(11)…تَذْکِرَۂ مَوت
تذکرۂ موت کی تعریف :
خوفِ خداپیدا کرنے، سچی توبہ کرنے، ربّ عَزَّوَجَلَّسے ملاقات کرنے، دُنیا سے جان چھوٹنے، قربِ الٰہی کے مراتب پانے، اپنے محبوب آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت حاصل کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا تذکرۂ موت کہلاتا ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۹)
آیت مبارکہ :
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میںاِرشاد فرماتا ہے:( كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ) (پ۱۷، الانبیاء:۳۵) ترجمۂ کنز الایمان: ’’ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۹، ۹۰)
(حدیث مبارکہ)لذتوں کو ختم کرنے والی موت کی یاد :
حضرت سیدناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسولُ ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’لذتوں کو ختم کرنی والی (موت) کو زیادہ یاد کیا کرو۔‘‘[1] یعنی موت کو یاد کرکے لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ ان کی طرف طبیعت مائل نہ ہو اور تم یکسوئی کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔[2](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۹۰)
تذکرۂ موت کا حکم:
موت کو یاد کرنے کی چارصورتیں ہیں: (1) اگر کوئی شخص دُنیوی مال ودولت میں مگن ہوکر اس کے چھوٹ جانے کی وجہ سے موت کو یاد کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت کی مذمت میں مشغول ہوجاتا ہے اور اِس طرح موت کو یاد کرنا اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مزید دُور کردیتا ہے تو یہ تذکرۂ موت ناجائز اور ممنوع ہے۔البتہ اگر وہ اس لیے موت کویاد کرتا ہے تاکہ دنیوی نعمتوں میں اس کی دلچسپی نہ رہے اور لذتیں بدمزہ ہوجائیں تو یہ تذکرۂ موت شرعاًمذموم نہیں بلکہ باعث اجروثواب ہے ۔ (2) اگر کوئی شخص موت کو اس لیے یاد کرتا ہے تاکہ دل میں خوفِ خدا پیدا ہو اور یوں اسے سچی توبہ نصیب ہوجائے تو یہ تذکرۂ موت شرعاً جائز اور باعث اجر و ثواب ہے اور اگر یہ شخص موت کو اس خوف کی وجہ سے ناپسند کرتا ہے کہ کہیں سچی توبہ سے پہلے یا سامانِ آخرت کی تیاری سے پہلے موت نہ آجائے تو ایسا کرنا قابل گرفت نہیں۔ (3)اگر کوئی شخص موت کو اس لیے یاد کرتا ہے کیونکہ موت اپنے محبوب ربّ عَزَّوَجَلَّسے ملاقات کا وعدہ ہے اور محبت کرنے والا محبوب سے ملنے کا وعدہ کبھی نہیں بھولتا اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ موت دیر سے آتی ہے لہٰذا یہ شخص موت کی آمد کو پسند کرتا ہے تاکہ نافرمانی کے اس گھر سے جان چھوٹے اور قربِ اِلٰہی کے مرتبہ پر فائز ہوسکے تو یہ تذکرۂ موت بھی جائز، شرعاً محمود یعنی قابل تعریف اور باعث اجرو ثواب ہے۔[3] (4) اگر اَحکامِ شرعیہ کے موافق زندگی گزارنے والا، فرائض وواجبات وسنن کا پابند کوئی شخص اس لیے موت کو یاد کرتا اور اس کی تمنا کرتا ہے کہ موت کے وقت یا قبر میں میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت نصیب ہوگی تو یہ تذکرۂ موت بھی شرعاً محمود یعنی قابل تعریف اور باعث اجرو ثواب ہے۔
سکرات میں گر روئے محمد پہ نظر ہو
ہر موت کا جھٹکا بھی مجھے پھر تو مزہ دے
نبی کے عاشقوں کو موت تو انمول تحفہ ہے
کہ اُن کو قبر میں دیدارِ شاہِ انبیاء ہوگا
ہے تمنا ئے عطار یا ربّ ان کے جلوؤں میں یوں موت آئے
جھوم کر جب گرے میرا لاشہ تھام لیں بڑھ کے شاہ مدینہ
