غصّہ
شیطان کے تین جال
حضرتِ سیِّدُنا فقیہابواللَّیث سمرقندی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہ تَنبیہُ الغافِلین میں نقل کرتے ہیں: حضرت ِ سیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہرضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کے ایک بُزُرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک پتّھر کی ایک چٹان اوپر کی جانب سے سرکے قریب آپہنچی ،اُنہوں نے ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ شروع کردیا تووہ دور ہٹ گئی۔ پھرخوفناک شَیر اور درِندے ظاہِر ہونے لگے مگر وہ بُزُرگ نہ گھبرائے اور ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ میں لگے رہے۔ جب وہ بُزُرگ نَماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا ،یہاں تک کہ سارے بدن پر پھرتاہوا سر تک پہنچ گیا،وہ بُزُرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتےوہ چہرے سے لپٹ جاتا، سجدے کیلئے سرجُھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سَجدہ پر منہ کھول دیتا۔مگر وہ بُزُرگ اسے ہٹا کرسَجدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ۔ جب نَماز سے فارِغ ہوئے توشیطان کُھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا:یہ سار ی حَرَکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں، آپ بَہُت ہمت والے ہیں، میں آپ سے بَہُت مُتأَثِّر ہواہوں،لہٰذااب میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا،مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کرلیجئے۔ اُس اسرائیلی بُزُرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا: تونے مجھے ڈرانے کی کوشِش کی لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں ڈرا نہیں ، میں تجھ سے ہر گز دوستی نہیں کروں گا۔بولا: اچّھا ،اپنے اَہل وعِیال کا اَحوال مجھ سے دریافت کرلیجئے کہ آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا:مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضَرورت نہیں۔ شیطان نے کہا:پھر یِہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایا : ہاں یہ بتادے ۔ بولا، میرے تین جال ہیں: (۱)بُخل (۲)غُصّہ(۳) نَشہ۔ اپنے تینوں جالوں کی وَضاحت کرتے ہوئے بولا، جب کسی پر ’’بُخْل ‘‘ کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے اُس کا یہ ذِہن بناتا رَہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بَہُت قلیل ہے(اس طرح وہ بُخل میں مبتلا ہو کر)حُقُوقِ واجِبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رَہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہوجاتاہے ۔ (اور یوں مال کے جال میں پھنس کرنیکیوں سے دُور ہوکر گناہوں کے دلدل میں اترجاتا ہے) جب کسی پر غُصّہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں، میں اس غُصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔غُصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو،خواہ اپنی دعاؤں سے مُرد ے تک زندہ کرسکتا ہو ،میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غُصّہ میں بے قابو ہوکر کوئی ایساجُملہ بک دے گا جس سے اس کی آخِرت تبا ہ ہوجائے گی۔رہا ’’نَشہ ‘‘تو میرے اس جال کا شکاریعنی شرابی اس کو تومیں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا ہوں۔ اِس طرح شیطان نے یہ بتادیا، کہ جو شخص غُصّہکرتا ہے وہ شیطان کے ہاتھ میں ایسا ہے، جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند۔ اس لیے غُصّہ کرنے والے کو صَبْر کرنا چاہیے ، تاکہ شیطان کا قیدی نہ بنے کہ کہیں عمل ہی ضائع نہ کر بیٹھے ۔(تنبیہ الغافلین ص۱۱۰پشاور)
