(14)…حرص
حرص کی تعریف:
’’خواہشات کی زیادتی کے اِرادے کا نام حرص ہے اوربُری حرص یہ ہے کہ اپنا حصہ حاصل کرلینے کے باوجود دوسرے کے حصے کی لالچ رکھے ۔ یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص ،اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔"[1]
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صِرْف ’’مال ودولت ‘‘ کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ حرص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے،چاہے مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو ’’مال کا حریص‘‘ کہیں گے تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو ’’کھانے کا حریص ‘‘ کہا جائے گااور نیکیوں میں اِضافے کے تمنائی کو ’’نیکیوں کا حریص ‘‘ جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو’’ گناہوں کا حریص ‘‘کہیں گے ۔تلمیذِ صدر الشریعہ حضرتِ علامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : ’’لالچ اور حِرْص کا جذبہ خوراک ،لباس، مکان، سامان، دولت،عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔‘‘[2](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۶)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: (وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶))(پ۱، البقرۃ: ۹۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور بے شک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کہیں ہزار برس جیئے اور وہ اسے عذاب سے دور نہ کرے گا اتنی عمر دیا جانا اور اللہ ان کے کوتک (اعمال) دیکھ رہا ہے۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’مشرکین کا ایک گروہ مجوسی ہے آپس میں تحیت و سلام کے موقع پر کہتے ہیں زہ ہزار سال یعنی ہزار برس جیو مطلب یہ ہے کہ مجوسی مشرک ہزار برس جینے کی تمنا رکھتے ہیں یہودی ان سے بھی بڑھ گئے کہ انہیں حرص وزندگانی سب سے زیادہ ہے۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۶،۱۱۷)
حدیث مبارکہ، ابن آدم کی حرص:
حضرت سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: ’’اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دووادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اورابن آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘[3](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۷)
حرص کا حکم:
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۲۳۲صفحات پر مشتمل کتاب ’’حرص‘‘ صفحہ ۱۳ پر ہے: ’’حِرْص کا تعلق جن کاموں سے ہوتا ہے ان میں سے کچھ کام باعثِ ثواب ہوتے ہیں اور کچھ باعثِ عذاب جبکہ کچھ کام محض مُباح (یعنی جائز) ہوتے ہیں یعنی ایسے کاموں کے کرنے پر کوئی ثواب ملتا ہے اور نہ ہی چھوڑنے پر کوئی عِتاب ہوتا ہے لیکن یہی مُباح (یعنی جائز) کام اگر کوئی اچھی نیت سے کرے تو وہ ثواب کا مستحق اور اگر بُرے اِرادے سے کرے تو عذابِ نار کا حقدار ہو جاتا ہے ، یوں بنیادی طور پر حِرْص کی تین قسمیں بنتی ہیں : (۱) حِرْصِ محمود (یعنی اچھی حِرْص) (۲)حِرْصِ مذموم (یعنی بُری حِرْص) (۳) حِرْصِ مباح (یعنی جائز حِرْص)،لیکن اگر اس حِرْص میں اچھی نیت ہوگی تویہ حِرْص محمود بن جائے گی اور اگر بُری نیت ہوگی تو مذموم ہو جائے گی ۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۸)
ہر حرص بری نہیں ہوتی:
