اسراف

(44)اسراف

اِسراف کی تعریف:

جس جگہ شرعاً ، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اِسراف کہلاتاہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۱ تا ۳۰۲ )[1]

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)پ۸، الانعام: ۱۴۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بے جا نہ خرچو بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔‘‘

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اِس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’حضرت مُترجِم قُدِّسَ سِرُّہ (یعنی اعلی حضرت امام اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) نے اِسراف کا ترجمہ بے جا خرچ کرنا فرمایا ، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے ۔ اگر کُل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو سدی کا قول ہے کہ یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اِسراف ہے جیسا کہ سعید بن مُسیّب رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے فرمایا ۔ سفیان کا قول ہے کہ اللہ کی طاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جاوے وہ قلیل بھی ہو تو اِسراف ہے ۔ زُہری کا قول ہے کہ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو ۔ مجاہد نے کہا کہ حق اللہ میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قُبَیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہو اور

ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو اِسراف ۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱))(پ۸، الاعراف: ۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔‘‘

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اِس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ شانِ نُزول : کَلبی کا قول ہے کہ بنی عامر زمانۂ حج میں اپنی خوراک بہت ہی کم کر دیتے تھے اور گوشت اور چکنائی تو بالکل کھاتے ہی نہ تھے اور اس کو حج کی تعظیم جانتے تھے ، مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر عرض کیا یارسولَ اللہ ہمیں ایسا کرنے کا زیادہ حق ہے ، اس پر یہ نازِل ہوا کہ کھاؤ اور پیو گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اِسراف نہ کرو اور وہ یہ ہے کہ سیر ہو چکنے کے بعد بھی کھاتے رہو یا حرام کی پرواہ نہ کرو اور یہ بھی اِسراف ہے کہ جو چیز اللہ تعالٰی نے حرام نہیں کی اس کو حرام کر لو ۔ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کھا جو چاہے اور پہن جو چاہے اِسراف اور تکبّر سے بچتا رہ ۔ مسئلہ : آیت میں دلیل ہے کہ کھانے اور پینے کی تمام چیزیں حَلال ہیں سوائے ان کے جن پر شریعت میں دلیلِ حُرمت قائم ہو کیونکہ یہ قاعدہ مقرَّرہ مسلَّمہ ہے کہ اصل تمام اشیاء میں اِباحت ہے مگر جس پر شارع نے مُمانَعت فرمائی ہو اور اس کی حُرمت دلیلِ مستقل ثابت ہو ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۲ تا ۳۰۴)

اِسراف کی مختلف صورتیں :

شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مایہ ناز تصنیف ’’فیضانِ سنت‘‘ صفحہ ۲۵۶پر ہے: مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان تفسیرِ نعیمی، ج۸، ص ۳۹۰ پر فرماتے ہیں : ’’اِسراف کی بہت تفسیریں ہیں : (۱)حلال چیزوں کو حرام جاننا (۲)حرام چیزوں کو استِعمال کرنا(۳) ضَرورت سے زیادہ کھانا پینایا پہننا (۴)جو دل چاہے وہ کھا پی لینا پہن لینا (۵)دن رات میں بار بار کھاتے پیتے رَہنا جس سے مِعدہ خراب ہوجائے، بیمار پڑ جائے(۶) مُضِر اور نقصان دہِ چیزیں کھانا پینا (۷) ہر وَقت کھانے پینے پہننے کے خیال میں رَہنا کہ اب کیا کھاؤں گا؟ آئندہ کیا پیوں گا؟[2] (۸)غفلت کیلئے کھانا(۹)گناہ کرنے کیلئے کھانا (۱۰)اچھے کھانے پینے، اعلیٰ پہننے کاعادی بن جانا کہ کبھی معمولی چیز کھا پی نہ سکے (۱۱)اعلیٰ غذاؤں کواپنے کمال کانتیجہ جاننا۔ غرضیکہ اس ایک لفظ میں بہت سے اَحکام داخِل ہیں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۴)

