حج فوت ہونے کا بیان
(مسائل فقہیہ)
مسئلہ ۱: جس کا حج فوت ہوگیا یعنی وقوفِ عرفہ اسے نہ ملا تو طواف و سعی کر کے سر مونڈا کر یا بال کتروا کر احرام سے باہر ہو جائے اور سال آئندہ حج کرے اور اُس پر دَم واجب نہیں۔ [1] (جوہرہ)
مسئلہ ۲: قارن کا حج فوت ہوگیا تو عمرہ کے لیے سعی و طواف کرے پھر ایک اور طواف و سعی کرکے حلق کرے اور دَم قِران جاتا رہا اور پچھلا طواف جسے کر کے احرام سے باہر ہو گا اُسے شروع کرتے ہی لبیک موقوف کردے اور سال آئندہ حج کی قضا کرے، عمرہ کی قضا نہیں کیونکہ عمرہ کرچکا۔[2](منسک، عالمگیری)
مسئلہ ۳: تَمتّع والا قربانی کا جانور لایا تھاا ور تمتع باطل ہوگیا تو جانور کو جو چاہے کرے۔ [3] (عالمگیری)
مسئلہ ۴: عمرہ فوت نہیں ہو سکتا کہ اس کا وقت عمر بھر ہے اور جس کا حج فوت ہوگیااس پر طوافِ صدر نہیں۔ [4] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۵: جس کا حج فوت ہوا اس نے طواف و سعی کرکے احرام نہ کھولا اور اسی احرام سے سال آئندہ حج کیا تو یہ حج صحیح نہ ہوا۔[5](منسک) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۹۹)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''،کتاب الحج، باب الفوات ،ص۲۳۲.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثالث عشر في فوات الحج، ج۱، ۲۵۶. و''لباب المناسک''، (باب الفوات)، ص۴۳۰.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثالث عشر في فوات الحج، ج۱، ۲۵۶.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الثالث عشر في فوات الحج، ج۱، ۲۵۶.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الفوات)، ص۴۳۱.
Comments