(5)حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’ہرحال میں موت کو یاد کرنے میں ثواب اور فضیلت ہےاور یہ ثواب اور فضیلت دنیا میں مگن شخص بھی موت کو یاد کرکے پاسکتا ہے اس طرح کہ دنیا سے الگ تھلک رہے تاکہ دنیاوی نعمتوں میں دلچسپی نہ رہے اور لذتیں بدمزہ ہوجائیں کیونکہ ہر وہ لذت وخواہش جو انسان کے لیے بدمزہ ہو وہ اسبابِ نجات میں سے ہے۔‘‘[4] (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۹۰ تا۹۱)
تذکرۂ موت کا ذہن بنانے اور کرنے کے گیارہ (11)طریقے:
(1)موت سے متعلق روایات کا مطالعہ کیجئے:چندروایات یہ ہیں: ٭اگر جانور موت کے بارے میں وہ کچھ جان لیتے جو انسان جانتا ہے تو تمہیں کھانے کے لیے کوئی موٹا جانور نہ مل پاتا۔٭جو دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرے اسے شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔٭موت مؤمن کے لیے تحفہ ہے۔٭موت ہرمسلمان کے لیے کفارہ ہے۔٭موت کو زیادہ یاد کرو کہ یہ گناہوں کو مٹاتی اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے۔٭جدائی ڈالنے کے لیے موت ہی کافی ہے۔٭نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔٭ موت کو زیادہ یاد کرنے اور اس کی زیادہ تیاری کرنے والے لوگ عقل مند ہیں۔[5]
(2) موت سے متعلق اقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے:چند اقوال یہ ہیں: ٭ حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’موت نے دنیا کو رسوا کر کے کسی عقل مند کے لیے کوئی خوشی نہ چھوڑی۔‘‘٭حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’مؤمن موت سے بہتر کسی غائب چیز کا انتظار نہیں کرتا، نیز فرمایا کرتے کہ میری موت کی خبر کسی کو مت دینا اور مجھے تیز تیز میرے ربّ عَزَّوَجَلَّکی طرف لے چلنا۔‘‘٭ حضرت سیدنا محمد بن سیرین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمُبِیْنکے سامنے جب موت کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے جسم کا ہرحصہ سن ہوجاتا۔٭حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَسِیْب روزانہ رات کے وقت علماء کو جمع کرتے پھر آپس میں مل کر قبروآخرت اور موت کے بارے میں گفتگو کرتے پھر سب یوں روتے گویا ان کے سامنے جنازہ موجود ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم تیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں نے مجھ سے دنیا کی لذتیں چھڑادیں، ایک موت کی یاد نے اور دوسرا بارگاہِ الٰہی میں کھڑنے ہونے نے۔‘‘ ٭حضرت سیدنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں: ’’جو شخص موت کو پہچان لیتا ہے اس پر دنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہو جاتے ہیں۔‘‘[6]
(3)موت کو اپنے سامنے سمجھتے ہوئے یاد کیجئے:امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’موت کو یاد کرنے کا فائدہ اس طریقے سے پہنچ سکتا ہے کہ موت کو اپنے سامنے سمجھتے ہوئے یاد کرے اور اس کے علاوہ ہرچیز کو اپنے دل سے نکال دے جیسے کوئی شخص خطرناک جنگل میں سفر کا ارادہ کرے یا سمندری سفر کا ارادہ کرے تو بس اسی کے بارے میں غور وفکر کرتا رہتا ہے، لہٰذا جب موت کی یاد کا تعلق دل سے براہِ راست ہوگا تو اس کا اثر بھی ہوگا اور علامت یہ ہوگی کہ دنیا سے دل اتنا ٹوٹ چکا ہوگا کہ دنیا کی ہر خوشی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔‘‘[7]