اِسراف سے متعلق ایک اہم وضاحت:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں یہ واضح کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ جس طرح ’’لَا (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۴)

خَیْرَفِی الْاِسْرَافِ یعنی اسراف (فضول خرچی) میں کوئی بھلائی وخیر نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح ’’لَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْرِ یعنی نیکی اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف (فضول خرچی) نہیں۔‘‘ اَلْحَمْدُ لِلہِ عَزَّ وَجَلَّ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں ہرسال لاکھوں مسلمان اپنے آقا ومولا، حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جشن ولات کے موقع پر خوشیاں مناتے ہیں ، اپنے گھروں ، دکانوں ، محلوں اور گلیوں کو سجاتے ہیں ، سبز سبز پرچم لگاتے اور لہراتے ہیں ، رنگ برنگے بلب اور دیے روشن کرتے ہیں ، صدقہ وخیرات کرتے ہیں ، لنگر ونیاز کا اہتمام کرتے ہیں ، محافل ذکر ونعت منعقد کرتے ہیں ، علمائے کرام کو بلاتے اور ان سے ذکر ولادت شریف سنتے ہیں ، اسی طرح صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ، اہل بیت عظام، اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَعراس پر اُن کے ایصالِ ثواب کے لیے بڑا اہتمام کرتے ہیں ، یقیناً یہ تمام بھلائی کے کام ہیں اور بھلائیوں کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ۵۶۱ صَفحات پر مشتمل کتاب ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ (مکمَّل) صفحہ۱۷۴پر ہے۔اعلی حضرت، عظیم البرکت، مجدددین وملت، پروانۂ شمع رسالت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن سے پوچھا گیا: ’’میلاد شریف میں جھاڑ (یعنی پانچ شاخوں والی مشعل)،فانوس، فروش وغیرہ سے زیب وزینت اِسراف ہے یا نہیں ؟‘‘ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ’’علماء فرماتے ہیں : لَاخَیْرَ فِی الْاِسْرَافِ وَلَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْر (یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں تو)جس شے سے تعظیمِ ذکر شریف مقصود ہو ، ہر گز ممنوع نہیں ہوسکتی ۔اِمام غزالی (عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی) نے اِحیاء ُ العلوم شریف میں سید ابوعلی رُوذ بارِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی سے نَقل کیا کہ ایک بندہ صالح (نیک شخص)نے مجلسِ ذکر شریف ترتیب دی اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہربین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے ۔ (کہ اتنی شمعیں جلانا تو اسراف ہے۔)بانی مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع مَیں نے غیرِ خدا کے لئے روشن کی ہو وہ بجھا دیجئے ۔ کوششیں کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی ۔[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۴ تا ۳۰۶)

حدیث مبارکہ، بہتی نہر پر بھی اسراف:

حضرت سیِّدُنا عبدﷲ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُنا سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: ’’ اے سعد! یہ اسراف کیسا؟‘‘ عرض کیا: ’’رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔‘‘[4] ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔‘‘ [5] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۶،۳۰۷)

اسراف کاحکم:

اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلافِ مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے ۔[6] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۷)

اسراف کے اسباب و علاج:

(1)… اسر اف کا پہلا سبب لاعلمی اور جہالت ہے۔بندہ شرعی معلومات کے بغیر جب کسی کام میں مال خرچ کرتا ہے تو اس میں اِسراف کے کئی پہلو ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی جہالت کی وجہ سے اِحساس تک نہیں ہوتا۔اس کا علا ج یہ ہے کہ بندہ کسی بھی کام میں مال خرچ کرنے سے پہلے علمائے کرام اور مفتیانِ کرام سے شرعی رہنمائی حاصل کرلے، اس سلسلے میں دارالافتاء اہل سنت سے رابطہ کرنا بھی بہت مفید ہے۔

