جزع

(37)…جزع(واویلا کرنا)

جزع کی تعریف:

’’پیش آنے والی کسی بھی مصیبت پر واویلا کرنا، یا اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرنا جزع کہلاتا ہے ۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۶)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًاۙ(۱۹) اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًاۙ(۲۰) وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًاۙ(۲۱)) (پ۲۹، المعارج: ۱۹ تا ۲۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بے شک آدمی بنایا گیا ہے بڑا بے صبرا حریص ، جب اُسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والا ، اور جب بھلائی پہنچے تو روک رکھنے والا ۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’یعنی انسان کی حالت یہ ہے کہ اسے کوئی ناگوار حالت پیش آتی ہے تو اس پر صبر نہیں کرتا اور جب مال ملتا ہے تو اس کو خرچ نہیں کرتا ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۶)

حدیث مبارکہ، جزع کرنے کا وبال:

حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنے رزق پرراضی نہ ہو اور جو اپنی بیماری کی خبر عام کرنے لگے اور اس پر صبرنہ کرے اس کا کوئی عمل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف بلند نہ ہو گا اور وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پرناراض ہوگا۔‘‘ [2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۶،۲۵۷)

جزع کے بارےمیں تنبیہ:

کسی مصیبت یا مشکل پر واویلا کرنا یا بےصبری کا مظاہرہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کہ بسا اوقات بے صبری کا مظاہرہ کرنےمیں انسان سے مزید کئی گناہوں کا صدور ہوجاتا ہے بلکہ کفریہ جملے تک بک دیتا ہے جس سے ایمان برباد ہوجاتا ہے اور بعض اوقات انسان اس بے صبری کے سبب اجر وثواب کے عظیم خزانے سے بھی محروم کردیا جاتاہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۷)

چل مدینہ کے سات حروف کی نسبت سے بے صبری کے 7 علاج:

(1)…قرآن و حدیث میں موجود صبرکے فضائل پر غور کرے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ صبر والوں کے ساتھ ہے، صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے، صبر کرنے کو ہمت والا کام فرمایا گیا، صبر کرنے والے کے لیے مغفرت، بڑے اجر اور کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ صبر کو ایمان اور جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ شمار کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

(2)…انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ودیگربزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن پر آنے والی آزمائشوں اور ان پر ان کے عظیم صبر سے متعلق حکایات وروایات کا مطالعہ کرے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے انعام یافتہ بندوں کارویہ اور طرز عمل مشکل وقت میں کیسا ہوتا تھا۔

(3)…اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے آنے والی آزمائش کے اسباب پر غور کرے کیونکہ اکثراوقات آزمائش گناہوں کے سبب آتی ہےاس طرح غور کرنے سے اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔

(4)…صبر کرنے والے نیک لوگوں کی صحبت اختیا ر کرے۔

(5)…بے صبر ی کی صورت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضگی، اجر عظیم سے محرومی اور ناشکری کرنے، غیر شرعی افعال کے صادر ہونے پر ملنے والی اُخروی سزاؤں پر غور کرے۔

(6)…اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآ ن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵))(پ۲، البقرۃ: ۱۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو ۔‘‘اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے آزمائش پر پورا اترنے کا ذہن بنائے اور اس کے بعد ملنے والےاُخروی انعام وبشارت پر نظر رکھے۔

(7)…نیکیوں پر استقامت نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ بے صبر ی ہے لہٰذا نیکیوں پر استقامت پانے کے لیے نیک افراد کی صحبت اختیار کرےاور بے صبری کے اُخروی نقصانات پرنظر رکھنا حددرجہ مفیدہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۵۹،۲۶۰)


[1]۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع و الثلاثون۔۔۔الخ،ج۲،ص۹۸۔

[2] ۔۔۔۔ حلیۃ الاولیاء، یوسف بن اسباط، ج۸، ص۲۶۸، الرقم:۱۲۱۶۲۔

Share

Comments


Security Code