سونے چاندی مالِ تجارت کی زکاۃ کا بیان
مسئلہ ۱: سونے کی نصاب بیس ۲۰ مثقال ہے یعنی ساڑھے سات تولے اور چاندی کی دو سو ۲۰۰ درم یعنی ساڑھے باون تولے یعنی وہ تولہ جس سے یہ رائج روپیہ سوا گیارہ ماشے ہے۔ سونے چاندی کی زکاۃ میں وزن کا اعتبار ہے قیمت کا لحاظ نہیں، مثلاً سات تولے سونے یا کم کا زیور یا برتن بنا ہو کہ اس کی کاریگری کی وجہ سے دو سو ۲۰۰ درم سے زائد قیمت ہو جائے یا سونا گراں ہو کہ ساڑھے سات تولے سے کم کی قیمت دو سو درم سے بڑھ جائے، جیسے آج کل کہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت چاندی کی کئی نصابیں ہوں گی، غرض یہ کہ وزن میں بقدر نصاب نہ ہو تو زکاۃ واجب نہیں قیمت جو کچھ بھی ہو۔ یو ہیں سونے کی زکاۃ میں سونے اور چاندی کی زکاۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی تو اس کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ وزن کا ا گرچہ اس میں بہت کچھ صنعت ہو جس کی وجہ سے قیمت بڑھ گئی یا فرض کرو دس آنے بھری چاندی بک رہی ہے اور زکاۃ میں ایک روپیہ دیا جو سولہ آنے کا قرار دیا جاتا ہے تو زکاۃ ادا کرنے میں وہ یہی سمجھا جائے گا کہ سوا گیارہ ماشے چاندی دی، یہ چھ آنے بلکہ کچھ اُوپر جو اس کی قیمت میں زائد ہیں لغو ہیں۔ (درمختار، ردالمحتار)( ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۶۷ ۔ ۲۷۰.)
مسئلہ ۲: یہ جو کہا گیا کہ ادائے زکاۃ میں قیمت کا اعتبار نہیں، یہ اسی صورت میں ہے کہ اُس کی جنس کی زکاۃ اُسی جنس سے ادا کی جائے اور اگر سونے کی زکاۃ چاندی سے یا چاندی کی سونے سے ادا کی تو قیمت کا اعتبار ہوگا، مثلاً سونے کی زکاۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی جس کی قیمت ایک اشرفی ہے تو ایک اشرفی دینا قرار پائے گا، اگرچہ وزن میں اس کی چاندی پندرہ روپے بھر بھی نہ ہو۔ [1] (ردالمحتار)
مسئلہ ۳: سونا چاندی جب کہ بقدر نصاب ہوں تو ان کی زکاۃ چالیسواں حصہ ہے، خواہ وہ ویسے ہی ہوں یا اُن کے سکّے جیسے روپے اشرفیاں یا ان کی کوئی چیز بنی ہوئی خواہ اس کا استعمال جائز ہو جیسے عورت کے لیے زیور، مرد کے لیے چاندی کی ایک نگ کی ایک انگوٹھی ساڑھے چار ماشے سے کم کی یا سونے چاندی کے بلا زنجیر کے بٹن یا استعمال ناجائز ہو جیسے چاندی سونے کے برتن، گھڑی، سُرمہ دانی، سلائی کہ ان کا استعمال مرد و عورت سب کے لیے حرام ہے یا مرد کے لیے سونے چاندی کا چھلّا یا زیور یا سونے کی انگوٹھی یا ساڑھے چار ماشے سے زیادہ چاندی کی انگوٹھی یا چند انگوٹھیاں یا کئی نگ کی ایک انگوٹھی، غرض جو کچھ ہو زکاۃ سب کی واجب ہے، مثلاً ۷ ــــ ۱ ۲ تولہ سونا ہے تو دو ماشہ زکاۃ واجب ہے یا ۵۲ تولہ ۶ ماشہ چاندی ہے تو ایک تولہ ۳ ماشہ ۶ رتی۔