اکثر لوگ غُصّہ کے سبب جہنَّم میں جائیں گے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس بُزُرگ کی گفتگو میں شیطان نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ غُصیلا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند۔ لہٰذا غُصّہ کاعلاج کرناضَروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غُصّہ کے سبب شیطان سارے اعمال برباد کروا ڈالے۔کیمیائے سعادتمیں حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’غُصّہ کا علاج اور اس باب میں محنت و مشقت برداشت کرنا فرض ہے ،کیونکہ اکثر لوگ غُصّے ہی کے باعث جہنَّم میں جائیں گے۔‘‘(کیمیائے سعادت ج ۲ ص ۶۰۱ انتشارات گنجینہ تہران)سیِّدُنا حسن بصریرَحْمَۃُ اﷲِتَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، اے آدمی! غُصّہمیں تو خوب اُچھلتا ہے،کہیں اب کی اُچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے۔(احیاء العلوم ج۳ص۲۰۵دارصادربیروت)
غُصّے کی تعریف
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: غَضَب یعنی غُصّہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر اُبھارے۔(مرأۃ المناجیح ج۶ ص۶۵۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
غُصّے سے جَنَم لینے والی16 بُرائیوں کی نشاندہی
غُصّہ کے سبب بَہُت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں جو آخِرت کیلئے تباہ کُن ہیں مَثَلًا :{۱}حسد {۲} غیبت {۳}چغلی {۴}کینہ {۵}قَطع تعلُّق {۶} جھوٹ{۷}آبروریزی {۸}دوسرے کوحقیر جاننا{۹} گالی گلوچ {۱۰} تکبُّر{۱۱}بے جا مار دھاڑ {۱۲} تَمسخُر(یعنی مذاق اُڑانا) {۱۳} قَطعِ رِحمی {۱۴}بے مُرُوَّتی{۱۵} شُماتَت یعنی کسی کے نقصان پر راضی ہونا {۱۶} اِحسان فراموشی وغیرہ۔ واقِعی جس پرغُصّہ آجاتا ہے ،اُس کا اگر نقصان ہوجائے تو غُصّہ ہونے والا خوشی محسوس کرتاہے ،اگر اُس پرکوئی مصیبت آتی ہے تو یہ راضی ہوتا ہے،اس کے سارے اِحسانات بھول جاتاہے اور ا س سے تعلُّقات ختم کردیتاہے۔ بعضوں کا غُصّہ دل میں چُھپا رَہتا ہے اور برسوں تک نہیں جاتااسی غُصّہکی وجہ سے وہ شادی غمی کے مواقِع پر شرکت نہیں کرتا۔بعض لوگ اگر بظاہر نیک بھی ہوتے ہیں پھر بھی جس پرغُصّہ دل میں چُھپا کر رکھتے ہیں،اس کا اظہار یوں ہوجاتاہے کہ اگر پہلے اس پر اِحسان کرتے تھے تو اب نہیں کرتے ، اب اُس کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش نہیں آتے، نہ ہمدردی کامُظاہَرہ کرتے ہیں،اگر اس نے کوئی اجتِماعِ ذکرونعت وغیرہ کا اِہتِمام کیاتو مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ محض نفس کیلئے ہونے والی ناراضگی اورغُصّہ کی وجہ سے اس میں شرکت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں ۔ بعض رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ آدَمی لاکھ حُسنِ سُلوک کرے مگر وہ راہ پر آتے ہی نہیں ،مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔’’جامِعِ صغیر ‘‘میں ہے: صِلْ مَنْ قَطَعَکَ یعنی ’’جو تجھ سے رِشتہ کاٹے تو اس سے جوڑ۔‘‘(الجامع الصغیرللسیوطی ص۳۰۹حدیث ۵۰۰۴)
مولیٰنارُومی فرماتے ہیں ؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
(یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا۔ )
غُصّے کا عَمَلی علاج
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!غصے کا عملی علاج اس طرح ہوسکتا ہے کہغُصّہپی جانے اور درگزر سے کام لینے کے فضائل سے آ گاہی حاصل کرے ، جب کبھیغُصّہ آئے ان فضائل پر غور وفکر کرکے غُصّے کو پینے کی کوشش کرے۔ بخاری شریفمیں ہے ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیں عرض کی ، یارسولَ اﷲ! عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے وصیّت فرمائیے۔ ارشاد فرمایا:’’غُصّہ مت کرو۔‘‘ اس نے باربار یِہی سُوال کیا ۔ جواب یِہی ملا: ’’غُصّہ مت کرو۔‘‘(صحیح البخاری ج۴ص۱۳۱ حدیث ۶۱۱۶)
جنت کی بشارت
حضر ت ِسیِّدُناابو الدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکہتے ہیں، کہ میں نے عرض کی ،یارسول اللہ! عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنَّت میں داخِل کر دے؟ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّـۃُ ‘‘ یعنی غُصّہ نہ کرو، تو تمہارے لئے جنَّت ہے۔(مجمع الزوائد،ج۸،ص۱۳۴حدیث ۱۲۹۹۰ دارالفکر بیروت)