(2)… اسر اف کا دوسرا سبب غرور و تکبر ہے۔ بسا اوقات دوسروں پراپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بے جا دولت خرچ کی جاتی ہے ۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غرور و تکبر کے نقصانات پر غور وفکر کرے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے، متکبر شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ناپسند ہے، خود رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے متکبر کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، احادیث میں متکبر کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے، متکبر کو کل بروز قیامت ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے دل میں تھوڑا سا بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔ تکبر کی تباہ کاریاں جاننے اور مزید معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’تکبر‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

(3)… اسر اف کا تیسراسبب اپنی واہ واہ کی خواہش ہے۔دوسروں سے داد وصول کرنے لیے پیسے کا بے جا استعمال ہمارے معاشرے میں عام ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ لوگوں سے تعریفی کلمات سننے کی خواہش کو اپنی ذات سے ختم کرے اور یہ مدنی ذہن بنائے کہ لوگوں میں معزز ہونا کوئی معنٰی نہیں رکھتا بلکہ سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار ہے۔نیز بندہ حب جاہ کے اَسباب و علاج کامطالعہ کرے۔

(4)… اسر اف کا چوتھاسبب شہرت کی خواہش ہے۔بے حیائی پرمشتمل فنکشن اور اس طرح کی دیگر خرافات میں خرچ کی جانے والی رقم کا اصل سبب شہرت کی طلب

ہی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عطاکردہ دولت کو نیکی کے کاموں میں کرنے کی عادت بنائے اور اخلا ص اپنانے کی کوشش کرتا رہے،وقتی شہرت کے بدلے بروز محشر ملنے والی دائمی ذلت ورسوائی کو پیش نظر رکھے، نیز یہ مدنی ذہن بنائے کہ مجھے مال ودولت خرچ کرکے لوگوں کی نظر میں مشہور ہونے کی بجائے نیک اعمال کرکے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں سُرخُرو ہونا ہے۔

(5)… اسر اف کا پانچواں سبب غفلت اور لاپرواہی ہے۔انسان کو یہ تو معلوم ہوتاہے کہ فلان کام میں خرچ کرنا اسراف ہے لیکن بعض اوقات اپنی غفلت اور لاپرواہی کی بناءاسراف میں مبتلا ہوجاتا ہے، وضو کا پانی استعمال کرنے میں نل کھلا چھوڑدینا ،گھر ،آفس وغیرہ میں بجلی پر چلنے والی اشیاء کو سستی کی وجہ سے کھلاچھوڑدینا بھی اسی سبب کا نتیجہ ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر احساس پیدا کرے، دنیا میں غفلت ولاپرواہی کی بنا پر ہونے والے گناہوں پر آخرت کے مواخذے کو پیش نظر رکھے اور اپنی اس غفلت ولا پرواہی کو دور کرے، نیز اپنے دل میں ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا احساس پیدا کرے، نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ آج اگر میں نے نعمتوں کی ناشکری کی تو ہوسکتا ہے مجھ سے یہ نعمتیں چھین لی جائیں ، لہٰذا میں ان نعمتوں پر اسراف سے بچتے ہوئے شکر کروں گا تاکہ ان میں مزید اضافہ ہو۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۰۸ تا ۳۱۰)


[1] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع و العشرون۔۔۔الخ،ج۲، ص۲۸۔

[2] ۔۔۔۔ رُوحُ البیان، ج۳، ص۱۵۴۔

[3] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب آداب الاکل، فصل یجمع آدابا۔۔۔الخ، ج۲، ص۲۶۔

[4] ۔۔۔۔ ابن ماجۃ، کتاب الطھارۃ و سننھا ،باب ما جاء فی القصد۔۔۔الخ، ج۱، ص۲۵۴، حدیث: ۴۲۵۔

[5] ۔۔۔۔ ابن ماجۃ، کتاب الاطعمۃ، باب من الاسراف ۔۔۔الخ، ج۴، ص۴۹، حدیث: ۳۳۵۲۔

[6] ۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ، الخلق السابع والعشرون۔۔۔الخ،ج۲، ص۲۸۔

Share