[2] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴: سونے چاندی کے علاوہ تجارت کی کوئی چیز ہو، جس کی قیمت سونے چاندی کی نصاب کو پہنچے تو اس پر بھی زکاۃ واجب ہے یعنی قیمت کا چالیسواں ۴۰ حصہ اور اگر اسباب کی قیمت تو نصاب کو نہیں پہنچتی مگر اس کے پاس ان کے علاوہ سونا چاندی بھی ہے تو اُن کی قیمت سونے چاندی کے ساتھ ملا کر مجموعہ کریں، اگر مجموعہ نصاب کو پہنچا زکاۃ واجب ہے اور اسباب تجارت کی قیمت اُس سکّے سے لگائیں جس کا رواج وہاں زیادہ ہو، جیسے ہندوستان میں روپیہ کا زیادہ چلن ہے، اسی سے قیمت لگائی جائے اور اگر کہیں سونے چاندی دونوں کے سکّوں کا یکساں چلن ہو تو اختیار ہے جس سے چاہیں قیمت لگائیں، مگر جب کہ روپے سے قیمت لگائیں تو نصاب نہیں ہوتی اور اشرفی سے ہو جاتی ہے یا بالعکس تو اُسی سے قیمت لگائی جائے جس سے نصاب پوری ہو اور اگر دونوں سے نصاب پوری ہوتی ہے مگر ایک سے نصاب کے علاوہ نصاب کا پانچواں حصہ زیادہ ہوتا ہے، دوسرے سے نہیں تو اس سے قیمت لگائیں جس سے ایک نصاب اور نصاب کا پانچواں حصہ ہو۔[3] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۵: نصاب سے زیادہ مال ہے تو اگر یہ زیادتی نصاب کا پانچواں حصہ ہے تو ا س کی زکاۃ بھی واجب ہے، مثلاً دو سو چالیس ۲۴۰ درم یعنی ۶۳ تولہ چاندی ہو تو زکاۃ میں چھ درم واجب، یعنی ایک تولہ ۶ ماشہ ــــ ۱ ۵ رتی یعنی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ کے بعد ہر ۱۰ تولہ ۶ ماشہ پر ۳ ماشہ ۱ ــــ ۱ ۵ رتی بڑھائیں اور سونا نو تولہ ہو تو دو ۲ ماشہ ۵ ــــ ۳ ۵ رتی یعنی ۷ تولہ ۶ ماشہ کے بعد ہر ایک تولہ ۶ ماشہ پر ۳ ــــ ۳ ۵ رتی بڑھائیں اور پانچواں حصہ نہ ہو تو معاف یعنی مثلاً نو تولہ سے ایک رتی کم اگر سونا ہے تو زکاۃ وہی ۷ تولہ ۶ ماشہ کی واجب ہے یعنی ۲ ماشہ۔ یو ہیں چاندی اگر ۶۳ تولہ سے ایک رتی بھی کم ہے تو زکاۃ وہی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ کی ایک تولہ ۳ ماشہ ۶ رتی واجب۔ یو ہیں پانچویں حصہ کے بعد جو زیادتی ہے، اگر وہ بھی پانچواں حصہ ہے تو اُس کا چالیسواں حصہ واجب ورنہ معاف وعلیٰ ہذا القیاس۔ مال تجارت کا بھی یہی حکم ہے۔ [4] (درمختار)
مسئلہ ۶: اگر سونے چاندی میں کھوٹ ہو اور غالب سونا چاندی ہے تو سونا چاندی قرار دیں اور کل پر زکاۃ واجب ہے۔ یو ہیں اگر کھوٹ سونے چاندی کے برابر ہو تو زکاۃ واجب اور اگر کھوٹ غالب ہو تو سونا چاندی نہیں پھر اس کی چند صورتیں ہیں۔ اگر اس میں سونا چاندی اتنی مقدار میں ہو کہ جُدا کریں تو نصاب کو پہنچ جائے یا وہ نصاب کو نہیں پہنچتا مگر اس کے پاس اور مال ہے کہ اس سے مل کر نصاب ہو جائے گی یا وہ ثمن میں چلتا ہے اور اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو ان سب صورتوں میں زکاۃ واجب ہے اور اگر ان صورتوں میں کوئی نہ ہو تو اس میں اگر تجارت کی نیّت ہو تو بشرائط تجارت اُسے مالِ تجارت قرار دیں اور اس کی قیمت نصاب کی قدر ہو، خود یا اوروں کے ساتھ مل کر تو زکاۃ واجب ہے ورنہ نہیں۔ [5] (درمختار)