طاقتور کون؟
بخاری میں ہے:’’طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جوغُصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔‘‘(صحیح البخاری ج۴ص۱۳۰ حدیث ۶۱۱۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
غُصّہ پینے کی فضیلت
کَنزُالْعُمّالمیں ہے:سرکارِ مدینۂ منوَّرہ،، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے: جوغُصّہ پی جائے گاحالانکہ وہ نافِذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمادیگا۔(کنزالعُمّال ج۳ص۱۶۳حدیث۷۱۶۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
غُصّے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہغُصّہ لانے والی باتوں کے موقع پر بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کے طرز ِعمل اور ان کی حِکایات کو ذِہن میں دوہرائے :
سات ایمان افرو ز حکایات
حکایت ۱:کیمیا ئے سعادتمیں حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نقل فرماتے ہیں:کسی شخص نے حضرتِ اَمِیْرُالْمُؤمِنِیْنسیِّدُنا عمربن عبدالعزیز رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے سخت کلامی کی۔ آپ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہنے سرجھکا لیا اور فرمایا:’’کیاتم یہ چاہتے ہوکہ مجھے غُصّہآجائے اورشیطان مجھے تکبراور حکومت کے غُرور میں مبتَلا کرے اور میں تم کو ظلم کا نشانہ بناؤں اوربَروزِ قِیامت تم مجھ سے اِس کا بدلہ لو مجھ سے یہ ہر گز نہیں ہوگا‘‘ ۔یہ فرما کر خاموش ہوگئے ۔(کیمیائے سعادت ج۲ص۵۹۷انتشا رات گنجینہ تہران)
حکایت۲: کسی شخص نے حضرت ِ سیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ کو گالی دی۔ اُنہوں نے فرمایا: ’’اگر بروزِقِیامت میرے گناہو ں کاپَلّہ بھاری ہے تو جو کچھ تم نے کہا میں اُس سے بھی بدتر ہوں اور اگر میرا وہ پَلّہ ہلکا ہے تو مجھے تمہاری گالی کی کوئی پرواہ نہیں ۔‘‘ (اتحاف السادۃ المتقین ج۹ص۴۱۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حکایت۳:کسی نے حضرت ِسیِّدُنا شیخ رَبیع بنخُثَیْم(خُ۔ثَیْم) رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ کو گالی دی ۔آ پ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:’’اللہ تعالٰی نے تیرے کلام کو سُن لیا ہےمیرے اور جنَّت کے درمِیان ایک گھاٹی حائل ہے میں اُسے طے کرنے میں مصروف ہوں اگر طے کرنے میں کامیاب ہوگیا تو مجھے تمہاری گالی کی کیا پرواہ ! اور اگر میں اسے طے کرنے میں ناکام رہا تو تمہاری گالی میرے لئے ناکافی ہے۔‘‘(ایضاً)
حکایت۴: امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیقرَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ کو کسی نے گا لی دی ، ارشاد فرمایا:’’میرے تو اس طرح کے اور بھی عُیُوب ہیں۔جواللہ تعالٰی نے تجھ سے پوشیدہ رکھے ہیں۔(احیاء العلوم ج۳ص۲۱۲دارصادربیروت)
حکایت۵:کسی شخص نے سیِّدُنا شَعبیرَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو گالی دی آپ نے فرمایا :اگرتُوسچ کہتاہے تو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ میری مغفِرت فرمائے اور اگرتُو جھوٹ کہتا ہے تو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ تیری مغفِرت فرمائے ۔‘‘(احیاء العلوم ج۳ ص ۲۱۲ دارصادر بیروت )
حکایت۶:حضرتِ سیِّدُنافُضیل بن عیاض رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہکی خدمت میں عرض کی گئی،حُضور!فُلاں آپ کوبُرا بھلا کہہ رہا تھا۔ فرمایا: خدا کی قسم ! میں تو شیطان کو ناراض ہی کروں گا،پھر دُعاء مانگی،یا اللّٰہ عَزَّوَجَلّ ! اس شخص نے میری جو جو بُرائیاں بیان کیں اگروہ مجھ میں ہیں تو مجھے مُعاف فرمادے اور میری اِصلاح فرما ۔ اور اگر اِس نے مجھ پر جھوٹے الزامات رکھے ہیں تو اس کومُعافی سے نوازدے۔