(4) موت کی یاد پختہ کرنے والے اَقوال کا مطالعہ کیجئے:تین اقوال یہ ہیں:حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’جب تم مردوں کو یاد کرو تو اپنے آپ کو بھی انہی میں شمار کرو۔‘‘٭حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’خوش قسمت ہے وہ شخص جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔‘‘٭ حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَدِیْر فرماتے ہیں: ’’تم اس بات میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے کہ روزانہ صبح شام کسی نہ کسی کو بارگاہِ الٰہی کے لیے تیار کرتے رہو اور اسے گڑھے میں ڈال دیتے ہو حالانکہ مٹی اس کا تکیہ بن جاتی ہے، دوست احباب پیچھے رہ جاتے ہیں اور اسباب ختم ہوجاتے ہیں۔‘‘[8]
(5)جنازوں میں شرکت کیجئے: یہ بھی موت کو یاد کرنے اور اس کی یاد کو پختہ کرنے نیز آخرت کی تیاری کرنے میں بہت معاون ہے، جب کوئی جنازوں میں شرکت کرتا ہے تو اسے اپنی موت یاد آجاتی ہے، اس کا دل نرم ہوجاتا ہے، دل کی سختی دور ہوجاتی ہے، اسے نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے، وہ یہ تصور کرتا ہے کہ آج اس شخص کا جنازہ میں پڑھ رہا ہوں کل میرا جنازہ میرے دوست پڑھ رہے ہوں گے، یوں وہ توفیق الٰہی سے اپنی آخرت کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔
جنازہ آگے بڑھ کر کہہ رہا ہے اے جہاں والو!
مرے پیچھے چلے آؤ تمہارا رہنما میں ہوں
(6)قبرستان جانے کی عادت بنائیے:یہ عمل بھی موت کی یاد کو پختہ کرنے میں بہت مفید ہے، خود رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبھی زیارتِ قبور کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، زیارتِ قبور سے یہ مدنی ذہن بنتا ہے کہ آج ان لوگوں کا یہ ٹھکانہ ہے، کل میرا بھی یہی ٹھکانہ ہوگا، ان قبروں میں سے کئی ایسی قبریں ہوں گی جو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوں گی اور کئی جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا، نجانے میری قبر جنت کا باغ ہوگی یا جہنم کا گڑھا؟یوں وہ موت کی یاد اور آخرت کی تیاری کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔
(7)موت سے متعلق کتب ورسائل کا مطالعہ کیجئے:موت اور اس کی یاد کو پختہ کرنے، فکر آخرت پیداکرنے، دنیوی لذتوں کو ختم یا کم کرنے ، آخرت کی تیاری کا مدنی ذہن دینے والی مکتبۃ المدینہ کی چند مطبوعہ کتب ورسائل کے نام یہ ہیں: ٭ نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں٭جہنم میں لے جانے والے اعمال ٭ دنیا سے بے رغبتی اور امیدوں کی کمی ٭ احیاء العلوم، جلدپنجم٭جہنم کے خطرات ٭ آئینہ عبرت ٭قبر میں آنے والا دوست٭توبہ کی روایات وحکایات٭خوف خدا ٭قبر کھل گئی٭مردہ بول اٹھا٭بدنصیب دولہا٭برے خاتمے کے اسباب ٭ چار سنسنی خیز خواب٭قبر کی پہلی رات٭قبر والوں کی 25حکایات قیامت کے امتحان٭قبر کے امتحان٭مردے کے صدمے۔
(8)عبرت ناک واقعات کا مطالعہ یا مشاہدہ کیجئے:اگر ہم معاشرے، شہر، ملک یا دیگر ممالک پر غور کریں یا ان کے متعلق خبریں پڑھیں تو ہم پر ظاہر ہوگا کہ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہی رہتا ہے جو ہمیں موت کی یاد دلاتا ہے، روزانہ بیسیوں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں، کئی لوگوں کی اَموات ہوجاتی ہیں، کئی لوگ معذور ہوجاتے ہیں، قدرتی آفات جیسے طوفان، زلزلے اور سیلاب وغیرہ کے واقعات بھی پیش آتے ہی رہتے ہیں جن میں بسا اوقات ہزاروں لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں، یہ سب واقعات ہمیں موت کی یاد دلاتے ہیں۔ موت کی یاد اور فکر آخرت پیدا کرنے کے لیے تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری مدَّظِلُّہُ الْعَالِیکے مدنی چینل پر نشر کیے گئے سلسلے’’عبرت ناک خبریں‘‘ کی ویڈیوز دیکھنا بھی بہت مفید ہے۔