حِرْص کی مذکورہ تقسیم سے معلوم ہوا کہ ہر حِرْص بُری نہیں ہوتی بلکہ حِرْص کی اچھائی یا بُرائی کااِنحصار اُس شے پر ہے جس کی حِرْص کی جارہی ہے،لہٰذااچھی چیز کی حِرْص اچھی اور بُری کی حِرْص بُری ہوتی ہے ،مگر اچھائی یا بُرائی کی طرف جانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔لیکن سب سے پہلے یہ جاننابے حد ضروری ہے کہ کن کن چیزوں کی حِرْص ’’محمود‘‘ہے ؟ تاکہ اسے اپنایا جاسکے اور کون کونسی اشیاء کی’’مذموم‘‘؟تاکہ اس سےبچاجاسکے ۔اس سلسلے میں حِرْص کی اَقسام کی مختصر وضاحت ملاحظہ کیجئے: چنانچہ،(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۸،۱۱۹)
(۱) کونسی حرص محمود ہے؟
رضائے الٰہی کے لئے کئے جانے والے نیک اَعمال اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ انسان کو جنت میں لے جائیں گے ،لہٰذا نیکیوں کی حرص محمود (یعنی پسندیدہ) ہوتی ہے مثلاً نماز، روزہ، حج ،زکوٰۃ ،صدقہ وخیرات، تلاوت، ذکر اللہ، دُرُودِ پاک، حصولِ علمِ دین ، صِلہ رحمی ،خیرخواہی اور نیکی کی دعوت عام کرنے کی حِرص محمود ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۹)
(۲)کن چیزوں کی حرص مذموم ہے؟
جس طرح گناہوں کا اِرتکاب ممنوع ہے اسی طرح ان کی حِرْص بھی ممنوع و مذموم ہوتی ہے کیونکہ اس حِرْص کا اَنجام آتشِ دوزخ میں جلنا ہے مثلاًرشوت ،چوری، بدنگاہی،زِنا،اِغلام بازی،اَمْرَد پسندی ،حُبِّ جاہ،فلمیں ڈرامے دیکھنے،گانے باجے سننے ،نشے ، جُوئے کی حِرْص ،غیبت، تُہمت، چُغلی، گالی دینے ، بدگمانی ، لوگوں کے عیب ڈھونڈنے اور انہیں اُچھالنے ودیگر گناہوں کی حِرْص مذموم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۹)
(۳)کونسی حرص محض مباح ہے؟
کھانا پینا، سونا،دولت اِکٹھی کرنا ،مکان بنانا، تحفہ دینا، عمدہ یا زائد لباس پہننااور دیگر بہت سارے کام مُباح ہیں ،چنانچہ ان کی حِرْص بھی مباح ہے ۔مُباح اُس جائز عمل یافِعل(یعنی کام) کو بولتے ہیں جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو یعنی ایسا کام کرنے سے نہ ثواب ملے نہ گناہ! لہٰذا ان کی حِرْص میں بھی ثواب یا گناہ نہیں ملے گا، مثلاً کسی کونِت نئے اور عمدہ کپڑے پہننے کی حِرْص ہے اور نیت کچھ بھی نہیں (نہ تکبر کی اور نہ ہی اِظہارِ نعمت کی) تو اُسے اِس کا نہ گناہ ملے گا اور نہ ہی ثواب، جبکہ اس حِرْص کو پورا کرنے میں شریعت کی خلاف ورزی نہ کرے ، چنانچہ اگر اس قسم کی حِرْص کو پورا کرنے کے لئے رِشوت ، چوری، ڈاکہ جیسے حرام کمائی کے ذَرائع اِختیار کرنے پڑتے ہیں تو ایسی حِرْص سے بچنا لازِم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۱۹،۱۲۰)
حرص مباح کب حرص محمود بنے گی اور کب مذموم؟
اگر کوئی مُباح کام اچھی نیَّت سے کیا جائے تو اچّھا ہو جائے گا ،لہٰذا اِس کی حِرْص بھی محمود ہوگی اور اگروہی کام بُری نیّت سے کیا جائے تو بُرا ہو جائے گا اور اس کی حِرْص بھی مذموم ہوگی اور کچھ بھی نیّت نہ ہو تو وہ کام اور اس کی حِرْص مُباح رہے گی ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ ،ج۷، ص۱۸۹ پر نقل فرماتے ہیں : ’’ہرمُباح (یعنی ایسا جائز عمل جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو) نیّتِ حَسَن(یعنی اچّھی نیّت) سےمُستَحَب ہو جاتا ہے۔‘‘[4] فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : مُباحات (یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثواب ہو نہ گناہ ان) کاحُکم الگ الگ نیّتوں کے اِعتِبار سے مختلف ہوجاتاہے ، اس لئے جب اس سے (یعنی کسی مباح سے) طاعات (یعنی عبادات) پر قوت حاصِل کرنا یا طاعات (یعنی عبادات ) تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ (مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی ) عبادات ہوں گی مَثَلاً کھانا پینا، سونا، حُصولِ مال اور وَطی (یعنی زوجہ سے ہم بستری) کرنا ۔‘‘[5](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۰،۱۲۱)