حکایت۷:ایک شخص سیِّدُنابکر بن عبدا ﷲ مُزنی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو سرِ عام بُرا بھلا کہے جارہا تھا مگر آپ رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خاموش تھے۔کسی نے عرض کی، آپ جوابی کاروائی کیوں نہیں فرماتے ؟ فرمایا:’’میں اس کی کسی بُرائی سے واقِف ہی نہیں جس کے سبب اسے بُرا کہہ سکوں ،بُہتان باندھ کرسخت گنہگار کیوں بنوں!‘‘ سبحٰن اﷲ! عَزَّوَجَلَّ یہ حضراتِ قُدسِیَّہ کتنے بھلے انسان ہوا کرتے تھے اورکس اَحسَن انداز میں غصے کا علاج فرمالیا کرتے تھے۔انہیں اچّھی طرح معلوم تھا کہ اپنے نفس کے واسطے غُصّہکرکے مدِّمُقابِل پر چڑھا ئی کرنے میں بھلائی نہیں ہے ۔
سن لو نقصان ہی ہوتا ہے بِالآخِر ان کو
نفس کے واسِطے غُصّہ جو کیا کرتے ہیں
کسی پر غُصّہ آئے تو یوں علاج کریں
غُصّے کی تباہ کاریوں کو بھی پیش نظر رکھئے کیونکہغُصّہ ہی اکثر دَنگافَساد، دوبھائیوں میں اِفتِراق، میاں بیوی میں طَلَاق، آپس میں مُنافَرت اورقتل و غارت کا مُوجِب ہوتا ہے۔جب کسی پر غُصّہ آئے اور ماردھاڑ اور توڑ تاڑ کر ڈالنے کو جی چاہے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیے: مجھے دوسروں پر اگر کچھ قدرت حاصل بھی ہے تو اس سے بے حد زیادہ اللّٰہ عَزَّوَجَل مجھ پر قادِر ہے اگر میں نے غُصّے میں کسی کی دل آزاری یا حق تلفی کر ڈالی توقِیامت کے روز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے غَضَب سے میں کس طرح محفوظ رہ سکوں گا؟
غلام نے دیر کر دی
شہنشاہِ خیرالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضِر ہوا توحُضُورِ انور، مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ منوّر میں مِسواک تھی فرمایا:’’اگر قِیامت میں انتِقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اِس مِسواک سے مارتا۔‘‘( مُسنَدِ ابو یَعلٰی ج۶ ص۹۰ حدیث ۶۸۹۲دار الکتب العلمیۃ بیروت) دیکھا آپ نے! ہمارے میٹھے میٹھے آقا، شہنشاہِ خیرالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکبھی بھی اپنے نَفس کی خاطِر انتِقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا مسلمان ہے کہ اگر نوکر کسی کام میں کوتاہی کردے تو گالیوں کی بُوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ پر اُتَر آتا ہے ۔
پٹائی کا کَفّارہ
مسلم شریف میں ہے ، حضرتِ سیِّدُنا ابو مسعود انصا ری رَضِیَ اﷲُتَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :میں اپنے غلام کی پِٹائی کر رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ،’ ’ اے ابو مسعود! تمہیں علم ہونا چاہیے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہواللّٰہ عَزَّوَجَلاس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھاتو وہ رسولُ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے۔ میں نے عرض کی:یارسولَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ھُوَ حُرٌّ لِوَجْہِ اللّٰہِ یعنی یہ اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:اگر تم یہ نہ کرتے توتمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ چھوتی۔(صحیح مسلم ص۹۰۵ حدیث ۳۵ ۔۱۶۵۸ دار ابن حزم بیروت)
درگزر ہی میں عافیَّت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے دیکھا! ہمارے صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اﷲ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کس قَدَر پیار کرتے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو مسعود انصاری رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہنے جُوں ہی اپنے پیارے پیارے آقا محبوبِ باری عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی محسوس کی فوراً نہ صرف غلام کی پٹائی سے اپنا ہاتھ روک لیا بلکہ اپنے اس قُصورکا اعتراف کرتے ہوئے اسکے کَفّارے میں غلام کو آزاد کردیا۔آہ! آج لوگ اپنے زیر دستوں کو بِلاضَرورتِ شرعی جھاڑتے، لَتاڑتے، اُن پر دَہاڑتے چِنگھاڑتے وقت اس بات کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَل جو ہم سے زبردست ہے وہ ہمارے ظلم وعُدوان کو دیکھ رہا ہے ۔یقینا اپنے ماتَحتوں کے ساتھ نرمی وحُسن سُلوک ، اور عَفوو درگزر سے کام لینے ہی میں عافیّت ہے۔چُنانچِہ
