوتے، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے، مسجد میں آتے جاتے، جنگ کے وقت، آندھی، بارش، بجلی کڑکتے وقت، ہر وقت ہر حال میں دعائیں وردِ زبان رہتی تھیں ۔ خوشی اورغمی کے اوقات میں ،صبح صادق طلوع ہونے کے وقت، غروبِ آفتاب کے وقت، مرغ کی آواز سن کر،گدھے کی آواز سن کر،غرض کون سا ایسا موقع تھا کہ آپ کوئی دعا نہ پڑھتے دن ہی میں نہیں بلکہ رات کے سناٹوں میں بھی برابر دعا خوانی اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی جو فقرہ بار بار وردِ زَبان رہا وہ اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰیکی دعا تھی۔(صحاح ستہ و حصن حصین وغیرہ کتب احادیث)(سیرت مصطفی ٰ،ص۵۶۱ تا ۵۹۸)


[1] ۔۔۔ حیاۃ الحیوان الکبری،باب الہمزۃ،ج۱،ص۷۵

[2] ۔۔۔ شرح دیوان حسان بن ثابت الانصاری،ص۶۶

[3] ۔۔۔ قصیدۃ البردۃ مع شرحہا،ص۱۱۱

[4] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۱۱،ص۲۴،۲۵

[5] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۶۱،ج۲،ص۴۸۹

[6] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۵۶،ج۲،ص۴۸۸

[7] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب من زارقوما۔۔۔الخ،الحدیث:۶۲۸۱،ج۴،ص۱۸۲

[8] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۵۲۴۔۵۲۵

[9] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الرابع مااختص بہ۔۔۔الخ،ج۷،ص۲۰۰

[10] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خاتم النبوۃ،الحدیث:۱۶،ص۲۸

[11] ۔۔۔ حاشیۃجامع الترمذی،ابواب المناقب،باب ماجاء فی خاتم النبوۃ،حاشیۃ:۲،ج۲،ص۲۰۶

[12] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۲،ص۱۶

[13] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۵،ص۱۹

[14] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۵،ص۱۹

[15] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی شعر رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۶،ص۳۵وباب ماجاء فی ترجل رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۲،۳۵،ص۳۹،۴۱وباب ماجاء فی شیب رسول اللّٰہ ، الحدیث:۳۹،ص۴۴ملتقطاً

[16] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکرفی الشیب،الحدیث:۵۸۹۶،ج۴،ص۷۶

[17] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۹،ص۲۴

[18] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۶،۱۰، ص۱۹،۲۰،۲۴ملتقطاً

[19] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۴۹،ج۲،ص۴۸۷

[20] ۔۔۔ مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الحدیث:۱۹۰۷،ج۱،ص۳۶۲

[21] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً

[22] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۶،ص۱۹ملتقطاً

[23] ۔۔۔ الخصائص الکبری للسیوطی،باب المعجزۃوالخصائص۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۰۴والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۶۳،۲۶۴

[24] ۔۔۔ مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلوۃ،باب الرکوع،الحدیث:۸۶۸،ج۱،ص۱۸۰

[25] ۔۔۔ مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃالمصابیح،تحت الحدیث:۸۶۸،ج۲،ص۵۹۱

[26] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب الخشوع فی الصلوۃ،الحدیث:۷۴۱،ج۱،ص۲۶۲

[27] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ ، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ ، الحدیث: ۷،ص۲۱

[28] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ ، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ ، الحدیث: ۷،ص۲۱

[29] ۔۔۔ شرح دیوان حسان بن ثابت الانصاری ، ص۱۵۷

[30] ۔۔۔ الخصائص الکبری للسیوطی،باب الایۃ فی سمعہ الشریف،ج۱،ص۱۱۳

[31] ۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواہب،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳، ص۳۸۱ والخصائص الکبری للسیوطی ، باب الایۃ فی سمعہ الشریف ،ج۱ ، ص ۱۱۳

[32] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۷،۱۴،ص۲۱،۲۶ملخصاًوالخصائص الکبری للسیوطی،باب الایات فی فمہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۰۶ملخصاً

[33] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الرابع مااختص بہ۔۔۔الخ،ج۷،ص۹۸

[34] ۔۔۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، ابوقتادۃبن ربعی الانصاری ، ج۷،ص ۲۷۲

[35] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۸۹

[36] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۸۹

[37] ۔۔۔ شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۴۴۴۔۴۴۵

[38] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً

[39] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً

[40] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۶۱،ج۲،ص۴۸۹

[41] ۔۔۔ صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب رائحۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۳۲۹،ص۱۲۷۱

[42] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً

[43] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷،ص۲۱ملتقطاً

[44] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۱۱۶،ص۸۶

[45] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ،الفصل الثالث فیما تدعو ضرورتہ۔۔۔الخ،ج ۶، ص۲۵۴۔۳۴۵ ملخصاً وملتقطاً