مسئلہ ۷: سونے چاندی کو باہم خلط کر دیا تو اگر سونا غالب ہو، سونا سمجھا جائے اور دونوں برابر ہوں اور سونا بقدرِ نصاب ہے، تنہا یا چاندی کے ساتھ مل کر جب بھی سونا سمجھا جائے اور چاندی غالب ہو تو چاندی ہے، نصاب کو پہنچے تو چاندی کی زکاۃ دی جائے مگر جب کہ اس میں جتنا سونا ہے وہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے تو اب بھی کُل سونا ہی قرار دیں۔ [6] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۸: کسی کے پاس سونا بھی ہے اور چاندی بھی اور دونوں کی کامل نصابیں تو یہ ضرور نہیں کہ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونا قرار دے کر زکاۃ ادا کرے، بلکہ ہر ایک کی زکاۃ علیحدہ علیحدہ واجب ہے۔ ہاں زکاۃ دینے والا اگر صرف ایک چیز سے دونوں نصابوں کی زکاۃ ادا کرے تو اسے اختیار ہے، مگر اس صورت میں یہ واجب ہوگا کہ قیمت وہ لگائے جس میں فقیروں کا زیادہ نفع ہے مثلاً ہندوستان میں روپے کا چلن بہ نسبت اشرفیوں کے زیادہ ہے تو سونے کی قیمت چاندی سے لگا کر چاندی زکاۃ میں دے اور اگر دونوں میں سے کوئی بقدر نصاب نہیں تو سونے کی قیمت کی چاندی یا چاندی کی قیمت کا سونا فرض کر کے ملائیں پھر اگر ملانے پر بھی نصاب نہیں ہوتی تو کچھ نہیں اور اگر سونے کی قیمت کی چاندی چاندی میں ملائیں تو نصاب ہو جاتی ہے اور چاندی کی قیمت کا سونا سونے میں ملائیں تو نہیں ہوتی یا بالعکس تو واجب ہے کہ جس میں نصاب پوری ہو وہ کریں اور اگر دونوں صورت میں نصاب ہو جاتی ہے تو اختیار ہے جو چاہیں کریں مگر جب کہ ایک صورت میں نصاب پر پانچواں حصہ بڑھ جاتا ہے تو جس میں پانچواں حصہ بڑھ جائے وہی کرنا واجب ہے، مثلاً سوا چھبیس ۲۶ تولے چاندی ہے اور پونے چار تولے سونا، اگر پونے چار تولے سونے کی چاندی سوا چھبیس تولے آتی ہے اور سوا چھبیس تولے چاندی کا پونے چار تولے سونا آتا ہے تو سونے کو چاندی یا چاندی کو سونا جو چاہیں تصور کریں اور اگر پونے چار تولے سونے کے بدلے ۳۷ تولے چاندی آتی ہے اور سوا چھبیس تولے چاندی کا پونے چار تولے سونا نہیں ملتا تو واجب ہے کہ سونے کو چاندی قرار دیں کہ اس صورت میں نصاب ہو جاتی ہے، بلکہ پانچواں حصہ زیادہ ہوتا ہے اور اُس صورت میں نصاب بھی پوری نہیں ہوتی۔ یو ہیں اگر ہر ایک نصاب سے کچھ زیادہ ہے تو اگر زیادتی نصاب کا پانچواں ہے تو اس کی بھی زکاۃ دیں اور اگر ہر ایک میں زیادتی پانچواں حصہ نصاب سے کم ہے تو دونوں ملائیں، اگر مل کر بھی کسی کی نصاب کا پانچواں حصہ نہیں ہوتا تو اس زیادتی پر کچھ نہیں اور اگر دونوں میں نصاب یا نصاب کا پانچواں حصہ ہو تو اختیار ہے، مگر جب کہ ایک میں نصاب ہو اور دوسرے میں پانچواں حصہ تو وہ کریں جس میں نصاب ہو اور اگر ایک میں نصاب یا پانچواں حصہ ہوتا ہے اور دوسرے میں نہیں تو وہی کرنا واجب ہے، جس سے نصاب ہو یا نصاب کا پانچواں حصہ۔ [7] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۹: پیسے جب رائج ہوں اور دو سو ۲۰۰ درم چاندی[8] یا بیس مثقال سونے[9] کی قیمت کے ہوں تو ان کی زکاۃ واجب ہے [10]، اگرچہ تجارت کے لیے نہ ہوں اور اگر چلن اُٹھ گیا ہو تو جب تک تجارت کے لیے نہ ہوں زکاۃ واجب نہیں۔ (فتاویٰ قاری الہدایہ) نوٹ کی زکاۃ بھی واجب ہے، جب تک ان کا رواج اورچلن ہو کہ یہ بھی ثمنِ اصطلاحی [11] ہیں اور پیسوں کے حکم میں ہیں۔