نمک زیادہ ڈالدیا
کہتے ہیں ،ایک آدَمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈالدیا۔ اسے غُصّہ تو بَہُت آیا مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غُصّے کو پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رَہتا ہوں اگر آج میں نے بیوی کی خطا پر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسا نہ ہوکہ کل بروزِقِیامت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے ۔چُنانچِہ اُس نے دل ہی دل میں اپنی زَوجہ کی خطا مُعاف کردی۔ اِنتِقال کے بعد اس کوکسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ اُس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والاتھا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اُس کی خطا مُعاف کردی تھی ،جاؤ میں بھی اُس کے صلے میں تم کوآج مُعاف کرتا ہوں۔
غُصّہ روکنے کی فضیلت
حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قِیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔(شعب الایمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱)
جوابی کاروائی پر شیطان کی آمد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب کوئی ہم سے اُلجھے یابُرا بھلا کہے اُس وَقت خاموشی میں ہی ہمارے لئے عافیّت ہے اگر چِہ شیطان لاکھ وَسوَسے ڈالے کہ تو بھی اس کو جواب دے ورنہ لوگ تجھے بُزدل کہیں گے،میاں ! شَرافت کا زمانہ نہیں ہے اِس طرح تو لوگ تجھ کو جینے بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایک حدیث مبارکہ بیان کرتا ہوں اس کو غور سے سَماعت فرمائیے ، سن کر آپ کو اندازہ ہوگاکہ دوسرے کے بُرا بھلا کہتے وَقت خاموش رہنےوالارحمتِ الہی عزوجل کے کس قَدَر نزدیک تر ہوتا ہے۔چُنانچِہ مُسنَد امام احمدمیں ہے، کسی شخص نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی موجودَگی میں حضرت ِسیِّدُنا ابوبکر صدّیق رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ کو بُرا کہا تو جب اُس نے بَہُت زِیادتی کی۔ توانہوں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا (حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی معصیَّت سے پاک تھی مگر ) سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہاں سے اُٹھ گئے۔سیِّدُنا ابوبکر صدّیق رَضِیَ اﷲُتَعَالٰی عَنْہ حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پیچھے پہنچے، عرض کی، یارسولَ اﷲ! (عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) وہ مجھے بُرا کہتا رہا آپ تشریف فرما رہے ،جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے، فرمایا: ’’تیرے ساتھ فرشتہ تھا ،جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تونے خود اُسے جواب دینا شروع کیا، تو شیطان درمیان میں آکودا۔‘‘(مسند امام احمد بن حنبل ج۳ ص۴۳۴حدیث ۹۶۳۰)
جو چُپ رہا اُس نے نجات پائی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو بول کر بارہاپچھتانا پڑا ہوگا مگرخاموش رَہ کر کبھی نَدامت نہیں اُٹھائی ہوگی ۔ تِرمِذی شریف میں ہے ،مَنْ صَمَتَ نَجَایعنی جوچُپ رہا اُس نے نَجات پائی۔‘‘(سنن الترمذی ج۴ ص۲۲۵ حدیث ۲۵۰۹ دار الفکر یروت)اور یہ محاورہ بھی خوب ہے،’’ ایک چُپ سو کوہَرائے ۔‘‘
کر بھلا ہو بھلا
حضرت ِسیِّدُناشیخ سعدی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہ بوستانِ سَعدیمیں نَقل کرتے ہیں: ایک نیک سیرت شخص اپنے ذاتی دشمنوں کا ذِکر بھی بُرائی سے نہ کرتا تھا۔جب بھی کسی کی بات چِھڑتی، اُس کی زَبان سے نیک کلمہ ہی نکلتا ۔ اُس کے مرنے کے بعد کسی نے اُسے خواب میں دیکھا تو سُوال کیا:مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟ یعنی اﷲ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیامُعامَلہ فرمایا؟ یہ سُوال سُن کر اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اور وہ بُلبل کی طرح شِیریں آواز میں بولا: ’’دنیا میں میری یِہی کوشِش ہوتی تھی کہ میری زَبان سے کسی کے بارے میں کوئی بُری بات نہ نکلے،نکیرَین نے بھی مُجھ سے کوئی سخت سُوال نہ کیااور یوں میرا مُعامَلہ بَہُت اچّھا رہا۔‘‘(بوستان سعدی ص ۱۴۴ باب المدینہ کراچی)