مُباح حرص کے محمودیا مذموم بننے کی ایک مثال :
عِطر لگانا ایک مُباح کام ہے جس پر اچھی اچھی نیتیں کرکے ثواب کمایا جاسکتا ہے چنانچہ جسے اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ عطر لگانے کی حِرْص ہو تو اس کی یہ حِرْص محمود ہوگی۔ عارِف بِاللہ،مُحَقِّق عَلَی الاطلاق،خاتِمُ المُحَدِّثین ، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : مُباح کاموں میں بھی اچّھی نیّت کرنے سے ثواب ملے گا،مَثَلاً خوشبو لگانے میں اِتّباعِ سنّت اور (مسجِد میں جاتے ہوئے لگانے پر) تعظیمِ مسجِد (کی نیّت بھی کی جاسکتی ہے) ، فَرحَتِ دِماغ (یعنی دِماغ کی تازگی) اور اپنے اسلامی بھائیوں سے ناپسندیدہ بُودُور کرنے کی نیّتیں ہوں تو ہر نیّت کاالگ ثوابملے گا۔[6] خوشبو لگانے میں اکثر شیطان غَلَط نیّت میں مُبتلا کر دیتا ہے ، لہٰذا اگر کوئی اِس نیت سے خوشبو لگاتا ہے کہ لوگ واہ واہ کریں ،جدھر سے گزروں خوشبو مہک جائے، لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں اور میری تعریف کریں تو ایسی نیت مَذموم ہے چنانچہ اس نیت سے خوشبو لگانے کی حِرْص بھی مذموم ہے۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا ابو حامد امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی کا فرمانِ عالی ہے:اِس نیّت سے خوشبو لگانا کہ لوگ واہ واہ کریں یا قیمتی خوشبو لگاکر لوگوں پر اپنی مالداری کا سکّہ بٹھانے کی نیّت ہو تو ان صُورَتوں میں خوشبو لگانے والا گنہگار ہوگا اور خوشبو بروزِقِیامَت مُردار سے بھی زِیادہ بدبودار ہوگی۔[7] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۱،۱۲۲)
گناہوں کی حرص سے بچنے کےتین علاج:
(1)… گناہوں کی پہچان کیجئے۔گناہوں کی پہچان حاصل کرنے اور ان کی سزائیں جاننے کے لیے سنی صحیح العقیدہ علمائے کرام ومفتیان عظام کی صحبت اختیار کیجئے، نیز اس معاملے میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتب ورسائل سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
(2) …گناہوں کے نقصانات پر غور کیجئے۔ کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو غضب الٰہی کو دعوت دیتا ہے، جنت سے دور اور جہنم کے قریب ہوجاتا ہے، اپنی جان کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے، اپنے باطن کو ناپاک کربیٹھتا ہے، اعمال لکھنے والے فرشتوں کو ایذاء دیتاہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ ورسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ناراض کرتا ہے، تمام انسانوں سے خیانت اور رَبُّ الْعٰلَمِیْن عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتا ہے۔وغیرہ وغیرہ
(3) …بُرے خاتمے سے بے خوف نہ ہو۔ کہ گناہوں میں مبتلا رہنا اور توبہ کی توفیق نصیب نہ ہونا بھی برے خاتمے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔[8] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۷،۱۲۸)
[1] ۔۔۔۔ مرقاۃ، کتاب الرقاق، باب الامل والحرص، ج۹، ص۱۱۹، تحت الباب: ۲، مرآۃ المناجیح، ج۷، ص۸۶مفصلاً۔
[2] ۔۔۔۔ جنتی زیور ،ص۱۱۱ماخوذاً۔
[3] ۔۔۔۔۔ مسلم، کتاب الزکاۃ، باب لو ان لابن آدم ۔۔۔ الخ، ص۵۲۱، حدیث: ۱۱۶۔
[4] ۔۔۔۔۔۔ فتاویٰ رضویہ، ج ۸، ص ۴۵۲۔
[5] ۔۔۔۔۔۔ رد المحتار، کتاب النکاح، مطلب: کثیرا ما۔۔۔الخ، ج۴، ص۷۵۔
[6] ۔۔۔۔۔ اشعۃاللمعات، ج۱، ص۳۷۔
[7] ۔۔۔۔۔ نیکی کی دعوت، ص۱۱۸، احیاء العلوم، کتاب النیۃ۔۔۔الخ،بیان تفصیل الاعمال۔۔۔الخ،ج۵،ص۹۸۔
[8] ۔۔۔۔۔ حرص، ص۴۲ملتقطاً۔
Comments