مسئلہ ۱۰: جو مال کسی پر دَین [12] ہو، اس کی زکاۃ کب واجب ہوتی ہے اور ادا کب اس میں تین صورتیں ہیں۔ اگر دَین قوی ہو، جیسے قرض جسے عرف میں دستگرداں کہتے ہیں اور مالِ تجارت کا ثمن مثلاً کوئی مال اُس نے بہ نیتِ تجارت خریدا، اُسے کسی کے ہاتھ اُدھار بیچ ڈالا یا مالِ تجارت کا کرایہ مثلاً کوئی مکان یا زمین بہ نیّت تجارت خریدی، اُسے کسی کو سکونت یا زراعت کے لیے کرایہ پر دے دیا ،یہ کرایہ اگر اُس پر دَین ہے تو دَین قوی ہوگا اور دَین قوی کی زکاۃ بحالتِ دَین ہی سال بہ سال واجب ہوتی رہے گی، مگر واجب الادا اُس وقت ہے جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہو جائے، مگر جتنا وصول ہوا اتنے ہی کی واجب الادا ہے یعنی چالیس درم وصول ہونے سے ایک درم دینا واجب ہوگا اور اسّی ۸۰ وصول ہوئے تو دو،وعلیٰ ہذا القیاس۔ دوسرے دَین متوسط کہ کسی مالِ غیر تجارتی کا بدل ہو مثلاً گھر کا غلّہ یا سواری کا گھوڑا یا خدمت کا غلام یا اور کوئی شے حاجت اصلیہ کی بیچ ڈالی اور دام خریدار پر باقی ہیں اس صورت میں زکاۃ دینا اس وقت لازم آئے گا کہ دو سو درم پر قبضہ ہو جائے۔ یو ہیں اگر مُورث کا دَین اُسے ترکہ میں ملا اگرچہ مالِ تجارت کا عوض ہو، مگر وارث کو دو سو درم وصول ہونے اور مُورث کی موت کو سال گزرنے پر زکاۃ دینا لازم آئے گا۔ تیسرے دَین ضعیف جو غیر مال کا بدل ہو جیسے مہر، بدل خلع، دیت، بدلِ کتابت یا مکان یا دوکان کہ بہ نیتِ تجارت خریدی نہ تھی اس کا کرایہ کرایہ دار پر چڑھا، اس میں زکاۃ دینا اس وقت واجب ہے کہ نصاب پر قبضہ کرنے کے بعد سال گزر جائے یا اس کے پاس کوئی نصاب اس جنس کی ہے اور اس کا سال تمام ہو جائے تو زکاۃ واجب ہے۔
پھر اگر دَین قوی یا متوسط کئی سال کے بعد وصول ہو تو اگلے سال کی زکاۃ جو اس کے ذمہ دَین ہوتی رہی وہ پچھلے سال کے حساب میں اسی رقم پر ڈالی جائے گی، مثلاً عمرو پر زید کے تین سو درم دَین قوی تھے، پانچ برس بعد چالیس درم سے کم وصول ہوئے تو کچھ نہیں اور چالیس وصول ہوئے تو ایک درم دینا واجب ہوا، اب انتالیس باقی رہے کہ نصاب کے پانچویں حصہ سے کم ہے، لہٰذا باقی برسوں کی ابھی واجب نہیں اور اگر تین سو درم دَین متوسط تھے تو جب تک دو سو درم وصول نہ ہوں کچھ نہیں اور پانچ برس بعد دو سو وصول ہوئے تو اکیس ۲۱ واجب ہوں گے، سال اوّل کے پانچ اب سال دوم میں ایک سو پچانوے رہے ان میں سے پینتیس کہ خمس سے کم ہیں معاف ہوگئے، ایک سو ساٹھ رہے اس کے چار درم واجب لہٰذا سال سوم میں ایک سو اکانوے رہے، ان میں بھی چار درم واجب، چہارم میں ایک سو ستاسی رہے، پنجم میں ایک سو تراسی رہے ان میں بھی چار چار درم واجب، لہٰذا کُل اکیس درم واجب الادا ہوئے۔[13] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۱۱: اگر دَین سے پہلے سال نصاب رواں تھا تو جو دَین اثنائے سال میں کسی پر لازم آیا، اس کا سال بھی وہی قرار دیا جائے گا جو پہلے سے چل رہا ہے، وقت دَین سے نہیں اور اگر دَین سے پہلے اس جنس کی نصاب کا سالِ رواں نہ ہو تو وقتِ دَین سے شمار ہوگا۔[14](ردالمحتار)