نرمی زینت بخشتی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے مُلاحَظہ فرمایا، نرمی اورعَفو ودرگزر کرنے سے اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی کس قَدَررَحمت ہوتی ہے ۔ کاش !ہم بھی اپنی بے عزّتی کرنے والوں یا ستانے والوں کو مُعاف کرنااِختیار کریں ۔ مسلم شریفمیں ہے :جس چیز میںنَرمی ہوتی ہے اُسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے جُدا کرلی جاتی ہے اُسے عیب دار بنادیتی ہے ۔(صحیح مسلم ص ۱۳۹۸ حدیث ۲۵۹۴ دار ابن حزم بیروت)
پیشگی مُعاف کرنے کی فضیلت
اِحیاءالعُلُوممیں ہے: ایک شخص دُعا مانگ رہاتھا ، ’’یااللّٰہ عَزَّوَجَل! میرے پاس صَدَقہ وخیرات کیلئے کوئی مال نہیں بس یِہی کہ جو مسلمان میری بے عزّتی کرے میں نے اُسے مُعاف کیا۔‘‘ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر وَحی آئی ،’’ہم نے اِس بندے کو بخش دیا ۔‘‘(احیاء العلوم ج۳ ص۲۱۹ دارصادر بیروت)
غُصّہ پینے والے کیلئے جنتی حُور
ابو داوٗدکی حدیث میں ہے:جس نے غُصّے کو ضبط کرلیا حالانکہ وہ اسے نافذکرنے پر قادر تھا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بروزِقِیامت اُس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گااور اِختیار دے گا کہ جس حُور کو چاہے لے لے۔(سنن ابی داوٗد ج۴ ص۳۲۵ ،۳۲۶حدیث ۴۷۷۷ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حساب میں آسانی کے تین اسباب
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اﷲتعالٰی (قِیامت کے دن ) اُس کا حساب بَہُت آسان طریقے سے لے گا اور اُس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔ (۱) جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو (۲) اور جو تم سے قَطع تَعلُّق کرے تم اُس سے ملاپ کرو (۳ ) اور جو تم پر ظلم کرے تم اُس کو مُعاف کردو۔ (المعجم الاوسط ج۴ ص۱۸ حدیث ۵۰۶۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
گالیوں بھرے خطوط پر اعلٰی حضرت کا صَبر
کاش!ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطِرغُصّہ کر نا ہی چھوڑ دیں ۔جیسا کہ ہمارے بُزُرگوں کا جذبہ ہوتاتھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اُس ظالم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے۔ چُنانچِہ حیات اعلیٰ حضرت میں ہے ، اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت مولیٰنا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خُطوط مُغَلَّظات( یعنی گالیوں ) سے بھرپور تھے۔مُعتقِدین بَرہَم ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خِلاف مُقَدّمہ دائر کریں گے۔ امام اہلسنَّت مولیٰنا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ارشاد فرمایا:’’جو لوگ تعریفی خُطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیریں تقسیم کردو ،پھر گالیاں لکھنے والوں پرمُقَدّمہ دائر کردو۔‘‘(حیات اعلٰی حضرت ج۱ ص۱۴۳،۱۴۴ ملخصاً مکتبۃ نبویۃ مرکزالاولیاء، لاہور)مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں؟
مالک بن دینار کے صَبْر کے انوار
ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن ظلمِ ظالمین اورسِتمِ کا فِرین پر صَبْر فرماتے اور کس طرح غُصّے کو بھگاتے تھے اسے اس حکایت سے سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْغَفَّار نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اُس مکان کے بالکل مُتَّصِل ایک یہودی کا مکان تھا۔وہ یہودی بُغض وعِناد کی بنیاد پرپرنالے کے ذَرِیعے گندا پانی او رغَلاظت آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے کاشانۂ عظمت میں ڈالتا رہتا ۔ مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خاموش ہی رَہتے۔ آخرِکا ر ایک دن اُس نے خود ہی آکر عَرض کی ،جناب !میرے پرنالے سے گزرنے والی نَجاست کی وجہ سے آپ کوکوئی شکایت تو نہیں ؟ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے نہا یت ہی نرمی کے ساتھ فرمایا ، ’’ پر نالے سے جو گندَگی گر تی ہے اُس کو جھاڑودے کر دھوڈالتا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا ، آپ کو اتنی تکلیف ہونے کے با وُجُود غُصّہ نہیں آتا؟ فرمایاآتا تو ہے مگر پی جاتا ہوں کیونکہ :( پارہ4 سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر 134 میں) خدائے رَحْمٰن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ مَحَبَّت نشان ہے : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ۴،اٰلِ عمران:۱۳۴) ترجَمۂ کنزالایمان : اور غصّہ پینے والے او رلوگو ں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کے محبوب ہیں ۔ جواب سن کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔( تذکِرۃُ الاولیاء ص۵۱)
نگاہِ ولی میں وہ تا ثیر دیکھی
بدلتی ہزارو ں کی تقدیر دیکھی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! نرمی کی کیسی بَرَکتیں ہیں ! نرمی سے مُتَأَ ثِّر ہوکر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔
نیک بندے چیونٹیوں کو بھی اِیذا نہیں دیتے
اللہ کے نیک بندے کی ایک علامت یہ بھی کہ وہ غُصّے میں آ کر مسلمانوں کو تو کیا تکلیف دیگا چیونٹیوں تک کو اِیذا دینے سے گُریز کرتا ہے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا خواجہ حسن بصریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍۙ(۲۲)(ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک نکوکار ضرور چین میں ہیں(پ۳۰،المطففین۲۲)کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اَلَّذِیْنَ لَایُؤْذُوْنَ الذَّرّ یعنی نیک بندے وہ ہیں جو چیونٹیوں کو بھی اَذِیَّت نہ دیں۔(تفسیر حسن بصری ج۵ ص۲۶۴ باب المدینہ کراچی)
کیا غُصّہ حرام ہے؟
عوام میں یہ غَلَط مشہور ہے کہ’’غُصّہ حرام ہے ‘‘غُصّہ ایک غیر اختیاری اَمر ہے، انسان کو آہی جاتا ہے، اِس میں اس کاقُصُور نہیں، ہاںغُصّہ کا بے جا استِعمال بُراہے ۔ بعض صُورَتوں میںغُصّہ ضَروری بھی ہے مَثَلًا جِہاد کے وَقت اگرغُصّہ نہیں آئے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنوں سے کس طرح لڑیں گے ! بَہَر حالغُصّے کا ’’اِزالہ‘‘(یعنی اس کا نہ آنا)ممکن نہیں ’’اِمالہ‘‘ہونا چاہئے یعنی غُصّہ کا رُخ دوسری طرف پھر جانا چاہئے ۔مَثَلاً کوئی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہونے سے پہلے بُری صحبت میں تھا،غُصّہ کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی نے ہاں کا نا کہہ دیا تو آپے سے باہَر ہوگیااور گالیوں کی بُوچھاڑ کردی،کسی نے بدتمیزی کردی تو اُٹھا کر تھپڑ جَڑدیا۔مطلب کوئی بھی کام خِلافِ مزاج ہوا،غُصّہ آیا تو صَبْر کرنے کے بجائے نافِذ کردیا۔جب اسے خوش قسمتی سے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول مُیَسَّر آ گیا اور دعوتِ اسلامی کے سنّتوں کی تربیَّت کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کی بَرَکتیں ظاہِر ہونے لگیں اور غُصّہ کا ’’اِمالہ‘‘ہوگیایعنی رُخ بدل گیایعنی اب بھی غُصّہتو باقی ہے مگر اس کا رخ یوں تبدیل ہوا کہ اِسے اﷲ ورسول اور صحابہ واولیاء عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمو عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دشمنوں سے بُغض ہوگیامگرخود اس کی اپنی ذات کو کوئی کتنا ہی بُرا بھلا کہے، غُصّہ دلائے مگر صَبْر کرتاہے ،دوسروں پر بپھرنے کے بجائے خود اپنے نفس پرغُصّہ نافِذ کرتا ہے کہ تجھے گناہ نہیں کرنے دُوں گا۔ اَلغَرَض غُصّہ تو ہے مگر اب اس کا’’ اِمالہ‘‘ ہوگیا،یعنی رُخ بدل گیا جو کہ آخِرت کیلئے انتِہائی مفید ہے۔