(9)موت کے بعد پیش آنے والے حالات پرمشتمل کتب کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۳۲۴صفحات پر مشتمل کتاب ’’152رحمت بھری حکایات‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے، جس میں تقریباً ۹۲ بزرگوں کے موت کے بعد پیش آنے والے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔
(10)موت کے موضوع پر ہونے والے بیانات سنیے : شیخ طریقت، امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکے درج ذیل آڈیو،ویڈیو بیانات کو سننا بہت مفید ہے:
٭موت کی سختیاں٭بیکسی کی موت٭جوان موت٭اچھی بری موت ٭ موت کی منظر کشی٭موت کی سختی٭موت کا انتظار ہے دنیا٭اموات سے عبرت حاصل کیجئے٭موت آکر رہے گی٭موت سے فرار کہاں؟٭عبرتناک موتیں ٭ بادشاہوں کی موت٭قبر کی پہلی رات٭قبر کی تباہ کاریاں٭قبر کی پکار٭زمین کھاگئی نوجواں کیسے کیسے؟٭ڈھل جائے گی یہ جوانی٭شکستہ کھوپڑی قبر کا سلوک٭مردے کی پکار٭اہل قبر کی سرگزشت٭قبر کا اندرونی منظر٭بر کے شعلے ٭قبروں کے مناظر٭ برے خاتمے کے اسباب٭ملک الموت کے نمائندے ٭بادشاہوں کی ہڈیاں ٭ مردے کے صدمے۔
(11)دنیا سے چلے جانے والے لوگوں کے احوال کو یاد کیجئے:موت کو یاد کرنے کا سب سے مفید طریقہ یہ ہے کہ بندہ اس دنیا سے چلے جانے والےچہروں،صورتوں اوران کے مرنے اور مٹی کے نیچے دفنائے جانے کو یاد کرےنیز ان کے حالات اور عُہدوں کو یاد کرے اور غور کرے کہ کس طرح مٹی میں ان کی حسین صورتیں ملیامیٹ ہوچکی ہیں،کس طرح قبروں میں ان کےاجزا بکھرچکے ہیں،کس طرح ان کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے،کس طرح ان کا مال خرچ کیا گیا اور ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور بسائی ہوئی محفلیں بے رونق ہوگئیں،کس طرح وہ اپنی جوانی پر بھروسا اور لہوو لعب میں مبتلا ہوکر جلد آنے والی موت سے غافل تھے، وہ جن ہاتھوں اور پاؤں سے دنیا جمع کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اب ان کے وہی ہاتھ پاؤں اور جوڑ علیحدہ علیحدہ چکے ہیں، جس زبان کے ذریعے وہ گفتگو کیا کرتے تھے اب اس زبان کو کیڑے کھا چکے ہیں، جن دانتوں سے وہ ہنسا کرتے تھے اب مٹی اُن کے دانتوں کو کھا چکی ہے، وہ اپنی موت سے غافل مرنے سے پہلے سالہا سال کی جمع پونجی میں لگے ہوئے تھے کہ خبر ہی نہ ہوئی اور موت آگئی، مَلک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کیصورت ظاہر ہوئی اور بغیر مہلت دیے اُن کی رُوح قبض کرلی گئی۔یہ سب تصور کرنے کے بعد وہ سوچے گا کہ میں بھی تو ان کے جیسا ہوں اور میری غفلت بھی ان کی غفلت جیسی ہے اور عنقریب میرا بھی وہی انجام ہو گا جو اِن سب کا ہوا ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۹۳تا۹۸)
[1] ۔۔۔۔ابن ماجۃ، کتاب الزھد، باب ذکر الموت والاستعداد،۴ / ۴۹۵، حدیث: ۴۲۵۸۔
[2] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۷۷۔
[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۷۵ملخصا۔
[4] ۔۔۔۔اِحیاء العلوم،۵ / ۴۷۷۔
[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۷۷ملخصا۔
[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۴۷۹، ۴۸۰ ملتقطا۔
[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۴۸۲۔
[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۴۸۳۔
Comments