مسئلہ ۱۲: کسی پر دَین قوی یا متوسط ہے اور قرض خواہ کا انتقال ہوگیا تو مرتے وقت اس دَین کی زکاۃ کی وصیّت ضرور نہیں کہ اس کی زکاۃ واجب الادا تھی ہی نہیں اور وارث پر زکاۃ اس وقت ہوگی جب مُورث کی موت کو ایک سال گزر جائے اور چالیس درم دَین قوی میں اور دو سو درم دَین متوسط میں وصول ہو جائیں۔ [15] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۳: سال تمام کے بعد دائن نے دَین معاف کر دیا یا سال تمام سے پہلے مالِ زکاۃ ہبہ کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی۔ [16] (درمختار)
مسئلہ ۱۴: عورت نے مہر کا روپیہ وصول کر لیا سال گزرنے کے بعد شوہر نے قبل دخول طلاق دے دی تو نصف مہر واپس کرنا ہوگا اور زکاۃ پورے کی واجب ہے اور شوہر پر واپسی کے بعد سے سال کا اعتبار ہے۔ [17] (درمختار)
مسئلہ ۱۵: ایک شخص نے یہ اقرار کیا کہ فلاں کا مجھ پر دَین ہے اور اُسے دے بھی دیا پھر سال بھر بعد دونوں نے کہا دَین نہ تھا تو کسی پر زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ [18] (عالمگیری) مگر ظاہر یہ ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب کہ اُس کے خیال میں دَین ہو، ورنہ اگر محض زکاۃ ساقط کرنے کے لیے یہ حیلہ کیا تو عنداﷲ مواخذہ کا مستحق ہے۔
مسئلہ ۱۶: مالِ تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے، مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت دو سو درم سے کم نہ ہو اور اگر مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب کی قیمتوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قدر ہو۔ [19] (عالمگیری) یعنی جب کہ اس کے پاس یہی مال ہو اور اگر اس کے پاس سونا چاندی اس کے علاوہ ہو تو اسے ملا لیں گے۔
مسئلہ ۱۷: غلّہ یا کوئی مالِ تجارت سال تمام پر دو سو درم کا ہے پھر نرخ بڑھ گھٹ گیا تو اگر اسی میں سے زکاۃ دینا چاہیں تو جتنا اس دن تھا اس کا چالیسواں حصہ دے دیں اور اگر اس قیمت کی کوئی اور چیز دینا چاہیں تو وہ قیمت لی جائے جو سال تمام کے دن تھی اور اگر وہ چیز سال تمام کے دن تر تھی اب خشک ہوگئی، جب بھی وہی قیمت لگائیں جو اس دن تھی ا ور اگر اس روز خشک تھی، اب بھیگ گئی تو آج کی قیمت لگائیں۔[20] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: قیمت اس جگہ کی ہونی چاہیے جہاں مال ہے اور اگر مال جنگل میں ہو تو اُس کے قریب جو آبادی ہے وہاں جو قیمت ہو اس کا اعتبار ہے۔ ۔[21] (عالمگیری) ظاہر یہ ہے کہ یہ اس مال میں ہے جس کی جنگل میں خریداری نہ ہوتی ہو اور اگر جنگل میں خریدا جاتا ہو، جیسے لکڑی اور وہ چیزیں جو وہاں پیدا ہوتی ہیں تو جب تک مال وہاں پڑا ہے، وہیں کی قیمت لگا ئی جائے۔