دل میں نورِ ایمان پانے کا ایک سبب
حدیثِ پاک میں ہے ،’’جس شخص نے غُصّہ ضَبط کرلیاباوُجُود اِس کے کہ وہغُصّہ نافِذ کرنے پرقُدرت رکھتا ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُس کے دل کوسُکون وایمان سے بھردیگا۔‘‘(الجامع الصغیر للسیوطی ص۵۴۱ حدیث ۸۹۹۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت) یعنی اگر کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچ گئی اور غُصّہ آگیا یہ بدلہ لے سکتا تھامگر محض رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّ کی خاطِر غُصّہ پی گیا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کوسُکونِ قَلب عطا فرمائے گا اور اس کا دل نورِ ایمان سے بھردیگا۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات غُصّہ آنا مفید بھی ہے جبکہ ضبط کرنا نصیب ہوجائے۔
چار یار کی نسبت سے غُصّے کی عادت نکالنے کے لئے 4اَوراد
(1)جس کو غُصّہگناہ کرواتا ہو اُسے چاہئے کہ ہرنَماز کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم21 بارپڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے۔کھانا کھاتے وقت تین تین بار پڑھ کرکھانے اور پانی پر بھی دم کرلے۔
(2) چلتے پھرتے کبھی کبھی یَا اَللّٰہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُکہہ لیا کرے۔
(3)چلتے پھرتے یَا اَرْحَمَ الرّاحِمِیْن پڑھتا رہے۔
(4) پارہ 4 اٰلِ عمران کی134ویں آیت کایہ حصہ ر وزانہ سات با ر پڑھتا رہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ۴،اٰلِ عمران:۱۳۴)
’’اَخْلاقِ رحمت عالَم‘‘ کے تیرہ حُروف
کی نسبت سے غُصّے کے 13علاج
جب غُصّہ آجائے تو ان میں سے کوئی بھی ایک یاضَرور تاً سارے علاج فرمالیجئے :
(1) اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھئے۔
(2) وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھئے۔
(3) چپ ہوجائیے۔
(4) وُضو کرلیجئے ۔
(5) ناک میں پانی چڑھایئے۔
(6) کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے ۔
(7) بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے اور زمین سے چپٹ جائیے۔
(8) اپنے خَد(یعنی گال) کو زمین سے ملا دیجئے(وضو ہو تو سجدہ کر لیجئے) تا کہ اِحساس ہو کہ میں خاک سے بناہوں لہٰذا بندے پر غُصّہ کرنامجھے زَیب نہیں دیتا۔(احیاء العلوم ج ۳ ص۳۸۸،۳۸۹)
(9) جس پر غُصّہ آرہا ہے اُس کے سامنے سے ہٹ جایئے۔
(10) سوچئے کہ اگر میں غُصّہ کروں گا تو دوسرا بھی غُصّہ کریگا اور بدلہ لے گااور مجھے دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے ۔
(11) اگر کسی کو غُصّے میں جھاڑ وغیرہ دیا تو خُصُوصیَّت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُس سے مُعافی مانگئے،اِس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غُصّہ نافِذ کرتے وقت اپنی ذِلّت یاد آئیگی اور ہوسکتا ہے یوں کرنے سے غُصّے سے خَلاصی مل جائے ۔
(12) یہ غور کیجئے کہ آج بندے کی خطا پر مجھے غُصّہ چڑھا ہے اور میں درگزر کرنے کیلئے تیّار نہیں حالانکہ میری بے شمار خطائیں ہیں اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ غضبناک ہوگیا اور اُس نے مجھے مُعافی نہ دی تو میرا کیا بنے گا !
(13) کوئی اگر زیادتی کرے یا خطا کر بیٹھے اور اس پر نفس کی خاطِر غصّہ آ جائے اُس کو معاف کر دینا کارِثواب ہے۔ تو غُصّہ آنے پر ذہن بنائے کہ کیوںنہ میں معاف کر کے ثواب کا حقدار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ ’’ قِیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اَجر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے؟ وہ کہے گا: ’’ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔‘‘تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطَّبَرَانِیّ ج۱ ص۵۴۲ حدیث ۱۹۹۸، دارالفکر بیروت)(ماخوذ از رسالہ: غصے کا علاج)
Comments