جن کا بیان

جِنّ کا بیان

عقیدہ (۱): یہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں ۔[1] اِن میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں [2]، اِن کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں [3]، اِن کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں [4]، یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہیں [5]، اِن میں توالد و تناسل ہوتا ہے[6]، کھاتے، پیتے، جیتے، مرتے ہیں ۔[7]

عقیدہ (۲):اِن میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی[8]، مگر اِن کے کفّار انسان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں ، اور اِن میں کے مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی، سُنّی بھی ہیں ، بد مذہب بھی [9]، اور اِن میں فاسقوں کی تعداد بہ نسبت انسان کے زائد ہے۔

عقیدہ (۳):اِن کے وجود کا انکار یا بدی کی قوت کا نا م جن یا شیطان رکھنا کفر ہے۔ [10] (بہار شریعت،حصہ اول ،جلد۱،صفحہ۹۶، ۹۷)


[1] { وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷)}۔ پ۱۴، الحجر: ۲۷۔

في ’’مدارک التنزیل وحقائق التأویل‘‘ للنسفي، تحت ہذہ الآیۃ، ص۵۸۰: ({وَ الْجَآنَّ } أبا الجن کآدم للناس أو ہو إبلیس وہو منصوب بفعل مضمر یفسرہ { خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ } من قبل آدم { مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷)} من نار الحر الشدید النافذ في المسام قیل: ہذہ السموم جزء من سبعین جزء اً من سموم النار التي خلق اللّٰہ منہا الجان)۔(’’مدارک التنزیل وحقائق التأویل‘‘ للنسفي، ص۵۸۰

[2] ’’شرح المقاصد‘‘، المبحث الثالث، ج۲، ص۵۰۰: (والجن أجسام لطیفۃ ھوائیۃ تتشکل بأشکال مختلفۃ

[3] انظر ’’الحیاۃ الحیوان الکبری‘‘، ج۱، ص۲۹۸۔ و ’’صفۃ الصفوۃ‘‘ لابن الجوزي، ج۲، الجزء الرابع، ص۳۵۷۔۳۵۸۔

[4] في ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۱، ص۸۵: (الجن منہم أخیار ومنہم أشرار والشیاطین اسم لأَشرار الجن

[5] في’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۱، ص۷۹: (أنّہا أجسام ہوائیۃ قادرۃ علی التشکل بأشکال مختلفۃ، ولہا عقول وأفہام وقدرۃ علی أعمال صعبۃ شاقۃ

[6] ان کے یہاں اولادپیدا ہوتی اور نسل چلتی ہے۔

[7] في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، ص۹۰: (اتفقوا علی أنّ الملائکۃ لا یأکلون ولا یشربون ولا ینکحون، وأمّا الجن فإنّہم یأکلون ویشربون وینکحون ویتوالدون

في ’’التفسیر الکبیر‘‘: (الجن والشیاطین فإنّہم یأکلون ویشربون، قال علیہ السلام في الروث والعظم: ((إنّہ زاد إخوانکم من الجن)) وأیضاً فإنّہم یتوالدون قال تعالی: { اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ }، الکہف۵۰۔( ’’التفسیر الکبیر‘‘، ج۱، ص۸۵

[8] { وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَؕ-كُنَّا طَرَآىٕقَ قِدَدًاۙ(۱۱)} پ۲۹، الجن: ۱۱۔

وفي ’’تفسیر الجلالین‘‘، ص۴۷۶، تحت الآیۃ: ({كُنَّا طَرَآىٕقَ قِدَدًاۙ } فرقاً مختلفین مسلمین وکافرین

[9] وفي ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘، تحت الآیۃ: ({كُنَّا طَرَآىٕقَ قِدَدًاۙ} والمعنی: أي: لم یکن کلّ الجن کفاراً بل کانوا مختلفین: منھم کفار، ومنھم مؤمنون صلحاء، ومنھم مؤمنون غیرصلحاء۔ وقال السدي فيقولہ تعالی: { طَرَآىٕقَ قِدَدًاۙ } قال: في الجن مثلکم قدریۃ ومرجئۃ وخوارج ، وروافضۃ، وشیعۃ وسنیۃ)، ملتقطاً۔(’’الجامع لأحکام القرآن‘‘، ج۱۰، ص۱۲وفي ’’تفسیر روح البیان‘‘: ( قالوا في الجن قدریۃ ومرجئۃ وخوارج وروافض وشیعیۃ وسنیۃ)۔(’’تفسیر روح البیان‘‘، ج۱۰، ص۱۹۴

[10] في ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘، ص۱۶۷: (وأمّا الجان فأہل السنۃ یؤمنون بوجودہم، وإنکار المعتزلۃ لوجودہم، فیہ مخالفۃ للکتاب والسنۃ والإجماع، بل ألزموا بہ کفراً؛ لأنّ فیہ تکذیب النصوص القطعیۃ بوجودہم، ومن ثم قال بعض المالکیۃ: الصواب کفر من أنکر وجودہم؛ لأنّہ جحد نص القرآن والسنن المتواترۃ والإجماع الضروري وہم مکلفون قطعاً

Share