مسئلہ ۱۹: کرایہ پر اٹھانے کے لیے دیگیں ہوں، اُن کی زکاۃ نہیں۔ یو ہیں کرایہ کے مکان کی۔ [22] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۰: گھوڑے کی تجارت کرتا ہے، جُھول [23] اور لگام اور رسیاں وغیرہ اس لیے خریدیں کہ گھوڑوں کی حفاظت میں کام آئیں گی تو اُن کی زکاۃ نہیں اور اگر اس لیے خریدیں کہ گھوڑے ان کے سمیت بیچے جائیں گے تو ان کی بھی زکاۃ دے۔ نان بائی نے روٹی پکانے کے لیے لکڑیاں خریدیں یا روٹی میں ڈالنے کو نمک خریدا تو ان کی زکاۃ نہیں اور روٹی پر چھڑکنے کو تِل خریدے تو تِلوں کی زکاۃ واجب ہے۔ [24] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۱: ایک شخص نے اپنا مکان تین سال کے لیے تین سو درم سال کے کرایہ پر دیا اور اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور جو کرایہ میں آتا ہے، سب کو محفوظ رکھتا ہے تو آٹھ مہینے گزرنے پر نصاب کا مالک ہوگیا کہ آٹھ ماہ میں دو سو درم کرایہ کے ہوئے، لہٰذا آج سے سال زکاۃ شروع ہوگا اور سال پورا ہونے پر پانسو ۵۰۰ درم کی زکاۃ دے کہ بیس ماہ کا کرایہ پانسو ہوا، اب اس کے بعد ایک سال اور گزرا تو آٹھ سو ۸۰۰ کی زکاۃ دے، مگر سال اوّل کی زکاۃ کے ساڑھے بارہ درم کم کیے جائیں۔ [25] (عالمگیری) بلکہ آٹھ سو میں چالیس کم کی زکاۃ واجب ہوگی کہ چالیس سے کم کی زکاۃ نہیں بلکہ عفو ہے۔
مسئلہ ۲۲: ایک شخص کے پاس صرف ایک ہزار درم ہیں اور کچھ مال نہیں، اس نے سو درم سالانہ کرایہ پر دس ۱۰ سال کے لیے مکان لیا اور وہ کُل روپے مالک مکان کو دے دیے تو پہلے سال میں نو سو کی زکاۃ دے کہ سو کرایہ میں گئے، دوسرے سال آٹھ سو کی بلکہ پہلے سال کی زکاۃ کے ساڑھے بائیس درم آٹھ سو میں سے کم کر کے باقی کی زکاۃ دے۔ اسی طرح ہر سال میں سو روپے اور سالِ گزشتہ کی زکاۃ کے روپے کم کر کے باقی کی زکاۃ اُس کے ذمہ ہے اور مالک مکان کے پاس بھی اگر اس کرایہ کے ہزار کے سوا کچھ نہ ہو تو دو سال تک کچھ نہیں۔ دو سال گزرنے پر اب دو سو کا مالک ہوا، تین برس پر تین سو کی زکاۃ دے۔ یوہیں ہر سال سو درم کی زکاۃ بڑھتی جائے گی، مگر اگلی برسوں کی مقدار زکاۃ کم کرنے کے بعد باقی کی زکاۃ واجب ہوگی۔ صورت مذکورہ میں اگر اس قیمت کی کنیز کرایہ میں دی تو کرایہ دار پر کچھ واجب نہیں اور مالکِ مکان پر اُسی طرح وجوب ہے، جو درم کی صورت میں ہے۔ [26] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: تجارت کے لیے غلام قیمتی دو سو درم کا دو سو میں خریدا اور ثمن بائع کو دے دیا، مگر غلام پر قبضہ نہ کیا یہاں تک کہ ایک سال گزر گیا، اب وہ بائع کے یہاں مر گیا تو بائع و مشتری دونوں پر دو دو سو کی زکاۃ واجب ہے اور اگر غلام دو سو درم سے کم قیمت کا تھا اور مشتری نے دو سو پر لیا تو بائع دو سو کی زکاۃ دے اور مشتری پر کچھ نہیں۔[27] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۴: خدمت کا غلام ہزار روپے میں بیچا اور ثمن پر قبضہ کر لیا، سال بھر بعد وہ غلام عیب دار نکلا اس بنا پر واپس ہوا، قاضی نے واپسی کا حکم دیا ہو یا اُس نے خود اپنی خوشی سے واپس لے لیا ہو تو ہزار کی زکاۃ دے۔[28] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۵: روپے کے عوض کھانا غلّہ کپڑا وغیرہ فقیر کو دے کر مالک کر دیا تو زکاۃ ادا ہو جائے گی، مگر اس چیز کی قیمت جو بازار بھاؤ سے ہوگی وہ زکاۃ میں سمجھی جائے، بالائی مصارف مثلاً بازار سے لانے میں جو مزدور کو دیا ہے یا گاؤں سے منگوایا تو کرایہ اور چونگی وضع نہ کریں گے یا پکوا کر دیا تو پکوائی یا لکڑیوں کی قیمت مُجرا نہ کریں، بلکہ اس پکی ہوئی چیز کی جو قیمت بازار میں ہو، اس کا اعتبار ہے۔[29](درمختار، عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۰۲ تا ۹۰۹)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۰.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۰، وغیرہ.