[46] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی عمامۃرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۱۰۷، ۱۱۰،ص۸۲،۸۳

[47] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب اللباس ، باب فی العمائم،االحدیث: ۴۰۷۸،ج۴،ص ۷۶

[48] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی لبس الحبرۃ،الحدیث:۴۰۶۰،ج۴،ص۷۱ وباب فی الخضرۃ،الحدیث:۴۰۶۵،ج۴،ص۷۳ملتقطاً

[49] ۔۔۔ سنن الترمذی،کتاب اللباس،باب ماجاء فی لبس الصوف،الحدیث:۱۷۳۹،ج۳،ص۲۸۴

[50] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی نعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۷۱،۷۲،ص۶۳

[51] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی الحمرۃ ،الحدیث:۴۰۶۶،۴۰۶۹،ج۴،ص۷۳،۷۴ملخصاً

[52] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خاتم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۵،۸۶،ص۶۹

[53] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی تعطر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۲۰۷، ۲۰۸،۲۱۰،۲۱۱،ص۱۳۰،۱۳۲ملخصاً

[54] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی کحل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۴۸،۴۹، ۵۰،ص۵۰،۵۱ملخصاً

[55] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الجہادوالسیر،باب الرد ف علی الحمار،الحدیث:۲۹۸۷،ج۲،ص۳۰۶وکتاب الاذان،باب ایجاب التکبیر۔۔۔الخ،الحدیث:۷۳۲،ج۱،ص۲۶۰

[56] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی غسل الثوب۔۔۔الخ،الحدیث:۴۰۶۲،ج۴،ص۷۲

[57] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی غسل الثوب۔۔۔الخ،الحدیث:۴۰۶۳،ج۴،ص۷۲

[58] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی صفۃ اکل۔۔۔الخ وباب ماجاء فی صفۃ خبز۔۔۔الخ وباب ماجاء فی ادام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ص۹۵۔۱۱۴ملتقطاً

[59] ۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الاداب،باب الضحک،الحدیث:۴۷۴۷،ج۲،ص۱۷۹ملخصاً وسنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی الرجل۔۔۔الخ، الحدیث:۴۸۵۰، ج۴،ص۳۴۵ملخصاً

[60] ۔۔۔ صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب القسم بین الزوجات۔۔۔الخ،الحدیث:۱۴۶۲،ص۷۷۰ملخصاً

[61] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب وضع الیدالیمنی۔۔۔الخ،الحدیث:۶۳۱۴،ج۴،ص۱۹۲

[62] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ ، باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم،الحدیث:۱۱۶، ۱۱۷،۱۱۸، ص۸۶،۸۷ملخصاً

[63] ۔۔۔ الشمائل المحمدیۃ،باب کیف کان کلام رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۱۳،۲۱۴،۲۱۵،ص۱۳۴،۱۳۵

[64] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب فضل النفقۃ فی سبیل اللّٰہ،الحدیث:۲۸۴۲، ج۲،ص۲۶۶ملتقطاً

[65] ۔۔۔ الف پ۱۶،طہ:۲۵۔۲۸

[66] ۔۔۔ صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،الحدیث:۸۶۷،ص۴۳۰

[67] ۔۔۔ سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب ذکر البعث ، الحدیث:۴۲۷۵،ج۴،ص۵۰۵

[68] ۔۔۔ سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃالصلاۃ،باب ماجاء فی الخطبۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۱۰۷،ج۲،ص۱۹

[69] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب لاتسئلواعن اشیاء ۔۔۔الخ،الحدیث:۴۶۲۱،ج۳،ص۲۱۷

[70] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب الوصال۔۔۔الخ،الحدیث:۱۹۶۱،ج۱،ص۶۴۵ ووسائل الوصول الی شمائل الرسول،الباب السادس فی صفۃ عبادتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الفصل الثانی فی صفۃ صومہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ص۲۶۵۔۲۶۸ملتقطاً

[71] ۔۔۔ المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع الثالث فی ذکر سیرتہ فی الزکاۃ،ج۱۱،ص۲۰۲

[72] ۔۔۔ سنن ابی داود،کتاب الخراج۔۔۔الخ،باب فی الامام یقبل۔۔۔الخ،الحدیث:۳۰۵۵،ج۳، ص۲۳۱ملخصاً

[73] ۔۔۔ سنن الترمذی،کتاب الحج،باب کم حج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۱۵،ج۲،ص۲۲۰

[74] ۔۔۔ سنن التر مذی،کتاب الحج،باب کم اعتمرالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۸۱۷،ج۲،ص۲۲۱

[75] ۔۔۔ صحیح البخاری،کتاب الاذان،تحت الباب ھل یتتبع المؤذن۔۔۔الخ،ج۱،ص۲۲۹

Share