[3] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۷۰ ۔ ۲۷۲، وغیرہ.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۲.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۳ ۔ ۲۷۵.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۵ ۔ ۲۷۷.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۷۸، وغیرہما.
[8] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ساڑھے باون تولے۔
[9] ۔۔۔۔۔۔ یعنی ساڑھے سات تولے۔
[10] ۔۔۔۔۔۔ ''فتاوی قاریئ الھدایۃ''، ص۲۹.
[11] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ثمن ہے جو درحقیقت متاع (سامان) ہے لیکن لوگوں کی اصطلاح نے اسے ثمن بنادیا۔
[12] ۔۔۔۔۔۔ یہاں دَین سے مراد مطلقاً قرض ہی نہیں، بلکہ ہر وہ مال ہے جو کسی بھی سبب سے کسی شخص کے ذمہ واجب ہو۔
[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، مطلب في وجوب الزکاۃ في دین المرصد، ج۳، ص۲۸۱ ۔ ۲۸۳، وغیرہما.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب في وجوب الزکاۃ في دین المرصد، ج، ۳ص۲۸۳.
[15] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، مطلب في وجوب الزکاۃ في دین المرصد، ج، ۳ص۲۸۳.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۳، ص۲۸۳ ۔ ۲۸۵.
[17] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۸۵.
[18] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، في مسائل شتی، ج۱، ص۱۸۲.
[19] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زکاۃ الذہب والفضۃ والعروض، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۷۹.
[20] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۷۹۔۱۸۰.
[21] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زکاۃ الذہب والفضۃ والعروض، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۸۰.
[22] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[23] ۔۔۔۔۔۔ یعنی گھوڑے کے اوپر ڈالنے کا کپڑا۔
[24] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زکاۃ الذہب والفضۃ والعروض، الفصل الثاني، ج۱، ص۱۸۰.
[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، في مسائل شتی، ج۱، ص۱۸۱.
[26] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الزکاۃ، في مسائل شتی، ج۱، ص۱۸۱ ۔ ۱۸۲.
[27] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۸۲.
[28] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[29] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۸۰، ''الدرالمختار''، کتاب الزکاۃ، باب العاشر، ج۳، ص۲۰۴.
Comments